عبدالصمدچیمہ
لائبریرین
24
نہیں ہوا تھا۔ آزار باقی تھا۔ اور ضعف بہت قوی ہوگیا تھا۔ گرمی کا موسم قریب آگیا تھا۔ اکبر آباد کی ہوا بہ نسبت شاہجہان کی ہوا کے بہت زیادہ گرم تھی۔ اور یہاں کے دولت خانہ کی عمارات بہ نسبت شاہجہان کے دولت خانہ کی عمارت وسعت فضا نزہت و صفائی میں کمتر تھیں۔ اس لئے اطباء نے تجویز کیا کہ اکبر آباد میں رہنے سے پادشاہ کے عودِ مرض کا اندیشہ ہے۔ شاہجہان آباد (دہلی) جانا مناسب ہوگا۔ شاہجہان نے بھی دارالخلافہ کا عزم کیا۔ کیونکہ وہاں تابستان میں باغ دبستان اور تسلسل نہر کی طراوات سے راحت نصیب ہوگی۔ داراشکوہ شاہجہان کے سفر پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ اس کو اپنے مطالب کے منافی جانتا تھا۔ لیکن اس پر بادشاہ کی طبع مبارک بہت مائل تھی۔ اور داراشکوہ جانتا تھا کہ راجہ جسونت سنگھ اورنگ زیب کو اُجین سے آگے نہ بڑھنے دیگا۔ اس لئے وہ بھی شاہجہان کے اس سفر پر راضی ہوگیا۔ دہلی روانہ ہوا۔ اور موضع بلوچ پور میں آیا۔ راجہ جسونت سنگھ کے پاس رستم بیگ گزربردار اور یسا دل بیگ گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے آکر شاہجہان کو راجہ کی شکست کی خبر سنالی۔ اس خبر کے سننے سے داراشکوہ کے ہوش اُڑے۔ وہ خود اکبر آباد کو الٹا پھرا۔ نہم ماہ مذکور کو بلوچ پور سے شاہجہان کو بھی منت و سماجت کرکے لے آیا۔ اور سپاہ لشکر اور اسباب نبرد و پیکار کے جمع کرنے میں مصروف ہوا۔ اور جن صویحات اور علاقوں سے منصب داروں اور جاگیرداروں کا آنا ممکن تھا۔ ان کو بلالیا۔ ان کے قلوب کی تسخیر ہیں اور خاطر کی تسلی میں کوشش کی۔ سب کو اپنا ہم داستان بنایا۔ شاہجہان کے سارے عمدہ ملازمین، امراء کو چہ ب زبانی، نرمی۔ ملائمت، نوید احسان و عاریت سے مستمال کیا۔ اور جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ تھوڑے دنوں میں شاہجہان کے نوکروں، قدیم و جدید سپاہیوں کا ایک ابندہ جمع کرلیا۔ جس میں ساٹھ ہزار سوار تھے۔ ان کو قورخانہ شاہی سے ہتھیار جتنے جی چاہا دیدئے۔ کل توپ خانہ و جنگی ہاتھی اس کے ساتھ کئے۔ خزانہ کے منہ کھول دیے۔ جتنا زرسپاہ میں پریشان کیا۔ اتنا ہی اپنی پریشانی کے لئے سامان فراہم کیا۔
نہیں ہوا تھا۔ آزار باقی تھا۔ اور ضعف بہت قوی ہوگیا تھا۔ گرمی کا موسم قریب آگیا تھا۔ اکبر آباد کی ہوا بہ نسبت شاہجہان کی ہوا کے بہت زیادہ گرم تھی۔ اور یہاں کے دولت خانہ کی عمارات بہ نسبت شاہجہان کے دولت خانہ کی عمارت وسعت فضا نزہت و صفائی میں کمتر تھیں۔ اس لئے اطباء نے تجویز کیا کہ اکبر آباد میں رہنے سے پادشاہ کے عودِ مرض کا اندیشہ ہے۔ شاہجہان آباد (دہلی) جانا مناسب ہوگا۔ شاہجہان نے بھی دارالخلافہ کا عزم کیا۔ کیونکہ وہاں تابستان میں باغ دبستان اور تسلسل نہر کی طراوات سے راحت نصیب ہوگی۔ داراشکوہ شاہجہان کے سفر پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ اس کو اپنے مطالب کے منافی جانتا تھا۔ لیکن اس پر بادشاہ کی طبع مبارک بہت مائل تھی۔ اور داراشکوہ جانتا تھا کہ راجہ جسونت سنگھ اورنگ زیب کو اُجین سے آگے نہ بڑھنے دیگا۔ اس لئے وہ بھی شاہجہان کے اس سفر پر راضی ہوگیا۔ دہلی روانہ ہوا۔ اور موضع بلوچ پور میں آیا۔ راجہ جسونت سنگھ کے پاس رستم بیگ گزربردار اور یسا دل بیگ گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے آکر شاہجہان کو راجہ کی شکست کی خبر سنالی۔ اس خبر کے سننے سے داراشکوہ کے ہوش اُڑے۔ وہ خود اکبر آباد کو الٹا پھرا۔ نہم ماہ مذکور کو بلوچ پور سے شاہجہان کو بھی منت و سماجت کرکے لے آیا۔ اور سپاہ لشکر اور اسباب نبرد و پیکار کے جمع کرنے میں مصروف ہوا۔ اور جن صویحات اور علاقوں سے منصب داروں اور جاگیرداروں کا آنا ممکن تھا۔ ان کو بلالیا۔ ان کے قلوب کی تسخیر ہیں اور خاطر کی تسلی میں کوشش کی۔ سب کو اپنا ہم داستان بنایا۔ شاہجہان کے سارے عمدہ ملازمین، امراء کو چہ ب زبانی، نرمی۔ ملائمت، نوید احسان و عاریت سے مستمال کیا۔ اور جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ تھوڑے دنوں میں شاہجہان کے نوکروں، قدیم و جدید سپاہیوں کا ایک ابندہ جمع کرلیا۔ جس میں ساٹھ ہزار سوار تھے۔ ان کو قورخانہ شاہی سے ہتھیار جتنے جی چاہا دیدئے۔ کل توپ خانہ و جنگی ہاتھی اس کے ساتھ کئے۔ خزانہ کے منہ کھول دیے۔ جتنا زرسپاہ میں پریشان کیا۔ اتنا ہی اپنی پریشانی کے لئے سامان فراہم کیا۔