اسکین دستیاب رقعات عالمگیری

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر1

فہرست مضامین عالمگیر
ولادت 10
شاہجہان کی علالت اور حصول سلطنت کے لئے دارا شکوہ کی جدوجہد 10
شاہجہان کا انتقال مکانی دہلی سے اکبر آباد میں شجاع سے لڑنے کے لئے لشکر بھیجنا اور شجاع کا فرار 12
دارا شکوہ کا لشکر مالوہ میں 13
اورنگ زیب کو دارالشکوہ سے کیوں نفرت تھی 15
عالمگیر اورنگ زیب کا پیام مراد بخشش کے نام 17
راجہ جسونت سنگھ کی نقل و حرکت 19
اورنگ زیب اور راجہ جسونت سنگھ کی لڑائی عالمگیر فتح کی فتح داراشکوہ کی نقل و حرکت 21
داراشکوہ کی نقل و حرکت 23
داراشکوہ محمد امین خاں کو قید کرتا ہے 25
دریائے چنبل پر اورنگ زیب کے لشکر روکنے کے لئے داراشکوہ کا فوج بھیجنا 26
اکبر الہ آباد کے قریب داراشکوہ اور اورنگ زیب کی لڑائی 27
دارا کا شکست پاکر دہلی بھاگنا اور دہلی سے لاہور جانا 27
دارا شکوہ کی نقل و حرکت 33
عالمگیر کی نقل و حرکت اکبر الہ آباد سے دہلی میں 35
مراد بخش کو قید کرنا 37
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 2
مراد قید ہوتا اورنگ زیب اس کے ملازموں کو اپنے ساتھ گانٹھ لیتا ہے اور مراد کو سلیم گڈھ کے قلعہ میں بھیجتا ہے 39
داراشکوہ سلیمان شکوہ اور مراد بخش کے امراء و افسران اعلیٰ اورنگ زیب کی خدمت میں 48
دہلی سے لاہور تک داراشکوہ کی نقل و حرکت کے حالات اور عالمگیر کی عزمیتِ پنجاب 49
اورنگ زیب کا تخت سلطنت پر بیٹھنا۔ داراشکوہ و سلیمان شکوہ کے لئے لشکر بھیجنا۔ خود پنجاب کی طرف جانا اور ستلج سے پار ہونا 51
سلیمان شکوہ کے حالات 53
غلیل اللہ خاں و بہادر خاں کے لشکروں کے حالات 58
عالمگیر کی نقل و حرکت 60
داراشکوہ کے حالات لاہور سے فرار ہونے کے بعد 63
عالمگیر شیخ میر کو داراشکوہ کے تعاقب میں بھیجتا ہے 65
عالمگیر ملتان سے دہلی میں اور شاہزادہ شجاع کے معاملات 66
اورنگ زیب و شجاع کے مابین محبت و اتحاد کی مراسلت 67
شجاع کا ورود الہ آباد میں 68
جشن وزن شمسی سال چہل و دوم 70
اورنگ زیب شجاع سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ ہوتا ہے 71
شجاع اور عالمگیر کے لشکروں کی معرکہ آرائی اور راجہ جسونت سنگھ کی دغابازی 72
شیخ میر صف شکن خاں کے لشکروں کے حالات جو داراشکوہ کے تعاقب میں گئے تھے اور داراشکوہ کی پریشانی 80
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 3
عالمگیر کچھوہ سے اکبر آباد میں اور قلعہ الہ آباد کا فتح ہونا 85
راجہ جسونت سنگھ کی گوشمالی اور مراد بخش کا قلعہ گوالیار میں مقید ہونا 86
راجہ جسونت سنگھ کے متعلق ڈاکٹر برنیر انگریز کا بیان 87
داراشکوہ کی نقل و حرکت 89
داراشکوہ اور راجہ جسونت سنگھ کے معاملات 91
عالمگیر کی نقل و حرکت 100
عالمگیر کا جلوس ثانی سِکہ،خطبہ اور لقب کا تقرر 100
مال و رسال کا حساب تبدیل ہونا اور نو روز کے جشن کا موقوف ہونا 102
تعین محتسب و منع مہنیات و مُسکرات 102
کل ممالکِ محروسہ میں غلہ اور اجناس کے باج کا بخشنا اور حاصلِ راہداری کا موقوف کرنا 102
داراشکوہ کا عبرتناک انجام 103
رعایا کے لئے سہولتیں بہم پہنچانا 103
قلعہ شاہجہان آباد (دہلی کے لال قلعہ) میں آرامگاہ کے پاس ایک مسجد (موتی مسجد) کا بنانا 113
شجاع کے لیے سولہ مہینے کے حالات بنارس سے بھاگنے سے رخنک تک بھاگنے میں 114
شاہزاد محمد سلطان کا شجاع کے پاس جانا اور اس کی بیٹی سے نکاح کرنا 123
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 4
اکبرنگر پر شجاع کا قبضہ 126
عالمگیر کی نقل و حرکت 134
پادشاہزادہ محمد سلطان کی مراجعت شجاع کے پاس سے راجہ کرن بہورسہ کی تنبیہ کے لئے امیر خاں کا بھیجنا 140

مرہٹوں کے حالات اور ان کے علاقے
دکن 141

سیواجی کی ولادت اور تعلیم
سیواجی کا لٹیرا پن 149
سیواجی کے یار اور مددگار 150
پہاڑی قلعوں پر سیواجی کا قبضہ 151
باپ کی جاگیر پر قبضہ 152
سیواجی کی پہلی بغاوت اور والی بیچاپور کا خزانہ لوٹنا 154
شاہ جی کا قید ہونا اور رہائی حاصل کرنا 154
سیواجی کے نئے حملے اور عالمگیر سے معاملات 157
افضل خاں کا سیواجی سے مقابلہ کے لئے روانہ ہونا 157
علی عادل شاہ کی دو دفعہ اور فوج کشی 159
سیواجی کی صلح والی بیجاپور سے 163
قلعہ چاکنہ کی فتح 162
جشن وزن شمسی سال 41 مطابق سنہ جلوس و قلعہ پریندہ کی فتح 170
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 5
سری نگر سے سلیمان شکوہ کو حضور میں لانا 171
ایلچوں کی آمد 171
گرانی غلہ 172

واقعات سال چہارم 1071ھ 1661ء
بذاق بیگ سفیر ایران 173
تسخیر قلعہ کہاتا کہری 173
چنپت بندیلہ 174
تسخیر ولایت پلاؤں (پالامئو) واقعہ صوبہ بہار 175
شاہزادہ محمد معظم کی شاہزادی 174
اورنگ زیب کی نقل و حرکت 174
خانخاناں عرف معظم خاں کی تمہیدات۔ ملکِ آسام کی فتح 174
کوچ بہار کے حالات 184
فتح آسام کے قصد سے لشکر کا کوچ 188
ملک آسام میں لشکر اسلامی کا ورود 193
قلعہ سما گڈھ کا محاصرہ 194
قلعہ سملہ گڈھ کی فتح 195
نوارہ کے حالات لکھو گر میں لشکرِ سلطانی کی آمد 198
لشکر شاہی کا کوچ لکھوگر سے اور کہرگا نو کا فتح ہونا 202
آسامیوں کی قید سے ہندو مسلمانوں کی رہائی 202
آسام کی غنیمت 205
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 6
ملک آسام کے طول و عرض و خصائص اور اہل اسلام کے حالات 206
کہرگانو سے متھراپور میں لشکر کا ورود اور تھانوں کا مقرر ہونا 212
برسات کا آنا اور بغاوتوں کا اُٹھنا 214
کوچ بہار پر راجہ نرائن کا دوبارہ تصرف 216
لکھوگھر کی جانب فرہاد خاں کا جانا، عجیب واقعت کا نمودار ہونا اور اس کی مراجعت 217
راہوں کا مسدور ہونا، تھانوں کا اُٹھنا و دیگر قضئے 219
کہرگانو میں لشکر سلطانی کو کیا واقعات پیش آئے 221
لکہو گر اور نوارہ کے حالات و دیگر قضایا 222
کہرگانو و متھراپور میں امراض وبا کا پھیلنا، غلہ کا قحط اور نواب کی مراجعت 229
راہوں کا کھلنا، وبا و قحط کا کم ہونا 231
صلح کا قیام اور طلسم آسام سے اہلِ اسلام کی نجات 235
نواب کا انتقال 237
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 7

ماخذ

میں نے کتاب عالمگیری کو کتب مفصلہ ذیل کی اعانت سے تالیف کیا ہے
(1) عالمگیر نامہ تصنیف منشی محمد کاظم بن محمد امین
محمد کاظم کو مرزا کاظم بھی اور اس کے والد محمد امین کو مرزا مینائے کاشی بھی کہتے ہیں۔ جس نے شاہ جہاں نامہ لکھا ہے۔ محمد کاظم اورنگ زیب کے سال اول جلوس میں اس کا ملازم ہوا۔ عالمگیر کو اس کی انشا پردازی پسند آئی۔ اس نے اس کو اشارہ کیا۔ ہماری سلطنت کا سچا سچا حآل قلمبند کرو۔ حکم دیا
"جب تک مئولف سوانح نگاری اور وقائع نگاری میں مصروف رہے وقائع نگار ایک نسخہ واقعات اور فہرست واردات جس میں ماہ بہ ماہ اور سال بسال کے حالات معہ صوبحات درج ہوں ۔ اس کے حوالہ کرتے رہیں"
یہ مقرر فرمایا:-
" جو سوانح و حالات تحریر میں آئیں۔ وہ ترتیب پانے کے بعد اوقات مناسب میں خلوت کے موقعہ پر ہم کو (عالمگیر کو) سنائے جائیں تاکہ اس کی تصحیح و تنقیح ہم خود کرتے رہیں"۔
یہ بھی حکم دیا:-
"پادشاہ نامہ میں ہماری شاہزادگی کا حال تو مفصل لکھا جاچکا ہے۔ اب ایامِ سلطنت کے حالات آغازِ سلطنت جمادی اولولیٰ 1067ھ سے رجب 1078ھ تک ایامِ سلطنت کے دس سال کے حالات تالیف کیے اور 33جلوس میں عالمگیر کے روبروپیش کئے۔ عالمگیر نے اس سبب سے کہ اسکے نزدیک مآثر باط کی تاسیس کے سامنے آثارِ ظاہر کی ابقاء کی وقعت کچھ نہ تھی۔ مئولف کو منع کردیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 8
"اب دس سال سے آگے ہماری سلطنت کی تاریخ نہ لکھو"۔
مئولف نے ان دس سالوں کے واقعات پر بس کی۔
(2) مآثر عالمگیری: اس کا مصنف محمد ساقی خاں مستعد ہے۔ وہ بہادرشاہ کے وزیر عنایت اللہ خاں کا منشی تھا۔ اس نے عالمگیر نامہ محمد کاظم سے اول دس کے حالات خلاصہ کرکے لکھے۔ باقی چالیس کے حالات وہی قلمبند کئے جو زیادہ تر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ وہ ان چالیس سال میں عالمگیر کے دربار کے حاضرین میں سے تھا۔
(3) فتوحاتِ عالمگیری: اس کتاب کو واقعاتِ عالمگیری بھی کہتے ہیں۔ اس کا مصنف محمد معصوم ہے۔ وہ اورنگزیب کے بھائی شاہ شجاع کا ملازم تھا۔ یہ تینوں عالمگیر نامے عہد نویس مئورخوں نے لکھے ہیں۔ اس کتاب کا نام ظفرنامہ عالمگیری بھی ہے۔
(4) منتخب اللُباب: اس کو تاریخ خانی خاں کہتے ہیں۔ اس کا مصنف اورنگزیب کی خدمت میں رہتا تھا۔ وہ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے۔
"اگرچہ اورنگزیب کی پچاس سال کی سلطنت کا خلاصہ لکھنا دریائے پانی کو کُلیا سے ناپنا ہے۔ خصوصاً آخر چالیس کے حالات، جس میں پادشاہ نے مئورخوں کو تاریخ کے لکھنے سے منع کردیا تھا۔ وہ ایک بحربے پیاں ہے لیکن راقم نے بقدر مقدور دست و پازنی کرکے تفتیش تمام اور تخص تام کرکے مقدمات اور واقعات کو قابلِ تحریر کیا۔ جن میں سے بعض کو ثقہ اور بوڑھوں کی زبانی اور بعض کو اہلِ دفتر اور واقعہ نگاروں سے تحقیق کیا ہے"۔
(5) وقائع نعمت خاں عالی: یہ مشہور کتاب ہے جس میں اورنگزیب کی سلطنت کے بعض وقائع بطور استہزاء کے لکھے ہیں۔ وہ تاریخ نہیں ہے۔
(6) جنگ نامہ نعمت خاں عالی: یہ کتاب نعمت خاں عالی نے جس کا لقب دانشمند خاں
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر9

تھا۔ لکھی ہے اس میں حالات اس زمانہ سے کہ اورنگزیب رانا سے لڑا ہے۔ بہادرشاہ کی جانشینی تک لکھے ہیں۔
(7) آدابِ عالمگیری: اس کتاب میں وہ ساری عرضداشتیں، رقعات و تحریرات جمع ہیں۔ جو عالمگیر نے باپ کو، امیروں، وزیروں، مشائخ، بزرگوں و شہزادیوں کو لکھے ہیں یا اپنے منشی ابوالفتح سے لکھوائے ہیں۔ جس کا خطاب قابل خاں تھا۔
(8) رقعاتِ عالمگیری: جس کا مصنف خود عالمگیر ہے۔ اس کے تین مجموعے ہیں جن کے نام یہ ہیں (1) کلمات طیبات (2) رقام کرائم (3) دستور العمل آگاہی اس میں کچھ تاریخی حالات بھی درج ہیں۔ اکثر یہ کتاب تالیف کے وقت زیر مطالعہ رہی ہے۔
(9) تاریخ فتح آسام: اس میں شہاب الدین طالش خاں نے آسام کی فتح کا حال لکھا ہے۔ اس جنگ میں وہ شریک تھا۔
ان کتابوں کے سوا اور چھوٹی موٹی کتابیں تالیف کے وقت زیرِ مطالعہ رہیں۔ اور انگریز تاریخوں کی ورق گردانی اس عالمگیر کے بہت کی گئی ہے۔ عالمگیر کے حالات کی تاریخیں پندرہ لکھی گئی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ کوئی کامل تاریخ ایسی نہیں ہے جیسے کہ اس کے آباؤ اجداد کی تاریخیں ہیں۔ اس لئے اس کی تاریخوں میں اختلافات کثرت سے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
عبدالصمدچیمہ نے صفحہ نمبر ایک سے نو تک صفحات ٹائپ کیے ہیں۔
ایک بات بہت دکھ دے رہی ہے کہ نایاب بھیا نے کہا تھا کہ صفحہ 1 سے 9 تک وہ ٹائپ کریں گے۔
اللہ انھیں آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے اور ان کے گھر والوں کو بھی۔آمین!
 

غدیر زھرا

لائبریرین
18 تک صفحات ہو چکے ہیں۔
اب کون ذمہ داری لیتا ہے اگلے صفحات کی؟
معذرت کہ میں نے 30 تک ٹائپنگ کی ذمہ داری لی تھی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر نہ نبھا پائی اب ان شاءاللہ دوبارہ کوشش کروں گی کہ تیس تک مکمل کر دوں۔
اس دھاگے میں جب بھی آنا ہو گا محترم نایاب کی یاد آئے گی خدا ان کے درجات بلند کرے آمین
 

جاسمن

لائبریرین
معذرت کہ میں نے 30 تک ٹائپنگ کی ذمہ داری لی تھی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر نہ نبھا پائی
اللہ آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!

اب ان شاءاللہ دوبارہ کوشش کروں گی کہ تیس تک مکمل کر دوں۔
ان شاءاللہ۔

اس دھاگے میں جب بھی آنا ہو گا محترم نایاب کی یاد آئے گی خدا ان کے درجات بلند کرے آمین
آمین!
 

غدیر زھرا

لائبریرین
19

اورنگ زیب 5/ جمادی الاُخرٰی کو برہان پور سے اکبر آباد کی طرف روانہ ہؤا غرّۂ رجب کو موضع مانڈو میں داخل ہؤا۔ ان دنوں شاہ نواز صفوی کی نیّت میں فرق واقع ہؤا۔ وہ لشکر کے ہمراہ نہ آیا۔ اور برہان پور میں رہ گیا۔ وہاں سے آنے میں بہانہ بنا کے دفع الوقتی کرنے لگا۔ اورنگ زیب کے نزدیک اس کا لشکر کے ساتھ نہ چلنا صلاح کار و مصلحت کے خلاف تھا۔ اس نے شاہزادہ محمد سلطان کو شیخ میر کے ساتھ برہان پور بھیجا کہ اس کو دستگیر (قید) کر کے قلعہ برہان پور میں مقیّد کرو۔ ان دونو نے جا کر اس کو اپنے گھر سے سوار کرا کے قلعہ میں قید کر دیا۔ اور خود اُلٹے اورنگ زیب کے پاس چلے آئے۔ اورنگ زیب متواتر کوچ کر کے دریاے نربدہ کے کنارہ پر آیا۔ دسویں کو اکبر پور سے دریا عبور کیا۔ راہ میں ہر روز بہت امیروں کو منصب و خطاب عطا کئے۔ اس کے پاس چاروں طرف سے رئیس آ آ کے ملتے تھے۔ 20/ کو وہ دیپالپور کے باہر آیا۔ 21/ کو دیپالپور سے کوچ کیا۔ راہ میں مراد بخش اس سے آ کر مل گیا۔ یہ دونوں بھائی موضع دہرمات پور میں آ گئے۔ جوأجین سے سات کروہ پر واقع ہے۔ راجہ جسونت سنگھ و قاسم خاں مع تمام لشکرِ شاہی کے مقابلہ کے عزم سے اورنگ زیب کے لشکر سے ایک کروہ پر مقابلہ میں آئے۔ اورنگ زیب نے نالہ چور ترتیہ کے کنارہ پر خیمہ لگا دیا۔

راجہ جسونت سنگھ کی نقل و حرکت
راجہ جسونت سنگھ اُجین میں آیا تھا۔ شاہجہان نے اس کو مراد بخش کی تنبیہ و تاکید کےلئے مامور کیا تھا۔ جب اس نے سُنا کہ مراد بخش گجرات سے مالوہ کی طرف آ رہا ہے تو وہ قاسم خاں اور سارے لشکر کو لیکر بانس برلہ کی راہ سے لڑنے کے قصد سے مراد کے سد راہ گیا اور کاچر و دو سے تین کوس پر آ کر ٹھیرا۔ جس سے مراد بخش اٹھارہ کروہ پر تھا۔ اور جاسوسوں کو مراد بخش کا قصد معلوم کرنے کےلئے بھیجا۔ اورنگ زیب نے دریاے نربدہ کے گذرگاہوں اور راستوں کا ایسا اعلیٰ
 

غدیر زھرا

لائبریرین
20

انتظام کر رکھا تھا۔ کہ صوبٔہ دکن اور خاندیس کی کوئی خبر راجہ کے پاس نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس کو یہ خبر بھی نہیں ہوئی۔ کہ اورنگ زیب برہان پور سے مالوہ کی طرف چلا ہے۔ وہ صرف مراد بخش سے لڑنے کےلئے آمادہ رہتا تھا۔ جب مراد بخش کو راجہ اور لشکر سلطانی کی آمد کی اطلاع ہوئی اور اس نے دیکھا کہ مجھ میں اس لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں ہے تو وہ اورنگ زیب کی ہدایت و ارشاد کے مطابق جو اس نے اپنی مراسلات میں کی تھی۔ کاچرودہ سے اٹھارہ کروہ کے فاصلہ کی راہ پر اپنی سمت بدلی اور دیپال پور کے نواح میں اورنگ زیب سے آ ملا۔ راجہ جسونت سنگھ نے کاچرودہ میں چار مقاموں کے بعد سنا کہ مراد بخش جس راہ میں آتا تھا۔ اسے بدل کر دوسری راہ کا رُخ کیا۔ اب وہ اس راہ کی تفتیش میں ہؤا اور اب تک اس کو خبر نہ ہوئی کہ اورنگ زیب کا لشکر دریائے نربدا سے پار آ گیا ہے۔
اس عرصہ میں راجہ شیورام گوڑ نے جو مانڈو میں تھا۔ راجہ کے پاس نوشتہ بھیجا۔ جس میں اورنگ زیب کے نربدا سے پار ہونے کا حال مجمل درج تھا اور یہ واقعہ ظہور پذیر ہؤا کہ قلعہ دہار کی فوج جو دارا شکوہ کی طرف سے متعین تھی۔ اورنگ زیب کے لشکر کے قریب آنے سے ڈر کر قلعہ چھوڑ کر بھاگ گئی۔ اور راجہ کے پاس پناہ گزین ہوئی۔ راجہ نے یہ خبر سنکر کاچرودہ میں جس راہ سے آیا تھا۔ اُسی راہ سے بازگشت کی۔ اور جنگ کے ازادہ سے دھرمات پور سے ایک کروہ پر آیا تا کہ اورنگ زیب کے لشکر کا سدِّ راہ ہو۔ اورنگ زیب یہ نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی ہو اور مسلمانوں کا خون ہو۔ دہرمات پور میں آنے سے پانچ چھ روز پہلے اس نے کب رائے ایک فہمیدہ برہمن کو راجہ جسونت سنگھ کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ ہمارا ارادہ جنگ کا نہیں ہے۔ صرف باپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی نیّت ہے۔ تم ہمارے ساتھ بادشاہ کی خدمت میں چلو یا ہمارے سرِ راہ سے ہٹ کر اپنے وطن جودھ پور چلے آؤ۔ نہیں تو لڑائی میں تمہارا بڑا نقصان ہو گا۔ راجہ نے اس پیغام کو کچھ نہ سنا۔ اور جنگ و پیکار کےلئے آمادہ ہو گیا۔ کب رائے کو اُلٹا بھیجدیا
 

غدیر زھرا

لائبریرین
21

جب اورنگ زیب کو یقین ہو گیا کہ لڑنا ضرور پڑے گا۔ تو وہ تدبیر جنگ اور توزک سپاہ میں مصروف ۂوا۔

اورنگ زیب اور راجہ جسونت سنگھ کی لڑائی۔ عالمگیر کی فتح

بروز جمعہ 22/ رجب 1068 ھ 1658ء کو اورنگ زیب نے لشکر توپخانہ اور ہاتھیوں کو آراستہ کیا۔ اور خود ہاتھی پر سوار ہو کر میدانِ جنگ میں آیا۔ شاہزادہ محمد سلطان اور نجابت خاں کو ہراول کا سردار بنایا۔ اور توپخانہ مُرشد قلی خاں کے حوالہ ۂوا۔ مراد بخش کو برانغار کا افسر محمد اعظم کو جرانغار کا سردار بنایا۔ لشکر کی قراولی خواجہ عبداللّٰہ و قزلباش خاں کے سپرد ہوئی اور قلبِ لشکر کی سرداری خود اورنگ زیب نے سنبھالی۔ ان افسروں کے علاوہ اور بہت سے نامی سردار تھے۔ جن کے نام لکھنا طوالت ہے۔ سپاہ کے یمین و یسار کو اورنگ زیب نے آراستہ کیا۔ عالمگیر نامہ میں ہے کہ راجہ جسونت سنگھ اورنگ زیب کے لشکر کی ہیبت سے ایسا خوفزدہ ۂوا کہ اس نے اپنا وکیل اورنگ زیب کے پاس بھیجا۔ اور اپنی بندگی، عجز و ندامت اور سر افگندگی کا اظہار کیا اور یہ پیغام دیا کہ میں حضور کے لشکر سے لڑنے کا دعوےٰ نہیں کرتا۔ بلکہ میرا ارادہ حضور کی ملازمت حاصل کرنے کا ہے غلامی اور اخلاص کے سواء میں کسی اور طریقہ پر چلنا نہیں چاہتا۔ اگر حضور مجھ پر فضل و کرم کر کے نبرد (جنگ) سے باز آئیں۔ تو میں حضور کی آستاں بوسی کروں۔ اورنگ زیب نے اس کا اعتبار نہیں کیا۔ جواب دیا۔
"ہم جنگ میں توقف نہیں کرتے۔ اگر تم سچے ہو تو لشکر سے جدا ہو کر تنہا نجابت خاں کے پاس جاؤ، وہ تم کو شاہزادہ محمد سلطان کے پاس لے جائیگا۔ اور وہ میرے پاس تم کو پہنچا دیگا۔ اس وقت میں تمہارے جرائم معاف کر دونگا"۔
لیکن راجہ یہ کب سنتا تھا۔ وہ جنگ پر مستعد ۂوا۔ قاسم کو ہراول کا سردار بنایا اور اس کے ساتھ بڑے بڑے راجپوت راجہ اور مسلمان اُمراء ہمراہ کئے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
22

بہادر بیگ بخشی توپ خانہ کا داروغہ تھا۔ اس کے ہمراہ شاہی لشکر سے آگے توپخانہ بھیجا۔ توران کے نامی سپاہیوں مخلص خاں، محمد بیگ اور یادگار بیگ کو قراول مقررّ کیا۔ مہیش داس گورو گوردہن راٹھور کو التمش متعین کیا اور خود قول میں کھڑا ۂوا۔ افتخار خاں کو میسرہ میں۔ مالوجی، پرسوجی اور راجہ دیبی سنگھ بندیلہ کو لشکر کی محافظت کےلئے مقرر کیا۔ پانچ چھ گھڑی دن چڑھا تھا۔ کہ لشکروں میں لڑائی شروع ہوئی۔ اوّل مقدمٔہ جنگ میں طرفین سے معمولی گولیاں چلنی شروع ہوئیں۔ پھر ہنگامٔہ جنگ گرم ہؤا۔ لشکر آہستہ آہستہ تیر اندازی، بندوق، وبان سے لڑتے ہوئے آگے بڑھے۔ نامی راجپوت مثلاً مکند راؤ، ہاڈھہ، دیال داس، جہالا اور ارجن کور توپخانہ پر گرے اور مرشد قلیخاں کی جان لی۔ ذوالفقار خاں کو زخمی کیا۔ اور توپخانہ سے گذر کر ہراول پر حملہ آور ہوئے۔ شہزادہ نجابت خاں ان سے خوب لڑے۔ مسلمانوں کے تیر و تلواریں ہندوؤں کی پیشانیوں کے صندل اور گردن کے زنار بنتی تھیں۔ ہندوؤں کے تیغ و سنان مسلمانوں کی زرہ و مِغفر چیرتے تھے۔ الغرض جب اورنگ زیب نے اپنے لشکر پر ان راجپوتوں کا غلبہ دیکھا۔ تو وہ خود جنگ پر متوجّہ ۂوا۔ اس نے دشمن کو ہٹایا۔ مراد بخش نے جو برانغار میں صف آراء تھا۔ دائیں طرف سے اعداء کی بنگاہ پر، جو لشکرِ مخالف کے عقب میں تھا۔ حملہ آور ۂوا۔ اور تاخت و تاراج شروع کی،۔ مالوجی، پرسوجی (محافظِ لشکر) تابِ مقاومت نہ لائے اور بھاگنے کا ارادہ کیا۔ دیبی سنگھ نے مراد بخش کے ہاتھی کے پاس آ کر پناہ مانگی۔ مراد نے اس کو اپنے ہمراہ لے لیا۔ غرض راجہ جسونت سنگھ کو ہزیمت ہوئی۔ اور وہ کچھ زخمی راجپوتوں کو ہمراہ لے کر اپنے وطن چلا گیا۔ قاسم خاں اور سارا لشکرِ شاہی فرار ۂوا۔
اورنگ زیب نے اس لشکر کا تعاقب اس خیال سے نہیں کیا کہ اس میں بزدلی سمجھی جاتی تھی۔ اس نے کمال دین پروری اور مسلمانی کے سبب سے حکمدیا۔
"میدانِ وغا (میدان جنگ) میں جو مسلمان ہاتھ آئے۔ اس کی جان بخشی کرو۔ اس کا خون نہ کرو۔ اور مسلمین کی عرض و ناموس کے معترض نہ ہو"۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ صفحہ عبدالصمدچیمہ نے ٹائپ کیا۔
صفحہ نمبر 23

عالمگیر نے اس فتح کا شکریہ الٰہی ادا کیا۔ مراد بخش کو پندرہ ہزار اشرفی اور چار ہاتھ عنایت کئے۔ شاہزادہ محمد سلطان کا نہچزاری نپچزار سوار کا اضافہ منصب کرکے پانزدہ ہزار سے دہ ہزار سوار بنایا۔ اور جن امراء نے اس جنگ میں جانفاشانی کی تھی۔ ان کو بڑے بڑے جاہ، منصب و خلعت انعام ہوئے۔ اور ان کے اضافے کئے۔

اورنگ زیب نے بلدہِ اجین سے باہر تین مقام کئے۔ 2 رجب کو وہ یہاں سے چلا۔ 28 کو کوچ اور تین مقام کرکے 28 شعبان کو حدود گوالیار میں آیا۔ اور بلدہ مذکور کے سامنے خیمہ زن ہوا۔ جب اورنگ زیب گوالیار مٰں داخل ہوا۔ تو داراشکوہ دہول پور میں آیا۔ اس نے ایسی تدبیریں کیں کہ اورنگ زیب کا لشکر چنبل ندی سے عبور نہ کرسکے۔ اکثر مشہور گذرگاہوں پر اس نے توپ خانے اور آلاتِ جنگ نصب کردئے تھے۔ اورنگ زیب نے یہاں کے زمینداروں سے دریافت کرلیا۔ کہ گوالیار سے دائیں طرف بیس کروہ پر بہدوریہ یہ ایسا گذرگاہ ہے کہ جہاں سے لشکر پایاب عبور کرسکتا ہے۔ چونکہ اورنگ زیب کا لشکر کنارہ دریا سے دُور تھا۔ اور گذرگاہِ مذکور غیر مشہور تھا۔ اس لئے داراشکوہ نے اس کی محافظت نہیں کی تھی۔ اورنگ زیب نے خانخاناں بہادر سپہ سالار (قائداعظم) اور صف شکن خاں کو اس گذرگاہ پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا۔ وہ مسلخ شعبان کو چنبل کے کنارہ پر پہنچے اور بے توقف جس طرح باور ہوا آب پر گزرتی ہے۔ عبور کیا اور دریا کے اُس طرف قبضہ کرلیا۔ اور غرہ رمضان کو اورنگ زیب نے مع لشکر کے دریا سے عبور کیا۔

اب اکبرآباد میں شاہجہان کا ماجرا لکھا جاتا ہے۔

داراشکوہ کی نقل و حرکت
اکبرآباد میں شاہجہان کے مرض میں کچھ افاقہ ہوگیا تھا۔ لیکن عارضہ بالکل دفع
 

الف عین

لائبریرین
کیا گوگل ڈاکس میں کھول کر متن کے حصول کی کوشش نہیں کی گئی؟ میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ نئے ََسرے سے ٹائپ کرنے کی بجائے اس او سی آر سے برآمد متن کی تصحیح کر لی جائے
 
Top