روحانی اقوال

یک بزرگ کسی چرواہے کے پاس سے گزرے تو اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کوئی علم بھی ہے ؟

اس نے کہا کہ میرے پاس پانچ عمل ہیں اگر آپ ان میں اپنے پانچ اچھے اعمال کا اضافہ فرما دیں گے تو میری کشتی پار لگ جائے گی !

بزرگ نے کہا وہ کونسے اعمال ہیں کہ جن میں میری طرف سے اضافہ ھو تو وہ خزانہ بن جائیں گے ؟

چرواہے نے کہا ؛؛؛

1 ۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا ، جبکہ سچ موجود ہے !

2 ۔ میں کبھی حرام کو استعمال نہیں کرتا جبکہ حلال موجود ہے !

3 ۔ میں کبھی لوگوں کے عیوب کا ذکر نہیں کرتا اس حال میں کہ خود میرے اندر عیب موجود ہیں !

4 ۔ میں کبھی اللہ کی معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا ،اس ایمان کے ساتھ کہ وہ مجھے دیکھ رھا ھے !

5 ۔ میں کبھی کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا جبکہ وہ مجھے کفایت کرتی ہے ۔

اس پر اس حکیم نے کہا کہ تم نے تو اولین اور آخرین کے علم کا احاطہ کر لیا ہے ، ان پر جمے رھو ، اس پر مزید کچھ نہیں ہے.
 
*میری وفات*
سرما کی ایک یخ زدہ ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔
اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔ مجھ سے کوئی بات کی نہ میری بیوی سے۔ بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔
دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا، وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔ لاہور والی بیٹی کو بھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔ رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں، انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی! یوں صرف میں اور بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم!جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔ بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا۔ ”یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے۔ ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“ مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور غروب ہوگیا۔
مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسےمیں ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جاپہنچا۔ بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھامگر بول نہیں سکتا تھا۔
لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی۔ کراچی سے بھی چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔ بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کردی گئی۔ شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی آگئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی تینوں موجود تھے۔
لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر آگئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کررہا تھا۔ پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال جواب کا سیشن ہوا۔ یہ کیفیت ختم ہوئی۔ محسوس ہورہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہوچکے ہیں۔ پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی۔ ”ہم تمھیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں، دنیا میں، کسی کو نظر نہیں آؤ گے، گھوم پھر کر، اپنے پیاروں کو دیکھ لو، پھر اگر تم نے کہا تو تمھیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے۔ ورنہ واپس آجانا۔ “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور فوراً ہاں کردی۔ یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں تھا۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کودیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔ اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔ اس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں دھچکا سا لگا۔ گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟ بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔ تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟
دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟ کتابیں تھیں نہ الماریاں! رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔ مجھے فارسی کی قیمتی، ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا، داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی، جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ فاؤنٹین پینوں کا بڑا ذخیرہ تھا میرے پاس، پارکر، شیفر، کراس وہ بھی دراز میں نہیں تھا۔
میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ یہ کیا؟ اچانک مجھے یاد آیا، میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے، سُوت سے بُنے ہوئے، چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے۔ وہ غائب تھے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی! میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟ ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟ میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کررہے ہیں۔ مگر میں تو بول نہ سکتا تھا۔ نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو کچھ اس طویل گفتگو سے میں سمجھا، یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے مصر تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی! بیوی کو میری نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔ گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہوگی۔
اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔ یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔ میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے لیا تھا!اچھا، تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہوچکے تھے!
میں ایک سال، لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر، سب کو دیکھتا رہا۔ ایک ایک بیٹے، بیٹی کے گھر جاکر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کایعنی میرا ذکر آتا۔ وہ بھی سرسری سا۔ ہاں! زینب، میری نواسی، اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔ ”اماں یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھے جب میں چھوٹی سی تھی۔ اسے پھینکنا نہیں“ ماں نے جواب میں کہا، ” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ، پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کرو“۔
میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے، جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔ اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں۔ ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔ میری قبر کا برا حال تھا گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹ سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ رمق بھر بھی نہیں! بیوی یاد کرلیتی تھی تاہم بچے، پوتے نواسےپوتیاں سب بھول چکی تھیں۔ ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ تک ہٹ چکے تھےاور نئے بورڈ بھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔ دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر!
پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اور آئے جارہی تھیں، ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آچکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔
فرض کیجئے، میں فرشتوں سے التماس کرکے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں خؤش آمدید نہ کہا جاتا!بچے پریشان ہوجاتے، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی! ہوسکتا ہے بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آکر میرے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ مکان بک چکا، میں ایک تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے! دوست تھوڑے یہ اب باقی بچے تھے۔ وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل کا سامنا کررہے تھے!میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔ جدید بستی میں پرانے مقبرے کی مانند!
میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری چوائس بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں! فرشتہ مسکرایا۔ اس کا کمنٹ بہت مختصر تھا۔
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہوگا، کبھی بھرا نہیں جاسکے گا، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا!“
تحریر:- *محمد اظہار الحق*
میری وفات! - ہم سب
 
دماغ سے متعلق ایک لیکچر کے دوران ٹیچر نے بولا کے سب اپنی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جب سب نے آنکھیں بند کی تو دو پل کے بعد ٹیچر نے ایک رنگ کا نام لیا اور بولا کہ آنکھیں کھول کے فوری طور پر اپنے ارد گرد اس رنگ کو تلاش کریں۔ جب میں نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو وہ رنگ جہاں جہاں بھی تھا، مجھے نظر آنے لگا، چاہے وہ دیوار پہ لگے دھبے کی صورت تھا جس پر پہلے کبھی دھیان ہی نہ گیا تھا، یا پھر کتاب کے کوّر پر جو دن میں کئی مرتبہ دیکھنے پر بھی نظر نہ آیا تھا۔ میں حیران تھا، جس طرف بھی نظر دوڑائی اس رنگ نے اپنی موجودگی کی پتہ دیا۔ تب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ دراصل یہ دماغ ہی ہے جو انسان کو وہی دیکھاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہے۔ وہ سناتا ہے جو وہ سننا چاہے۔
آج میں ایک اور چیز سوچنے پہ مجبور ہوں کہ یہ جو مجھے ہر طرف ناامیدی اور مایوسی نظر آتی ہے اسکی اصل وجہ ہے کیا۔ میں اداس ہوں تو لگتا سارا زمانہ اداس ہے۔ بے حسی، نفرت، دھوکہ، فریب یہ سب ہر جگہ کیوں نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دماغ کاہی کھیل ہے۔ شائد امید اور نا امیدی ہر جگہ ہی موجود ہیں صرف میرے دماغ کی سیٹنگ ہے جو مجھے نا امیدی دیکھائی دیتی ہے۔ انسانیت اب بھی باقی ہے، وفاداری اور محبت کہیں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں، کیوں کہ میرا دماغ یہ سب محسوس کرنا نہیں چاہتا تو میں بھی ایسی چیزوں کے پاس سے بے حس گزر جاتی ہوں۔
آج ایک کام کرتے ہیں ایک بار آنکھیں بند کر کے دماغ کی ساری سیٹنگز کو ریسٹور کرتے ہیں اور دماغ کو سمجھاتے ہیں کہ اب امید کو ڈھونڈے۔ مجھے یقین ہے آنکھیں کھولنے پر امید جہاں جہاں بھی ہوگی ضرور اپنا پتہ دے گی۔
تحریر: زویا حسین
 
آخری تدوین:
آج کسی بندے نے جو سالک بھی ہے سوال کیا کہ جب قسمت لکھ دی گئی ہے تو اب اس میں ردوبدل کیسی ہوگی مثلا رزق کیسے بڑھے گا۔ناگہانی حادثات سے کیسے بچا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

جواب:واقعی رزق تو لکھ دیا گیا ہے ،جو مصیبت انسان پر آنی ہے وہ آکر رہے گی اور جو راحت ملنی ہے وہ مل کر رہے گی۔یعنی یہ سب تفصیل لوح محفوظ پر لکھی ہوتی ہے۔

لیکن میرے دوست ابھی آپ کو لوح محفوظ کی طرز معلوم نہیں ہے کہ لوح محفوظ کی کتنی طرزیں ہوتی ہیں؟؟؟
سو جب آپ کوئی نیک کام کرتے ہو تو دوسری طرز سبقت کرتی ہے اور آپ برائی سے بچ جاتے ہو
اسی طرح جب آپ صدقہ کرتے ہو تو آپ حادثے سے بچ جاتے ہو اور رزق میں بڑھوتری ہوتی ہے
پھر صدقات کی تفصیل سمجھائی کہ کس طرح کس حادثات سے حفاظت ہوتی ہے کس طرح رزق بڑھتا ہے کس طرح بال بچوں کی تعلیمی صلاحیتیں بڑھتی ہیں کس طرح گھر میں اتفاق آتا ہے کس طرح میاں بیوی میں اتفاق و محبت پیدا ہوتی ہے کس طرح قسمت ساتھ دیتی ہے کس طرح روحانی صلاحیتیں بڑھتی ہیں کس طرح کاروبار و کیریر بڑھتا یا بنتا ہے کس طرح دوست ساتھ دیتے ہیں کس طرح دشمن ناکام اور نقصانات سے بچا جاتا ہے
 
ہر کہ خود را کرد بینا جسم خود در اسم حق
حق ز حق حق یافتہ غالب شدہ بر جملہ خَلق

جس نے خود کو اسمِ اللہ ذات میں غرق کر کے چشمِ بینا حاصل کر لی وہ بارگاہِ حق میں حق یافتہ ہو کر جملہ خَلق پر غالب آگیا۔

نُور الھدیٰ، ص : 369، حضرت سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
آج کسی بندے نے جو سالک بھی ہے سوال کیا کہ جب قسمت لکھ دی گئی ہے تو اب اس میں ردوبدل کیسی ہوگی مثلا رزق کیسے بڑھے گا۔ناگہانی حادثات سے کیسے بچا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

جواب:واقعی رزق تو لکھ دیا گیا ہے ،جو مصیبت انسان پر آنی ہے وہ آکر رہے گی اور جو راحت ملنی ہے وہ مل کر رہے گی۔یعنی یہ سب تفصیل لوح محفوظ پر لکھی ہوتی ہے۔

لیکن میرے دوست ابھی آپ کو لوح محفوظ کی طرز معلوم نہیں ہے کہ لوح محفوظ کی کتنی طرزیں ہوتی ہیں؟؟؟
سو جب آپ کوئی نیک کام کرتے ہو تو دوسری طرز سبقت کرتی ہے اور آپ برائی سے بچ جاتے ہو
اسی طرح جب آپ صدقہ کرتے ہو تو آپ حادثے سے بچ جاتے ہو اور رزق میں بڑھوتری ہوتی ہے

پھر صدقات کی تفصیل سمجھائی کہ کس طرح کس حادثات سے حفاظت ہوتی ہے کس طرح رزق بڑھتا ہے کس طرح بال بچوں کی تعلیمی صلاحیتیں بڑھتی ہیں کس طرح گھر میں اتفاق آتا ہے کس طرح میاں بیوی میں اتفاق و محبت پیدا ہوتی ہے کس طرح قسمت ساتھ دیتی ہے کس طرح روحانی صلاحیتیں بڑھتی ہیں کس طرح کاروبار و کیریر بڑھتا یا بنتا ہے کس طرح دوست ساتھ دیتے ہیں کس طرح دشمن ناکام اور نقصانات سے بچا جاتا ہے
جزاک اللہ

براہ کرم اگر ممکن ہو تو صدقات کی تفصیل بھی لکھ دیجیے۔
 
جزاک اللہ

براہ کرم اگر ممکن ہو تو صدقات کی تفصیل بھی لکھ دیجیے۔
نظامی صاحب ہر عمل کی تفصیل نہیں بتائی جاتی ہے کچھ چیزوں کو اجمال میں ہی رہنے دیں۔
ویسے اگر آپ کو زیادہ شوق ہے تو فون کردیجئے آپ کے پاس تو میرا موبائل نمبر مؤجود ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
یک بزرگ کسی چرواہے کے پاس سے گزرے تو اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کوئی علم بھی ہے ؟

اس نے کہا کہ میرے پاس پانچ عمل ہیں اگر آپ ان میں اپنے پانچ اچھے اعمال کا اضافہ فرما دیں گے تو میری کشتی پار لگ جائے گی !

بزرگ نے کہا وہ کونسے اعمال ہیں کہ جن میں میری طرف سے اضافہ ھو تو وہ خزانہ بن جائیں گے ؟

چرواہے نے کہا ؛؛؛

1 ۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا ، جبکہ سچ موجود ہے !

2 ۔ میں کبھی حرام کو استعمال نہیں کرتا جبکہ حلال موجود ہے !

3 ۔ میں کبھی لوگوں کے عیوب کا ذکر نہیں کرتا اس حال میں کہ خود میرے اندر عیب موجود ہیں !

4 ۔ میں کبھی اللہ کی معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا ،اس ایمان کے ساتھ کہ وہ مجھے دیکھ رھا ھے !

5 ۔ میں کبھی کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا جبکہ وہ مجھے کفایت کرتی ہے ۔

اس پر اس حکیم نے کہا کہ تم نے تو اولین اور آخرین کے علم کا احاطہ کر لیا ہے ، ان پر جمے رھو ، اس پر مزید کچھ نہیں ہے.
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
بہت پیاری نصیحتیں ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
*میری وفات*
سرما کی ایک یخ زدہ ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔
اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔ مجھ سے کوئی بات کی نہ میری بیوی سے۔ بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔
دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا، وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔ لاہور والی بیٹی کو بھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔ رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں، انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی! یوں صرف میں اور بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم!جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔ بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا۔ ”یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے۔ ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“ مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور غروب ہوگیا۔
مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسےمیں ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جاپہنچا۔ بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھامگر بول نہیں سکتا تھا۔
لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی۔ کراچی سے بھی چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔ بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کردی گئی۔ شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی آگئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی تینوں موجود تھے۔
لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر آگئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کررہا تھا۔ پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال جواب کا سیشن ہوا۔ یہ کیفیت ختم ہوئی۔ محسوس ہورہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہوچکے ہیں۔ پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی۔ ”ہم تمھیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں، دنیا میں، کسی کو نظر نہیں آؤ گے، گھوم پھر کر، اپنے پیاروں کو دیکھ لو، پھر اگر تم نے کہا تو تمھیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے۔ ورنہ واپس آجانا۔ “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور فوراً ہاں کردی۔ یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں تھا۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کودیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔ اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔ اس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں دھچکا سا لگا۔ گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟ بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔ تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟
دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟ کتابیں تھیں نہ الماریاں! رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔ مجھے فارسی کی قیمتی، ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا، داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی، جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ فاؤنٹین پینوں کا بڑا ذخیرہ تھا میرے پاس، پارکر، شیفر، کراس وہ بھی دراز میں نہیں تھا۔
میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ یہ کیا؟ اچانک مجھے یاد آیا، میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے، سُوت سے بُنے ہوئے، چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے۔ وہ غائب تھے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی! میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟ ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟ میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کررہے ہیں۔ مگر میں تو بول نہ سکتا تھا۔ نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو کچھ اس طویل گفتگو سے میں سمجھا، یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے مصر تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی! بیوی کو میری نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔ گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہوگی۔
اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔ یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔ میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے لیا تھا!اچھا، تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہوچکے تھے!
میں ایک سال، لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر، سب کو دیکھتا رہا۔ ایک ایک بیٹے، بیٹی کے گھر جاکر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کایعنی میرا ذکر آتا۔ وہ بھی سرسری سا۔ ہاں! زینب، میری نواسی، اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔ ”اماں یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھے جب میں چھوٹی سی تھی۔ اسے پھینکنا نہیں“ ماں نے جواب میں کہا، ” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ، پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کرو“۔
میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے، جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔ اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں۔ ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔ میری قبر کا برا حال تھا گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹ سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ رمق بھر بھی نہیں! بیوی یاد کرلیتی تھی تاہم بچے، پوتے نواسےپوتیاں سب بھول چکی تھیں۔ ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ تک ہٹ چکے تھےاور نئے بورڈ بھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔ دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر!
پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اور آئے جارہی تھیں، ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آچکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔
فرض کیجئے، میں فرشتوں سے التماس کرکے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں خؤش آمدید نہ کہا جاتا!بچے پریشان ہوجاتے، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی! ہوسکتا ہے بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آکر میرے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ مکان بک چکا، میں ایک تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے! دوست تھوڑے یہ اب باقی بچے تھے۔ وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل کا سامنا کررہے تھے!میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔ جدید بستی میں پرانے مقبرے کی مانند!
میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری چوائس بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں! فرشتہ مسکرایا۔ اس کا کمنٹ بہت مختصر تھا۔
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہوگا، کبھی بھرا نہیں جاسکے گا، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا!“
تحریر:- *محمد اظہار الحق*
میری وفات! - ہم سب

واقعی۔سب خلا پر ہوجاتے ہیں۔بڑے بڑے لوگ چلے گئے۔ہم کیا اور ہماری اوقات کیا!!
 

جاسمن

لائبریرین
دماغ سے متعلق ایک لیکچر کے دوران ٹیچر نے بولا کے سب اپنی اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جب سب نے آنکھیں بند کی تو دو پل کے بعد ٹیچر نے ایک رنگ کا نام لیا اور بولا کہ آنکھیں کھول کے فوری طور پر اپنے ارد گرد اس رنگ کو تلاش کریں۔ جب میں نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو وہ رنگ جہاں جہاں بھی تھا، مجھے نظر آنے لگا، چاہے وہ دیوار پہ لگے دھبے کی صورت تھا جس پر پہلے کبھی دھیان ہی نہ گیا تھا، یا پھر کتاب کے کوّر پر جو دن میں کئی مرتبہ دیکھنے پر بھی نظر نہ آیا تھا۔ میں حیران تھا، جس طرف بھی نظر دوڑائی اس رنگ نے اپنی موجودگی کی پتہ دیا۔ تب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ دراصل یہ دماغ ہی ہے جو انسان کو وہی دیکھاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہے۔ وہ سناتا ہے جو وہ سننا چاہے۔
آج میں ایک اور چیز سوچنے پہ مجبور ہوں کہ یہ جو مجھے ہر طرف ناامیدی اور مایوسی نظر آتی ہے اسکی اصل وجہ ہے کیا۔ میں اداس ہوں تو لگتا سارا زمانہ اداس ہے۔ بے حسی، نفرت، دھوکہ، فریب یہ سب ہر جگہ کیوں نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دماغ کاہی کھیل ہے۔ شائد امید اور نا امیدی ہر جگہ ہی موجود ہیں صرف میرے دماغ کی سیٹنگ ہے جو مجھے نا امیدی دیکھائی دیتی ہے۔ انسانیت اب بھی باقی ہے، وفاداری اور محبت کہیں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں، کیوں کہ میرا دماغ یہ سب محسوس کرنا نہیں چاہتا تو میں بھی ایسی چیزوں کے پاس سے بے حس گزر جاتی ہوں۔
آج ایک کام کرتے ہیں ایک بار آنکھیں بند کر کے دماغ کی ساری سیٹنگز کو ریسٹور کرتے ہیں اور دماغ کو سمجھاتے ہیں کہ اب امید کو ڈھونڈے۔ مجھے یقین ہے آنکھیں کھولنے پر امید جہاں جہاں بھی ہوگی ضرور اپنا پتہ دے گی۔
تحریر: زویا حسین

درست
 

جاسمن

لائبریرین
Rohaani Babaa

آسانیاں بانٹنا​
آج وہ اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر درویش کے پاس پہنچا تھا..... جب اس کی باری آئی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا بلاتمہید درویش سے دعا کرنے کو کہا ...... درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذب سے دُعا دی:​
"اللہ تجھے آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا فرمائے"
دعا لینے والے نے حیرت سے کہا:
"حضرت! الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ھر سال وقت پر زکاۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں.... اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، الله کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں .....
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا:
"میرے بچے! سانس، پیسے، کھانا ... یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں، اور یاد رکھو "رَازِق اور الرَّزَّاق" صرف اور صرف الله تعالٰی کی ذات ہے.... تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں ..... تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو الله تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے ، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو."
درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لیا اور پھر بولا:
"میرے بچے! آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا
کسے کہتے ہیں.....
*- کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا..... آسانی ہے!
*- اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا.... آسانی ہے!
*- صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا.... یہ آسانی ہے!
*- اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا... یہ بھی آسانی ہے!
*- غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا.... یہ بھی آسانی ہے!
*- چائے کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا..... بھی آسانی ہے!
*- گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا..... یہ آسانی ہے!
*- تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا..... یہ بھی آسانی ہے!
*- ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا..... یہ بھی آسانی ہے!
*- ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو ...... سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے!"
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کو شفقت سے سر پر ھاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جارے رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا:
"بیٹا جی! تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے؟
*- آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا ،
*- آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو ،
*- آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پہنچ جایا کرنا.... اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے ،
*- بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو ،
*- آیندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا ،
*- سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا ،
*- کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا ،
میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں ، تم زندگی کے محتاج ہو ، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ ، ان شاء الله تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی ....!!!!
آئیں! صدقِ دِل سے دُعا کریں کہ الله تعالٰی ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین

آمین!
 
مرے نقش گر! مرے کوزہ گر!مجھے مت بنا ، یہیں توڑ دے
اسی خاک میں مجھے خاک کر، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے

جو گداءِ کوچہءِ یار ہیں، میں تو اُن کے قدموں کی خاک ہوں
مرا سر جھکا ہوا مت اُٹھا!مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے

مرے مالکا ! مجھے یہ بتا کہ تُو اور کتنا رُلائے گا؟
ہو ملاحظہ ذرا چشمِ تر! مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے

وہ محبتیں ، وہ حماقتیں ، وہ رفاقتیں،وہ ریاضتیں
ذرا بھول جانے دے سر بسر، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے

علیؔ مجھ سے چھین لے سب مرا، نہ تُو یاد کر، نہ ہی یاد آ!
ذراسُن لے عرضی ءِ مختصر! مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے
...
علیؔ سرمد
 
آج کچھ سوچ رہا تھا اور سڑک پر چل رہا تھا جو کہ دنیاوی فوائد سے متعلق تھا وغیرہ وغیرہ
تو اچانک میرا ہمزاد نکل کر میرے ساتھ چل پڑا اور مجھ سے کہنے لگا کہ یہ تو کیسی سوچیں سوچ رہا ہے تیری مثال تو بکری کی ہے جس کو مخلوق خدا دوہتی ہے اس کے دودھ سے بھی لطف اندوز ہوتی ہےا ور بعد میں کاٹ کر کھا جاتی ہے۔ تیری مثال تو اس پھلدار درخت کی ہے جس کو مخلوق خدا پتھر بھی مارتی ہے اور بعد میں جلا کر ہاتھ بھی تاپتی ہے اور فرنیچر بنا کر ڈرائنگ روم کی زینت بھی بنا دیتی ہے تو ہر صورت میں مخلوق خدا کے برتنے اور استعمال کے لیئے ہے اے دنیا دار کتے! کیا تو ایک ولی اللہ کا وہ واقعہ بھول گیا کہ ایک بچھو ڈوب رہا تھا تو اس کو پکڑ کر نکالنے پر وہ ڈنگ مارتا تھا اور جب درد کی شدت سے وہ ہاتھ جھٹکتے تھے تو وہ دوبارہ پانی میں گر جاتا تھا بالآخر پانچ سے زیادہ مرتبہ جب ہاتھ کاٹنے کا عادی ہوگیا تو اس کو نکال کر کنارے پر پھینک دیا۔
 
مولانا رومی رح فرماتے ہیں کہ ایک شیریں زبان آدمی رات کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر درزیوں کے بارے میں مزےدار قصے سنا رہا تها، داستان گو اتنی معلومات رکهتا تها کہ باقاعدہ اچها خاصا درزی نامہ مرتب ہوسکتا تها ،جب اس آدمی نے درزیوں کی چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کردینے کے ان گنت قصے بیان کرڈالے ،سننے والوں میں ملک خطا کا ایک ترک جسے اپنی دانش و ذہانت پر بڑا ناز تها کہنے لگا،”اس علاقے میں سب سے گرو درزی کونسا ہے ؟داستان گو نے کہا :”یوں تو ایک سے ایک ماہر فن اس شہر کے گلی کوچوں میں موجود ہیں ،لیکن پورش نامی درزی بڑا فنکار ہے ،اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں ،ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا تو کپڑا آنکهوں کا کاجل تک چرالے اور چوری کا پتہ نہ لگنے دے،ترک کہنے لگا :لگا لو مجھ سے شرط میں اس کے پاس کپڑا لے کر جائوں گا ،اور دیکهوں گا کہ وہ کیونکر میری آنکهوں میں دهول پهونک کے کپڑا چراتا ہے،میاں کپڑا تو درکنار ایک تار بهی غائب نہ کرسکے گا “،دوستوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے “ارے بهائی زیادہ جوش میں نہ آ،تجھ سے پہلے بهی بہت سے یہی دعویٰ کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کهاگئے،تو اپنی عقل و خرد پر نہ جا،دهوکا کهائے گا”،محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گهر چلا گیا اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطراب میں ساری رات گزاری صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا کپڑا لیا اور پورش درزی کا نام پوچهتا پوچهتا اس کی دکان پر پہنچ گیا ،درزی اس ترک گاہک کو دیکهتے ہی نہایت ادب سے کهڑا ہوکر تسلیمات بجالایا، درزی نے خوش اخلاقی و تعظیم و کریم کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ترک بےحد متاثر ہوا ،دل میں کہنے لگا یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغاباز نظر نہیں آتا ،لوگ بهی خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں ،یہ سوچ کر قیمتی اطلس درزی کے آگے دهر دی اور کہنے لگا “اس اطلس کی قبا مجهے سی دیں۔”درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے اپنے سینے پر باندهے اور کہنے لگا، “حضور قبا ایسی سیوں گا جو نہ صرف آپ کے جسم پر زیب دے گی بلکہ دنیا دیکهے گی،اس نے کپڑا گز سے ناپا پهر کاٹنے کے لئے جابجا اس پر نشان لگانے لگا ،ساتھ ہی ساتھ ادهر ادهر کے پرلطف قصے چهیڑ دیئے ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہونے لگیں جن میں ترک کو بےحد دلچسپی ہوگئی،جب درزی نے اسکی دلچسپی دیکهی تو ایک مزاحیہ لطیفہ سنایا جسے سن کر ترک ہنسنے لگا اس کی چندهی چندهی آنکهیں اور بهی مچ گئیں درزی نے جهٹ پٹ کپڑا کاٹا اور ران تلے ایسا دبایا کہ سوائےخدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا،
غرض کی اس پرلطف داستان سرائی میں ترک اپنا اصل مقصد اور دعوی فراموش کر بیٹها ،کدهر کی اطلس ،کہاں کی شرط،ہنسی مذاق میں سب سے غافل ہوگیا،ترک درزی سے کہنے لگا ایسی ہی مزیدار کوئی اور بات سناؤ ،درزی نے پهر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا ،ترک اتنا ہنسا کہ اس کی آنکهیں بالکل بند ہوگئیں ،ہوش و حواس رخصت ،عقل و خرد الوداع،اس مرتبہ درزی نے پهر کپڑا کاٹ کر ران تلے دبا لیا ،ترک نے چو تهی بار مذاق کا تقاضا کیا تو درزی کو کچھ حیا آگئی اور کہنے لگا، مزید تقاضا نہ کر اگر ہنسی کی اور بات کہوں گا تو تیری قبا تنگ ہوجائے گی،مولانا رومی رح نصیحت فرماتے ہیں کہ جانتے ہو وہ ترکی کون تها ،دغاباز درزی کون تها ؟؟ اطلس کیاہے اور ہسنی مذاق کیا ہے ؟؟قینچی کیا ہے اور قبا کیا چیز ہے ؟؟سنوں وہ غافل ترک تیری ذات ہے جسے اپنی عقل و خرد پر بڑها بهروسہ ہے ،وہ عیار دهوکہ باز درزی یہ دنیائے فانی ہے، ہنسی مذاق نفسانی جذبات ہیں ،تیری عمر اطلس پر دن رات درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے،اطلس کی قبا تجهے بهلائی اور نیکی کے لئے سلوانی تهی،وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہوگئی،اے عزیز ! اپنے ہوش و حواس درست کر ظاہر کو چهوڑ،باطن کی طرف توجہ کر،تیری قیمتی عمر کی اطلس لیل و نہار کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے ٹکڑے کرکے چرائے جارہا ہے اور تو ہنسی مذاق میں مشغول ہے۔
 
ہم خدا خواہی و ہم دنیا دنیائے دوں
این خیال است و محال است و جنوں
تو خدا کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور کمینی دنیا بھی حاصل کرنا چاہتا ہے
یہ صرف تیرا خیال ہے یہ محال ہے بلکہ پاگل پن کی حد تک سوچ ہے
 
چوں جدا بینی زِحق ایں خواجہ را
گم کنی، ہم متن و ہم دیباچہ را
جب تو مرشد اور حق کو جدا سمجھے گا تو سمجھ کہ تیری اصل کتاب بھی گئی اور اس کا دیباچہ بھی گیا۔
 
کاف سے قاف تک کا سفر

چچ نامہ میں مندرج ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے قبل ایک عورت کا تذکرہ ہے کہ ایک دن میں بعد الطرفین سے ہوآتی تھی یعنی زمین کی طنابیں اس کے قدموں تلے سمٹ جاتی تھیں ۔جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں کاف سے قاف تک سفر کرتی ہوں ۔(جدول دیکھیں کہ کاف سے قاف کیسے لکھا ہے)
بہجتہ الاسرار جو محبوب سبحانی حضرت قطب ربانی غوث صمدانی پیران پیردستگیر حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ کے حالات زندگی پر لکھی گئی ہے جس کے مؤلف ہیں امام ابو الحسن الشطنونی الشافعی وہ فرماتے ہیں کہ شیخ کامل کی پہچان یہ ہے کہ وہ ۔’’ کاف سے قاف پہچان لے ‘‘۔آپ سے پوچھا گیا کہ کاف سے قاف کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کو اللہ تبارک تعالیٰ تمام مؤجودات پر ابتدائے خلقت سے جو کلمہ کن سے ہوئی ہیں اس مقام تک وقفو ھم انھم مسئولون یعنی ان کو روکو بے شک ان سے پوچھا جائے گا ۔اس تک مطلع کردے۔(جدول دیکھیں کہ کاف سے قاف کیسے لکھا ہے)۔
جناب محمود شبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ’’ گلشن راز ‘‘ کی شروعات ہی اس حقیقت یعنی ’’ کاف‘‘کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ؎
ز فضلش ہر دو عالم گشت روشن
ز فیضش خاک آدم گشت گلشن
توانائے کہ دریک طرفۃ العین
زکاف و نون پدید آورد کونین
چوں قاف قدرتش دم بر قلم زد
ہزاراں نقش بر لوح عدم زد
ترجمہ: اسی کے فضل سے دو عالم روشن ہوئے اسی کے فیض سے خاک آدم گلشن ہوئی ۔وہ ایسا توانا ہے کہ جس نے پلک جھپکنے میں کاف اور نون سے دو جہان پیدا کیئے ۔جب اس کے قافِ قدرت نے قلم پر دم مارا تو ہزاروں نقش لوح عدم سے منصۂِ شہود پر نمودار ہوئے ۔
واضح ہو کہ یہ وہی گلشن راز ہے جو کہ717ھجری کو جناب قبلہ میر سید حسین خراسانی جو کہ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ مجاز ہیں ان کے ایک خط کے جواب میں لکھی گئی تھی جیسا کہ گلشن راز میں مذکور ہے ؎
بزرگے کاندر آن جا ہست مشہور
باقسام ہنر چون چشمہ نور
(وہاں ایک بزرگ مشہور ہیں جو کہ علوم وفنون میں یکتا ئے زمانہ ہیں)
جہاں و جان وتن و نورِ عینی
امام سالکاں سید حسینی
جہان اورجان اور تن کی آنکھوں کا نور ہیں نامِ نامی سید حسینی ہے جو کہ سالکین کے امام ہیں)
انھوں نے اہل تبریز کو لکھا اور اسی کلمہ یعنی کاف سے قاف تک کا جواب پوچھا اور جواب بھی نثر کی بجائے سخن کی زبان میں مانگا گیا تھا(یعنی نظم کی صورت) قاصدجب خط لیکر کر تبریز پہنچا اور اس نے اس خط کو اکابرین تبریز کے حضور مجلس میں باآوزِ بلند پڑھا تو سب نے محمود شبستری کی طرف نظر کی ۔تو اہل مجلس میں سے جناب شیخ امین الدین تبریزی نے محمود شبستری کو کہا کہ آپ خط کا جواب دیں ۔محمودشبستری نے کہا کہ جناب میں نے ساری عمر کبھی شعر و شاعری کا قصد نہیں کیا لیکن اب اللہ کے فضل سے میں اس کا جواب دونگا ۔محمود شبستری نے اسی محفل میں کھڑے کھڑے ایک عظیم مثنوی کی صورت میں جواب دیاجو کہ مثنوی گلشن راز کے نام سے مشہور ہے اور معنی کا ایک جہان اس میں پوشیدہ ہے شائد اسی لیئے قلندر لاہوری ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے گلشن راز سے متاثر ہوکر گلشن راز جدید تحریر فرمائی
 
حمزہ خان شینواری کی ایک لاجواب غزل جو کہ مجھے بہت پسند ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ سن رہا تھا سوچا کہ آپ لوگوں سے شیئر کرلوں۔ شروع کے اشعار میں غزل سرا یعنی مغنی تمہید باندھتا ہے اور پھر غزل شروع کرتا ہے کاش کے میں وہ تمہید بھی ترجمہ کرسکتا ہے لیکن اس کے لیئے ایک پورا ایک دفتر چاہیئے۔ اس ویڈیو کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حمزہ خان شینواری رحمۃ اللہ علیہ خود بھی پروگرام میں تشریف فرما ہیں اورپشتو زبان کے مشہور زمانہ گائیک خیال محمد کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ جب ویڈیو 3 منٹ اور پچاس سیکینڈ چل جائے تو ایک پگڑی والا آدمی نظر آتا ہے جس کی پگڑی کا شملہ بھی نکلا ہوتا ہے یہی حمزہ بابا ہیں۔ حمزہ بابا سید عبدالستار شاہ بادشاہ کے مرید خاص تھے اور ان کو اپنے مرشد سے وہی نسبت تھی جو کہ طوطی ہند حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کو حضور بابا نظام الدین اؤلیاء رحمۃ اللہ علیہ سے تھی ۔

پریگدہ چہ لوظونہ د دروغو د رختیا کڑم
تہ راتہ سبا سبا کوہ،زہ بہ بیگا کڑم

اے پیر و مرشد آپ نے جو جھوٹے سچے وعدے کیئے تھے وہ میں نے سچ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے آپ آج کل آج کل کہہ کر ٹال رہے ہیں اور میں نے شام تک آپ سے وعدہ ایفا کروا لینا ہے۔
اس میں شاعر حمزہ خان شینواری یعنی حمزہ بابا کہہ رہے ہیں کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کررکھا ہے کہ آپ مجھے اصل نعمت سے نوازیں گے جس کے لیئے آپ آج دے دونگا اور کل دے دونگا کہہ کر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں تو آج میں نے شام تک آپ سے عرفان ذات کی نعمتِ خداوندی حاصل کرلینی ہے۔

خہ د ما تہ چی داسے پریدے پریدے اخکارےگی
ستا ہُم دے ادا خو زہ ستا سرہ اشنا کڑم

آپ مجھے پرائے پرائے سے لگتے ہیں اور آپ کی اسی ادا نے تو مجھے آپ کا دیوانہ بنا دیا ہے یعنی آپ پر اچانک ہی تجلیات کا ظہور ہونے لگتا ہے اور اس کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ بدلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے آپ مجھے بیگانے بیگانے سے لگتے ہیں ۔


پام لرمہ دا چی دا ماضی نا خراج واخلم
ز بہ پخوانے شمہ ستا مینہ بہ پخلا کڑم

گمان رکھتا ہوں کہ میں ماضی سے خراج وصول کرونگا ۔ میں پرانا ہوجاؤنگا اور آپ کی محبت کو منا لونگا ۔یعنی جس طرح کے ہم لوگ کہتے ہیں کہ آج کل زمانہ میں مادہ پرستی بہت زیادہ ہے اور گئے گزرے زمانے کے لوگ بہت زیادہ عاشق شوریدہ سر ہوا کرتے تھے تو حمزہ بابا کہتے ہیں کہ اے پیر ومرشد میں بھی عہد قدیم کے لوگوں کی طرح آپ کی محبت میں تن من دھن کی بازی لگا دونگا اور آپ کی توجہ اور محبت کو حاصل کرلونگا۔

ستا دا طوفانی نظر بہ سا شی لنڈا گنڈہ
داسے نوی نوی اسیلی درلہ پیدا کڑم
آپ کی طوفانی نظر جب مجھ پر پڑے گی تو وہ ٹوٹ جائے گی کیونکہ میں نئی نئی آہ و فُگاں ایجاد کرونگا۔ یعنی آپ کی جلالی نظر جب مجھ پر پڑے گی تو وہ میری سسکیاں اور آہ بکا کو دیکھ کر وہ جمال میں بدل جائے گی۔
لا یم دا سپین مخ خالونہ شمارمہ اوزگار نہ یم
پریدہ الوتنہ دا سپوگمئی پہ لوری بیا کڑم
میں ابھی تیرے سفید چہرے کے تل گننے میں لگا ہوا ہوں اس لیئے یہ روحانیت کی پرواز کو پھر بھر لینا۔ یعنی میں اسوقت آپ کے حسین چہرے کی زیارت کررہا ہوں اور آپ بھی میرے ساتھ ایک عام انسان کی طرح برتاؤ کریں کیونکہ جب آپ حق کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں تو آپ کے چہرے کے تاثرات بوجہ تجلیات ِ جلال و جمال سے بدلتے رہتے ہیں تو میری توجہ منقسم ہوجاتی ہے۔
یو تہ اے چی قدر ہیس زما دا اخکو نہ کڑے
وایا کانہ سومرا مشتری در لہ پیدا کڑم

ایک آپ ہیں کہ میرے اشکوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیںحکم کریں کتنے مشتری حاضر خدمت کردوں۔ یعنی آپ مجھ کو وہ امانت وہ خلعت عرفانی نہیں عطا کررہے ہیں باؤجود یہ کہ میں ہر وقت اپ کو رو دھو کر یقین دلاتا رہتا ہوں کہ آپ کے اعتماد پر پورا اترونگا اور ایک آپ ہیں مزید تپا کر کندن بنانا چاہتے ہیں جب کہ میں کندن بن چکا ہوں ۔ یہاں مشتری کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی جیسے کہ ہم لوگ عام طور دھوکہ دہی سے بچنے کے لیئے عام فہم زبان میں کہتے ہیں مشتری ہوشیار باش ۔ بنیادی طور پر مشتری جس کو فارسی میں برجیس بھی کہا جاتا ہے ایک کوکب ہے جو کہ فلک ششم پر حکمرانی کرتا ہے علم نجوم کی رُو سے مشتری کی منسوبات میں یہ خصوصیت شامل ہے کہ جس بندے کے پیدائشی زائچے میں مشتری کمزور ہو تو ایسے بندے پر مخلوق خدا اعتبار اور اعتماد نہیں کرتی ہے ۔

 
Top