نیرنگ خیال
لائبریرین
ان کے پاس آکسیجن ماسک ہوں گے۔حیرت ہے۔ یا تو ہم اسے سطحی طور پر پڑھ رہے ہیں۔ یا باقی سب زیادہ گہرائی میں اتر گئے ہیں جو شاعری سمجھ سے بالاتر ہو گئی۔
ان کے پاس آکسیجن ماسک ہوں گے۔حیرت ہے۔ یا تو ہم اسے سطحی طور پر پڑھ رہے ہیں۔ یا باقی سب زیادہ گہرائی میں اتر گئے ہیں جو شاعری سمجھ سے بالاتر ہو گئی۔
نین بھائی!! ویسے تو یہ کام ہم خود ہی کرنے کی ٹھان چکے تھے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ آپ ہم سے بہتر کریں گے۔میں روشنی ڈال سکتا ہوں۔ اجازت ہے۔
ابھی میں راحیل بھائی کی کسی غزل پر ہاتھ صاف کرنے کا سوچ رہا ہوں۔نہیں میں نہیں جانتی
ویسے آپ نے کچھ روشنی ڈالنی تھی۔سمجھائیے شاید مجھے بھی کچھ سمجھ آ ہی جائے
نہ بئی۔۔۔ مجھے اور بہت سے معاملات پر روشنی ڈالنی ہے۔۔۔ آجکل لوگ اپنی غزلوں کا بیڑہ غرق کروانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اس پر نظم ۔۔۔ میرے پاس تو فرصت ہی نہین۔۔۔ ہاہاہاہاہاہااانین بھائی!! ویسے تو یہ کام ہم خود ہی کرنے کی ٹھان چکے تھے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ آپ ہم سے بہتر کریں گے۔
ذرا اس کلام پر اپنی سرچ لائٹ سے روشنی ڈال دیں، یہ آپ کا ہم پر احسانِ دوم ہو گا۔
ہاتھ صاف کرلیں۔مگر آپ کے راحیل بھائی کو پتہ ہے؟ابھی میں راحیل بھائی کی کسی غزل پر ہاتھ صاف کرنے کا سوچ رہا ہوں۔
میں روشنی ڈال سکتا ہوں۔
چپ۔۔۔ وہ سن ہی نہ لیں۔۔۔ہاتھ صاف کرلیں۔مگر آپ کے راحیل بھائی کو پتہ ہے؟
ارررے!!! تو نہ کریں۔ ہم خود کر لیں گے۔ ہونہہ!!نہ بئی۔۔۔ مجھے اور بہت سے معاملات پر روشنی ڈالنی ہے۔۔۔ آجکل لوگ اپنی غزلوں کا بیڑہ غرق کروانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اس پر نظم ۔۔۔ میرے پاس تو فرصت ہی نہین۔۔۔ ہاہاہاہاہاہااا
شاباش۔۔۔۔ارررے!!! تو نہ کریں۔ ہم خود کر لیں گے۔ ہونہہ!!
میں تو بولی ہی نہیں۔چپ۔۔۔ وہ سن ہی نہ لیں۔۔۔
ہم خود روشنی ڈال لیں گے پہلی فرصت میں..ویسے اب تھوڑی روشنی ڈال ہی دیں۔
کہیں لکھا پڑھا تھا۔ اس میدان سے ہم نا بلد ہیں۔ آپ تفصیل بیان فرما دیں۔غلط قوافی
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=907082419342780&id=772312126153144کہیں لکھا پڑھا تھا۔ اس میدان سے ہم نا بلد ہیں۔ آپ تفصیل بیان فرما دیں۔
بہت شکریہ معلومات میں اضافہ کرنے پر۔ لیکن اگر بندگی اور زندگی کو یہاں قافیہ نہ مانا جائے۔ اظہار خیال کے لیے اگر ہم آواز الفاظ مجتمع ہو گئے ہوں۔ ویسے ہمارا زیادہ زور خیال پر ہے۔https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=907082419342780&id=772312126153144
تحریر غالباََ سرسری صاحب کی ہے۔ انھوں نے زندگی کے قوافی سوزندگی ، سازندگی وغیرہ بتائے ہیں۔ میرے خیال سے تو ان قوافی کا استعمال بھی ایطائے خفی میں شمار ہوگا۔ کیونکہ زندگی کی تکرار ان میں موجود ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تو روی یہان ن ہے۔ زندگی کے ساتھ صحیح قافیہ شرمندگی ،درندگی وغیرہ ہونگے جن میں ندگی سے پہلے حرف پر زیر ہے۔ دوسرا حل انھوں نے لکھ دیا ہے کہ ایسا قافیہ ساتھ لے آئیں جس میں اصل روی ی ہو جیسے روشنی ، خامشی وغیرہ۔
مجھے تو خیال سمجھ نہیں آیا ۔ زندگی کا رقص کرنا کیا چیز ہے؟ اور اس کی بندگی کرنے سے کیا مراد ہے؟بہت شکریہ معلومات میں اضافہ کرنے پر۔ لیکن اگر بندگی اور زندگی کو یہاں قافیہ نہ مانا جائے۔ اظہار خیال کے لیے اگر ہم آواز الفاظ مجتمع ہو گئے ہوں۔ ویسے ہمارا زیادہ زور خیال پر ہے۔
جی آپ درست کہہ رہے ہیں کہ خیال قاری پہ چھوڑا گیا ہے۔ رقص اور بندگی کا مفہوم ہر کسی کا اپنا ہو سکتا ہے۔ جیسے ہمارے خیال میں بندگی بمعنی غلامی، نوکری کرنے کے ہیں۔ جبکہ زندگی میں دوڑ اور اس کی حقیقتیں ہی اس کا رقص ہیں۔مجھے تو خیال سمجھ نہیں آیا ۔ زندگی کا رقص کرنا کیا چیز ہے؟ اور اس کی بندگی کرنے سے کیا مراد ہے؟
اور دونوں مصرعوں میں ربط کیا ہے۔
شاید سب کچھ قاری پر چھوڑ دیا ہے شاعر نے۔
زندگی میں کبھی انسان پر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ایک لاحاصل تمنا کو حاصل کرنے کی سعی کے نتیجہ میں وہ ایک المناک کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ شاعر اس جمود کو توڑنے کی بات کرتے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ علی زریون صاحب نے ایسا ہی کیا ہے جو ان کی بیشتر شاعری کا خاصہ ہے۔غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شاید شاعر نے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے کچھ تشبیہات اور استعارے استعمال کیے ہیں جو اس نظم کو تھوڑا مشکل بنا رہے ہیں۔رقص کر رقص !!
کہ یہ سوزشِ دیرینہ تھمے ..
معبدِ جسم میں خواہش کی بھڑکتی آتش ..!
ہجر کے سوگ میں روئی ہوئی آنکھوں کی جلن اور چبھن !
پاؤں سے باندھی ہوئی دشت و بیاباں کی مسافت کی تھکن !
کھول !!
کھول یہ بے سر و سامانی کی گٹھری ! اور دیکھ !
ان سطور میں بھی تمناؤں اور خوابوں کا بیان عجیب طریقے سے کیا گیا ہے جو کہ گھٹن کا شکار ہو کر دم توڑنے لگتے ہیں لیکن ساتھ ہی شاعر نے "سانس لے" کہا ہے جو کہ قاری کو نہیں کہا ( ظاہر ہے قاری تو پڑھتے ہوئے سانس لے ہی رہا ہے۔) یہ اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ان تمناؤں اور خوابوں کو مرنے نہ دیا جائے۔ یہاں بھی وہی بات آ جاتی ہے کہ الفاظ کا چناؤ عام انداز سے نہیں کیا گیا ہے۔کیسی نایاب تمنّاؤں کے اجلے موسم !!
کاسنی رنگ میں بھیگے ہوئے خوابوں کے بدن !!
سانس گھٹ جانے سے مرنے لگے ہیں ..!!
سانس لے !!
اس سطر میں دل باطن کا استعارہ معلوم ہوتا ہے۔ مطلب دل کی فراوانی کا مطلب شاید اپنے اندر موجود کائنات کی وسعت مراد لیا گیا ہے۔ یعنی انسان اپنے اندر جھانک کر اپنے ہونے کا مقصد تلاش کرے اور اس لاحاصل والی کیفیت سے باہر آ جائے۔دیکھ اس بھید بھرے دل کی فراوانی کو ..!!!
یہاں شاید شاعر ان الفاظ کو اپنی ذات کا ادراک کرنے کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔جذب کر !
خوں میں اتار !!
اور اسے روح میں بھر !!