روحانی اقوال

کسر نفسی (عاجزی) کا درجہ
ایک سال دریائے نیل نے مصر کی زمین کو سیراب نہ کیا۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہو گئے اور لوگ بلبلا اٹھے۔ کچھ لوگ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ آپ اللہ والے ہیں، دعا کریں کہ بارش ہو جائے۔ قحط پڑا تو مخلوق خدا کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہے۔
جب لوگ چلے گئے تو حضرت ذوالنورین مصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا سامان سفر باندھا اور ملک بدین کی طرف نکل گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گھٹا گھِر کے آئی اور کھل کر برسی۔ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ قحط کا خطرہ ٹل گیا۔
حضرت ذوالنورین مصری رحمۃ اللہ علیہ بارش ہونے کے بیس روز بعد واپس مصر تشریف لائے تو لوگوں نے وطن چھوڑ کر چلے جانے کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا۔
"لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث جانوروں، پرندوں کا رزق کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے خیال کیا کہ اس سرزمین میں سب سے زیادہ گناہ گار اور خطا کار میں ہی ہوں چنانچہ یہاں سے چلا گیا۔"
حضرت ذوالنورین مصری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمانا ازراہِ کسر نفسی (عاجزی) تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکسار بن کر ہی انسان سرفراز ہوتا ہے۔
حاصل کلام
کسر نفسی (عاجزی) کا درجہ بہت بڑا ہے۔ خاکسار بن کر اور غرور و پارسائی سے بچ کر ہی انسان سرخروئی حاصل کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری روح کے لیئے اس سے بڑھ کوئی مرض نہیں کہ تم خود کو کامل سمجھنے لگو۔ مولانا روم
 
(عورت کو کیسے سمجھا جائے )
عورت میں فطری طور پر، احساس_کمتری سے ہٹ کر،اک احساس ہےجسے احساس_شکستگی کہہ سکتےہیں. اس احساس کی بناء پرعورت اپنے شوہرکی محبت کا ہرروز امتحان لیتی ہے،جائزہ لیتی رہتی ہے کہ محبت بڑھ رہی ہے یاکم ہورہی ہے، محبت کم ہونے سے عورت کوتشویش،جبکہ بڑھنے سے خوشی ہوتی ہے. اور عورت مختلف حیلے بہانے سے محبت کی جانچ پڑتال کرتی ہے...وہ شوہر سے ریمورٹ لے لیتی ہے،اپنی پسند کا چینل لگانےپرجھگڑٹی ہے، اپنی مرضی کی وڈیوچلانے پرضدکرتی ہے، خاوندکواسکی خواہش کےبرخلاف دوسرا سوٹ پہنانےپراصرارکرتی ہے، تفریح کیلئے اپنےمنتخب مقام پرجانےکیلئےمنت کرتی ہے،گھرکی سیٹنگ اور شاپنگ میں اپنی پسند کی تقدیم چاہتی ہے...وغیرہ وغیرہ...اب یہ شوہرکی سوچ پرڈیپنڈ کرتا ہےکہ وہ عورت کے اس روپ کو"ناز و ادا" سمجھ کرمفاہمت کاراستہ اختیارکرتاہے یا "ضدبازی" خیال کرکے جھگڑتااور زبردستی اپنی بات منواتاہے...زبردستی اپنی بات منوانےکی صورت میں تلخیاں جنم لیناشروع ہوتی ہیں جو بڑھتے بڑھتے خطرناک صورت_حال اختیارکرجاتی ہیں، جنکانتیجہ علیحدگی تک بھی جاپہنچتاہے...عورت کے اسی احساس اور روپ کا اک اثریہ بھی ہےکہ وہ متنازع امور میں اور اپنی خواہشات و پسند منوانے کے معاملے میں مبہم بات کرتی ہے،جبکہ دل میں کچھ اورہوتاہے...یعنی دل میں کچھ ہوتا ہےمگرظاہرکچھ اور کرتی ہے... اوردل کی بات اور ظاہرکردہ بات میں خفیف سا ربط ہوتا ہے...تو جو شوہر اس ربط کوجان لیتا ہےتووہ عورت کےدل کی بات سمجھ لیتاہے... اسے اندازہ ہوجاتاہے اس کااصل مقصدکیا ہے،یہ کیاکہناچاہتی ہے،تب شوہر اسکے مطابق معاملہ کرتاہے... توگویا وہ عورت کوسمجھ لیتاہے.تب پھرمیاں بیوں میں جھگڑےنہیں ہوتے... قرآن نے عورت کی اسی نفسیات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ( أو من ينشأ في الحلية وهو في الخصام غيرمبين )...کہ وہ جسے زیورات میں پروان چڑھایاگیا ہے، وہ تنازعہ کے وقت مبہم بات کرتی ہے... اور یہ وصف عورت کاحسن ہے، اک ادا ہے... بس سمجھنے کی ضرورت ہے.
بشکریہ ماہر خان
 
استاد بشیر کے ایک ”بیک وقت لائق و کام چور“ شاگرد نے چھٹیوں کا ایک دلچسپ حساب کتاب پیش کیا۔
-
فرمانے لگے:
”سال میں کل 365 دن ہوتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر ہفتے کے آخر میں دو چھٹیاں اور کچھ جگہوں پر ایک چھٹی ہوتی ہے۔ ہم ایک چھٹی لے لیتے ہیں۔ سال کے 52 ہفتوں کے حساب سے 52 چھٹیاں 365 دنوں میں سے باہر نکال دیں تو باقی 313 دن رہ جاتے ہیں۔
-
ایک دن 24 گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ جس میں سے 8 گھنٹے کام اور 16 گھنٹے آرام اور دیگر گھریلو امور کے لئے ہوتے ہیں۔ یعنی صرف ایک تہائی وقت کام کے لئے مختص ہوتا ہے اور دو تہائی وقت آرام کے لئے ہوتا ہے۔ 313 میں سے دو تہائی وقت باقی نکال دیں تو صرف 105 دن باقی رہ جائیں گے جو کام کے لئے ہوں گے۔
-
ہر روز چائے وغیرہ کے لئے 15 منٹ تو انسان نکال ہی لیتا ہے۔ 15 منٹ کے حساب سے سال کے تقریباً 8 دن بن جاتے ہیں۔ 105 میں سے 8 نکال دیں تو باقی رہ گئے 97 دن۔
-
دوپہر کی روٹی ، ظہر کی نماز اور دیگر گپ شپ کے بھی کم سے کم 45 منٹ تو نکل ہی جاتے ہیں۔ اس کے بن گئے سال میں 24 دن۔ ۔۔97 میں سے 24 دن نکال دئیے تو باقی رہ گئے 73 دن۔
-
سال میں لگ بھگ 17 دنوں کی سرکاری تعطیلات ہوتی ہیں (جن میں پیر اور منگل والے دن آنے والی عاشورہ محرم عید و قائد اعظم ڈے وغیرہکی چھٹیاں بھی شامل ہیں)۔ خیر 73 میں سے 17 دن نکال دئیے تو باقی رہ گئے 56 دن۔
-
آپ 25 دن کی اتفاقی رخصت کے مستحق ہیں۔ 56 میں سے 25 نکال دئیے تو باقی رہ گئے 31۔
-
آپ 30 دن کی استحقاقی رخصت کے مستحق ہیں۔ 31 میں سے 30 دن نکال دئیے تو باقی رہ گیا ”چونگے سے“ صرف اور صرف ایک دن۔
-استاد بشیر نے پوچھا: ”شاباش!۔۔ خوب محنتی شاگرد ہو تم۔۔ لیکن اتنے سخت اور مصروف ترین شیڈول میں سے تم نے یہ حساب کتاب لکھنے کے لئے وقت کہاں سے نکال لیا؟“۔
-
شاگرد بولے:۔ ”باقی بچ جانے والے ایک دن کی چھٹی لے کر جناب۔۔۔“
 
"نفرت ذہن کی ایک انتہائی بے ہنگم، نا ہم آہنگی کی مہلک ترین کیفیت ہے۔ یہ انسان کے ذہن کا سب سے زیادہ زہریلا عارضہ ہے۔ نفرت کا تو لفظ ہی ایک بے حد قابلِ نفرت لفظ ہے۔
اس لفظ کا 'نون' نحوست کا 'نون' ہے۔
اس لفظ کی 'فے' فتنے اور فساد کی 'فے' ہے۔
اس کی 'رے' رذالت کی 'رے' ہے۔
اس کی 'تے' تباہی اور تباہ کاری کی 'تے' ہے۔"
جون ایلیا
 
مکمل دو ہی دانوں پر یہ تسبیح محبت ہے
جو آئے تیسرا دانہ یہ تسبیح ٹوٹ جاتی ہے
مقرر وقت ہوتا ہے محبت کی نمازوں کا
ادا جن کی نکل جائے،قضا بھی چھوٹ جاتی ہے
محبت کی نمازوں میں امامت ایک کو سونپیں
اِسے تکنے،اُسے تکنے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے
محبت دل کا سجدہ ہے،جو ہے توحید پر قائم
نظر کے شرک والوں سے محبت روٹھ جاتی ہے
 
آخری تدوین:
مرغی کے انڈے کے چپٹے سرے میں اللہ تعالیٰ نے آکسیجن کا ایک بلبلہ رکھا ہے۔ انڈوں پر بیٹھی ہوئی مرغی بغور دیکھ دیکھ کر اس سرے کو اوپر کرتی رہتی ھے۔ آپ نے اکثر اُسے چونچ سے انڈوں کو کریدتے ہوئے دیکھا ہوگا، اُس وقت وہ اصل میں یہی کام کر رہی ہوتی ہے۔
میرے اللہ نے مرغی کو بھی سائنسدان بنایا ہے۔ بچے کا منہ اوپر کی جانب بنتا ہے، اگر تو انڈے کا چپٹا رُخ اوپر رہے تو چوزہ تخلیق کے مراحل کی تکمیل ہوتے ہی اُس بُلبلے سے سانس لیتا ہے، لیکن اس کے پاس مہلت محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ آکسیجن کے اس بُلبلے کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے خول کو توڑ کر باہر نکلے، باہر آکسیجن کا سمندر اس کے انتظار میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ اُس بُلبلے کو ہی زندگی سمجھ کر استعمال کرے اور خول کو توڑنے کی کوشش نہ کرتے تو پھر کچھ ہی لمحوں بعد وہ اندر ہی مر جاتا ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب چوزہ خول کو اندر سے توڑ نہیں پاتا تو وہ بولتا اور فریاد کرتا ہے تو ماں باہر سے چونچ مار کر اُس خول کو توڑ دیتی ہے، اور یوں وہ آزاد دنیا میں آ جاتا ہے، مگر یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ چوزے کی آزادی کیلئے اُسکی پکار اور فریاد ضروری ھے۔
لہٰذا جو لوگ اِس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے گناہ اور نفس کے خول کی گرفت سے آزاد ہو جائیں گے پھر انہیں آخرت میں دائمی زندگی مل جائے گی۔ یہاں ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ اللہ اپنے گناہ گار لوگوں سے بہت پیار کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے حضور گڑگڑا کے دُعا کریں تاکہ وہ انہیں اُن کے گناہوں کے خولوں سے نکال کر ایمان افروز زندگی میں لے آئے، لیکن بات وہی ہے کہ گناہوں کے بخشش کیلئے اللہ کو پکارنا اور دُعا کرنا ضروری ہے۔
یقیناً جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہیں، پھر اللہ بھی انہیں صراطِ مستقیم پر لانے اور اُن کی آخرت سنوارنے کیلئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
کتنا عظیم ہے میرا رب ۔۔ سبحان اللہ یہ ہم جلد باز اور ناشکرے ہیں جو رزق کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں ۔ اسی لئے تو خسارے میں ہیں ۔
خوبصورت شراکت کا شکریہ ۔سدا خوش رہیں
 
آخری تدوین:
1. عشقے اندر بہت خواری

ظالم عشقَ بے درد کہاوے
جس نوں لگے مار ونجاوے
باجھوں یار قرار نہ آوے
دوجی ویری خلقت ساری
عشقے اندر بہت خواری

جب چل آوے عشقَ بدن میں
آوے چین نہ چوک چمن میں
روندے پھردے عاشق بن میں
لگی جنہاں نوں پریم کٹاری
عشقے اندر بہت خواری

نہیں دیوے دلبر درشن
عاشق مکھ دیکھن نوں ترسن
بن دلبر دے آنکھی برسن
ساون برسے جیوں گھٹ کاری
عشقے اندر بہت خواری

زہر پیالے عشقے والے
عاشق پی ہوون متوالے
دیکھ پتنگ شماں نے جالے
مر گئے صورتَ دیکھ پیاری
عشقے اندر بہت خواری

جس دے دل وچّ عشقَ سماوے
اس دا عیش آرام اٹھاوے
جانی باجھ چلی جند جاوے
تن من خاک کرے اک واری
عشقے اندر بہت خواری

عشقے سسی مار گوائی ۔
پنوں دیندا پھرے دہائی ۔
مجنوں دے تن دبھ اگائی ۔
موئی لیلی ویکھ وچاری ۔
عشقے اندر بہت خواری ۔6۔

عشقے مرزا مار گوایا ۔
جب صاحباں سے انگ ملایا
مہینوال فقیر بنایا
مر گئی سوہنی لا جل تاری
عشقے اندر بہت خواری

رانجھا ہیر عشقَ نے مارے
شیریں تے فرہاد وچارے
چندر بدن مانہہ یار پیارے
شاہ شمس دی کھلّ اتاری
عشقے اندر بہت خواری

منصورے نوں دار چڑھایا
حسن حسین کٹک کھپایا
بلھے تائیں عشقَ ستایا
زکریا چیر دیا دھر عاری
عشقے اندر بہت خواری

عشقے پیر فقیر رنجانے
پھرن اجاڑیں ہوئے دیوانے
جس نوں لگی ووہی جانے
عشقَ رنجانی خلقت ساری
عشقے اندر بہت خواری

عشقَ جنہاں تن چوٹاں لائیاں
رو رو ہر دم دین دہائیاں
آ مل پیارے آ مل سائیاں
تیری صورتَ پر بلہاری
عشقے اندر بہت خواری

جس دے پاس نہیں دل جانی
تلخ اس دی ہے زندگانی
جیوں مچھلی ترپھے بن پانی
تیسے دلبر باجھ لچاری
عشقے اندر بہت خواری

عشقَ ولی اوتار ڈلائے
بھر بھر پور ہزار ڈبائے۔
عشقَ اپائے عشقَ کھپائے
عشقے منے سبھ نر ناری
عشقے اندر بہت خواری

ویکھ پتنگ شمع پر سڑدے
عاشق جائ سولیاں چڑھدے
تاں بھی یار یار ہی کردے
ایس عشقَ دی چال نیاری
عشقے اندر بہت خواری

برہوں والے بدل کڑکن
عاشق گھائل مرغ جیوں پھڑکن
بھور پھلوں پر ہر دم لٹکن
سبھ سو مشکل کرنی یاری
عشقے اندر بہت خواری

عاشق دے دشمن ہزاراں
چاروں طرف ننگی تلواراں
پچھو جا کے عشقَ بیماراں
کھونّ چشم سو کر رہے زاری
عشقے اندر بہت خواری

عاشق گھائل ہوئے وچّ رن دے
رتی رت نہیں وچّ تن دے
من دی بات رہے وچّ من دے
کس نوں کہاں حقیقت ساری
عشقے اندر بہت خواری

ایس عشقَ دے سبھ پسارے
عشقَ اپائے عشقے مارے
عشقَ دے چوداں طبق پیارے
عشقے پر عاشق جند واری
عشقے اندر بہت خواری

وچّ قرآن لفظ اک آیا
مولٰی کنّ جدوں فرمایا
ایہہ عشقے چوداں طبق بنایا
اس عشقَ دی کھیل مداری
عشقے اندر بہت خواری

پال سنگھ ہن کی کجھ کہیئے
واحد سمجھ چپ ہو رہیئے
دل وچّ دلبر نوں مل رہیئے
جس دی قدرت بیشماری
عشقے اندر بہت خواری
 
کچھ احباب کے ساتھ قریبی شہر میں جانے کا اتفاق ہوا، چھوٹی چھوٹی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ایک چوک پر پہنچے جہاں ہر جانب مچھلی بروسٹ کی بڑی بڑی دکانیں تھیں۔ ہم گاڑی پارک کرنے کی سوچ رہے تھے، ایک نوجوان ہماری جانب آیا اور کہنے لگا سر اس طرف آئیے میں آپکی گاڑی پارک کروائے دیتا ہوں۔
ہم اس نوجوان کی ہدایت پر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے ۔ نوجوان نے پوچھا سر آپ کھانا کھانے آئے ہیں؟ ہم نے کہا جی۔ نوجوان بولا سر آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ ہم لاہور سے آئے ہیں، میرے ساتھی نےجواب دیا۔ نوجوان گاڑی پارک کروانے کے بعد بھی مسلسل باتیں کرتا ہوا ہمارے ساتھ چل رھا تھا۔ نوجوان بولا۔ سر آپ وہ سامنے ہوٹل پرتشریف لےچلیں یہ ھمارے شہر کا سب سے پرانا اور مشہور ہوٹل ھے. یہاں کا کھانا آپکو سدا یاد رہے گا ۔ سر آپ آئندہ بھی جب ہمارےشھر آئيں گے تو یقینی طور پر اسی ہوٹل پرہی تشریف لائیں گے۔
نوجوان ہمیں باتیں سناتا سناتا ہوٹل میں لے گیا۔ ہوٹل واقعی قابل تعریف تھا۔ نوجوان ہمارے ساتھ یوں گھل مل رہا تھا کہ گویا ہمارا میزبان ہو۔ ہم جب کرسیوں پربیٹھ گئے تو نوجوان نے ویٹرکو بلا کر ہم سے آڈر لینے کو کہا اور ویٹر کو تاکید کی کہ یہ میرے مہمان ہیں جو آرڈرکریں، اعلی کوالٹی کا بنوا لاؤ. نوجوان ہمیں بات کا موقع دے بغیر بولا، سر آپ ایزی ہو کرتشریف رکھیں اور ویٹر کو آرڈر بک کروائیں میں ابھی آیا۔
نوجوان ہوٹل کے کاونٹر پر جا کھڑا ہوا اور وہاں کچھ بات چیت کرنے لگا۔ چند منٹوں میں نوجوان پھر ہماری ٹیبل کے قریب کھڑا ہم سے باتیں کر رھا تھا۔ کھانا آ گیا، ہم نے اسکو کھانے کی دعوت دی، کہنے لگا سر آپ ہمارے مہمان ہیں آپ کھانا کھائیں۔ خوبصورت انداز میں معذرت کرکے وہ وھاں سے رخصت ہو گیا۔
کھانا کھا کربل ادا کیا ۔ ہم باہرنکلے، میری نظریں اس نوجوان کی متلاشی تھیں۔ ھم پارکنگ سےگاڑی نکال رہے تھے کہ وہ نوجوان ایک گاڑی پارک کرواتا مجھے نظر آیا۔ میں نے اپنے ساتھی کو گاڑی روکنے کا کہا اور اس نوجوان کو آواز دی۔
نوجوان بھاگتا ہوا آیا۔ میں نے نوجوان کی کچھ خدمت کر کے اسکی میزبانی کا شکريہ ادا کیا اور اس سے پوچھا ، نوجوان، اس میزبانی کےبدلے آپکو کیا ملتا ہے؟ وہ بولا سر آپ نے جتنے روپوں کا اس ہوٹل سےکھانا کھایا اس کا اتنے فیصد میرا کمیشن ہے، اور کبھی کبھی آپ جیسے سخی جاتے وقت یوں بونس بھی دے جاتے ہیں ۔
واپسی پرمیں اپنےاحباب سےکہہ رہا تھاکہ ایک ہوٹل والا اس نوجوان کو اپنےمنافع سےکمیشن اسلیے دیتا ہے کہ یہ انکے ہوٹل میں گاہک لاتا ہے۔
کیا خیال ہے اگر کوئی بندہ مخلوق خدا کو اللہ کریم کے در پر لے جائے یا اللہ سےملوانے کا ذریعہ بن جائے تو میرا اللہ اس بندے کو دنیا اور آخرت میں کوئی کمیشن (فائدہ، ثواب ) نہیں دیگا؟
بشکریہ ماہرہ خان
 
زندگی میں اپنی من پسند چیز حاصل کرنے کا ایک ُگر ہے۔ جس چیز کی طلب ہے اسے بانٹ دو،اسے اپنے پاس چھپا کر نہ رکھو،دوسروں کو دے دو۔ اس طرح وہ چیز پلٹ کر آپ کے پاس واپس آ جائے گی۔ یعنی علم چاہیے تو جو علم الله نے آپکو دیا ہے۔ اسے الله کے بندوں میں بانٹ دو،محبت چاہیے تو الله کے بندوں میں محبت بانٹ دو،عزت چاہیے تو الله کے بندوں کو عزت دو،یعنی جو چاہیے وہ الله کے بندوں کو دینا شروع کردو۔ محبت،دولت،عزت،علم،رزق جو بھی چاہیے ہو اسے اپنے پاس نہ رکھو۔ اسے محدود نہ کرو۔ اسکا راستہ نہ روکو۔ اسے راستہ دو،تاکہ وہ اسی راستے پر پلٹ کر دوگنا چوگنا ہو کرآپ تک واپس آ جائے۔
بشکریہ Biya
 
اس کائناتِ محبّت میں ہم مثل شمس و قمر کے ہیں
ایک رابطہ مسلسل ہے، ایک فاصلہ مسلسل ہے

میں خود کو بیچ دوں پھر بھی، میں تجھ کو پا نہیں سکتا
میں عام سا ہمیشہ ہوں، تو خاص سا مسلسل ہے

وقتِ وصال کی بھی ایک آرزو ادھوری ہے
ایک آس سی ہمیشہ ہے، ایک خواب سا مسلسل ہے

خطا کاروں کی قسمت میں جنّت ہوا نہیں کرتی
میں خطا کار ازل سے ہوں، تو پارسا مسلسل ہے
 
حضرت جگر مرادآبادی مستی کے عالم میں کئی کئی مہینوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ ایک دن جو بے قراری بڑھی تو اُن کے قدم ایک طوائف کے گھر پہنچ گئے۔اُس کا نام روشن فاطمہ تھا۔ حسین، شوخ، چنچل، کمسن۔
“حضور کی تعریف؟ ” اُس نے پوچھا۔
جگر آنکھیں جُکھائے اُس کے سامنے کھڑ ے تھے۔ شاید نگاہ بھر کے اُسے دیکھا تک نہیں تھا۔ جواب میں دو شعر پڑھ دیے۔
سراپا آرزو ہوں، درد ہوں، داغِ تمنا ہوں
مجھے دنیا سے کیا مطلب کہ میں آپ اپنی دنیا ہوں
کبھی کیفِ مجسم ہوں، کبھی شوقِ سراپا ہوں
خدا جانے کس کا درد ہوں، کس کی تمنا ہوں
“سبحان اللہ ” طوائف کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ بے چار ے عاشق معلوم ہوتے ہیں۔
جگر نے پھر ایک شعر پڑھ دیا۔
ُ
مجھی میں عشق کا عالم، مجھی میں عشق کی دنیا
نثار اپنے پہ ہو جاؤں اگر سو بار پیدا ہوں
“حضور اس غریب خانے کو کیسے رونق بخشی؟ “
کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا
ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے
اس شعر کا سُننا تھا کہ روشن فاطمہ پھڑک گئی، طوائف تھی، چہرہ شناس تھی، سُخن فہم تھی۔ بار بار اس شعر کو پڑھتی تھی اور داد دیتی تھی۔
“میں اب تک کیوں آپ سے محروم رہی؟ کیا آپ اس شہر کے نہیں ہیں؟ ہیں تو یہاں کب سے ہیں؟ اور اب تک یہاں کیوں نہیں آئے؟ “
جگر یہ کہتے ہوئے اُس کے سامنے بیٹھ گئے۔
نہ پوچھ دہر میں کب سے میں اس طرح خانہ خراب ہوں
جو نہ مٹ سکا وہ طلسم ہوں، جو نہ اُٹھ سکا وہ حجاب ہوں
” دیکھئے میں پاگل ہوجاؤں گی۔ اللہ کے واسطے آپ اپنا نام تو بتائیے آپ ہیں کون ؟ “
دیکھا تھا کل جگر کو سرِ راہِ میکدہ
اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چُور تھا
وہ پھر بھی نہیں سمجھی۔ شاید اُس نے جگر کا نام سُنا ہی نہیں تھا یا پھر وہ یہ سمجھی کہ وہ یہاں کہاں آئیں گے، کوئی اور جگر ہوگا۔
اسی وقت ایک مہمان اور آ گیا۔ یہ جگر کا واقف کار تھا۔ دن کا وقت تھا اس لیے محفل گرم نہیں ہوئی تھی۔ ” جگر صاحب مجھے کسی نے بتایا کہ آپ یہاں آئے ہیں۔” پھر وہ شخص روشن فاطمہ سے مخاطب ہوا۔
” آپ واقف ہیں ان سے؟ مشہور شاعر جگر مرادابادی ہیں۔ “
“آؤ بھئی چلیں میں نے بہت زحمت دے لی انہیں” جگر نے کہا۔
“ایسے تو نہیں جانے دوں گی۔” روشن فاطمہ نے جگر کا ہاتھ تھام لیا۔ ” یہ طوائف کا کوٹھا ہے یہاں وہ آتا ہے جس کی جیب میں مال ہوتا ہے۔ “
جگر نے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے نوٹ ہاتھ میں آئے اُس کے سامنے رکھ دیے۔
” نہیں حضور قیمت تو گاہک کی حیثیت دیکھ کر طے ہوتی ہے۔ ایسے نوٹ تو مجھے کوئی بھی جاہل سیٹھ د ے سکتا ہے۔ آپ تو مجھے غزل سُنائیں۔”
” شعر سمجھتی ہو؟ “
“حضور پہلے سمجھتی ہوں پھر گاتی ہوں۔ “
ابھی روشن کا جملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ جگر کی پُرسوز آواز نے دن کو قیامت کا دن بنا دیا۔
کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا درد جگر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی
ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی
 
جب آپ زندگي کے تمام اسرار معلوم کر چکو گےتو
آپ کو موت کا شوق پيدا ہو گا،
کيونکہ موت بھی زندگی کے اسراروں ميں سے ايک بھید ہے۔
شیو کمار بٹالوی کا انٹرویو

بخدا فرق جاننا مشکل ہے کہ یہ بندہ انسان تھا یا اوتار ۔ صرف 35 سال کی عمر میں عالم ِ ارضی کو داغ مفارقت دے جانے والا یہ عجیب و غریب صلاحیتوں کا مالک نوجوان کہتا ہے
’’میں بھی بھاگنا چاہتا ہوں‘‘
’’کہاں بھاگنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’اپنے آپ سے دُور‘‘
’’پر کیوں؟‘‘
’’کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی، میرا خیال ہے کہ، ہم سب لوگ نا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وہ سلو سوسائیڈ، ایک آرام سے موت مر رہے لوگ ہیں۔ تو وہی بات ہے۔ اور یہ ہر انٹلکچول کے ساتھ ہو گا۔ جو بھی بودھک ہے، اُس کے ساتھ یہ تو ٹریجڈی رہے گی، یہ دخانت رہیگا۔ وہ مر رہا ہے ہر پل, میرا خیال ہے جواب پورا تھا؟‘‘
 
آخری تدوین:
کیہ پچھدے او حال فقیراں دا
ساڈے ندیوں وچھڑے نیراں دا
ساڈے ہنجھ دی جُونے آیاں دا
ساڈا دل جلیا دل گیراں دا
ایہ جاندیاں کجھ شوخ جہے
رنگاں دا ہی ناں تصویراں ہے
جد ہٹ گئے اسیں عشقے دی
مُل کر بیٹھے تصویراں دا
سانوں لکھاں دا تن لبھ گیا
پر اک دامن وی نہ ملیا
کیا لکھیا کسے مقدر سی
ہتھاں دیاں چار لکیراں دا
تقدیر تاں آپنی سوکن سی
تدبیراں ساتھوں نہ ہوئیاں
نہ جھنگ چھٹیا نہ کن پاٹے
جُھنڈ لنگھ گیا انجے ہیراں دا
میرے گیت وی لوک سنیندے نیں
نالے کافر آکھ سدیندے نیں
میں درد نوں کعبہ کہہ بیٹھا
رب ناں رکھ بیٹھا پیڑاں دا
میں دانشوراں سنیندیاں سنگ
کئی واری اُچی بول پیا
کجھ مان سی سانوں عشقے دا
کجھ دعوا وی سی پیڑاں دا !
توں خود نوں عاقل کہنداہیں
میں خود نوں عاشق دسدا ہاں
ایہ لوکاں تے چھڈ دیئے
کہنوں مان نیں دیندے پیراں دا
شاعر: شو کمار بٹالوی
 
اقبال کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہٰی اور نعمت ازلی ہے۔ انسانوں میں پیغمبروں کا مرتبہ دوسروں سے اس لیے بلند تر ہے کہ ان کا سینہ محبت کی روشنی سے یکسر معمور اور ان کا دل بادہ عشق سے یکسر سرشار ہے۔ محبت جسے بعض نے فطرت ِ انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح ِ انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا ہے۔اس کے متعلق اقبال کیا کہتے ہیں اقبال ہی کی زبان سے سنتے چلیئے ، یہ ان کی نظم ”محبت “ سے ماخوذ ہے۔
تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفس ہائے مسیح ِ ابن مریم سے
ذرا سی پھر ربو بیت سے شانِ بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر شبنم ِسے
پھر ان اجزاءکو گھولا چشمہ حیوان کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے
 
جب آپ زندگي کے تمام اسرار معلوم کر چکو گےتو
آپ کو موت کا شوق پيدا ہو گا،
کيونکہ موت بھی زندگی کے اسراروں ميں سے ايک بھید ہے۔
شیو کمار بٹالوی کا انٹرویو
بخدا فرق جاننا مشکل ہے کہ یہ بندہ انسان تھا یا اوتار ۔ صرف 35 سال کی عمر میں عالم ِ ارضی کو داغ مفارقت دے جانے والا یہ عجیب و غریب صلاحیتوں کا مالک نوجوان کہتا ہے
’’میں بھی بھاگنا چاہتا ہوں‘‘
’’کہاں بھاگنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’اپنے آپ سے دُور‘‘
’’پر کیوں؟‘‘
’’کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی، میرا خیال ہے کہ، ہم سب لوگ نا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وہ سلو سوسائیڈ، ایک آرام سے موت مر رہے لوگ ہیں۔ تو وہی بات ہے۔ اور یہ ہر انٹلکچول کے ساتھ ہو گا۔ جو بھی بودھک ہے، اُس کے ساتھ یہ تو ٹریجڈی رہے گی، یہ دخانت رہیگا۔ وہ مر رہا ہے ہر پل, میرا خیال ہے جواب پورا تھا؟‘‘
اوپر لنک کا ایرر آرہا تھا اس وجہ سے دوبارہ یو ٹیوب اور ڈیلی موشن کا لنک ڈال دیا ہے
 
عقل اور جنون
:::::::::::::::
چونکہ عقل کے مختلف مراتب ہوتے ہیں جو ادراک کی حیثیت سے ایک دوسرے سے متمیّز(Distinguished) ہوتے ہیں اور بدیھی(Obvious) سی بات ہے کہ کچھ عقول بعض دیگر عقول کا انکار کرتی ہیں کیونکہ اُن کی سمجھ میں آنے والی باتیں اِن کی سمجھ کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیوی مراتب سے تعلق رکھنے والی عقول جو زیادہ تر حس اور فکر کی قید میں مقیّد ہوتی ہیں۔ وہ اپنے سے بلند مراتب سے تعلق رکھنے والی عقول کو جنون قرار دیتی ہیں۔ اور اگر ہم جنون کے لغوی معنوں کی طرف جائیں تو وہ ہیں بطون اور ستر۔ یعنی پوشیدہ ہونا۔پردے میں ہونا۔ چنانچہ یہیں سے "جنّ الّلیل" کی ترکیب ہے یعنی رات نے ڈھانپ دیا (دن پر پردہ ڈال دیا)۔ یہیں سے لفظ "جنّ" ہے (اور اس سے مراد ناری یا نوری، دونوں قسم کی مخلوقات ہیں)۔ اور لفظ "جنین" اسمِ مفعول ہے اور یہ وہ بچہ ہے جو ماں کے پیٹ میں مستور ہے۔ اور اسی طرح کی کئی اور مثالیں ہیں۔ چنانچہ جب ہم ان معنوں کی طرف جائیں تو ایک طبقے کی طرف سے اپنے سے بالاتر عقول کے مدرکات(معلومات و مشہودات) پر لفظ جنون کا اطلاق کرنا درست ہے کیونکہ یہ مدرکات اس طبقے کے اعتبار سے بطون میں ہیں ، ستر یعنی پردے کی اوٹ میں ہیں۔
لیکن اگر ہم معروف معنوں کی طرف جائیں تو مجنون سے وہ شخص مراد ہوتا ہے جس کو شیاطین نے مس کرکے اس کی عقل کو مخبوط کردیا ہو اور وہ تفکیر و تعبیر میں خلط ملط کرکے غلط نتائج نکالتا ہو۔ چنانچہ یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نفی کی ہے جب اسے انبیاء سے منسوب کیا گیا۔:{ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ } القلم 2] یعنی آپ اللہ کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔جب ایک گروہ نے آپ کو جنوب سے یوں متہّم کیا وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ } الحجر:[6] .(اور انہوں نے کہا کہ اے وہ شخص کہ جس پر ذکر نازل کیا گیا، تُو تو مجنون ہے)۔
اس سب سے یہ واضح ہوا کہ جنون کے مراتب کا دارومدار ان عقول کے مراتب پر ہے جو اسے دیکھتی ہیں۔ چنانچہ :
مومن کی عقل، کافر کی عقل کی رُو سے مجنون ہے۔ مُحسِن (دین کے مرتبہءِ احسان پر فائز) کی عقل مُسلِم (دین کے مرتبہءِ اسلام کے حامل) کی نظر میں مجنون ہے۔ اور اسی طرح بقیہ مراتب پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
اور یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ پیغمبر اور رسول کہ جن پر اپنے پیروکاروں تک بات پہنچانے اور ابلاغ و تبلیغ کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ مراتبِ دنیا سے تعلق رکھنے والی عقول کی سطح پر آکر کلام کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ اس بات تک پہنچ جائین جس بات کو ان تک پہنچانا مقصود ہے۔ اورمرسلین کا ان عقول کی سطح کے مطابق کلام کرنا ان پر رحمت و شفقت اور حُسنِ تربیت و حکمت کے باب سے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔اقتباس از کتاب "مراتب العقل والّدین" بقلم الشیخ سیّد عبدالغنی العمری الحسنی۔۔۔۔۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
ﻋﺸﻖ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭘﮯ ﮐﻌﺒﮧ ، ﻋﺸﻖ ﻗﺮﺁﻥ ﺣﺪﯾﺚ
ﻋﺸﻖ " ﺍﻧﺎ ﺍﻟﻠﮧ " ، ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ! ﮐﻮﻥ ﻋﺸﻖ ﺩﺍ ﭘﯿﺮ

ﻋﺸﻖ ﻓﺮﯾﺪ ﺗﮭﻼﮞ ﺩﺍ ﺭﺍﮨﯽ ﺭﻭ ﺭﻭ ﻋﻤﺮ ﮔﺰﺭﺍﮮ
ﻋﺸﻖ ﮨﺮﯼ ﺍﮮ ﮨﺮﮨﺮ ﺍﻧﺪﺭ ، ﻋﺸﻖ ﺍﮮ ﺑﮭﮕﺖ ﮐﺒﯿﺮ

ﺗﯿﺮﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺷﺘﮯ ﮐُﻮﮌﮮ ، ﮐُﻮﮌﺍ ﺳﺐ ﭘﺴﺎﺭ
"ﻣﺎﭘﮯ " ، "ﭼﺎﭼﮯ " ، " ﻣﺎﻣﮯ " ، ﮐﺎﮨﺪﮮ ، ﻋﺸﻖ ﺩﮮ ﮐﯿﮩﮍﮮ ﻭﯾﺮ

ﻋﺸﻖ " ﺍﻟﺴﺖ " ، " ﺑﻠٰﯽ " ﺩﺍ ﻗﺼﮧ ، ﻋﺸﻖ ﻧﻔﯽ ﺍﺛﺒﺎﺕ
ﮐﺜﺮﺕ ﺩﯼ ﻭﭺ ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﻭﺣﺪﺕ ، ﻭﺣﺪﺕ ﻭﭺ ﺗﮑﺜﯿﺮ
 

Asad76

محفلین
اس کائناتِ محبّت میں ہم مثل شمس و قمر کے ہیں
ایک رابطہ مسلسل ہے، ایک فاصلہ مسلسل ہے

میں خود کو بیچ دوں پھر بھی، میں تجھ کو پا نہیں سکتا
میں عام سا ہمیشہ ہوں، تو خاص سا مسلسل ہے

وقتِ وصال کی بھی ایک آرزو ادھوری ہے
ایک آس سی ہمیشہ ہے، ایک خواب سا مسلسل ہے

خطا کاروں کی قسمت میں جنّت ہوا نہیں کرتی
میں خطا کار ازل سے ہوں، تو پارسا مسلسل ہے
اس غزل کا شاعر کون ہے؛
 
Top