رقص کر رقص (علی زریون)

لاریب مرزا

محفلین
میں روشنی ڈال سکتا ہوں۔ اجازت ہے۔ :)
نین بھائی!! ویسے تو یہ کام ہم خود ہی کرنے کی ٹھان چکے تھے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ آپ ہم سے بہتر کریں گے۔
ذرا اس کلام پر اپنی سرچ لائٹ سے روشنی ڈال دیں، یہ آپ کا ہم پر احسانِ دوم ہو گا۔
:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھائی!! ویسے تو یہ کام ہم خود ہی کرنے کی ٹھان چکے تھے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ آپ ہم سے بہتر کریں گے۔
ذرا اس کلام پر اپنی سرچ لائٹ سے روشنی ڈال دیں، یہ آپ کا ہم پر احسانِ دوم ہو گا۔
:)
نہ بئی۔۔۔ مجھے اور بہت سے معاملات پر روشنی ڈالنی ہے۔۔۔ آجکل لوگ اپنی غزلوں کا بیڑہ غرق کروانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اس پر نظم ۔۔۔:eek: میرے پاس تو فرصت ہی نہین۔۔۔ ہاہاہاہاہاہااا :devil::devil:
 

گلزار خان

محفلین
میں روشنی ڈال سکتا ہوں۔
13450112_657369394410535_1311647810473134786_n.jpg

بوہتی روشنی پاؤ تاکہ پورا پاکستان ہی روشن ہوجاوے :):)
 

لاریب مرزا

محفلین
نہ بئی۔۔۔ مجھے اور بہت سے معاملات پر روشنی ڈالنی ہے۔۔۔ آجکل لوگ اپنی غزلوں کا بیڑہ غرق کروانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اس پر نظم ۔۔۔:eek: میرے پاس تو فرصت ہی نہین۔۔۔ ہاہاہاہاہاہااا :devil::devil:
ارررے!!! تو نہ کریں۔ ہم خود کر لیں گے۔ ہونہہ!!
 

عباد اللہ

محفلین
بھئی میں بہت ہی نو آموز ہوں شاعری کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا لیکن یہ نظم مجھے دل کی فراوانی کو نکال کر اچھی لگی
 
کہیں لکھا پڑھا تھا۔ اس میدان سے ہم نا بلد ہیں۔ آپ تفصیل بیان فرما دیں۔
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=907082419342780&id=772312126153144

تحریر غالباََ سرسری صاحب کی ہے۔ انھوں نے زندگی کے قوافی سوزندگی ، سازندگی وغیرہ بتائے ہیں۔ میرے خیال سے تو ان قوافی کا استعمال بھی ایطائے خفی میں شمار ہوگا۔ کیونکہ زندگی کی تکرار ان میں موجود ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تو روی یہان ن ہے۔ زندگی کے ساتھ صحیح قوافی شرمندگی ،درندگی وغیرہ ہونگے جن میں ندگی سے پہلے حرف پر زیر ہے۔ دوسرا حل انھوں نے لکھ دیا ہے کہ ایسا قافیہ ساتھ لے آئیں جس میں اصل روی ی ہو جیسے روشنی ، خامشی وغیرہ۔
 
آخری تدوین:
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=907082419342780&id=772312126153144

تحریر غالباََ سرسری صاحب کی ہے۔ انھوں نے زندگی کے قوافی سوزندگی ، سازندگی وغیرہ بتائے ہیں۔ میرے خیال سے تو ان قوافی کا استعمال بھی ایطائے خفی میں شمار ہوگا۔ کیونکہ زندگی کی تکرار ان میں موجود ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تو روی یہان ن ہے۔ زندگی کے ساتھ صحیح قافیہ شرمندگی ،درندگی وغیرہ ہونگے جن میں ندگی سے پہلے حرف پر زیر ہے۔ دوسرا حل انھوں نے لکھ دیا ہے کہ ایسا قافیہ ساتھ لے آئیں جس میں اصل روی ی ہو جیسے روشنی ، خامشی وغیرہ۔
بہت شکریہ معلومات میں اضافہ کرنے پر۔ لیکن اگر بندگی اور زندگی کو یہاں قافیہ نہ مانا جائے۔ اظہار خیال کے لیے اگر ہم آواز الفاظ مجتمع ہو گئے ہوں۔ ویسے ہمارا زیادہ زور خیال پر ہے۔
 
بہت شکریہ معلومات میں اضافہ کرنے پر۔ لیکن اگر بندگی اور زندگی کو یہاں قافیہ نہ مانا جائے۔ اظہار خیال کے لیے اگر ہم آواز الفاظ مجتمع ہو گئے ہوں۔ ویسے ہمارا زیادہ زور خیال پر ہے۔
مجھے تو خیال سمجھ نہیں آیا ۔ زندگی کا رقص کرنا کیا چیز ہے؟ اور اس کی بندگی کرنے سے کیا مراد ہے؟
اور دونوں مصرعوں میں ربط کیا ہے۔
شاید سب کچھ قاری پر چھوڑ دیا ہے شاعر نے۔
 
مجھے تو خیال سمجھ نہیں آیا ۔ زندگی کا رقص کرنا کیا چیز ہے؟ اور اس کی بندگی کرنے سے کیا مراد ہے؟
اور دونوں مصرعوں میں ربط کیا ہے۔
شاید سب کچھ قاری پر چھوڑ دیا ہے شاعر نے۔
جی آپ درست کہہ رہے ہیں کہ خیال قاری پہ چھوڑا گیا ہے۔ رقص اور بندگی کا مفہوم ہر کسی کا اپنا ہو سکتا ہے۔ جیسے ہمارے خیال میں بندگی بمعنی غلامی، نوکری کرنے کے ہیں۔ جبکہ زندگی میں دوڑ اور اس کی حقیقتیں ہی اس کا رقص ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
علی زریون صاحب کی یہ نظم انتخاب کرنے کی وجہ اس میں محسوس ہونے والی کیفیت ہے۔ اپنے ناقص علم اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی مدد سے جو کچھ اس نظم میں محسوس کیا، بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رقص کر رقص !!
کہ یہ سوزشِ دیرینہ تھمے ..
معبدِ جسم میں خواہش کی بھڑکتی آتش ..!
ہجر کے سوگ میں روئی ہوئی آنکھوں کی جلن اور چبھن !
پاؤں سے باندھی ہوئی دشت و بیاباں کی مسافت کی تھکن !
کھول !!
کھول یہ بے سر و سامانی کی گٹھری ! اور دیکھ !
زندگی میں کبھی انسان پر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ایک لاحاصل تمنا کو حاصل کرنے کی سعی کے نتیجہ میں وہ ایک المناک کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ شاعر اس جمود کو توڑنے کی بات کرتے ہیں۔ الفاظ کا چناؤ علی زریون صاحب نے ایسا ہی کیا ہے جو ان کی بیشتر شاعری کا خاصہ ہے۔غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شاید شاعر نے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے کچھ تشبیہات اور استعارے استعمال کیے ہیں جو اس نظم کو تھوڑا مشکل بنا رہے ہیں۔
کیسی نایاب تمنّاؤں کے اجلے موسم !!
کاسنی رنگ میں بھیگے ہوئے خوابوں کے بدن !!
سانس گھٹ جانے سے مرنے لگے ہیں ..!!
سانس لے !!
ان سطور میں بھی تمناؤں اور خوابوں کا بیان عجیب طریقے سے کیا گیا ہے جو کہ گھٹن کا شکار ہو کر دم توڑنے لگتے ہیں لیکن ساتھ ہی شاعر نے "سانس لے" کہا ہے جو کہ قاری کو نہیں کہا ( ظاہر ہے قاری تو پڑھتے ہوئے سانس لے ہی رہا ہے۔) یہ اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ان تمناؤں اور خوابوں کو مرنے نہ دیا جائے۔ یہاں بھی وہی بات آ جاتی ہے کہ الفاظ کا چناؤ عام انداز سے نہیں کیا گیا ہے۔
دیکھ اس بھید بھرے دل کی فراوانی کو ..!!!
اس سطر میں دل باطن کا استعارہ معلوم ہوتا ہے۔ مطلب دل کی فراوانی کا مطلب شاید اپنے اندر موجود کائنات کی وسعت مراد لیا گیا ہے۔ یعنی انسان اپنے اندر جھانک کر اپنے ہونے کا مقصد تلاش کرے اور اس لاحاصل والی کیفیت سے باہر آ جائے۔
جذب کر !
خوں میں اتار !!
اور اسے روح میں بھر !!
یہاں شاید شاعر ان الفاظ کو اپنی ذات کا ادراک کرنے کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
ہم نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے کہ سمجھ میں آنے والے مفہوم پر کسی حد تک روشنی ڈال سکیں۔ اگر اب بھی کسی کو کچھ سمجھ نہ آئے تو وہ شاعر سے رجوع کریں۔
:cool: :D
 
Top