آپ بڑے ٹیکنیکل طریقے سے صحابہ کو خارجی ثابت کرنا چاہ رہی ہیں یہ کہہ کر کہآپ خوارج کو اسلام سے خارج نہیں سمجھتیں ۔۔اور آپ کا خوارج کہ بارے مین نظریہ اتنا متشدد نہیں ہے میرا تو آپ کہ فہم کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ تاریخ پر بحث کرنے کا آپ کو بڑا شوق ہے مگر تاریخ میں جو
اصطلاحی کردار فتنوں کی صورت میں رو نما ہوئے انکی
حقیقت ، اصل اور محرکات کا آپ کو اندازہ نہیں کہ جس پر ہم نے پہلے بھی یہ کہہ کراشارہ کیا کہ اسلام میں
سب سے پہلا فتنہ خارجیوں کا تھا کہ جن کی اص
ل نفاق تھی اور ہماری اس بات کی تائید میں بے
شماراحادیث شاہد ہیں
بلکہ خود خارجیوں پر خارجی کی اصطلاح کا اطلاق چیخ چیخ کر یہ بتارہا رہا کہ ان کا ایک مخصوص پس منظر ہے کہ جسکا دین کہ ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر محترمہ آپ نہیں مانتی اور سمجھتی تو نہ سمجھیں اور مانے ہمارے لیے دین کی تفھیم
آپکی سمجھ پر موقوف نہیں ہمارے لیے تو دین کی وہی
تعبیر اولٰی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور
جسکو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ خوارج کی تاریخ ،اسباب و محرکات کا اگر صحیح احادیث کی روشنی میں جائزہ لینا ہوتو محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب
۔۔
اَلاِنتِبَاہُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحَرُوْرَاءِ .... گستاخان رسول کی علامات ۔۔۔ کا مطالعہ مفید رہے گا جو کہ انٹر نیٹ پر درج زیل ربط میں دستیاب ہے ۔ ۔ ۔
http://www.minhajbooks.com/books/index.php?mod=btext&cid=2&bid=237&btid=201&read=txt&lang=ur
اس کتاب کی پہلی متفق علیہ رویات درج زیل ہے
عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه يَقُولُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضی الله عنه إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اليمن بِذُهَيْبَةٍ فِي أدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَ أقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَ الرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أصْحَابِهِ : کُنَّا نَحْنُ أحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : ألاَ تَأمَنُوْنِي وَ أنَا أمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَ مَسَاءً، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، قَالَ : وَيْلَکَ أوَلَسْتُ أحَقَّ أهْلِ الأرْضِ أنْ يَتَّقِيَ اﷲَ؟ قَالَ : ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوليد : يَا رَسُولَ اﷲِ! ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، لَعَلَّهُ أنْ يَکُونَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ : وَ کَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أوْمَرْ أنْ أنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلاَ أشُقَّ بُطُونَهُمْ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ
: إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. وَ أظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ترجمہ حدیث :- ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔
اور مسلم کی روایت میں درج زیل اضافہ ہے کہ ۔ ۔
وَ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ زَادَ : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، قَالَ : ثُمَّ أدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اﷲِ. فَقَالَ : يَا رَسُولَ اﷲِ ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، فَقَالَ :
إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِی هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُونَ کِتَابَ اﷲِ لَيِّنًا رَطْبًا، (وَ قَالَ : قَالَ عَمَّارَةُ : حَسِبْتُهُ) قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.
ترجمہ حدیث:-’’اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘
محترمہ آپ
خارجیوں کہ بارے میں غیر متشدد رویہ اور نظریہ رکھتی ہیں تو رکھتی رہیں ان کو مسلمان سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں
لیکن رسول اللہ کا فیصلہ تو ہمارے ساتھ ہے ۔ ۔ ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
خارجیوں کو دین سے خارج فرما چکے ہیں اوپر احادیث کہ
عربی ورژن میں ہمارے سرخ رنگ سے نمایاں کردہ الفاظ ہی خارجیوں کہ لیے خوارج کی اصطلاح کا باعث بنے ہیں ۔ ۔۔
اب درج زیل میں
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نظریہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہ آپ کہ ساتھ ہیں یا ہمارے ۔ ۔
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أحْدَاثُ الْأسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأحْلَامِ يَقُولُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَولِ الْبَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأيْنَمَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَومَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
و أخرجه أبو عيسي الترمذي عن عبد اﷲ بن مسعود رضي الله عنه في سننه و قال : و في الباب عن علي و أبي سعيد و أبي ذرّ رضي الله عنهم و هذا حديث حسن صحيح و قد رُوي في غير هذا الحديث : عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حَيثُ وَ صَفَ هَؤُلَاءِ الْقَومَ الَّذِينَ يقرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
إنما هم الخوارج الحروريّة و غيرهم من الخوارج.
ترجمہ احادیث :-
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے
وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘
’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے بھی اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا :
یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے لوگ ہوں گے۔‘‘
دیکھ لیا آپ نے
حضرت علی رضی اللہ عنہ خارجیوں کو کیا سمجھتے تھے ؟ ۔ ۔۔
اب آپ اپنے قول کہ مطابق حضرت علی کی پیروی اختیار کیجیئے نا کہ ان کہ قدم سے قدم ملا کر چلیئے اور نہ ہی ان سے تجاوز ۔ ۔ ۔ ۔۔