راہ عزیمت کا ایک اور مسافر

ساجد

محفلین
یہی بات میں نے کہی قیصرانی بھاٰئ۔۔۔ویسے تو میں پاکستان میں نہں پڑھی میرے کزن کا کہنا ہے جو کے پنجاب یو نیورسٹی میں پڑھتے تھے کی جعمیت علماء پاکستان ایک دہشت گرد تنظیم ھے۔۔۔۔اور اب تک انہوں نے بہت دہشت پھیلائ ھوئ ھے وہاں،،،،،،،،
زینب ،
جمعیت علمائے پاکستان؟؟؟؟​
 

ساجد

محفلین
چچ چچ
آپکو کتنا افسوس ہے اس ظلم کا
پاک فوج بھی اپنے مردہ جوانوں کے تابوتوں پر پاکستان کا جھنڈا لگاتی ہے۔ کتنا ظلم ہے یہ
محترم خاور صاحب
بات تابوت پر جھنڈے گاڑنے کی یا اس پر افسوس کی نہیں بلکہ اس طرزِ عمل کی ہے جو سیاسی جماعتیں تعلیمی اداروں میں اپناتی ہیں۔ ویسے ( سیاسی شہیدوں) کے تابوتوں پر جھنڈے گاڑنے کی روایت کو احسن نہیں کہا جا سکتا خواہ وہ ( شہید) کسی بھی پارٹی کا کیوں نہ ہو۔ یہ حق ایک منظم ریاست میں صرف اس کی مسلح افواج کے شہداء اور ان شخصیات کے لئیے مخصوص ہوتا ہے جو وطن کی خدمت کے دوران وفات پا جاتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
جمیعت کی پاکدامنی کی داستانیں کچھ عجیب سی لگتی ہیں۔ کراچی میں اسے موقع ملنے کی دیر ہے، یہ اے پی ایم ایس او سے کم ثابت نہیں ہوگی۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں کا تاریک دور اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب مودودی صاحب نے جمیعت کی بندوق برداری کی منظوری دی تھی۔ اب اس کی غنڈہ گردی کو کبھی نظریات کی جنگ کہا جاتا ہے اور کبھی اسے اسلامی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔
نبیل صاحب! "موقع ملنے کی دیر ہے" سے کیا مراد ہے؟
"اے پی ایم ایس او" اور "جمعیت" کے درمیان غنڈہ گردی کے مقابلے جامعہ کراچی کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اور جب جب کراچی یونیورسٹی کا نام لیا جائے گا ان دونوں تنظیموں کے غنڈوں اور "غنڈیوں" (غنڈے کی مونث نہیں آتی مجھے) کا نام اس ادارہ کی پیشانی پر سیاہ داغ کے طور پر موجود رہے گا۔
 
مولویت کی تعریف کچھ لوگ مانگتے رہے ہیں۔ ایک ایسا سیاسی نظام، جو دینی نظریات اور دین کی کتب کا استعمال کرکے سیاست چمکاتا ہو۔ دونوں‌طرف کے اصحاب اس میں مخالف جماعتوں کے نام شامل کرسکتے ہیں۔

فاروق صاحب بات بہت ہی زیادہ ابہام کی شکار کردی ہے آپ نے ۔

یہاں ایک تنظیم تو دینی جماعت سے تعلق رکھتی ہے مگر دوسری کو کیسے اس خانے میں فٹ کریں گے آپ ، اسی طرح لاہور میں بھی طلبا تنظمیں آپس میں لڑتی رہی ہیں جن میں جمعیت ، ایم ایس ایف ، پی ایس ایف قابل ذکر تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی دینی نظریات اور دین کی کتب کی مخالفت پر نہیں لڑا کرتا تھا بلکہ اپنی اجارہ داری کے لیے لڑتے تھے جس میں دین کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ یونیورسٹی پر اپنی انتظامی گرفت قائم کرنا تھی ۔ اس معاملہ میں مولویت کی تعریف اور اس سیاسی نظام سے ربط ڈھونڈنے میں میں بالکل قاصر ہوں۔
 
فاروق صاحب بات بہت ہی زیادہ ابہام کی شکار کردی ہے آپ نے ۔

یہاں ایک تنظیم تو دینی جماعت سے تعلق رکھتی ہے مگر دوسری کو کیسے اس خانے میں فٹ کریں گے آپ ، اسی طرح لاہور میں بھی طلبا تنظمیں آپس میں لڑتی رہی ہیں جن میں جمعیت ، ایم ایس ایف ، پی ایس ایف قابل ذکر تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی دینی نظریات اور دین کی کتب کی مخالفت پر نہیں لڑا کرتا تھا بلکہ اپنی اجارہ داری کے لیے لڑتے تھے جس میں دین کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ یونیورسٹی پر اپنی انتظامی گرفت قائم کرنا تھی ۔ اس معاملہ میں مولویت کی تعریف اور اس سیاسی نظام سے ربط ڈھونڈنے میں میں بالکل قاصر ہوں۔
ایک جماعت، 'دین کے لئے' قتل کرتی ہے۔ دوسری ' مخالفت ' میں قتل کرتی ہے۔ آپ کو صرف یونیورسٹی کی انتظامی گرفت تک نظر آرہا ہے۔ اس انتظامی گرفت کی 'دینی جماعتوں' کو کیوں ضرورت ہے؟ کیایونیورسٹی کی حد سے ہی دین کے نام پر سیاسی متفق پیدا نہیں کئے جارہے۔ دونوں تنظیموں کی پشت پر کون ہے؟ دینی سیاسی علماء‌ یا صرف علماء ؟ یونیورسٹی کا کوئی ہسٹری، فزکس، کیمسٹری اورحتی کہ اسلامیات کا پروفیسر یہی ترکیب کیوں نہیں آزماتا؟
 
دین کے نام پر قتل میں نے ان یونیورسٹیوں کی پوری تاریخ میں کبھی نہیں سنا نہ پڑھا ، آج پہلی بار آپ کے قلم سے لکھا پڑھ رہا ہوں۔ لڑائی میں صرف جمعیت ہی شامل نہ تھی بلکہ 6،7 تنظمیں شامل رہا کرتی تھیں اور ان کے آپس کے مقابلے بھی ہوتے تھے اور سب کا مقصد یونیورسٹی پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا ہوتا تھا اور ان کی پشت پر دینی سیاسی علما یا علما نہیں بلکہ ہمارے نامور سیاستدان ہوتے تھے اور ہوتے ہیں جن کی دین سے وابستگیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جمعیت نے بھی جو کام کیے وہ دین کا نام لے کر نہیں کیے کیونکہ یہ بالکل صاف اور عیاں تھا کہ یہ کام دین کے نام پر نہیں ہوسکتا اور نہ ہوگا اور اس حقیقت کو سب جانتے تھے۔
ہر سیاسی معاملے کو مولویت سے جوڑنا اور اسے ہی ہر معاملے کی بنیاد قرار دینا خاصہ بڑا سوالیہ نشان لیے ہوئے ہے۔
 
دین کے نام پر قتل میں نے ان یونیورسٹیوں کی پوری تاریخ میں کبھی نہیں سنا نہ پڑھا ، آج پہلی بار آپ کے قلم سے لکھا پڑھ رہا ہوں۔ لڑائی میں صرف جمعیت ہی شامل نہ تھی بلکہ 6،7 تنظمیں شامل رہا کرتی تھیں اور ان کے آپس کے مقابلے بھی ہوتے تھے اور سب کا مقصد یونیورسٹی پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا ہوتا تھا اور ان کی پشت پر دینی سیاسی علما یا علما نہیں بلکہ ہمارے نامور سیاستدان ہوتے تھے اور ہوتے ہیں جن کی دین سے وابستگیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جمعیت نے بھی جو کام کیے وہ دین کا نام لے کر نہیں کیے کیونکہ یہ بالکل صاف اور عیاں تھا کہ یہ کام دین کے نام پر نہیں ہوسکتا اور نہ ہوگا اور اس حقیقت کو سب جانتے تھے۔
ہر سیاسی معاملے کو مولویت سے جوڑنا اور اسے ہی ہر معاملے کی بنیاد قرار دینا خاصہ بڑا سوالیہ نشان لیے ہوئے ہے۔
محب، آپ نے بہت ہی اچھی خبر سنائی کہ اب جمیعت طلباء اسلام کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور جماعت اسلامی نے اپنی سیاست میں دین کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔ اگر یہ اور دیگر ایسی جماعتیں دین کی مدد سے سیاست چلانا بند کرچکی ہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔
مجھے مخالفت برائے مخالفت تو نظر آرہی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ میری مولویت کی تعریف ہے، سیاست دین کی مدد سے۔ آپ کی تعریف کیا ہے؟ میں اب تک آپ کے نکتہ نظر سے محروم ہوں۔ مدد فرمائیے۔
والسلام
 

ملنگ بابا

محفلین
well میرے ذاتی خیال سے ان واقعات سے شہید/جاں بحق ہوتے ہیں جو بہی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا نہ اس پارٹی ا جس سے ان اتعلق ہوتا ہے نہ سی لیڈر کا نہ حکومت کا سب مست رہتے ہیں اپنی اپنی ذندگیوں میں

اصل نقصان ان والدین کا ہو تا ہے جن کے جوان بیٹے ایسے حادثات میں اپنے والدین کا ساتھ چھوڑ جاتےہیں سب 2/4 دن کف اسوس کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ذندگی بھر کا دکھ صرف والدین کو ہوتا ہے اور بہن بھائوں کو جن کے سہارے چھن جاتے ہیں

اللہ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی خیال اور حقیقت میں اکثر فرق ہوتا ھے۔ اورحقیقت یہ ہے کے راہ عزیمت کے مسافر شہید ہوتے ھیں۔ جہاں تک یہاں نامزد شہداء کا تعلق ہے یہ بہترین لوگ ہیں کیوں کہ یہ شہید ہیں اور شہید کبھی نھیں مرا کرتے ۔
اوراسلامی جمیعت طلبہ خالی پاکستان میں ہی بلکہ سری لنکا،بنگلہ دیش، دبئ، برتانیہ اور جاپان و امریکا میں بھی ہے۔ نقصان میرا بھی ہوا ہے

نقصان کی جہاں تک بات ہے تو میں شجاع الرحمان شہید کے محلے میں رہتا ہوں انکے گھر والوں نے شجاع کی شہادت کی خوشی میں مٹھائ باٹی تھی ۔۔۔ انکی والدہ کو دکھ تھا مگر صرف شکرانہ ادا کیا اور ماتم نہیں کیا اور کہا کے آج سے سارے جمعیت کے کارکنان میرے بیتے ہیں پھر جمیعت والوں نے انہیں کالج کے پاس گھر دلایا تاکہ انکے بیٹے ان کی انکھوں کے سامنے رہیں۔۔۔ یاد رہے شجاع ٢١ سال کا تھا۔۔
 

ملنگ بابا

محفلین
well میرے ذاتی خیال سے ان واقعات سے شہید/جاں بحق ہوتے ہیں جو بہی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا نہ اس پارٹی ا جس سے ان اتعلق ہوتا ہے نہ سی لیڈر کا نہ حکومت کا سب مست رہتے ہیں اپنی اپنی ذندگیوں میں

اصل نقصان ان والدین کا ہو تا ہے جن کے جوان بیٹے ایسے حادثات میں اپنے والدین کا ساتھ چھوڑ جاتےہیں سب 2/4 دن کف اسوس کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ذندگی بھر کا دکھ صرف والدین کو ہوتا ہے اور بہن بھائوں کو جن کے سہارے چھن جاتے ہیں

اللہ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین) اور آپ جیسے نظریات رکھنے والوں سے بھی بچائے (آمین)۔۔
 

زیک

مسافر
ملنگ بابا: ان میں سے 3 قتل مارچ 1991 میں ہوئے تھے اور جمیعت کے کچھ لوگوں کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگ جن میں جمیعت کا ناظم بھی تھا مفرور تھے۔
 
محب، آپ نے بہت ہی اچھی خبر سنائی کہ اب جمیعت طلباء اسلام کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور جماعت اسلامی نے اپنی سیاست میں دین کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔ اگر یہ اور دیگر ایسی جماعتیں دین کی مدد سے سیاست چلانا بند کرچکی ہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔
مجھے مخالفت برائے مخالفت تو نظر آرہی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ میری مولویت کی تعریف ہے، سیاست دین کی مدد سے۔ آپ کی تعریف کیا ہے؟ میں اب تک آپ کے نکتہ نظر سے محروم ہوں۔ مدد فرمائیے۔
والسلام

فاروق ، میں نے کئی بار اپنی پوسٹ دوبارہ پڑھی مگر میں یہ ڈھونڈنے سے قاصر رہا کہ کہاں میں نے یہ خبر سنائی ہے کہ جمعیت طلباء اسلام کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور جماعت اسلامی کی سیاست کی بنیاد دین پر نہیں رہی۔ دین کی بنیاد پر سیاست کرنا ایک بہت لمبی بحث ہے جو میں اس دھاگے پر چھیڑنا قطعی مناسب نہیں سمجھتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ سیاست کی بنیاد کیا ہونی چاہیے اس پر بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور یہ کہنا کہ خاص نظریے پر سیاست نہ کی جائے لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنا ہے اگر بالفرض کسی کی سیاست کی بنیاد غلط ہے تو عوام کے ذریعے اسے مسترد کیجیے بجائے خود اس کی سیاست کو ہی ختم کرنا۔
اب تک مختلف جگہ پر آپ تنقید کا سامنا بڑی خندہ پیشانی اور تحمل سے کرتے آئے ہیں مگر لگتا ہے اب ضبط کا یارا نہیں رہا اس لیے آپ نے طنزیہ گفتگو شروع کر دی ہے اور بجائے میری پوسٹ کا جواب دینے کہ خود سوال پوچھنا شروع کر دیے ہیں ، محترم اگر یونہی چلتا رہا تو پھر صرف تشنگی بڑھے گی اور الجھاؤ حاصل کچھ نہ ہوگا۔
میں مولویت کی اصطلاح ہی پسند نہیں کرتا تو اس کی تعریف کیونکر کروں ، یہ اصطلاح ہی مجھے مبنی تعصب نظر آتی ہے اور اس کی تشریحات میں پڑ کر میں بھی جانب دار اور ایک طبقہ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دینے والا نہیں بن سکتا۔
اس موضوع کے حوالے سے میرا سوال وہیں ہے کہ دین کے نام پر یونیورسٹیوں میں کتنے قتل ہوئے ہیں اور اس کی مخالفت میں کتنے ، چند حقائق اور حوالہ جات پیش کر دیں تو سب سے پہلے ماننے والوں میں سے میں ہوں گا۔
 

خاور بلال

محفلین
امام بخاری رح کا مشہور واقعہ ہے۔ آپ کو معلوم ہوا ایک شخص کے پاس حدیث ہے۔ امام اس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ معلوم ہوا وہ جنگل میں ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا وہ شخص اپنے گھوڑے کو گھاس کا لالچ دے کر پاس بلا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں گھاس نہیں تھی “گھاس کا دھوکا“ تھا۔ امام بخاری نے فرمایا جو شخص گھوڑے سے جھوٹ بول رہا ہے اس سے روایت نقل نہیں کی جاسکتی۔ یہ کہا اور اس شخص سے ملے بغیر واپس لوٹ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔صداقت پرکھنے کے معیار ایسے بھی ہوا کرتے تھے۔ آفرین ہے۔

لگائی بجھائی کے معاملے میں بی جمالو کا کردار مشہور ہے۔ لیکن بی جمالو کا کردار اب دقیانوسی معلوم ہوتا ہے۔ آئیے آپ کو نئے دور کی بی جمالو دکھائیں، بھئی قریب کا چشمہ لگا کر ذرا اسی تھریڈ کو غور سے پڑھ لیں، ایک سے زائد بی جمالو اپنے فن کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں گی۔ سنی سنائی باتوں کو مرچ مصالحہ لگا کر سر ہلا ہلا کر بیان کرتے ہوئے اکثر لوگ وجد کی کیفیت میں آگئے ہیں اور بیان کرتے ہوئے ان کی کیفیت ایسی ہورہی ہے جیسے خود انہیں کشف ہوا ہو یا الہام نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔

صداقت زندگی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر محبت کیا ڈھنگ کی نفرت بھی نہیں ہوسکتی۔ امام بخاری کے کاندھوں پر ازلی و ابدی صداقت کو کامل صحت کے ساتھ ریکارڈ کرنے کی ذمہ داری تھی چنانچہ انہیں گھوڑے کے ساتھ کی جانے والی غلط بیانی بھی ہولناک محسوس ہوئی۔ لیکن اب لوگ گھوڑوں سے کیا “طے کرکے“ انسانوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور اس کے باوجود انکی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں مستند سمجھا جائے۔ کچھ لوگوں کی نفسیات اتنی سہمی ہوئی ہوتی ہیں کہ وہ ہر عمل کی مخصوص تعبیر پیدا کرلیتے ہیں اور اچھے خاصے دانت برش کرتے افراد ان کو دانت تیز کرتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ نے بنگالی نیشنل ازم کو مسترد کیا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں پاکستان کے حق میں تقریر کرنے کی پاداش میں عبدالمالک کا پاک لہو گرا۔ جب پاکستان کو تقسیم کرنے کےنعرے لگے تو جمعیت نے نعرہ دیا “پاکستان ہمارے لئے ایک مسجد کی طرح ہے“ ۔ اپنے اس نعرے کی لاج میں، پاکستان زندہ باد کے جرم میں پہلے مکتنی باہنی اور سقوط کے بعد انڈین آرمی نے چن چن کر جمعیت (البدر، الشمس) کے جوانوں کو شہید کیا اور ہزاروں آج بھی محصورین میں شامل ہیں جنہیں نہ پاکستان قبول کرتا ہے نہ بنگلہ دیش۔

آہ یہ ظالم تلخ حقیقت، جتنے بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم
راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

"اسلامی جمعیت طلب پر سب سے بڑا حملہ جنرل ضیاء نے کیا۔ بھٹو صاحب سیکولر تھے، لبرل تھے، وہ جمعیت کا کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن جنرل ضیاءالحق نے پورے ملک باالخصوص پنجاب کی جیلوں کو جمعیت کے کارکنوں سے بھردیا اور جمعیت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی کمر پر کوڑے برستے دیکھے گئے۔ جنرل ضیاء نے طلباء تنظیموں پر پابندی لگائی تھی مگر یہ پابندی کل بھی جمعیت کیلئے تھی اور آج بھی جمعیت کیلئے ہے۔ ایسی قوت جو معاشرے کو نظریاتی بنیادوں پر متحد اور منظم کرنا چاہتی ہو کسی کے لیے کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ شیخ مجیب کی طلباء تنظیم ہوتو اس کے مقابل جمعیت کھڑی نظر آتی ہے۔ جئے سندھ ہے تو اس کے روبرو جمعیت ہے۔ مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہوتو اس کا ہدف جمعیت ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹ، پشتون اسٹوڈنٹ، مسلم کانفرنس، پنجابی اسٹوڈنٹ ہرجگہ حریف قوت جمعیت ہے، اور کیوں نہ ہو، جمعیت کا جرم ہی ایسا ہے۔ اس کا پیغام ہی نظریاتی ہے۔
اطلاع یہ ہے کہ عدلیہ آزاد ہوچکی ہے۔ جمعیت کو چاہئیے کہ وہ طلباء تنظیموں اور طلبہ یونین پر پابندی کو براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج کرے تاکہ ملک کے تعلیمی ادارے ایک بار پھر قومی شعور سے مربوط ہوسکیں۔ یہ صرف جمعیت کی نہیں، پورے معاشرے بلکہ ریاست کی ضرورت ہے۔ طلباء کی سیاست بحال ہوگئی اور اسے ایک بار پھر نظریاتی بنیاد فراہم ہوگئی تو اس کا اثر قومی سیاست پر بھی پڑے گا۔ طلباء تنظیموں کی بحالی کا مقدمہ لاپتا نسلوں اور لاپتا قومی شعور کا مقدمہ ہے۔ سپریم کورٹ لاپتا افراد کو بازیاب کرارہی ہے تو اسے یقینا لاپتا نسلوں اور لاپتا شعور کی بازیابی سے بھی دلچسپی ہوگی۔ طلباء تنظیمیں بحال ہوگئیں اور ان کی جدو جہد نظریاتی بنیادوں پر استوار ہوگئی تو جمعیت کو سانپوں اور سپولیوں سے از خود نجات مل جائے گی۔ یہ جمعیت کے شہداء کو پیش کیا جانے والا سب سے خوبصورت خراج عقیدت ہوگا۔“ (شاہنواز فاروقی)


ہماری قوم اکثر معاملات کافیصلہ اکڑ بکڑ بمبے بو کے ذریعے کرتی ہے اور جس پر انگلی ٹھہر جائے اسی کو موردِ الزام ٹھہرادیتی ہے۔ آخر یہ کیا مسئلہ ہے ؟ جمعیت کی جدو جہد کی ایک تاریخ ہے۔ اس کو نظر انداز کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اسٹوڈنٹس رائٹس کیلئے جمعیت جتنا یا اس سے کم ہی کسی نے کام کیا ہوتو سامنے لایا جائے۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کی مخالفت ہو یا سلیبس سے اسلامی تعلیمات کا نکالا جانا ہر معاملے میں صرف جمعیت ہی صفِ اول میں رہی ہے۔ ایک دور تھا جب تعلیمی اداروں میں یونینزکے انتخابات ہوا کرتے تھے اور ایک ایک تعلیمی ادارے سے جمعیت کا پینل ہی منتخب ہوتا تھا۔ تعلیمی مسابقت پیدا کرنے میں جمعیت کا سب سے بڑا کردار ہے۔ “سرخ ہے سرخ ہے ایشیاء سرخ ہے“ یاد ہے جب تعلیمی اداروں میں لچوں کا ایک ٹولہ اور لفنگوں کی ایک بارات یہ نعرے لگایا کرتی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے جمعیت نے ہر کالج یونی ورسٹی میں “سبز ہے سبز ہے ایشیاء سبز ہے“ کی فکر دیکر تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کی حفاظت کی۔ کیا نظریہ پاکستان سے محبت صرف جمعیت کی ذمہ داری تھی؟ اور باقی سب کو چھوٹ تھی کہ وہ روسی افکار کا پرچار کریں یا نیشنل ازم کو فروغ دیں؟ تعلیمی اداروں میں سندھی، پنجابی، مہاجر، پختون، بنگالی، بلوچ کی تفریق پیدا کرنا کیا پاکستان سے محبت کی علامت تھی؟ وہ قومیں جو نیشنل ازم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرتی تھی وہی جمعیت میں رہتے ہوئے باہم شیرو شکر تھیں یہی ایک بڑی وجہ ہے جمعیت سے جیلسی کی۔

کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اسلام پسند صرف امن کی راگنی گایا کریں، کنول کے پھول لٹایا کریں، بھنگ پی کر مست حال رہیں، اللہ اللہ کریں اور شاد رہیں۔ لیکن الحمداللہ اسلامی جمعیت طلبہ نے ثابت کیا ہے کہ “غیرت بڑی چیز ہے جہانِ تگ و دو میں (اقبال) “۔ اپنے نظریے سے محبت اور اس پر مر مِٹنے کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کا قائد الطاف حیسن ہزار کوشش کے باوجود اپنے عروج کے دور میں بھی کراچی یونی ورسٹی میں قدم نہیں رکھ سکا اور یہ خواہش دل ہی میں لیے مفرور ہوا۔ مہاجر ازم کی بلائیں آج بھی گلی گلی جمعیت کا پیچھا کررہی ہیں۔

برا ہو نیند میں چلنے کی عادت کا۔ یہ اچھوں اچھوں کو نکھٹو بنادیتی ہے۔ ایسے لوگ نیند میں چلتے چلتے اچانک چونک پڑتے ہیں اور اطراف و اکناف پر نظر ڈال کر فیصلہ صادر کردیتے ہیں کہ جو ان کو نظر آیا وہی سچ ہے۔ جمعیت پر دہشت گردی کا الزام بھی ایسا ہی ہے۔ اگر مریخ سے آئی کسی مخلوق کو بتایا جائے کہ جمعیت کے شہداء کی تعداد سینکڑوں ہے اور اسکے مقابل جمعیت پر کلیم claim کیے جانے والے قتل صرف چند ایک ہی ہیں تو وہ بھی درست اندازہ لگالے گی کہ دہشت گرد کون ہے۔ کاش ہمیں خلائی مخلوق سے ہی سبق مل جائے۔ وہ لوگ جو نظریے پر جان لٹانے کی لذت سے ناآشنا ہیں ان کیلئے کتے کی موت مرنے کا راستہ کھلا ہے۔

تجھ کو یقیں نہ آئے گا اے دائمی غلام
میں جا کر مقبروں پر سناؤں اگر کلام
خود موت سے حیات کے چشمے ابل پڑیں
قبروں سے سر کو پیٹ کر مردے نکل پڑیں
میرے رجز سے لرزہ براندام ہے زمیں
افسوس تیرے کان پر جوں رینگتی نہیں
اِن بزدلوں کے حُسن پر شیدا کیا ہے کیوں؟
نامرد قوم میں مجھے پیدا کیا ہے کیوں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر یارانِ سر پل کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے، تو ایک نعرہ تحریر کرتا ہوں جو میری طالب علمی کے زمانے میں "جمیعت" کے بارے میں مشہور تھا۔

مر گیا کھوتا، چُک لو میّت
ہائے جمیعت، ہائے جمیعت
;)


 

خاور بلال

محفلین
حیرت ہے :confused:
کسی کی ہنسی ضبط نہیں ہورہی، کوئی قہقہے لگا رہا ہے، کوئی ہنہنا رہا ہے، درمیان میں ایک مخبوط الحواس لاوارث کھوتے کا ذکر بھی آگیا۔ اللہ کرے زورِ ہنسی اور زیادہ۔ خیر سے ہنسنا زندہ دلی کی علامت ہے۔ اور بلاوجہ ہنسنا (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) کی علامت۔
نوٹ: یہاں بریکٹ میں خالی جگہ اس لیے چھوڑدی کہ حضرات خود ہی اپنی من پسند چیز لکھ لیں۔ ظاہر ہے کسی کو کھوتا پسند ہے تو کسی کو کچھ اور۔

بی جمالو کا کردار تو لگائی بجھائی کے حوالے سے معروف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ نئے کردار کسی سرکس سے برآمد ہوئے ہیں؟ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سرکس میں بھی کسی نفسیاتی اور ذہنی معذوروں کیلئے جگہ نہیں ہوتی۔ یہ نئی مخلوق وہ ہے جنہیں سنجیدہ تحریریں ہنسادیتی ہیں اور مزاحیہ تحریریں رلادیتی ہیں۔ بلاشبہ یہ Normal اہلیت کے بس کا روگ نہیں۔
 

غازی عثمان

محفلین
نہیں بھائی بلال میرے خیال میں یہ دور طالبعلمی کی جمعیت مخالف کا شاخسانہ ہے ۔ غالبا محترم ہر " معرکہ " میں‌ یہی نعرہ لگایا کر تے تھے۔ جس سے سیاسی وابستگی کا اظہار بھی ہوتا تھا اور اخلاقی سطح کا بھی ۔ کچھ لوگ معاشرے ایسے بھی ہونے چاہیے جن کے مزاج نازک پر ڈگری بھی اثر نہ ڈال سکے تاکہ عزم پختہ کی ذندہ مثال لوگوں کے سامنے ہو۔۔
میرے خیال میں منتظمین کو چاہیے کہ اس جرت مندانہ اقدام کے عوض محترم کے اعزازات میں اضافہ کردے کہ مخالفین کے جھرمٹ میں‌ ایسی بہادری دکھانہ ایک بڑا کام ہے۔
 
Top