اس بارے میں میں قطعی لاعلم ہوں۔
یہ بی بی سی اردو کا ایک آرٹیکل ہے کافی پرانا، لیکن کافی معلوماتی ہے۔ ان کا عرس بھی منایا جاتا ہے۔
ہیر کے مزار پر
تحریر: عمر ڈار
جھنگ کے بس اڈے پر ایک رکشا والے سے پنجابی رومان کی لوک ہیروئن ’ہیر‘ کے مزار پر چلنے کے لئے کہا تو اس نے ناگواری سے تصحیح کی: ’ہیر نہیں، مائی ہیر‘۔
جھنگ پہنچ کر یہ معلوم ہوا کہ ہیر اور مائی ہیر میں وہی فرق ہے جو بابرا شریف اور شریفاں بی بی میں ہے۔ ایک کو آپ گلیمر کی عینک پہن کر دیکھتے ہیں، دوسری کو روایت کی۔ یا پھر شاعری میں جو فرق عشق مجازی اور عشق حقیقی میں ہے۔
دو ڈھائی کلومیٹر کا راستہ شہر کی پسماندگی کے باعث خاصا دشوار گزار تھا لیکن بالآخر رکشا ایک خراب حال قبرستان کے قریب جا رکا جہاں کسی عاشق یا معشوقہ کے مزار کا پتا نہ ملتا تھا۔ تھوڑا آگے چلے تو تقریباً بیس فٹ بلند اور سولہ فٹ چوڑائی اور لمبائی والی ایک چوکور عمارت دکھائی دی۔
نیلی اور سفید ٹائلوں سے مزین یہ عمارت دیگر قبروں کے مقابلے میں ایک مزار تو دکھائی دیتی تھی تاہم قریب پہنچ کر خاصی کوفت ہوئی کیونکہ مزاروں کا جو تصور داتا دربار، شاہ جمال اور وارث شاہ وغیرہ سے ملتا ہے یہ مزار اس کے بالکل برعکس ایک ویران سا مرقد تھا۔
چند سیڑھیاں چڑھ کر اندر پہنچے تو مزار کے اندر ایک قبر، دو بزرگ اور کچھ چراغ دکھائی دیے۔
مزار کے بارے میں جو بات انتہائی عجیب دکھائی دیتی ہے وہ ہے اس کی چھت۔ دراصل اس مزار کی چھت ہے بھی اور نہیں بھی۔ قبر کے عین اوپر تقریباً بارہ فٹ قطر کا ایک سوراخ نظر آتا ہے جس کے بارے میں سن رکھا تھا کہ بارش کے قطرے اس سوراخ کے ذریعے عمارت کے اندر نہیں آ پاتے، لیکن وہاں موجود دو میں سے ایک بزرگ نے فوری طور پر اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے بتایا کہ سوراخ سے بارش یقیناً اندر آتی ہے اور جب زیادہ آتی ہے تو اس سے بچنے کے لیے ملحقہ مسجد میں پناہ بھی لینا پڑتی ہے۔
تو پھر آخر مزار کی چھت میں سوراخ ہے کیوں؟ اس کی ایک وجہ جو تاریخ سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ جس زمانے میں یہ مزار بنا تھا تب ایسی عمارتوں کی چھت یا تو بنائی ہی نہیں جاتی تھی یا اس میں سوراخ رکھا جاتا تھا۔ مزار کے مجاور بزرگ کا کہنا ہےکہ ایسے سوراخ برگزیدہ مرحومین کے خدا سے ڈائریکٹ رابطے کا وسیلہ ہیں۔
یہ مزار صرف مائی ہیر کا نہیں۔ قبر پر کندہ کتبہ پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ اس قبر میں مائی ہیر اور میاں رانجھا دونوں دفن ہیں۔
دراصل ہیر کی شادی کے بعد جب انہیں رنگ پور کھیڑے بھیج دیا گیا تو میاں رانجھا کو جوگ لینے کی سوجھی اور وہ اس وقت جہلم کے قریب واقع پہاری ٹیلوں پر مقیم ایک جوگی سے جس کا نام بال ناتھ تھا، ملا اور اپنے عشق کے مداوے کے لیے اس سے جوگ مانگا جو اس نے رانجھا صاحب کو عطا کیا۔ یوں میاں رانجھا جوگی بن کر جہلم سے رنگ پور کھیڑہ واپس پہنچے اور وہاں جب ہیر سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو جوگ ترک کیا اور اس کے ساتھ بھاگ نکلے۔
جھنگ میں اس جگہ پہنچ کر جہاں اب مزار واقع ہے دونوں ایک ٹیلے پر رکے۔ اس وقت دریائے چناب وہاں سے بالکل قریب بہتا تھا۔ دونوں نے ٹیلے پر کچھ دیر سستانے کا فیصلہ کیا تو ان کی نظر ان لوگوں پر پڑی جو انہیں قتل کرنے کی غرض سے آ رہے تھے۔
اسی لمحے دونوں عشاق نے خدا سے دعا کی جس کے نتیجے میں زمین شق ہو گئی اور دونوں اس میں سما گئے۔ قتل کرنے کی غرض سے آنے والوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو سچے عشاق کے عتاب سے معافی طلب کی اور لوٹ گئے۔
یہ واقعہ چودھویں صدی عیسوی میں پیش آیا اور تب سے ہی لوگ اس جگہ پر آ رہے ہیں۔
قبر کے سرہانے کی جانب ایک کھڑکی ہے جس پر نوجوان اپنی مرضی کی شادی کے لیے کھڑکی پر گرہیں باندھتے ہیں اور اگر ان کی من پسند شادی ہو جائے تو گرہیں کھول جاتے ہیں۔ بہت سے تو قبر پر آ کر نوافل بھی ادا کرتے ہیں۔
لیکن اس قدر پرانا دربار اور اس کا رنگ و روغن اتنا نیا؟ اس سوال پر بزرگ نے کہا کہ یہ کام لاہور شہر کی ایک خاتون نے کروایا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ اس دربار کے در و دیوار خاصے شکستہ ہو چکے تھے اور ان پر آنے جانے والے لوگ اپنے عاشقوں اور معشوقوں کے نام لکھا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں مزار کی دیواریں کسی عام گزرگاہ کی دیواریں دکھائی دیتی تھیں۔
مائی ہیر لاہور شہر کی خاتون کے خواب میں آئیں اور کہا کہ میرے مزار کی مرمت کرواؤ۔ لہذا وہ خاتون جو مائی ہیر کی مرید بھی ہیں، لاہور سے مستریوں سمیت تشریف لائیں اور اپنی زیر نگرانی مزار کے درودیوار کو رنگ و روغن کروانے کے بعد واپس چلی گئیں۔
مزار سے باہر نکلتے ہوئے ایک اور حقیقت آشکارا ہوئی کہ مزار کی گدی کبھی بھی متعلقہ خاندانوں کے پاس نہیں رہی۔ مراد بخش رانجھا کی قوم رانجھا تھی۔ عزت بی بی عرف مائی ہیر کا تعلق سیال قوم سے تھا اور ان کےسسرال کھیڑے تھے۔
ان میں سے کسی بھی قوم نے آج تک اس مزار کی گدی نہیں سنبھالی۔ وینس برادری جو جھنگ کے نواب صاحب کے مزارعے تھے، انہیں نواب صاحب نے اس مزار کی دیکھ بھال کا ذمہ دے رکھا تھا اور برسوں تک وینس برادری ہی مزار کا انتظام سنبھالے رہی۔
البتہ بارہ برس قبل وینس برادری کی آپس میں لڑائی ہوئی جس کی وجہ سے اس مزار کو محکمۂ اوقاف کے زیر انتظام دے دیا گیا جس نے اب مزار ان دو بزرگوں کے سپرد کر رکھا ہے ۔
محرم کی پانچ تاریخ سے مائی ہیر کا عرس شروع ہو جاتا ہے اور پورا مہینہ جاری رہتا ہے۔ اس دوران بارہ سے پندرہ ہزار زائرین روزانہ مزار پر آتے ہیں، منتیں مانگتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں۔