عبدالصمدچیمہ
لائبریرین
44
اب جاؤ۔ اور اس اشارہ کے منتظر رہو۔
تو اورنگ زیب نے یہ سمجھ کر کہ میرے قتل کا منصوبہ ہے۔ تو وہ پیٹ کے درد کا بہانہ بنا کے بہت جلد اپنے گھر چلا گیا۔ تیسرے۔ وزیہ درد مصنوعی جاتا رہا۔ مراد بخش نے اس کی بڑی خوشی منائی۔ بھائی نے اس کی دعوت کی۔ خوب ناچ رنگ کیا۔ ایک حسین عورت کو دیکھ کر مراد بخش لٹو ہوگیا۔ اورنگ زیب نے اس وقت پابندئِ اسلام کو بھی سلام کیا۔ بھائی کو شراب پلا کے بالکل بے ہوش کیا۔ اور اس کے امراء کو بھی شراب پی پی کر بیہوش ہوئے۔ اورنگ زیب نے مراد بخش کے ہتھیار اٹھوائے۔ اور اس کے ہاتھ آہستہ آہستہ باندھنے شروع کئے۔ مراد چونکا۔ کچھ آدمیوں کو لاتیں ماریں۔ تو آدمی دوڑے۔ لیکن اورنگ زیب کی اس ڈانٹ کے بتانے سے کہ اگر مراد ذرا ہاتھ یا پاؤں ہلائے۔ تو اس کو بھی قتل کر ڈالو۔ تو یہ سن کر مراد کچھ بکا پھر چپکا ہوگیا۔ اور پاؤں بھی بندھوائے۔ اس کا دلی خیر خواہ شہباز خاں اس قید ہوا۔ کہ وہ ایک خیمہ کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ کہ اس کی رسیاں کاٹ دیں۔ وہ اس کے نیچے دبا اور اُس کے اُلجھیڑے سے نکل نہ سکا۔ گرفتار ہوا۔ اور باقی امراء کو مسلح آدمیوں نے پکڑ لیا۔ انہوں نے اورنگ زیب کی اطاعت قبول کرلی۔ مراد اور اس کا رفیق بہ حفاظت کا مل آگرہ روانہ کئے گئے۔
ظفر نامہ میں درج ہے۔
22 رمضان 1068ھ کو عالمگیر نے آگرہ سے کوچ کیا۔ بہادر گڑھ میں شوال کی 24 کو سامی گھاٹ پر پہنچ کر دو روز قیام کیا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ مراد بخش نے آگرہ سے اب تک کوچ نہیں کیا۔ اور ملازمین شاہی کی ایک جماعت مثلاً ابراہیم ولد علی مردان خاں امیر الامراء وغیرہ نے مراد کی ملازمت اختیار کی۔ اور مواجب و مناصب دہ بست وہ پانزدہ مقرر کرتا ہے۔ تو بہت آدمیوں نے اس کی طرف رجوع کیا۔ بیس ہزار سوار اس کے پاس جمع ہوگئے ہیں۔ اور ظاہر پرست صورت میں منصب کی طمع میں آکر لشکرِ عالمگیری سے جدا ہوگئے ہیں اور اس جا ملے ہیں
اب جاؤ۔ اور اس اشارہ کے منتظر رہو۔
تو اورنگ زیب نے یہ سمجھ کر کہ میرے قتل کا منصوبہ ہے۔ تو وہ پیٹ کے درد کا بہانہ بنا کے بہت جلد اپنے گھر چلا گیا۔ تیسرے۔ وزیہ درد مصنوعی جاتا رہا۔ مراد بخش نے اس کی بڑی خوشی منائی۔ بھائی نے اس کی دعوت کی۔ خوب ناچ رنگ کیا۔ ایک حسین عورت کو دیکھ کر مراد بخش لٹو ہوگیا۔ اورنگ زیب نے اس وقت پابندئِ اسلام کو بھی سلام کیا۔ بھائی کو شراب پلا کے بالکل بے ہوش کیا۔ اور اس کے امراء کو بھی شراب پی پی کر بیہوش ہوئے۔ اورنگ زیب نے مراد بخش کے ہتھیار اٹھوائے۔ اور اس کے ہاتھ آہستہ آہستہ باندھنے شروع کئے۔ مراد چونکا۔ کچھ آدمیوں کو لاتیں ماریں۔ تو آدمی دوڑے۔ لیکن اورنگ زیب کی اس ڈانٹ کے بتانے سے کہ اگر مراد ذرا ہاتھ یا پاؤں ہلائے۔ تو اس کو بھی قتل کر ڈالو۔ تو یہ سن کر مراد کچھ بکا پھر چپکا ہوگیا۔ اور پاؤں بھی بندھوائے۔ اس کا دلی خیر خواہ شہباز خاں اس قید ہوا۔ کہ وہ ایک خیمہ کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ کہ اس کی رسیاں کاٹ دیں۔ وہ اس کے نیچے دبا اور اُس کے اُلجھیڑے سے نکل نہ سکا۔ گرفتار ہوا۔ اور باقی امراء کو مسلح آدمیوں نے پکڑ لیا۔ انہوں نے اورنگ زیب کی اطاعت قبول کرلی۔ مراد اور اس کا رفیق بہ حفاظت کا مل آگرہ روانہ کئے گئے۔
ظفر نامہ میں درج ہے۔
22 رمضان 1068ھ کو عالمگیر نے آگرہ سے کوچ کیا۔ بہادر گڑھ میں شوال کی 24 کو سامی گھاٹ پر پہنچ کر دو روز قیام کیا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ مراد بخش نے آگرہ سے اب تک کوچ نہیں کیا۔ اور ملازمین شاہی کی ایک جماعت مثلاً ابراہیم ولد علی مردان خاں امیر الامراء وغیرہ نے مراد کی ملازمت اختیار کی۔ اور مواجب و مناصب دہ بست وہ پانزدہ مقرر کرتا ہے۔ تو بہت آدمیوں نے اس کی طرف رجوع کیا۔ بیس ہزار سوار اس کے پاس جمع ہوگئے ہیں۔ اور ظاہر پرست صورت میں منصب کی طمع میں آکر لشکرِ عالمگیری سے جدا ہوگئے ہیں اور اس جا ملے ہیں