روحانی اقوال

971341_389691734464394_1852422184_n.jpg
 
یہ اقتباس میں نے عامر ہاشم خاکوانی کے ایک کالم سے لیا ہے ۔۔۔۔۔ملتان کے ایک شاہ صاحب کے بیٹے کی بات کررہے ہیں
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، والدین نے اسے کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ایک روز اسکے والد کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو کیلوں کا ایک ڈبا لا کے دیا اور گھر کے پچھلے حصے کی دیوار کے پاس لے جا کر کہنے لگے، “ بیٹا جب بھی تمہیں غصہ آئے ۔اس میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا۔پہلے دن لڑکے …نے دیوار میں 37 کیلیں ٹھونکیں۔ایک دو ہفتے گزرنے کے بعد بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔اس نے یہ بات اپنے والد کو بتائی۔والد نے مشورہ دیاکہ اب جب تمھیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کر لو تو ایک کیل دیوار میں سے نکال دینا۔لڑکے نے ایسا ہی کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں نکال لیں۔
باپ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اس دیوار کے پاس لے جا کر کہنے لگے،بیٹا تم نے اپنے غصے کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن ذرا اس دیوار کو غور سے دیکھو ! یہ پہلے جیسی نہیں‌رہی۔ اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔جب تم غصے سے چیختے چلاتے ہو اور الٹی سیدھی باتیں‌کرتے ہو تو اس دیوار کی مانند تمھاری شخصیت پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے۔تم انسان کے دل میں‌چاقو گھونپ کر اسے باہر نکال سکتے ہو لیکن چاقوباہر نکالنے کے بعد تم ہزار بار بھی معذرت کرو ، معافی مانگو ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔وہ زخم اپنی جگہ باقی رہے گا
 
ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں
وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔
سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟
بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ۔لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ،وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کرکسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دئے
دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نےکہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانےکی بھی پیشکش کی۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینےسے انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا ۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا ۔یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے
جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے۔
 
صائمہ اکرم چوہدری کے ناول ’’ابن آدم‘‘سے اقتباس:
اُس نے سامنے پہاڑوں پر پھیلتی دھوپ اور اُداسی کے رنگوں کو اپنے دل میں اترتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ وہ ایک بڑے سارے پتھر پر بے تکلفی سے بیٹھی ہوئی تھی۔وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کی غیرموجودگی میں ان کے ملنے جلنے والے اُس کو یا اس کہ بہنوں کو بھی ڈسکس کر سکتے ہیں اس کا تعلق جس کلاس سے تھا وہاں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کی ذاتیات کو ڈسکس کرنے کا کہاں وقت ہوتا ہے لیکن یہ اس پر آج ادراک ہواتھا کہ طبقہ کوئیبھی ہو،لوگ دوسروں کی ذات پر بات کرنے کا وقت کہیں نہ کہیں سے نکال ہی لیتے ہیں،دوسروں کے زخموں کو کریدنااور ان سے لطف اندوز ہونا تو ویسے بھی کچھ لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتاہے،چھوٹی ذہنیت کی کوئی کلا س نہیں ہوتی۔‘‘
 
" کہتے ہیں ایک شخص ایک عقلمند کے پیچھے سات سو میل' سات باتیں دریافت کرنے کے واسطے گیا۔۔ جب وہاں پہنچا تو کہا !!!
ًمیں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں ۔۔"
آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟
زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟
پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟
کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟
کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟
کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟
یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟
عقلمند نے جواب دیا !!
"بے گناہ پر بہتان لگانا آسمانوں سے زیادہ بھاری ہے ۔۔
اور حق زمین سے زیادہ وسیع ہے اور کافر کا دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔۔
حرص و حسد آگ سے زیادہ جلائے جانے والی ہیں اور رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونا زمہریر سے زیادہ سرد ہے ۔۔
قانع کا دل سمندر سے زیادہ غنی ہے اور چغل خور کی حالت یتیم سےبدتر ہوتی ہے ۔۔۔"
 
حوا کی تمام بیٹیوں کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں عورت ہوں ۔۔۔۔۔!

میں جنم لوں تو گالی ہوں۔۔۔۔۔۔

میں ہوش سنبھال لوں تو عزت ہوں۔۔۔۔

میں لٹ جاؤں تو عصمت ہوں۔۔۔

اے لوگو! ہاں میں عورت ہوں ! میں پڑھنا چاہوں تو پرایا دھن ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاؤں تو بٹیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انصاف مانگوں تو ڈائن ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگوں ہاں میں عورت ہوں۔۔۔۔
 
کہتے ہیں کہ پُرانے زمانے کے ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور ان کی اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنی ہو تو تشبیہات ، استعارات ، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔
ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے
انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔
ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:۔
"حضورِ والا،! یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر، پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے ۔ وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے آپ حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں ۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے بلند ہو کرچند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستارِ فضیلت پر براجمان ہو گیا ۔ اگر اس فتنہ کی بر وقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضورِ والا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔"
 

سید زبیر

محفلین
حوا کی تمام بیٹیوں کے نام ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ہاں میں عورت ہوں ۔۔۔ ۔۔!

میں جنم لوں تو گالی ہوں۔۔۔ ۔۔۔

میں ہوش سنبھال لوں تو عزت ہوں۔۔۔ ۔

میں لٹ جاؤں تو عصمت ہوں۔۔۔

اے لوگو! ہاں میں عورت ہوں ! میں پڑھنا چاہوں تو پرایا دھن ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ میں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاؤں تو بٹیا ہوں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ میں انصاف مانگوں تو ڈائن ہوں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اے لوگوں ہاں میں عورت ہوں۔۔۔ ۔
میں جس کی بیٹی ہوں اگر اُس نے میری صحیح تربیت کی تو میرے آقا ، رحمت للعالمین نے میرے والدین کو جنت کی بشارت دی ہے
تخلیق کے جس مقصد کے لیے مجھے پیدا کیا گیا وہ حاصل ہو جائے تو جنت میرے قدموں تلے ہے کسی نے کہا اے ماو بہنو بیٹیو دنیا کی زینت تم سے ہے
تو کسی نے کہا وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ۔۔۔۔۔۔ جس نے قادر مطلق کی اس حسین تخلیق کی عزت نہ کی وہ تباہ ہوا
 
عورت جب تک مرد سے دور رہتی ہے تب تک وہ مرد کے لئے سب سے زیادہ حسین ، دلکش اور نایاب چیز ہوتی ہے لیکن جس وقت وہ محبت کا اقرار کر لیتی ہے تو اسی وقت سے مرد کی نگاہوں میں عورت کی اہمیت اور دلکشی پہلے کی نسبت کم ہو جاتی ہے اور عورت کی نگاہوں میں مرد کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ عورت اقرار کر کے قید ہو جاتی اور مرد اقرار سن کر آزاد ہو جاتا ہے۔

نفیس مرد ہمیشہ عورت کو محبت سے زیادہ عزت دیا کرتے ہیں، کیونکہ محبت کا اظہار تو خاص خاص موقعوں پر ہی کیا جا سکتا ہے جبکہ عزت ہر وقت ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہے۔ عورت محبت کے بغیر آدھی ہوتی ہے جبکہ عزت کے بغیر عورت عورت ہی نہیں رہتی۔

ڈاکٹر خالد جمیل اختر
کتاب ( تیسرا پہلو )
 
ہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" ... مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟" "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔" "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔" بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟" "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔" بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔" "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟" "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟" شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔" "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟" "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے) پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔" پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔" بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔ حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔ بہلول کی باتیں مصنف مسعود احمد برکاتی
 
لڑکیوں کے لئے ایک اچھی بیوی بننے کا نسخہ ...........!
یہ پوسٹ ایک طرف جہاں عورتوں کو اچھی بیوی بننے کا سبق دے گی وہاں مردوں کو بھی اپنے بلاوجہ کے غصے کو کنٹرول کرنا اور اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا سکھائے گی ان شاء الله
_________________________________________________

کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔

دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔

عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔

جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا

کہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟

یا وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟

یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟

تو عورت نے یوں جواب دیا کہ

خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود

عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی

چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی

ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے۔

مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی مالدار

عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُنکے مال متاب

سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔

اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔

تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی کا کیا راز ہے؟

اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
------------------------------------------------------
اُس نے جواب دیا: جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں ( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو بھانپ لیا کرتا ہے۔

اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
------------------------------------------------------
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔

تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کیلئے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
------------------------------------------------------
اُس نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔

اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟
--------------------------------------
اُس عورت نے کہا: میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔

جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔

تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
--------------------------------------------------------------
ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔

کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟ تم مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُسکی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟

تو پھر آپکی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟
---------------------------------------------------
کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!

میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔

جی ہاں،
خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے

مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔

جس انسان کو اپنی زبان پر کنٹرول کرنا آ گیا سمجھو اس نے سکھی زندگی کا راز پا لیا —
 
افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔‘‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا ’’وہ کیا کہہ رہا تھا۔‘‘ افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا…‘‘ سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا ’’تم یہ بات سنانے سے پہلے اسے تین کی کسوٹی پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمھیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے۔‘‘ افلاطون نے عرض کیا ’’یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے؟‘‘ سقراط بولا ’’کیا تمھیں یقین ہے تم مجھے یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو
فیصد سچ ہے۔‘‘ افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا، سقراط نے ہنس کر کہا ’’پھر یہ بات بتانے کا تمھیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا ’’یہ پہلی کسوٹی تھی، ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ ’’مجھے تم جو بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔‘‘ افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔‘‘ سقراط نے مسکرا کر کہا ’’کیا تم یہ سمجھتے ہو تمھیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔‘‘ افلاطون نے انکار پھر میں سر ہلا دیا، سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی
پورا نہیں اترتی۔ ‘‘ افلاطون خاموش رہا، سقراط نے ذرا سا رک کر کہا ’’اور آخری کسوٹی، یہ بتائو وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔‘‘ افلاطون نے انکار میں سرہلایا اور عرض کیا ’’یا اُستاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں۔‘‘ سقراط نے ہنس کر کہا ’’اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیںدیکھنے لگا۔
سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کردیے تھے، سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے، کیا یہ بات سو فیصد درست ہے، کیا یہ بات اچھی ہے اور کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے، اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی،تو وہ بے دھڑک بات کردیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا،تو وہ خاموش ہوجاتے تھے۔
كيا آپ بهى ايسا كرتےهیں؟
 
٭پانی زیادہ سے زیادہ پینے کو معمول بنائیں خوبصورت نظر آئیں گے۔٭صبح نہار منہ انڈے کی زردی دودھ میں خوب ملا کر پینے سے تین مہینے میں سیاہ رنگ سرخ و سپید ہو جائے گا۔٭خراب کہنیوں اور ہاتھو ں کے لئے زیتون کا تیل ،عرق گلاب،گلیسرین،لیموںملا کر اس کو ہاتھوں اور کہنیوںپر ملئے۔٭سیب کو زیادہ دنوں تک تازہ رکھنے کے لئے انہیں الگ الگ رکھیںاور سیبوں پر ہلکا ہلکا کوکنگ آئل مل دیں۔٭مچھلی کھانے کے بعد شہد مت کھائیں۔٭پنیر گردہ معدہ اور آنتوں کو طاقت بخشتا ہے۔دودھ پینے سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔٭پیاز کھانے کے بعد دھنیا چبا لینے سے منہ کی بدبو جاتی رہتی ہے۔٭مولی کھانے کے بعد تھوڑا سا گڑ ضرور کھائیں۔٭ان چھنا آٹا کھانے کیلئے بیحد مفید ہے۔ یہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے۔٭کھانا ہمیشہ آہستہ آہستہ اور اچھی طرح چبا چبا کر کھائیں تاکہ کھانا ہضم ہونے میںزیادہ آسانی ہو۔٭کھانا کھانے کے بعد اچھی طرح سے کلی کر لینے سے دانتوں کے امراض پیدا نہیں ہوتے۔ ٭غصے کی حالت میں کھانے پینے سے پرہیز کریںکیونکہ غصہ کی حالت میں معدہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا۔ ٭ورم گردہ میں کلونجی کا ساگ بہت مفید ہوتا ہے ۔٭برف کھانے سے دانت کمزور اور حساس ہو جاتے ہیں۔ ٭فریزر کے اندر ویکس پیپر اگر بچھا دیں تو برف کی ٹرے آسان سے نکل آئے گی۔٭آلو کاٹ کر رکھنے ہوں تو انہیں نمک ملے پانی میں ڈبو کر رکھ دیں۔ آلو کالے نہیں ہوں گے۔ ٭کھانے میں زیرے سونف اور الائچی کا ستعمال کھانے کو زود ہضم بناتاہے ۔٭آنکھوں میں روزانہ سرمہ ڈالنے سے آنکھیں نہ صرف خوبصورت لگتی ہیں بلکہ ان کی بینائی بھی تیز ہوتی ہے۔٭گاجر کھانے سے صالح خون پیدا ہوتا ہے۔ ٭لیموں کا رس نکال کر برف کے خانے میں جما دیں۔جب ضرورت پڑے نکال کر استعمال کریں۔
 

ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔
شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔
سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔
جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔
ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نا کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بیحال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نا دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عوررت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟
گھر جاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اُس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نا کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اُس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔
کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔
میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟
تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟
منادی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ایک فرشہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پُراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پُراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر ابھی نا تو برابر تھا اور نا ہی زیادہ۔
مُنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔
عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔
منادی نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟
فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اُٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔
ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹھے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ہر شے کی زکوۃ ہے اور عقل کی زکوۃ نادانوں کی باتوں پر صبر کرنا ہے۔۔۔حضرت علی (کرم اللہ وجہہ)
 
کسی کا ظرف دیکھنا ہو تو اسے عزت دیں
کسی کی فطرت دیکھنی ہو تو اُسے آزادی دیں
کسی کی خصلت دیکھنی ہو تو اس کے ساتھ کھانا تناول کریں
کسی کا صبر دیکھنا ہو تو اس پر تنقید کرکے دیکھیں
کسی کا خلوص دیکھنا ہو تو اس مشورہ کرکے دیکھ لیں
مگر سب سے بہتر یہی ہے کہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے آپ کو غور سے دیکھ لیں بلکہ گریبان میں جھانکیں اور پھر دوبارہ اپنی شکل کو غور سے دیکھیں یقینا کچھ نظر آئے گا
 
Top