اسکین دستیاب رقعات عالمگیری

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
24
نہیں ہوا تھا۔ آزار باقی تھا۔ اور ضعف بہت قوی ہوگیا تھا۔ گرمی کا موسم قریب آگیا تھا۔ اکبر آباد کی ہوا بہ نسبت شاہجہان کی ہوا کے بہت زیادہ گرم تھی۔ اور یہاں کے دولت خانہ کی عمارات بہ نسبت شاہجہان کے دولت خانہ کی عمارت وسعت فضا نزہت و صفائی میں کمتر تھیں۔ اس لئے اطباء نے تجویز کیا کہ اکبر آباد میں رہنے سے پادشاہ کے عودِ مرض کا اندیشہ ہے۔ شاہجہان آباد (دہلی) جانا مناسب ہوگا۔ شاہجہان نے بھی دارالخلافہ کا عزم کیا۔ کیونکہ وہاں تابستان میں باغ دبستان اور تسلسل نہر کی طراوات سے راحت نصیب ہوگی۔ داراشکوہ شاہجہان کے سفر پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ اس کو اپنے مطالب کے منافی جانتا تھا۔ لیکن اس پر بادشاہ کی طبع مبارک بہت مائل تھی۔ اور داراشکوہ جانتا تھا کہ راجہ جسونت سنگھ اورنگ زیب کو اُجین سے آگے نہ بڑھنے دیگا۔ اس لئے وہ بھی شاہجہان کے اس سفر پر راضی ہوگیا۔ دہلی روانہ ہوا۔ اور موضع بلوچ پور میں آیا۔ راجہ جسونت سنگھ کے پاس رستم بیگ گزربردار اور یسا دل بیگ گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے آکر شاہجہان کو راجہ کی شکست کی خبر سنالی۔ اس خبر کے سننے سے داراشکوہ کے ہوش اُڑے۔ وہ خود اکبر آباد کو الٹا پھرا۔ نہم ماہ مذکور کو بلوچ پور سے شاہجہان کو بھی منت و سماجت کرکے لے آیا۔ اور سپاہ لشکر اور اسباب نبرد و پیکار کے جمع کرنے میں مصروف ہوا۔ اور جن صویحات اور علاقوں سے منصب داروں اور جاگیرداروں کا آنا ممکن تھا۔ ان کو بلالیا۔ ان کے قلوب کی تسخیر ہیں اور خاطر کی تسلی میں کوشش کی۔ سب کو اپنا ہم داستان بنایا۔ شاہجہان کے سارے عمدہ ملازمین، امراء کو چہ ب زبانی، نرمی۔ ملائمت، نوید احسان و عاریت سے مستمال کیا۔ اور جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ تھوڑے دنوں میں شاہجہان کے نوکروں، قدیم و جدید سپاہیوں کا ایک ابندہ جمع کرلیا۔ جس میں ساٹھ ہزار سوار تھے۔ ان کو قورخانہ شاہی سے ہتھیار جتنے جی چاہا دیدئے۔ کل توپ خانہ و جنگی ہاتھی اس کے ساتھ کئے۔ خزانہ کے منہ کھول دیے۔ جتنا زرسپاہ میں پریشان کیا۔ اتنا ہی اپنی پریشانی کے لئے سامان فراہم کیا۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
25
داراشکوہ محمد امین خاں کو قید کرتا ہے

سب سے زیادہ اس کا ناصواب کام یہ تھا کہ اس نے معظم خاں کے بیٹے محمد امیں کو قید کیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے:
اورنگ زیب نے معظم خاں کو بیجاپور کی حدود میں اس لئے چھوڑا تھا۔ کہ وہ ایک کروڑ روپیہ کی پیشکش لے آئے۔ جو اس کے مراجعت کے شکرانہ میں عادل خاں نے دینی قبول کی تھی۔ داراشکوہ نے عادل خاں و ارکانِ دولت بیجاپور کو ایسا کچھ لکھا کہ اورنگ زیب کا یہ مطلب دلخواہ نہ ہونے دیا۔ اور اس کے کام کو تاخیر میں ڈال دیا۔ اس نے شاہجہان کے حکم سے باقی لشکر کو جو ان حدود میں تھا۔ ہمراہ لے کر اورنگ زیب میں آیا۔ تاکہ یہاں سے شاہجہان کے دربار میں جائے۔ مگر اس کے نہ جانے کو اورنگ زیب نے منافی مصلحت اس سبب سے جانا کہ دکن زیادہ خیرہ سر ہوجائیگا۔ معظم خاں نے شاہجہان کے حکم کی تعلیم میں جب تقاعد کرنا نہ چاہا تو اورنگ زیب نے معظم خاں کو قید کرکے دکن میں محفوظ رکھا۔ داراشکوہ کو جب یہ خبر معلوم ہوئی تو اس نے بداندیشی و بدگمانی سے شاہجہاں سے اس مقدمہ کو اس پیرایہ میں گوش گزار کیا کہ اورنگ زیب و معظم خاں نے اتفاق کرکے سازش کی ہے۔ اس لئے اس کے بیٹے محمد امین خاں کو جو میر بخشگیری سلطنت تھا۔ داراشکوہ نے اپنے گھر بلا کر امور غیر واقع سے مُتہم کراکے قید کردیا۔ شاہجہان کو تین چار روز کے بعد خاں مذکور کی بے گناہی اور حقیقتِ حال کی اطلاع ہوئی۔ اس نے داراشکوہ سے خود ہی اس کے حکم کو منسوخ کرکے اس کو رہا کرایا۔ شاہجہان یقینی جانتا تھا۔ کہ داراشکوہ اورنگ زیب سے لڑ کر خراب ہوگا۔ اور اپنے بخت و دولت کے پاؤں میں آپ کلہاڑی مارے گا۔ وہ صلح و صلاح کا مشورہ دیتا اور سمجھاتا۔ کہ بیٹا بھائی سے نہ لڑ۔ لیکن داراشکوہ اپنی لشکر کشی اور سپہ آرائی سے باز
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
26

نہ آتا تھا۔ ان دنوں شاہجہان کے ہاتھ سے سر شتہ اختیار و اقتدار جاچکا تھا۔ وہ منع و زجر پر قادر تھا۔ ناچاراس کا ساتھ دینا پڑا۔

دریاے چنبل پراورنگ زیب کے لشکر روکنے کے لئے داراشکوہ کا فوج بھیجنا

12 شعبان کو دارا شکوہ نے خلیل اللہ خاں کو برہم منقلا پہلے روانہ کیا اور بعض امراء وسپا کو اس کے ہمراہ کیا کہ ووو هولپور جا کر اس کے آنے تک اقامت کرے اور دریائے چنبل کے گھاٹوں پر توپ خانہ نصب کرکے مزید سپاه محافظت کےلئے مقرر کرے۔ ۲۵ شعبان کو اکبرآباد سے خود سارے لشکر اور اپنے چھوٹے بیٹے پرشکوہ کو ہمراہ لے کر برآمد ہوا۔ اور پانچ منزلیں طے کر کے دھول پور میں آیا ۔ اس علاقہ کے زمینداروں کی دلالت سے دریا کے گزرگاہوں کا انتظام کیا۔ اور جہاں مخالف کے پایاب ہوکر عبور کرنے کا گمان بھی تھا۔ وہاں بھی بندوبست کیا۔ اس کو یہ انتظار تھا کہ اس کا بڑا بیٹا سلیمان شکوہ اور اس کا لشکر اس سے آملے۔ اس نے ان کو طلب کیا تھا۔ وہ جلد چلے آتے تھے۔ اس لئے اس کی رائے میں یہ آیا تھا۔ کہ ان کے آنے تک اس کار زار صف آرائی میں چند روز دفع الوقت کرے۔ لیکن اورنگ زیب کے عبور ہونے کا یہ دریا کیسے مانع ہوسکتا تھا۔ اس نے عبور کیا جس کا بیان اوپر ہوا۔ تو دارا شکوہ اس لشکر سے لڑنے کیلئے دھولپور سے روانہ ہوا۔ اور راجپورہ آیا (اکبر آبادسے دس کروہ پر ہے)دریائے جمنا پر ایک قطعہ زمین جنگ کے لیے تجویز کیا گیا۔ یہاں خیمے ڈالے۔ اور فوج کی ترتیب میں مصروف ہوا۔ اس وقت بھی شاہجہان نے اس کو نصیحت کی کہ جنگ و ستیز سے باز آؤ۔ مگر اس نے نہ سنا۔ گو اس وقت شاہجہان پر ضعف کا استیلا و قوا کا ضعف تھا۔ گرمی کی تیزی اور ہوا کی حرارت کی شدت تھی۔ مگر اس نے ارادہ کیا کہ دریا کی راہ سے اس لشکر گاہ میں خیمہ گاہ نصب کرکے بھائیوں کی جنگ کی آگ کو بجھائے۔ منازعت کو مٹائے۔ مصالحت کرائے۔ اس عزم سے پیش خانہ بھیجا اور
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
27

حکم دیا کہ دونوں لشکروں کے درمیان خیمہ گاہ کھڑا کرو۔
اور پیچھے خود بھی سوار ہونے کا ارادہ تھا۔ داراشکوہ جانتا تھا کہ شاہجہان کے جانے سے مصالحت ہوجائیگی جن کو وہ پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لئے وہ شاہجہان کے جانے پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے حیلے حوالے کرکے اس کام کو جھمیلے میں ڈال دیا اور جنگ و بیکار میں جلدی کی۔ جس کا سرانجام اس کے حق میں جو ہوا وہ بیان کیا جاتا ہے۔

اکبر آباد کے قریب داراشکوہ اور اورنگ زیب کی لڑائی
دارا کا شکست پا کر دہلی بھاگنا اور دہلی سے لاہور جانا


اورنگ زیب نے دریائے چنبل عبورکرکے دو روز قیام کیا۔ تاکہ سپاہ لشکر نے جو مسافتِ بعدیدہ طے کی تھی۔ آرام پائے۔ جب اس نے سنا۔ کہ دھول پور سے داراشکوہ لڑنے کے قصد سے آتا ہے تو 4 رمضان کو وہ چنبل کے کنارہ سے چلا۔ 6 کو داراشکوہ کے لشکر سے ڈیڑھ کوس پر آکر مقیم ہوا تاکہ دشمن کے لشکر کی حقیقت اور اس کے فساد کی عزیمت معلوم ہو۔ اسی روز اورنگ زیب کا لشکر قریب آیا۔ داراشکوہ صف آرائی کرکے جنگ کے عزم سے سوار ہوکر اپنے لشکر گاہ سے آگے بڑھا۔ لوئیں آگ برسا رہی تھیں۔ زمین شعلے اُٹھارہی تھی۔ گرمی کےغلبہ سے پیاس کی شدت اور کمیابی آب سے آدمی سراب عدم میں چلے جارہے تھے۔ اس کے لشکر کو نہایت تکلیف ہوئی۔ اور شام کو بغیر لڑے اُلٹا چلاگیا۔ اُس دن اورنگ زیب کا لشکر بھی پانچ کوس گرمی کی شدت جلتی دھوپ اور پانی کی قلت میں آیا تھا۔ اُس نے اس سبب سے آج لڑنا مناسب نہ سمجھا اور لشکر گاہ میں مقیم ہوا اور حکم دیا "رات کی خبرداری کے لئے مورچل قائم ہوں اور چوکی پہرے سارے لشکر میں تقسیم ہوئی۔ اور محافظت کی شرائط ادا ہوں"۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
28

عالمگیر کے اس حکم سے لشکر کے سردار اور سپہدار احتیاط و بیداری کے لوازم بجا لانے اور صبح کے منتظر رہے۔ جب صبح ہوئی تو اورنگ زیب نے لشکر آراستہ کیا۔ توپخانہ اور جنگہ ہاتھیوں کو آگے روانہ کیا۔ شاہزادہ محمد سلطان کو خانخاناں بہادر کے ساتھ ہر اول کا سپہ سالار بنایا۔ اور شہزادہ محمد اعظم کو برانغار کی سرداری سپرد ہوئی۔ جرانغار مراد بخش کے حوالہ ہوا۔ التمش کی سرداری شیخ نمیر کو مُغوض ہوئی۔ دستِ راست کی طرح بہادر خاں کو حوالہ ہوئی۔ اور دستِ چپ کی طرح خان دوران خاں کو اور خواجہ عبداللہ بیگ کو قراولی اورنگ زیب ہاتھی پر سوار ہوا اور بیٹے محمد اعظم کو اپنے ساتھ بٹھالیا۔ اور قول میں رونق افروز ہوا۔ اورنگ زیب کو یہ تجربہ سے معلوم ہوگیا تھا کہ تائید پروردگار و آفریدگار، ثباتِ قدم و استقلال پر فتح و ظفر موقوف ہے۔ اس لئے وہ غنیم کے کثرتِ لشکر سے خائف نہیں ہوتا تھا۔ 7 رمضان کو یہ لشکر اسی میدانِ جنگ میں گیا جو پہلے تجویز ہوا تھا۔

داراشکوہ کی ترتیب افواج اس طرح تھی کہ دستِ راست کی طرف تو اس کا اپنا توپ خانہ برق انداز خاں میر آتش کے اہتمام میں اور دستِ چپ میں توپخانہ شاہی حسین بیگ خاں کی سرداری میں لشکر کی صفوں کے آگے کھڑے کئے تھے۔ رائو ستر سال کو ہر اول کا سردار بنایا اور دائود خاں خویشگی کو چار ہزار سواروں کے ساتھ اس کا ضمیمہ کیا۔ خلیل اللہ خاں کو ہر اول سپرد کی۔ اور اپنے بیٹے پہرشکوہ کو رستم خاں کے ساتھ جرانغار کا سپہ سالار بنایا۔ اور خود قول میں رہا۔ قول کے یمین و یسار میں خود میمنہ کا سردار ظفر خاں کو اور فوجِ میسرہ کا سردار فاخر خان نجم ثانی کو مقرر کیا۔ پھر دن چڑھے لڑائی شروع ہوئی۔ دونوں طرف سے اول بان توپ و تفنگ چلے۔ آتشِ حرب جب اور زیادہ تیز ہوئی اور دونوں لشکر قریب آئے تو تلوار سے لڑائی شروع ہوئی۔ جرانغار کے سردار سپہر شکوہ اور رستم خاں اورنگ زیب کے توپ خانہ کے بالمقابل آئے توپوں کی مار سے وہ پیچھے ہٹے۔ رستم خاں کی فوج کے ایک ہاتھی کے گولہ لگا۔ جس سے وہ گر پڑا۔ جب سپاہ نے دیکھا کہ
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
29

توپ خانہ کے استحکام کے سبب سے کام نہیں چل سکتا۔ تو وہ یہاں سے پھر کر مخالف کے برانغار پر جھُکے۔ اور بہادر خاں سے لڑائی شروع ہوئی۔ وہ زخمی ہوا۔ اس کے ہمرایوں میں سے سید دلاور خاں اور بادی داؤ خاں کشتہ ہوئے۔ غنیم کی فوج عظیم تھی۔ برانغار کی سعی سے وہ دفع نہ ہوسکی ۔ قریب تھا کہ برانغار میں لغزش آئے کہ شیخ میر فوج التمش کے ساتھ اس کی کمک کوآیا۔ اس نے دشمن کو پرے ہٹایا۔ اس جنگ میں رستم خاں جنگ رستمانہ کرکے تیر قضا کا ہدف ہوا۔ سپہر شکوہ بھاگ گیا ۔ اورنگ زیب کے نرانغار میں سے حسن منش، سیف خاں، غریب بیگ محمد صادق و ممریز مہند زخمی ہوکر کشتہ ہوئے۔ اس کے بعد داراشکوہ قول اول التمش کی فوج لے کر اورنگ زیب کے توپخانہ ہر اول کے روبرو آیا۔ لیکن مقابلہ میں ٹھہر نہ سکا۔ دستِ راست کی طرف گیا۔ مراد بخش سے جوبرانغار میں تھا۔ جا ٹھہرا۔ خلیل اللہ خاں پھر برانغار کی فوج پر حملہ آور ہوا۔ اور اس کے لشکر اورنگزیب نے دلیری و مردانگی کی داد دی۔ اور راجپوتوں نے بھی بڑی جلادت دکھائی حتی کہ رائو ستر سال باڈھ۔ رام سنگھ راٹھور۔ بھیم پسرر راجہ میتھلداس کور۔ راجہ سیورام برادر زادہ راجہ مذکور اور بہت سے دلیر و نامور راجپوتوں کی جماعت اورنگ زیب کے بہت قریب آگئی۔ اور بہت سے دلیر و نامور راجپوتوں کی جماعت اورنگ زیب کے بہت قریب آگئی۔ اور راجہ روپ سنگھ اور اورنگ زیب کی سواری کے ہاتھی کے قریب گھوڑے سے اتر کر حلاوت و بہادری کے کام کرنے لگا۔ اورنگ زیب نے اس کی یہ بہادری دیکھ کر اپنے سپاہیوں کو اس کے قتل کرنے سے منع فرمایا اور زندہ پکڑنے کا حکم دیا۔ مگر افسر اس کی گستاخی کے متحمل نہ ہوئے۔ انہوں نے اسے مار ڈالا۔ یہ واقعہ اورنگ زیب کے رحم و مروت پر شہادت دیتا ہے کہ جو شخص اس کے قتل کرنے کے قصد سے آئے۔ اس پر وہ عنایت فرمائے۔ اورنگ زیب بھی عجب مروت کیش۔ رحم گستر و فتوت آئین عفوپرور تھا کہ اس کا قہر مہر کے ساتھ رہتا اور اس کا غضب لطف سے دمساز تھا۔ اپنی حسن نکوئی اور لطف خوشی کے سبب سے سب وقت کینہ جو مخالفوں کو رجوع پر آمادہ اور عین جنگ میں بخشائش و رافت سے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
30

پرخاش جو دشمنوں کے لئے درِ صلح کشادہ رکھا تھا۔ جب داراشکوہ نے دیکھا کہ رستم خاں، رائو سترسال اور عہدہ راجپوت جو اس جنگ میں اس کے قوتِ بازو تھے ہلاک ہوئے۔ تو اس نے کچھ تھوڑی دیر اور کوشش کی۔ کہ دفعۃً اس کا دیوان محمد صالح جس کو وزیر خاں کا خطاب دیا گیا تھا۔ مارا گیا اور اعلیٰ افسروں کی ایک جماعت قتل ہوئی اور اس کی سواری کے قریب چند بان متواتر مخالفوں کے لشکر سے آکر پڑے تو پھر وہ میدانِ جنگ میں ٹھہر سکا۔ باوجود یہ کہ اس کے پاس ایک فوج موجود تھی اور لڑائی ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ بھاگ گیا اور بہت ہراس و بیدلی سے ہاتھی سے اتر کر بے براق و سلاح ننگے پاؤں گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس حرکت و اضطراب بے ہنگام سے اس کا لشکر پراگندہ و پریشان ہوا۔ اس حال میں ایک خدمتگار اس کی کمر میں ترکش باندھتا تھا ک ہوہ تیر لگنے سے مرگیا تو وہ اور خوفزدہ ہوا۔ وہ بھاگا اور اس فرار میں اس کا بیٹا سپہر شکوہ بھی آملا۔ داراشکوہ کو شکست اور اورنگ زیب کو فتح ہوئی۔ اگرچہ اورنگ زیب نے اپنے لشکر کو تعاقب کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر بھی اکبر آباد تک جو دس کروہ تھا۔ ہر قدم پر زخمی سپاہی مردہ پڑے تھے۔ اس جنگ میں بہت آدمی مارے گئے۔ اور بڑے بڑے امیروں نے جو ریاستوں کے مالک تھے۔ خاکِ ہلاک پر عدم کی راہ لی۔ داراشکوہ اپنے چھوٹے بیٹے سپہر شکوہ کے ساتھ بھاگ کر اکبر آباد آگیا۔ اور اپنے گھر میں جا کر اُترا۔ خجالت و شرمساری کے سبب سے کسی آشنا و بیگانہ سے نہ ملا۔ خوف کے مارے باپ کے سامنے نہ گیا۔ باپ کو کیا منہ دکھاتا وہ پہلے ہی اس ناز پروردہ کی حقیقت کو جانتا تھا۔ اورنگ زیب کو خوف پہچانتا تھا اس لئے داراشکوہ کو اس کے مقابلہ سے منع کرتا تھا۔ اگر داراوالد کے کہنے پر چلتا تو کیوں یہ ذلت خواری اُٹھاتا۔ تین پہر رات تک یہاں ٹھہرا۔ آکر شب میں اپنے گھر سے راہِ فرار اختیار کی۔ بیوی اور لڑکی اور بعض اہلِ حرم کو ساتھ لیا۔ اور کچھ جواہر، مرصع آلات، سونا اور اشرفیاں جو اس اضطراب و سراسمیگی میں ہاتھ لگے۔ ساتھ لے گیا۔ اندھیری رات میں پہر سپہر شکوہ اور بارہ سوار اکبر الہ آباد سے اس کے ہمراہ تھے۔ وہ
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
31

اس کے ساتھ دہلی گئے۔ لیکن اس کے بعد اس کی سپاہ شکستہ جس میں کچھ زخمی کچھ گرمی کے مارے تھے۔ اُس سے جاکر ملے۔ اس طرح پانچ ہزار سوار اس کے پاس جمع ہوگئے۔ اس کے بعض فوجی کارخانے بھی اس کے پاس پہنچ گئے۔ مگر اکثر ملازمین اس سے جداہوکر اورنگ زیب سے جاملے۔ جن کو اس نے مناسب مناصب دئے اور پر نوازش کی۔ اور اکبر آباد میں دارا کا اکثر خزانہ و جواہر مرصع آلات و کارخانہ جات و گھوڑے و ہاتھی اور تمام اسباب حشمت و تجمل رہ گیا تھا۔ اس کے پاس نہ پہنچ سکا۔

اس لڑائی میں یہ امر قابلِ غور ہے کہ اکبر کی اس تدبیر سے کہ راجپوتوں کے ساتھ رشتہ ہو اور اس قوم پر از حد نوازش اور ان کی تربیت کی جائے۔ راجپوتوں کو مسلمانوں کے ساتھ اور مسلمانوں کو راجپوتوں کے ساتھ ایسی محبت ہوگئی کہ مسلمان اپنی سلطنت کے فیصلے کرتے وقت ان کو اپنا شریک بناتے اور وہ شریک ہوکر اس کا فیصلہ کراتے تھے۔

جب اورنگ نے اعداء کو شکست دی تو اس نے خدا کی درگاہ میں شکریہ ادا کیا۔ اور افواج کو ہمراہ لے کر مخالفوں کے لشکر گاہ میں گیا۔ دشمنوں کی منزل گاہ میں غارت اور تاراج کی جاروب نے صفائی کردی تھی۔ لیکن داراشکوہ کا خیمہ اپنی جگہ کھڑا تھا۔ اورنگ زیب کا جب تک اپنا خیمہ دولتخانہ نہ آیا وہ اس خیمہ میں ٹھہرا۔ امراء و رفیع القدر اور اخلاص شعار تسلیم مبارکباد اور آدابِ تہنیت بجالائے۔ مراد بخش کا چہرہ زخموں سے گلرنگ ہورہا تھا۔ اورنگ زیب نے اول زخموں پر اپنی رحمت و لطافت کے ساتھ اپنے لطف و نوازش کا مرہم رکھا۔ پھر باہر جراح اور تجربہ کار اطباء علاج کے لئے بھجوائے۔ جب عالمگیر کا خیمہ آگیا۔ تو وہ کھڑا ہوا اور کام بخشی و عطاگستری کی مراسم ادا ہوئیں۔ اور جن امراء اور افسروں نے اس جنگ میں کوشش و جانفشانی کی تھی۔ اور جوہر مردمی و شجاعت و گوہر اخلاص ارادت دکھائے تھے۔ ان پر شاہانہ مہربانیاں ہوئیں اور ہر شخص کو اُس کے رتبہ و قدر
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
32

کے موافق عطیات عنایت ہوئے۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرائی۔ کشتوں (مقتولین) کو خاک سے اٹھایا۔ دوسرے روز شگار گاہ سمدگڈھ میں آیا۔ جمنا کے کنارہ پر مکانات میں اُترا اور اُسی روز باپ کی خدمت میں معذرت نامہ بھیجا۔ جس میں صورت حالات وصف آرائی کا اعذار اور بحکم شرع و فتوے داراشکوہ سے جنگ کا سبب نہایت ادب کے ساتھ لکھ کر بھیجا۔ اُسی دن محمد امین خاں پسر معظم خاں اس کی خدمت میں آیا پھر اور بہت بڑے بڑے افسر امراء حاضر خدمت ہئے۔ اور انہوں نے بڑے بڑے انعام، خلعت و خطاب پائے۔ 10 رمضان کو اورنگ زیب سموگڈھ سے باغِ دلکشا نور منزل میں داخل ہوا۔ یہاں اورنگ زیب کے معذرت نامہ کا جواب شاہجہان نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر فاضل خاں میر ساماں کے ہاتھ بھیجا۔ اور سید ہدایت اللہ صدر کربہی اسکی رفاقت میں روانہ کیا۔ انہوں نے باغ نور منزل میں شاہجہان کا یہ صحیفہ پیش کیا۔ اور وہ مقدمات جن کے لئے وہ مامور تھے۔ گذارش کئے۔ اورنگ زیب نے ان کو خلعت دے کر رخصت کیا۔ دوسرے روز شاہجہان کے حکم سے یہ دونوں آدمی اورنگ زیب کے پاس آئے اور شاہجہان کی طرف سے ایک شمشیر موسوم بہ عالمگیر پیش کی۔ اس کے بعد شاہجہانی امراء اور افسران اعلیٰ کا تانتا بندھ گیا۔ شہر کے باہر اس کے ٹھہرنے سے اہلِ شہر پریشان خاطر تھے۔ اورنگ زیب نے سُنا کہ مراد بخش کے ملازمین میں نظم و نسق مفقود ہوچکا ہے۔ اور وہ خود سر ہورہے ہیں۔ ان میں سے بعض حکم کے برخلاف شہر میں جاکر دستِ تعدی دراز کرتے ہیں۔ اس سبب سے قریب تھا کہ شہریوں اراذل و ادباش ایک آشوب برپا کرتے۔ اور فساد کا ہنگامہ گرم ہوتا۔ اور خلائق کی آسائش و آرائش میں فتور آتا۔ اورنگ زیب نے اپنے بیٹے محمد سلطان کو کچھ فوج دے کر حکم دیا۔ کہ شہر میں جاکر انتظام کرو۔ حسب الحکم 12 رمضان کو محمد سلطان اور خانخاناں بہادر سپہ سالار شہر میں داخل ہوئے۔ اور اہل شہر کو امن و امان کا مژدہ سنایا۔ لطف و احسان کی نوید دی۔ اور خوب انتظام کروایا۔ اب بڑے بڑے امیر اورنگ زیب کی خدمت میں آتے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
33

جاتے تھے اور منصوبوں اور جاگیرداروں پر سرفراز ہوتے تھے۔ داراشکو کی چکلہ داری میں متھرا تھا۔ داراشکوہ کی پر گندگی کے سبب سے اس میں واقعہ طلب مفسدوں نے فساد مچا رکھا تھا۔ اورنگزیب نے جعفر خاں ولد اللہ وادی خاں کو اس چکلہ کی فوجداری و نظمِ مہمات سپرد کی۔ 17 کو اورنگزیب نے محمد سلطان کو حکم دیا۔
دادا کی خدمت میں جاؤ۔
وہ حسب الحکم قلعہ میں دادا کی خدمت میں گیا اور باپ کی طرح آداب و کورنش بجا لایا۔ 19 کو شاہجہاں کے حکم سے بیگم صاحب باغ نورمحل میں اورنگزیب کے پاس آئیں۔ اب روزبروز اورنگزیب کے دربار کی رونق زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ رائے رایاں جوسرِ دفتر اہل دیوان تھا۔ مع کل دیوانی مقصد یوں اور کل زمرہ اہلِ قلم و ارباب محاسبات کے حاضر ہوا۔ اور مراتب ملک و مال جن میں اس مدت میں فتور واختلال آگیا تھا کی فہرست پیش کی۔ ان کے باب میں اس نے حکم دیئے غرہ رمضان سے 21 تاریخ تک ایک جمع کثیر اس کے مراحم وعنایات شہنشاہی سے کامیاب و بحرہ ور ہوئی۔ منجملہ اُن کے شاہزادہ محمد سلطان کو جیغہ و خنجر مرصع علاقہ مروارید کے ساتھ اوردو زنجیر فیل مرحمت ہوئی اورمراد بخش کو خزانہ سے چھبیس لاکھ روپیہ عطیہ کیا۔

داراشکوہ کی نقل وحرکت
14رمضان کو دارشکوہ اپنے پانچ ہزار سواروں کے ساتھ دلی میں وارد ہوا۔ بعد مئورخ لکھتے ہیں کہ یہ سوار شاہجہان نے اس کے پاس بھیجے تھے۔ اور وہ پرانی دلی میں ایسا اترا جیسے کہ ویرانے میں اُلو۔ اورنگزیب نے اس کے تعاقب کے واسطے کوئی لشکر نہیں متعین کیا تھا۔ وہ خود اکبر آباد میں مقیم تھا کہ دارا شکوہ دہلی میں توقف کرکے پھر لشکر و سپاہ کا سامان تیار کرنے لگا۔وہ کارخانہ خاصان شاہی کی اشیاء، اموال، گھوڑوں اور ہاتھیوں پر امراء کے نقد و جنس متعدد ذخائر پر
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
34

جس کا جو مال ہاتھ آیا اس کو ہضم کیا۔ اس نے سلیمان شکوہ کے لشکر کو طلب کیا تھا۔ وہ پٹنہ سے چلا آ رہا تھا۔ اس نے ان اُمراء کو جو اس لشکر کے ساتھ تھے۔ لکھا تھا۔ کہ وہ جمنا کے اس طرف سے دلی کی سمت میں بہت جلد آ کر مجھ سے ملیں۔ وہ بیٹے کے لشکر کا انتظار کر رہا تھا۔ اور یہ سمجھتا تھا کہ اس لشکر کے آنے کے بعد دونوں لشکر یکجا ہو جائیں گے تو دوبارہ صف آرائی کی صورت نکل آئے گی وہ مدت سے جانتا تھا کہ امراء اور دلایات کے حکام کو بھیج کر اغوا کرتا تھا تاکہ وہ اورنگزیب کی نافرمانی مخالفت کریں۔ اور اطاعت نہ کریں ان کو اپنی طرف دعوت دیتا تھا جو امراء اورنگزیب کے ساتھ خالص عبودیت نہیں رکھتے تھے۔ ان کی اوضاع و حرکات سے اورنگزیب کو معلوم ہو جاتا تھا کہ داراشکو کا لکھنا ان پر اثر رکھتا ہے۔ داراشکو پوشیدہ نوشتے شاہجہان کی خدمت میں بھیج کر اس کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا تھا۔ کیونکہ انسان کی نہاد میں یہ امر داخل ہے کہ وہ نقوش وساوس کو اور آثارِ تخیلات کو قبول کرتا ہے۔ خصوصا جو نیک خواہی اور خیر اندیشی کے لباس میں غلط نما ہوکر خِرد آشوب و دانش قریب ہو۔ شاہجہان کے بعض اطوار سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ داراشکو کی محبت و طرفداری کو دور نہیں کر سکتا۔ جب حضرت شاہ جہاں نے افضل خان کے ہاتھ یہ فرمان بھیجا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
اے میرے فرزند! میں تیری صورت دیکھنے کو ترستا ہوں۔ مدت کے بعد اب تو یہاں آیا ہے امتداد فراق سے اشتیاق زیادہ ہوگیا ہے اللہ کی عنایت سے میں نے دوبارہ زندگی پائی ہے تو میرے پاس آ کر سعادت قدمبوسی حاصل کر
اورنگزیب نے اس کا جواب یہ لکھا
میری بڑی خوش نصیبی ویاوری اقبال ہے۔ کہ حضور نے مجھے یاد فرمایا۔ اب
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
35

میں حضور سے اس امر کا امیدوار ہوں۔ کہ میری حاضری کے واسطے کوئی ساعت مسعود قرار دی جائے۔
شاہجہان اس عرضداشت کو سن کر بڑا خوش ہوا۔ مگر اورنگزیب دل سے چاہتا تھا کہ میں باپ کے ساتھ جاؤں۔ اور مراسمِ اخلاص عقیدت بجالاؤں۔ اور خاطر اشرف کے استرضا میں کوشش کرو اگر شاہجہان کے دل میں اس کی طرف سے کچھ غبار ہوں تو اس کو بالمشافہ بے توسط اغیار آستین اعتذار سے پوچھوں۔ تاکہ بالکل حجاب رفع ہوجائے۔ اور صفائی ہو جائے لیکن شاہجہان دل سے داراشکوہ کی اصلاح حال کا متمنی نہ تھا۔ اور اس کی طرف توجہ جاب باطنی تھی جو کچھ وقوع میں آیا تھا وہ اس کے مطلوب کے منافی تھا اس لیے اورنگزیب نے باپ سے ملنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ داراشکو دلی میں لڑنے کا سامان تیار کر رہا ہے تو اس نے اس کے شر کے دفع کرنے کو سب کاموں پر مقدم سمجھا۔

عالمگیر کی نقل وحرکت اکبرآباد سے دہلی میں
جب اورنگزیب کا ارادہ شاہجہان آباد کے جانے کا ہو گیا تو اس نے شاہزادہ محمد سلطان کو ایک لشکر دے کر دار الخلافہ اکبرآباد میں متعین کیا اور اسلام خان کو اس کا اتالیق بنایا۔ فاضل خاں کو شاہجہان کی خدمت کے لیے اور مہمات بیوتات کی پرداخت کے واسطے اور کارخانہ جات خاصہ کے بندوبست کے لیے مقرر کیا۔ ذوالفقار خاں کو قلعہ کی حراست سپرد کی اور مقرب خاں جس نے شاہجہان کے معالجہ میں بڑی کوشش کی تھی اور اس کے مزاج سے آشنا ہو گیا تھا کو حکم دیا
شاہجہان کی بقیہ کوفت کا علاج اور صحت مزاج کی تدبیر کرو۔
اس کو تین ہزار اشرفیاں انعام دیں اور خلعت عطا کیا۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
36

22 رمضان کو اورنگ زیب نے شاہجہان آباد کا رخ کیا۔ اس تاریخ میں شاہزادہ محمد اعظم باپ کے حکم سے دادا کی خدمت میں گیا۔ اور پانچ سو مہر اور چار ہزار روپے بطریق نذارنہ گزارے۔ دادا پوتے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور اس کو گلے لگایا۔ بہت عنایت کرکے اس کو رخصت کیا۔ داراشکوہ کو معلوم تھا کہ اورنگ زیب دہلی آئیگا۔ اور اس کے بیٹے سلیمان شکوہ جس کا انتظار وہ دہلی میں کررہا تھا۔ راہ میں روکے گا۔ اور مجھے سے ملنے نہیں دیگا۔ اس لیے اس نے جب سنا کہ اورنگ زیب دہلی آتا ہے۔ تو وہ 21 رمضان کو لاہور کو روانہ ہوا اور اپنا حال سلیمان شکوہ اور اس کے اتالیق باقی بیگ کو جس کا بہادر خاں خطاب تھا۔ لکھ بھیجا۔ اور یہ ہدایت کی کہ اگر ہوسکے تو جمنا کے اس طرف سے بوریہ سہارنپور کی راہ سے بہت جلد سرہند یا لاہور میں آجاؤ۔ داراشکوہ کی طرف سے سید قاسم خاں الہ آباد کا صوبیدار تھا وہ اورنگ زیب کی اطاعت سے منخرف تھا۔ برسرِ فساد تھا۔ اس لئے اورنگ زیب نے خان دوران خان کو لشکر کے ساتھ الہ آباد روانہ کیا۔ اور حکم دیا کہ اگر قاسم خاں اطاعت کرے تو اس کو ہمارے پاس بھیج دو۔ اور ا گر سرکشی پر آمادہ ہو اور قلعہ حوالہ کرنے سے انکار ہی ہو تو قلعہ کو فتح کرو۔ مرادآباد کی محال قاسم خاں کو عطا کی اور اس کو وہاں روانہ کیا۔ ارادت خاں کو اودھ کا صوبیدار مقرر کیا۔ عبدالغنی خاں کو اٹاوہ کا فوجدار متعین کیا۔ اسی طرح سے اور قلعہ دار، فوجدار اور صوبیدار مقرر کئے۔ امراء کو ہزاروں روپے انعام دیے۔ خانجہاں کو جس کو شاہجہاں نے داراشکوہ کی شکست کے بعد جاگیر و منصب سے معزول کیا تھا۔ اس کو منصب ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار کا عنایت کیا۔ امیر الامراء کا خطاب دیا۔ دو کروڑ دام کی جاگیر دی۔ خان دوران خان کو دو لاکھ روپیہ انعام دیا۔ اور دو کروڑ جمع کی جاگیر دی۔ دلبرخاں، عبداللہ خاں ولد سعید خاں بہادر مرحوم نے سلیمان شکوہ کی ر فاقت ترک کی۔ وہ اورنگ زیب کے پاس آئے۔ اس نے اپنی مرحمتِ خسروانہ سے ان کو سرفراز کیا۔ 2 شوال کو اورنگ زیب مہترا میں آیا۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
37

بلے آنکس کہ ظل ذوالجلال است
شریکش چوں شریکِ حق محال است

شہنشاہ فردمی باید دار اقلیم
دُر یکتا بود درخوردیہم

مراد بخش کو قید کرنا

مراد بخش تمنا کے قید ہونے کے واقعہ کو مئورخ مختلف سے بیان کرتے ہیں جس کو میں درج کرتا ہوں۔ عالمگیرنامہ محمد کاظم میں لکھتا ہے:

مراد بخش کو تمنا سلطنت کا سودا تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ شاہجہان کے بعد ملک و سلطنت کی وراثت کا دعویٰ مجھے پہنچتا ہے۔ ہندوستان کی فرمانروائی اور سریر آرائی کا حقدارہ بنی ہے۔ جب شاہجہان بیمار ہوا۔ اور اطراف میں اس کی خبر متوحش پھیلی۔ تو بے تحقیقِ حال اور اندیشہ مال تختِ سلطنت پر بیٹھا مروج الدین اپنا لقب رکھتا اور اپنے نام کا خطبہ و سکہ جاری کیا۔ سورت کا بندرگاہ بیگم صاحب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں فوج بھیجی۔ اس کے قلعہ کو قہر سے لے لیا۔ سرکار بادشاہی اور بیگم صاحب میں جو اموال اور اشیاء تھیں۔ ان پر متصرف ہوا۔ دوسرے اشخاص کے اموال و امتعہ پردستِ تعدی روانہ کیا۔ اور ناشائستہ حرکتیں کرنے لگا۔ چنانچہ محمد شریف پسر اسلام خاں مرحوم کو جو بند رسوت کی مہمات کا مقصدی تھا۔ اس کو مع اورمتصدیوں کے قید کیا۔ ان کی اہانت کی۔ ان کو آزار پہنچایا۔ اور علی نقی، جو اس کی سرکار کی مہمات کی کفالت رکھتا تھا۔ اور شاہجہان کی طرف سے دیوانی کرتا تھا۔ اور اس کا دیوان تھا۔ بے گناہ ناحق اس کے نفاق کے توہم سے اور عدم یک جہتی کے منطنہ سے اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ الغرض اعلانیہ سرکشی و خودرای اختیار کی۔ مگر اورنگ زیب نے اپنی حالت میں سرِ موفرق نہ آنے دیا۔ اور نہ تختِ سلطنت پر جلوس فرمایا۔ جب اخبار موحشہ کا جھوٹ ظاہر ہوگیا۔ اور تحقیق ہوگیا کہ اگرچہ شاہجہان بیمار ہوا تھا۔ اور اس کے قواء میں فتورِ عظیم آیا تھا۔ مگر ابھی اس کی شمع حیات انجمنِ ہستی میں روش ہے۔ تو مراد بخش ہوش میں آیا۔ اورنگ زیب کی عاطفت
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
38

کا دامن پکڑا کہ وہ باپ کے پاس لے جاکر عفوِ تفصیرات کرادے۔ لیکن اب بھی نادانی اور بے عقلی سے اپنے اوضاع سابق کو نہ چھوڑا۔ تخت و تروسائر لوازمِ سلطنت اپنے ساتھ رکھتے۔ اس بات کو اورنگ زیب اس کی خردسالی و جاہلی پر محمول کرتا تھا۔ اور اپنی بزرگی و دانائی کے سبب اس سے درگذر کرتا تھا۔ اور اس کے ساتھ حسن و اخلاق برتتا تھا کہ شاید رفتہ رفتہ وہ اپنی حرکات سے باز آئے مگر وہ اپنی نادانی اور غفلت سے باز نہ آتا تھا۔

جب داراشکوہ کو شکست ہوئی۔ اور اس نے دیکھا کہ اورنگ زیب سلطنت کا مالک بن گیا۔ تو اس کے دل میں نفاق و مخالفت کا خیال پختہ ہوا اور ہمسری کے لئے سر کھُجانے لگا۔ فتنہ فساد اور سرکشی کا قصد کیا۔ باوجودیکہ خزانہ پاس نہیں تھا۔ مگر لشکر کو بڑھایا۔ اور شاہجہانی ملازمین اور امراء کے ساتھ طرح طرح سے اتمالت اور ملائمت کی۔ اور ان کو اپنی طرف دعوت دی۔ یوں کچھ امیر اسکے طرفدار ہوگئے۔ ان کو نامناسب مناصب اور بے موجب روپے اور بے سروپا آدمیوں کو بے جا خطاب دئے اور اسباب شورش و سرکشی کو بڑھایا۔ اور اسراف نے شروع کیا۔ روزبروز بے اعتدالی کو بڑھایا۔ جب اورنگ زیب نے اکبر آباد سے سفر کیا۔ تو ساتھ نہ چلنے کے لئے بہانے بنائے۔ آخرِ کار ہمراہی اختیار کی۔ کچھ دنوں اورنگ زیب کے لشکر کے پیچھے کوچ کرکے اور چند کروہ پیچھے کینہ کی کمین میں رہتا اس لئے اورنگ زیب نے اس کی شورش انگریزی اور مخالفت کو یہ سمجھ کر یہ خلعت کی آسائش دامن میں اس سے شورش پیدا ہوگی۔ تو اس نے ملطائف و دانش و تدابیر اس کو قید کیا۔ تاکہ اس کی تنبیہ و تادیب ہوجائے و فتنہ و آشوب برپا نہ ہو۔ 4 شوال کو جب مراد بخش مہترا میں اس کورنش کے لئے آیا۔ تو اس کو ایک معقول تدبیر سے قید کرلیا۔ اور آدھی رات کو شیخ میر کے سپرد کرکے شاہجہان آباد بھجوادیا۔
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
39

مراد قید ہوتا ہے۔ عالمگیر اس کے ملازموں کو اپنے ساتھ گانٹھ لیتا ہے۔ اور مراد کو سلیم گڈھ کے قلعہ میں بھیجتا ہے۔

خافی خاں لکھتا ہے:-
شاہزادہ مراد بخش سادہ لوح تھا۔ اکثر صفاتِ پسندیدہ سے موصوف تھا۔ مغلوں کی رعایت اور خطا بخشی میں بہت کوشش کرتا تھا۔ اور اپنی صفائی باطن و حسنِ عقیدت سے بزرگوں کے اس قول پر خیال نہیں کرتا تھا۔ کہ وہ بادشاہ در اقلیمے نہ گنجند۔ وہ اورنگ زیب کے دلفریب وعدوں سے اور نقد و جنس کی تواضعات سے جو وہ بطریق عاریت و امانت قبل از جنگ بعد از فتح کرتا تھا۔ اپنا دل خوش رکھتا تھا۔ اور اپنی سادہ لوحی سے تمنار سلطنت کو لوحِ دل پر منقش کرتا تھا۔ اور سلاطین کے طریقہ کو نہیں چھوڑتا تھا۔ اور بھائی کے عہد و پیمان کے عدم ایفاء کا توہم بھی اس کو نہ ہوتا تھا۔ باوجودیکہ اس کے ہواخواہ مکر راس کو گوش گزار کرتے کہ زمانہ کا رویہ بد عہدی ہے۔ خاص کر اس مادہ سلوک میں کہ ملوک (بادشاہوں) نے وارثِ ملک کے ساتھ زمانہ سلف میں کیا۔ لیکن وہ نہیں سنتا۔ بے محایا چند آدمیوں کے ساتھ بھائی کی خدمت میں جاتا۔ ایک دن ایک سید سفید ریش معمر قدیم الخدمت نیک خصلت نے اس وقت کہ مراد بھائی پاس جارہا تھا۔ عرض کیا کہ میرے خواب کی تعبیر کبھی غلط نہیں ہوتی۔ میں نے عالم رویا میں مکرر دیکھا ہے۔ کہ جو عہد و پیمان آپ کے اور بھائی کے درمیان ہوئے ہیں۔ وہ اعتماد کے لائق نہیں۔ مراد نے اس بات کو خوشامد سمجھا۔ اور اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اور خواجہ شہباز کی طرف مخاطب ہوا۔ جو اکثر اس کو اس قسم کی نصیحتیں کیا کرتا تھا، کہ ایسی لایعنی باتوں سے محبت و قرارِ عہد میں احتلال پڑتا ہے۔
القصہ 4 شوال کو مہترا میں منزل ہوئی۔ اول روز میں مراد بخش کو حُسن تدبیر سے جس کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس کو دستگیر کرکے پا بزنجیر کیا۔ اس رات
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
40

کو چار حوضے پردہ دار ہاتھیوں پر رکھ کر چاروں طرف روانہ کئے۔ اور ہر ایک کے ہمراہ ایک فوج اور دو سردار نامی مقرر کئے۔ اس حوضہ کو جس میں مراد مجبور و محبوس بیٹھا تھا۔ شیخ میرو دلیر خاں کے ساتھ سلیم گڈھ کے قلعہ میں بھیج دیا۔ یہ احتیاط اس لئے کی گئی تھی کہ جس حوضہ میں اس کو بٹھایا گیا تھا۔ اس پر مغلیہ اور اس کے ہوا خواہ خلبہ نہ کریں۔ اور اس کے تمام خزانے اور کارخانے قبضہ میں آجائیں۔ اور ایک دام و درہم ضائع نہ ہو۔

اب ہم بریز اور تاریخ ہند ڈو صاحب سے اس واقعہ کی نقل کرتے ہیں۔ جن کے پڑھنے سے ہم کو وہی مزہ آتا ہے۔ جو بے سروپا اخباراتِ ہند میں آجکل کے واقعات کے مطالعہ میں لطف آتا ہے۔ ایک جھوٹی بات کو اس و ثاقت سے نمک مرچ اور گل پھول لگا کر بیان کرتے ہیں۔ جس کے ہونے میں وہ لوگ ذرا بھی تامل نہ کریں جو اصل حقیقتِ حال سے ناواقف ہوں۔ ڈاکٹر بریز لکھتا ہے:
جب آگرہ سے عالمگیر کے سفر کا دن آیا۔ تو مراد بخش کے خاص دوستوں نے خاص کر زیادہ تر شہباز خواجہ سرا نے ہر طرح کے دلائل سے سمجھایا۔ کہ حضور کو دہلی و آگرہ کے ہمسایہ میں اپنے لشکر کے ساتھ رہنا چاہیے۔ چرب زبانی، نرم و مئودبانہ چاپلوسی کی افراط میں ہمیشہ فریب دھوکہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور خاص و عام کے نزدیک پادشاہ ہیں۔ اور آپ کی پادشاہی کو اورنگ زیب بھی تسلیم کرتا ہے تو یہ عاقلانہ تعدبیر سے دور ہے کہ آپ آگرہ یا دہلی سے آگے چلے جائیں۔ اپنے بھائی کو تنہا داراشکوہ کے تعاقب میں جانے دیجیے۔ اگر دانشمندانہ صلاح کو مراد مان لیتا۔ تو اورنگ زیب بڑی مشکلوں اور حیرانیوں میں پڑ جاتا۔ مگر اس فہمائش کا اثر ذرا بھی اس کے دل پر نہ ہوا۔ اس نے اپنے بھائی کے ان وعدوں اور قسموں پر پورا اعتماد کیا۔ جو ان کے درمیان قرآن پر قسم کھاکے ہوئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے ساتھ ہوکر آگرہ سے دہلی کی طرف کوچ کیا۔ آگرہ سے چار چھوٹی منزلیں طے کرکے انہوں نے مہترا میں قیام کیا۔ مراد کے ہوا خاہوں نے بہت کچھ ایسا دیکھا اور سنا۔
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
41

کہ جس سے ان کے دل میں شبے پیدا ہوئے ۔ ایک دفعہ انہوں نے پھر کوشش کی کہ مراد کو کہہ سُن کر ڈرائیں۔ انہوں نے اس سے کہا۔

ہم نے تحقیق کرلیا ہے کہ اورنگ زیب کی نیت میں آپ کی طرف سے فساد ہے اور یقیناً ایک خوفناک سازش آپ کی خرابی کے لئے ترقی پذیر ہے۔ مختلف جگہوں سے ہم کو اس کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ اس واسطے بھائی کی ملاقات کو آپ ہرگز نہ جائیں۔ اور خاص کر آج کے دن ادھر رُخ بھی نہ کریں۔ اور مصلحت یہ ہے کہ آپ اس بلا کو یوں ٹالئے کہ بیماری کا بہانہ بنائے۔ جس سے اورنگ زیب خود حسب معمول آپ کی عیادت کو تھوڑے آدمیوں کے ساتھ ضرور آئیگا۔ اس وقت آپ اپنا کام بنائیے گا۔

اورنگ زیب کی تزویر، چاپلوسی اور ریاکاری کے افسوں سازی نے اس نامراد شہزادہ پر ایسا اثر کیا تھا کہ ہوا خواہوں کے دلائل اور منت سماجت کب اس لے دل میں آتے تھے۔ اورنگ زیب کو بھائی کے آنے کی توقع تھی۔ اس نے میر خاں اور تین چار افسروں کے ساتھ اپنے منصوبہ کا مشورہ کیا۔ جب مراد آیا تو بھائی اپنی اس مقررہ قربانی کے ساتھ پہلے سے زیادہ تپاک سے پیش آیا۔ اور ایسی خوشی ظاہر کی کہ جس کے سبب آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ اورنگ زیب نے اپنے ہاتھ میں رومال نے کراس کے چہرہ کا پسینہ پونچھا۔ اور گردودکی۔ دونوں بھائیوں نے ساتھ بیٹھ کر ہنسی خوشی کھانا کھایا۔ اور ظاہراً محبت و الفت کی باتیں نہایت تپاک کے ساتھ ہوئیں۔ اور کہیں بیچ میں ان کا تار نہیں ٹوٹا۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو کابل و شیراز کی مزہ دار شرابیں بہت سی آئیں۔ اورنگ زیب اُٹھا اور مسکرا کر کہا۔

صاحب عالم! تم جانتے ہو۔ کہ میں مسلمان ہوں۔ میں آپ کے ساتھ اس مے نوشی میں مزے اُڑانے سے قاصر ہوں۔ اس لئے میرا یہاں سے غیر حاضر رہنا لازمی ہے۔ آپ کی مصاحبت میں اچھے اچھے شریف اور معزز افراد موجود ہیں۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
42
میر خاں اور دیگر احباب آپکی خدمتِ مہمانداری کرینگے۔
مراد بخش کی تو عادت میں بہت شراب پینا داخل تھا۔ ب یہ نفیس شرابیں اس کے آگے آئیں۔ تو اس قدران کو پیار کہ مست ہو کر بے خبر سوگیا۔ اورنگ زیب کی مراد بر آئی۔ مراد بے ہوش پڑا سوتا تھا۔ مراد بخش کے نوکروں کو حکم ہوا۔ میر خاں نے اسکی دونوں تلوار اور جموہر نے لے لیا رجموہر اصل میں یا ما دھارا یعنی موت کا لانے والا، یہ ایک چوڑا خنجر ہوتا ہے اور اس کا قبضہ پہل کے اوپر قائم الزاویہ ہوتا ہے۔ بعض ان میں سے دو لکھا نا اور بعض تین لکھانا ہوتے ہیں۔
پادری کٹ رومنوچی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہ تلواور اور جموہر اورنگ زیب کے پوتے اعظم پسر شاہزادہ محمد نے اٹھائے تھے وہ چھ برس کا لڑکا تھا۔ اورنگ زیب نے اپنے سوتیلے بھائی کے ساتھ یہ ایک دل لگی کی۔ کہ پوتے ے کہا۔ کہ اگر اس کی تلوار اور جموہر اس طرح اٹھا لاؤ۔ کہ مراد بیدار نہ ہو تو ہم تم کو ایک جواہر انعام دینگے۔ اس لڑکے نے بڑی پھرتی سے اس کام کو کیا اور دونوں ہتھیار ایک متصل خیمہ میں لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد اورنگ زیب اپنے بھائی کے جگانے کے لیے خیمہ میں آیا۔ اور آتے ہی وحشیانہ اول اس شہزادہ کو دو تین لاتیں ماریں۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں۔ تو اس نے ملامت کے لئے چند فقرے کہے۔
"بڑی شرم اور بدنامی کی بات ہے کہ تو بادشاہ ہو کر اتنی کم ہوشیاری رکھے۔ بھلا دنیا کے لوگ میرے اور تیسرے جنم کیا تھوکینگے۔ اس کمبخت شرابی کے ہاتھ اور پاؤں باندھو اور اندر لے جاؤ کہ اس بے شرمی کا سونا وہاں سوئے۔
حکم دینے میں دیر تھی تعمیل میں دیر نہ تھی۔ پانچ چھ سپاہی دوڑ پڑے اور وہ مراد کے پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر لے گئے۔ وہ چیخیں مارتا اور دہانی دیتا اور زور کرتا رہا۔ بھلا یہ تشدد و مراد کے آدمیوں کے ظلم سے کسی طرح چھپ نہیں سکتا۔ اس کے آدمیوں نے غل شور مچایا مگر مراد بخش کے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
43
میر آتش علی قلی نے اس کو دبا دیا۔ اورنگ زیب نے اس کو پہلے ہی زر دے کر اپنے ساتھ گانٹھ لیا تھا۔ اس کے لشکر کی فوجوں میں شور و غوغا ہوا۔ اور اندیشہ تھا کہ وہ یکا یک نہ چڑھ آئیں۔ مگر رات کو ایسے جاسوس بھیج دیے گئے تھے۔ جنہوں نے اورنگ زیب کے واقعات کو نہایت خفیف کرکے بیان کیا۔
"وہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہم وہیں تھے۔ مراد بخش نے شراب اتنی کثرت سے پی لی تھی کہ اپنے اختیار میں نہیں رہا تھا۔ بدکلامی کرنے لگا۔ اس کی گالیوں سے کوئی شخص نہیں بچا۔ یہاں تک کہ اورنگ زیب کو اس نے مغلظ دشنام سنائیں اور وہ ونگ اوردہم مچایا کہ کسی طرح سنبھالے نہ سنبھلا۔ ناچار اس کو جدا بند کرنا پڑا۔ صبح کو جب رات کا نشہ اتر جائیگا۔ تو پھر وہ آزاد ہوجائیگا۔
اس اثناء میں بڑی بڑی رشوتیں اس کے تمام امراء عظام کو چٹائی گئیں۔ اور بڑے بڑے وعدے ان سے کئے گئے۔ فوراً کل سپاہ کی تنخواہ بڑھادی گئی۔ بہت ہی تھوڑے آدمی ایسے تھے۔ جو پہلے نہیں جانتے تھے کہ مراد کا زوال آنے والا ہے۔ اس لئے کہ جب دن ہوا تو اس شورش کا نشان بھی مشکل سے ملتا تھا۔ جب اورنگ زیب کو اطمینان ہوا تو اس نے اپنے بھائی کو ایک زنانی عماری میں بند کرکے دہلی بھیج دیا۔ تاکہ وہ قدیمی قلعہ سلیم گڑھ میں جو جمنا کے بیچ میں بنا ہوا ہے تفیذ رہے۔
اب ڈو صاحب کی تاریخ ہند کی داستان سنیے۔ جو غالباً انہوں نے کسی داستان گر سے سنکر لکھی ہوگی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے۔
جب مہترا میں لشکر اترا۔ تو مراد بخش نے اورنگ زیب کو دعوت میں بلایا۔ جب وہ آیا اور دونوں بھائی کھانے بیٹھے۔ تو شہباز خان خواجہ سرا نے جو مراد بخش کا راز ہوا تھا۔ مراد سے سرگوشی کی کہ عمدہ پوشاک چاک کرنے کا وقت ہے یعنی اورنگ زیب سے اب سمجھ لینا چاہیے تو عالمگیر جو عنوانِ ظاہر سے باطن کا حال معلوم کرلیتا تھا۔ بات سمجھ گیا لیکن اس کو پی کر چپکا ہوگیا۔ تو مراد بخش نے شہباز کو کہا۔
 
Top