آٹھ مسئلے
ایک روز شیخ شفیق بلخی رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا.. “حاتم ! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو..؟”انہوں نے کہا.. “بتیس برس سے..”شیخ نے پوچھا.. “بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا..؟”حاتم نے کہا.. “صرف آٹھ مسئلے..”شیخ نے کہا.. “انا للہ وانا الیہ راجعون.. میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے.. تْو نے صرف آٹھ مسئلے سیکھے..؟”حاتم نے کہا.. “استادِ محترم ! زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا..”شیخ نے کہا.. “اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے..؟”حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا
۔1میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا محبوب ہوتا ہے قبر میں جانے تک.. جب بندہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے.. اس لیے میں نے اپنا محبوب “نیکیوں” کو بنا لیا ہے کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا..
۔2لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے.. پھر فرمانِ الہی پڑھا..
“جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے.. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے..” (سور? النحل آیت 96)۔
تو جو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو..
۔3 میں نے خدا کے فرمان پر غور کیا..
“اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بْری خواہشات سے باز رکھا’ جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا..” (سورۃ النازعات آیت 40)۔
تو اپنے نفس کو بْرائیوں سے لگام دی.. خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی , یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا..
۔4 لوگوں کو دیکھا ہر ایک کا رجحان دنیاوی مال , حسب نسب , دنیاوی جاہ و منصب میں پایا.. ان امور میں غور کرنے سے یہ چیزیں ہیچ دکھائی دیں.. اْدھر فرمان الٰہی دیکھا..
“درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے..” (سورۃالحجرات آیت 13)۔
تو میں نے تقوٰی اختیار کیا تاکہ اللہ کے ہاں عزت پاؤں..
۔5 لوگوں میں یہ بھی دیکھا کہ آپس میں گمانِ بد رکھتے ہیں , ایک دوسرے کو بْرا کہتے ہیں.. دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا..
“دنیا کی زندگی میں ان کی بسر اوقات کی ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں..” (سورۃ الزخرف آیت 32)۔
اس لیے میں حسد کو چھوڑ کر خلق سے کنارہ کر لیا اور یقین ہوا کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے.. خلق کی عداوت سے باز آگیا..
۔6 لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں.. اللہ کی طرف رجوع کیا تو فرمایا..
“درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو..” (سورۃ فاطر آیت 6)۔
اس بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرا لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے بچتا رہوں..
۔7 لوگوں کو دیکھا پارہ نان (روٹی کے ٹکرے) پر اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں , ناجائز امور میں قدم رکھتے ہیں.. میں نے ارشادِ باری تعالیٰ دیکھا..
“زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو..” (سورۃ ہود آیت6)۔
پھر میں ان باتوں میں مشغول ہوا جو اللہ کے حقوق میرے ذمے ہیں.. اس رزق کی طلب ترک کی جو اللہ کے ذمے ہے..
۔8 میں نے خلق کو دیکھا , ہر ایک کسی عارضی چیز پر بھروسہ کرتا ہے.. کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے , کوئی اپنی تجارت پر , کوئی اپنے پیشے پر , کوئی بدن پر , کوئی ذہنی اور علمی صلاحیتوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہے.. میں نے خدا کی طرف رجوع کیا.. یہ ارشاد دیکھا..
“جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے..” (سورۃ طلاق آیت3)۔
تو میں نے اپنے خدا پر توکل کیا.. وہی مجھے کافی ہے..”
شیخ بلخی رحمہ اللہ نے فرمایا.. “اے میرے پیارے شاگرد حاتم ! خدا تمہیں ان کی توفیق نصیب کرے.. میں نے قران کے علوم پر مطالعہ کیا تو ان سب کی اصل جڑ انہی آٹھ مسائل کو پایا.. ان پر عمل کرنے والا گویا چاروں آسمانی کتابوں کا عامل ہوا..”
بحوالہ الاحیاء العلوم.. امام غزالی رحمۃ اللہ.