عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں نامعلوم افراد نے پشتو کے ممتاز اور مقبول صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
یکہ توت پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او زرولی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پشاور کی نواح میں ہزار خوانی کے علاقے میں واقع پشتو کے صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کو جمعرات کی صبح تقریباً پانچ بجے نشانہ بنایا گیا۔
ان کے مطابق دھماکہ خیز مواد مزار کے گرد تعمیر شدہ عمارت کے چاروں ستونوں کے پاس رکھے گئے تھے جسکے پھٹنے سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ان کے بقول انہوں نے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کردی ہے البتہ اس سلسلے میں کسی کو گرفتار اور نہ ہی کسی کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوسکی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ ’تخریب کاروں‘ نے رات کو چوکیدار کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بارودی مواد کو نصب کیا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کی وجہ سے عمارت ایک طرف کو جھک گئی ہے اور بروقت اقدامات نہ کرنے کی صورت میں اسکے گرنے کا خدشہ موجود ہے۔
رحمان ادبی جرگے کے سربراہ یوسف علی دلسوز نے بی بی سی کو بتایا کہ امام مسجد نے انہیں بتایا ہے کہ چند دن قبل نامعلوم افراد نے دھمکی دی تھی کہ وہ رحمان بابا کے مزار کو بہت جلد نشانہ بنائیں گا ۔ ان کے مطابق دھمکی دینے والوں کا کہنا تھا کہ مزار میں منشیات کے عادی افراد آتے ہیں اور یہاں پر تعویز گنڈوں کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رحمان با با کے مزار پر ہر سال موسم بہار کے آمد کے موقع پر ایک دو روزہ عرس کا انعقاد ہوتا ہے جس میں افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے ان کے ہزاروں عقیدت مند شرکت کرنے آ تے ہیں۔ان کے بقول اس بار بھی انہوں نے چار اور پانچ اپریل کو عُرس منانے کا اعلان کیا ہے۔
ان کے مطابق اس موقع پر مشاعرہ ہوتا ہے اور رحمان بابا کی شخصیت اور شاعری پر نامور ادیب مقالے پیش کرتے ہیں اور ساتھ میں قوالی کا پروگرام بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد وہ پروگرام کے انعقاد کا ازسرِ نو جائزہ لیں گے لیکن اس سے قبل حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مزار کی عمارت کی مرمت کے سلسلے میں جلد اقدامات کرے۔
پشتو کے نامور شاعر عبدالرحمان جنہیں عقیدت سے پشتون رحمان با با کے نام سے یاد کرتے ہیں پشتونوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے صوفی شاعر ہیں۔ رحمان با با سنہ سولہ پچاس میں پیدا ہوئے تھے اور سترہ سو پندرہ میں وفات پاگئے تھے۔
وہ ایک عوامی شاعر سمجھے جاتے ہیں اور انکی شاعری عصری علوم حاصل کرنے والوں سے زیادہ دینی علماء اور مدارس میں پڑھنے والوں طلباء میں اب بھی بہت زیادہ مقبول سمجھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پشاور میں برسوں سے مقیم اور پشتو پر مکمل دسترس رکھنے والے ایک برطانوی شہری رابرٹ سمپسن اور مومن خان نے انکی شاعی کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔
رابرٹ سمپسن نے رحمان با با کے مزار پر حملے کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے یہ سن کر سخت دھچکا پہنچاہے کیونکہ پشتونخواء میں آج کل تشدد کی جو آگ بڑھک رہی ہے اس سے بجھانے کے لیے رحمان با با جیسے شاعر کے افکار سے رہنمائی حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔‘
ان کے بقول’رحمان بابا پشتونوں کی قومی شناخت کی علامت ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری میں صوفیانہ انداز میں عشق، محبت، دوستی اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔‘
اس سے قبل جینالڈسن نے ’ناٹینگل آف پشاور‘ اور ایچ جی راورٹری نے ’گلستان روح، افغان پوئٹری اینڈ پروز‘ کے عنوان کے تحت ان کی شاعری کے کچھ حصے کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔
صوبہ سرحد میں کئی سالوں سے جاری شدت پسندی کے دوران کچھ ایسے گروپ بھی سامنے آئے ہیں جو پیری مریدی کے خلاف ہیں اور اس سے قبل انہوں نے پشاور میں مزاروں کو نشاننہ بنایا ہے اور کئی پیروں اور ان کے پیروکاروں کو قتل بھی کیا ہے۔
اصل ربط