روحانی اقوال

پیچیدہ تخلیق
مرید نے مرشد کو اچھے موڈ میں دیکھا تو با ادب ھو کر گویا ھوا ! میرے مرشد مجھے عرقِ حیات کے متعلق تو کچھ بتائیے ،کیا اسی کو آبِ حیات کہتے ھیں؟ اور اس پانی کا چشمہ پھوٹتا کہاں سے ھے ؟؟؟
مرش۔۔د نے گہری نظر سے مرید کی طرف دیکھا اور سوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیر گزر گئ تو مرید کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے مرشد کو ناراض کر دیا ھے،، وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا، حضرت جی اگر میرے سوال سے آپ کو کوفت ھوئی ھے تو میں معافی کا طلبگار ھوں
ایک لمبی ' "ھوںںں" کے بعد مرشد نے نرمی سے بولا، نہیں میں ناراض تو نہیں ھوا مگر فکرمند ضرور ھوں ،،میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیا تھا تو ھمارے درمیان 12 سال کی طویل جدائی پڑ گئ تھی ، میں سوچ یہ رھا تھا کہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کر سکوں گا بھی یا نہیں، اس دوران اگر میری اجل آگئ تو کہیں تمہاری محنت ضائع نہ ھو جائے ۔
بیٹا یہ عرقِ حیات یا آبِ حیات ، یہ الفاط میں نہیں سمجھایا جا سکتا، سمجھاؤ تو سمجھ نہیں آتا ! اس لئے میرا مرشد تو آب حیات کے چشمے کےکنارے کھڑا کر کے ،اس میں انگلی ڈبو کر دکھایا کرتا تھا کہ یہ ھے عرقِ حیات !! میں نے یہ سوال اپنے مرشد سے ان کی جوانی میں پوچھ لیا تھا ، تم نے بہت دیر کر دی ھے،، خیر اللہ بہتر کرے گا، میں تمہیں ایک پودا دکھاتا ھوں ، اس پودے کے پھول کا عرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرنا ھے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا ھے، یہ عرق ھی ھماری آنکھوں میں عرقِ حیات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا !! یاد رکھنا ایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتا ھے ، اور اگر شیشی فوراً بند نہ کرو تو فوراً اڑ بھی جاتا ھے، اور یہ پودا جنگل میں کہیں کہیں ملتا ھے ! اس کے بعد مرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مرید کو پکڑائی اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کر دیا !
مرید بہت پرجوش تھا، آبِ حیات کا معمہ بس حل ھونے کو تھا ، اور اسے آبِ حیات کو دیکھنے اور چھونے کا موقع ملے گا، مگر ایک تو اس پودے کو ڈھونڈنا ایک جوکھم تھا تو ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اور ایک پھول میں ایک قطرہ ، الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں، جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کے لئے ایک نئی زندگی کی نوید تھا، ایک طرف وہ پھولے نہیں سما رھا تھا تو دوسری طرف اسے بار بار یہ خیال ستا رھا تھا کہ اگر اس دوران مرشد اللہ کو پیارے ھوگئے تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات کا چشمہ تو صرف مرشد کو ھی پتہ تھا !!
وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتا تو کبھی دوڑتا، اپنے مرشد کے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا، مرشد کے ڈیرے پہ نظر پڑنا تھا کہ وہ بیتاب ھو کر دور سے ھی چلایا ، میرے مرشد،اے میرے مرشد، دیکھیے میں اپنی تپسیا میں کامیاب رھا، میں بوتل بھر لایا ھوں ، اس کی آواز پر مرشد اپنے کٹیا سے باہر نکلا ، بارہ سالوں نے اس کی کمر دھری کر دی تھی مگر وہ بھی مرید کی کامیابی پر خوش نظر آتا تھا !!
اپنے مرشد پر نظر پڑنا تھا کہ مرید بے اختیار دوڑ پڑا اور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی، ٹیڑھے میڑھے رستے پر قدم کا سٹکنا تھا کہ مرید لڑکھڑایا اور عرق سے بھری شیشی اس کے ھاتھ سے چھوٹ کر ٹھاہ سے پتھر پر لگی اور چور چور ھو گئ، عرق کے کچھ چھینٹے مرشد کے پاؤں پر پڑے باقی کو جھٹ زمین نگل گئ ۔
بے اختیار مرید کی چیخ نکل گئ ، میرے مرشد میری محنت ،میرے بارہ سال کی مشقت مٹی بن گئ، میرے مرشد میں تباہ ھو گیا، مرشد اپنے مرید کو چھوڑ کر اندر گیا اور ایک اور چھوٹی سی شیشی لایا جس میں اس نے روتے سسکتے مرید کے آنسو بھرنا شروع کر دیئے ، اور وہ شیشی بھر لی !! اب مرید رو رھا تھا تو مرشد ھنس رھا تھا، میرے مرشد میری زندگی برباد ھو گئ اور آپ مسکرا رھے ھیں ؟ مرید نے تعجب سے پوچھا !!
مرشد اسے اندر لے گیا اور بکری کے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا ، پھر اس نے اس چھوٹی شیشی کو کھولا جس میں مرید کے آنسو بھرے ھوئے تھے، اور اپنی انگلی کو ان سے گیلا کر کے کہا کہ یہ ھے " عرقِِ حیات " یا " آبِ حیات " یا مقصدِ حیات !! اور پھر آنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کو چھو کر کہا یہ ھیں آبِ حیات کے چشمے !!
یاد رکھو ! اللہ نے انسان کو ان آنسوؤں کے لئے پیدا کیا ھے ، ان میں ھی زندگی چھپی ھوئی ھے، کچھ اس کی محبت میں زارو قطار روتے ھیں جیسے انبیاء، اور کچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذرا سی غلطی سےگرتے اور ٹوتے اور اپنی محنتیں ضائع ھوتے دیکھتے ھیں تو تیری طرح بلبلاتے ھیں ، جس طرح پانی نکلنے اور نکالنے کے مختلف طریقے ھیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کا سامان کیا گیا ھے ۔
یاد رکھو آسمان پر بھرنے والے بہت سارے ھیں مگر شیشی کسی کی نہیں ٹوتتی، آسمان والوں کے مٹکے ھر دم بھرے رھتے ھیں، وھاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے ، ان کے رونے میں تسبیح ھے، پچھتاوہ نہیں ھے ! ھمیں اسی مقصد سے بنایا گیا ھے، پھر اس دنیا کے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر ہاتھ میں تقوے کی بوتل دے کر دوڑایا جاتا ھے، اور جب ذرا سی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ھے اور ھم پچھتاتے ھیں اور زار و قطار روتے ھیں تو اللہ فرشتوں کو اسی طرح ھمارے آنسو سمیٹنے پر لگا دیتا ہے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ھیں !!
یہ وہ پانی ھے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ھے،، اللہ کے رسول علیہ السلام نے حشر کا نقشہ کھینچا ھے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آ رھی ھوگی، اور میدانِ حشر میں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ھوئی لپکے گی، فرشتے اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے تو اللہ پاک جبرائیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ، اور پھر جبرائیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حد میں چلی جائے گی، صحابہ رض نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول علیہ السلام وہ کونسا پانی ھو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسو ھوں گے جو اللہ نے آگ پر حرام کر رکھے ھیں !!
اسی رونے کی طرف امیر خسر رحمۃ اللہ علیہ اشارے کرتے ہوئے فرماتے ہیں

بہت ھی کٹھن ڈگر پنگھٹ کی !
کیسے بھر لاؤں میں جھٹ پٹ مٹکی ؟

یہی وہ آبِ حیات ھے جس کی بشارت انسان کو دی گئ ھے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ھیں !!

تن تیرا رب سَچے دا حجرہ ، پا اندر ول جھاکی !!
نہ کر مِنت خواجہ خضر، تیرے اندر آبِ حیاتی !

اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ اشارہ کرتے ھیں !

سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے !
جنہاں بھریا ، بھر سِر تے دھریا، قدم رکھن جَر جَر کے !

اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ھوں، ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلواں ھے، دوسری جانب ھر بندہ اس پھسلنے والے رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ھے، جب کہ صرف تیری ذات ھاتھ پکڑنے والی ھے !!

ھم کو بھی وضو کر لینے دو،ھم نے بھی زیارت کرنی ھے !
مرشد ان بہتی آنکھوں کو ولیوں کا ٹھکانہ کہتے ھیں !
محمود احمد غزنوی تلمیذ سید زبیر نایاب الف عین الف نظامی محمد وارث
 
زمانے کی مخالفت آپکی کامیابی کی دلیل ہے۔۔۔ یہ ہی مخالفت آپکو دوست اور دشمن کا فرق بتاتی ہے۔۔۔ کم ظرف کم ظرف ہی رہے گا لیکن یہ آپکا ظرف ہے کہ آپ اس پر مہربانی کریں کیونکہ آپکا مقابلہ آپ کی اپنی ذات سے ہے۔۔ اور مخالفت کرنے والا کم ظرف حسد میں اپنا آپ دکھا کر خود کو رسوا کر رہا ہے۔۔۔ معاف کرنا، درگزر کرنا اور اللہ کی رحمت پر نظر رکھنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔۔۔ اللہ کسی
Incompetentیا نا اہل کو کبھی کامیابی نہیں دیتا۔۔۔ اللہ کی رحمت ہی کسی کو اہل بناتی ہے تاکہ وہ نوازا جائے۔۔ سو جو تجھ سے حسد رکھے اور تجھے نا اہل کہے تو ناسمجھی میں وہ آپ کی اہلیت کا ڈھول پیٹ کرمنادی کر رہا ہے سو آپ اس سے نفرت نہ کریں بلکہ اس کے خیر خواہ بن جائیں کیونکہ وہ بری نیت سے کئے ہوئے عمل سے آپ کی عزت بڑھوا رہا ہے۔
 
آخری تدوین:
پیر روشن ضمیر
ایک ولی اللہ سے کسی شخص نے کچھ زرو دینار قرض حسنہ لیئے ایک مدت کے بعد اس شخص نے لکھا کہ صاحب مجھے فراغت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی امین ملتا ہے اگر وقت نکال کر تشریف لے آئیں اور اپنی رقم واپس لے جائیں تو احسان مند کو سکون قلبی حاصل ہوگا ۔ پس ولی اللہ نے دنیا کے رنگ دکھانے یا پھر عملی تربیت کے لیئے اپنے فرزند ارجمند کو بھیجا جو کہ عنفوان شباب میں تھا اور اسباق تصوف و روحانیت زبانی پڑھ چکا تھا ۔ آپ نے اپنے جگر گوشہ کو تین نصیحتیں فرما ئیں :-
1۔ پہلا مقام جہاں پر تمہارا قیام ہوگا ادھر ایک برگد کا درخت ہے اس درخت کے نیچے نہ سونا۔
2۔ دوسرا مقام ایک بڑا شہر ہوگا اس کے اندر قیام نہ کرنا بلکہ شہر سے کھا پی کر فصیل شہر سے باہر ویرانے میں قیام کرنا۔
3۔ تیسرا مقام مقروض کا گھر ہوگا یاد رکھنا کہ اس کے گھر قیام نہ کرنا۔
لیکن ساتھ ہی فرمادیا کہ اگر کوئی واقف راہ و تجربہ کار مل جائے جس پر اقبال کا یہ شعر منطبق ہوتا ہو ۔۔۔ نگہ بلند ،سخن دلنواز ،جان پرسوز ۔۔۔ ۔یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیئے تو اس کو اپنا امیر بنا لینا اور اگر وہ میری نصیحتوں کے برخلاف کہے تو بلا شک و شبہ اس کی ہدایات پر عمل کرنا اور میری ہدایات کو پسِ پشت ڈال دینا ۔
سالک نے کچھ راہ ہی طے کی تھی کہ ایک بوڑھا مسافر ملا جب بنظر بصیرت دیکھا تو اس کیجہاں نوردسرمگیں آنکھیں بزبان حال کہہ رہی تھیں ما زاغ البصر و ما طغیٰ۔النجم (بہکی نہیں نگاہ اور نہ ہی کجی اختیار کی) جب دونوں کی آنکھیں ملیں تو سالک کو عمر رسیدہ بزرگ کی آنکھ کی پتلی پر اس شعر کا عکس نظر آیا
تو آنکھ عکس کی ہے اور وہ نور آنکھ کا
دیدہ کو دیدہ سے دیدہ نے دیکھا
عمررسیدہ مسکرایا اور سلام کرکے پوچھا برخوردار کہاں کا ارادہ ہے ،لڑکے نے سب حال کہہ سنایا جوابا بڑے میاں نے کہا کہ میرا بھی اسی شہر کا قصد ہے ۔خوب ہوا کہ ہمارا تمہارا ساتھ ہوگیا ۔
جب پہلے مقام پر پڑاؤ ہوا تو بڑے میاں نے کہا کہ اس درخت کے نیچے رات بسر کریں گے تاکہ شبنم سے بچ سکیں۔
لڑکا: جناب عالی مجھے والد صاحب نے نصیحت کی تھی کہ درخت کے نیچے نہیں لیٹنا ۔
بڑے میاں: کچھ اور بھی کہا تھا یا کہ نہیں ۔
لڑکا: جی جی کہا تھا کہ اگر اس راہ کا کوئی واقف ملے تو اُن کا کہا مان لینا۔
بڑے میاں: ہم اس راہ کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں
لڑکا: جو حکم حضور کا ۔۔۔ بسرو چشم
غرض دونوں نے درخت کے نیچے قیام کیا آدھی رات کے وقت ایک کالاناگ درخت پر سے اترا ۔ادھر بڑے میاں بالکل ہوشیار تھے جیسے ہی ناگ نے سَر زمین پر رکھا بڑے میاں نے فورا تلوار سے سر کو قلم کردیا اور ڈھال تلے ڈھک دیا ۔ جب صبح ہوئی اور دونوں کوچ کرنے لگے تو لڑکے دل میں خیال گزرا کہ یہ درخت تو بڑے سکون وآرام کو مقام ہے۔پس پیر روشن ضمیر نے معلوم کیا کہ لڑکا باپ سے بدظن ہوا جاتا ہے ۔رات کا ماجرا سنایا اور ڈھال کے نیچے سے مرا ہوا سانپ نکال کر دکھایا ۔اُس وقت لڑکے کی تسلی و تشفی ہوگئی ۔ پھر بڑے میاں نے ارشاد فرمایا کہ ناگ کے سَر کو اٹھا کر اپنے پاس سنبھال لو " داشتہ آید بکار گرچہ بود سر مار " لڑکے نے فورا تعمیل کی اور دونوںچل نکلے ۔
دوسرے دن ایک بڑے شہر پہنچے جو کہ ملک کا دارلخلافہ بھی تھا بڑے میاں نے کہا کہ اس شہر میں رات کو قیام کریں گے ۔لڑکے نے اثبات میں سر کو ہلایا اور کہا کہ آپ کے فرمان کی تعمیل ہوگی۔
اس شہر کا دستور تھا کہ جب کوئی جوان مسافر شب بسری کے لیئے سرائے میں آکر ٹھرتا تو بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرادیتا تھا صبح کو وہ مسافر مردہ نکلتا تھا ۔قصہ مختصر کے نوجوان کی شادی بادشاہ کی بیٹی سے کردی گئی ۔پیر روشن ضمیر نے لڑکے کو کہا کہ تمہارے پاس جو سانپ کا زہر ہے اس کی دھونی اپنی بیوی کو دینا اور طریقہ کار سمجھا دیا جب لڑکا دلہن کے پاس گیا تو اس نے اُس نے ایسا ہی کیا ۔عورت کے رحم میں ایک مرض تھا جو اس کے پاس جاتا زندہ نہ رہتا تھا اس دھونی کی تاثیر سے وہ مرض جاتا رہا اور صبح کو لڑکا صحیح سلامت محل سے نکل آیا اور دونوں اگلے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب مقروض کے گھر پہنچے تو بڑے میاں نے قرضہ کی رقم حوالے کرنے کے بعد کہا کہ اب مغرب ہونے کو ہے رات کو کسی سرائے میں قیام کروگے تو رقم کے سرقہ ہونے کا خدشہ لاحق ہے اگر مناسب سمجھیں تو ادھر ہی قیام کرلیں بڑے میاں نے فورا حامی بھر لی چنانچہ شب کو وہیں بسرام کیا ۔ادھر میزبان کی نیت خراب ہوگئی اور ارادہ کیا کہ رات کو ان کو قتل کردونگا تو روپیہ بچ جائے گا ۔ مقروض نے پوچھا کہ صاحبو اندر لیٹو گے یا کہ باہر تو بڑے میاں فورا بولے اندر گھٹن و گھپ ہے باہر رات گزاریں گے تو صاحب ِ خانہ نے باہر چارپائیاں بچھادیں دونوں محو استراحت ہوئے ۔جب آدھی رات ہوئی تو بڑے میاں نے لڑکے کو گہری نیند سے جگایا اور کہا کہ باہر شبنم پڑ رہی ہے بیمار پڑ جاؤگے اندر چلتے ہیں اور اندر کمرے میں آکر صاحبِ خانہ کے دونوں لڑکوں کو نیند سے اٹھوا کر ان کو کہا کہ تم باہر ہماری جگہ جا کر استراحت کرو ۔ جب رات کا تیسرا پہر آیا تو مقروض اٹھا اور باہر چارپائیوں پر سونے والوں کو قتل کردیا ۔
علی الصبح لڑکے کی آنکھ شور و غل سے کھلی دیکھا تو گھر میں آہ و بکا اور گریہ کی آوازیں تھیں معلوم ہوا کہ رات کو لٹیروں نے صاحبِ خانہ کے بیٹوں کو قتل کردیا ہے ۔
بڑے میاں اور چھوٹے میاں واپس اپنی منزل کو روانہ ہوئے جب اس مقام پر پہنچے جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی تو بڑے میاں نے کہا لو میاں اب ہماری جدائی کا وقت ہوا چاہتا ہے لڑکے نے عرض کی اجی نام تو بتلاتے جائیں فرمایا کہ آپ کے والد محترم کاشف حال ہیں ۔ غرض جب والد صاحب کے حضور پہنچے تو سارے سفر کی روداد گوش گزار کی اور آخر میں استفسار کیا کہ یہ بڑے میاں کون تھے تو والد محترم نے جواب دیا کہ یہ خضر علیہ السلام تھے۔
یہ حکایت بیان کرنے کا مقصد کچھ کرداروں پر تمثیلی روشنی ڈالنا ہے۔
پیر روشن ضمیر(ولی اللہ): اصل الاصول ہے یعنی کل شئی یرجع الیٰ اصلہٖ
مسافر: سالک راہ سلوک
راستے کی قیام گاہیں: منازل سلوک ہیں
بڑے میاں : پیر کامل پیر روشن ضمیر
سانپ: نفس و شیطان
شہزادی: دنیا
خانہ مقروض: جہاں دنیا
مقروض: انسان(وحملہ الانسان انہ کان ظلوما جھولا)
پسران مقروض: اہل دنیا
روپیہ : محبت و عشق الٰہی
خوش تر آن باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید درحدیث دیگراں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
درخت
درخت جو کہ آرام کی جگہ تھی جس سے سستی و تساہل پیدا ہوتا تھا اس لیئے اس کے نیچے استراحت سے منع کیا ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ فوم پر سونے سے انسان آرام دہ اور کافی گہری نیند سوتا ہے اور الارم سے جاگتا ہے جب کہ فرش پر سونے سے کم سوتا ہے اور صبح آذان کی آواز کے ساتھ ہی بیدار ہوجاتا ہے ۔
سانپ
جب نرم گرم گدیلوں پر گہری نیند چھا جاتی ہے تو انسان پر ایک سستی کا نشہ سا چھا جاتا ہےیعنی وہ سانپ کی شکل میں اس کو ڈس لینے کے بعد اس کے جسم سے لپٹ جاتا ہے اور الارم بجنے یا کسی کے اٹھانے پر بھی بہت مشکل سے جاگتا ہے اس حد تک جاگتے جاگتے سورج نکل آتا ہے۔
شہزادی
نکتہ: یعنی جب عورت کے پاس گیا تو عمل حیوانی سے پہلے جو شرعی طریقہ کار ہے اس کے مطابق دورکعت نفل اور کلمات پڑھ کر بیوی سے مشغول ہوا۔ اور اگر اسی طرح مشغول ہوجاتا جیسے کہ کہتے ہیں فسٹ امپریشن از دا لاسٹ امپریشن تو روحانی طور پر مکمل طور پر ہلاک ہوجاتا ۔
لطیفہ: جب کوئی بندہ معرفت کے حصول کے لیئے گھر سے ارادہ کرکے نکلتا ہے تو شیطان 70مختلف ہتھکنڈوں اور کیل کانٹوں سے لیس ہوکر اس کی راہ روکنے کے لیئے کھڑا ہوجاتا ہے ۔معرفت کی راہ میں عورت صرف برتنے کی چیز ہوتی ہے یعنی شادی کرو بچے پیدا کرو عورت کا شرعی حق پورا کرو لیکن عورت کی ذات کے طلسم میں جوتلذذ و عجائبات ہیں اس میں کھو نہ جاؤ کہ حق کا راستہ بھول جاؤ۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
جس لمحے آپ کو کوئی خوشی نصیب ھوتی ھے تو ٹھیک اگلے لمحے سے اس کا زوال شروع ھو جاتا ھے اور ھر آنے والا لمحہ ایک سوراخ کی مانند ھوتا ھے جس میں سے وہ خوشی قطرہ قطرہ ٹپک کر ختم ھو جاتی ھے،، نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اب آپ کو خوش ھونے کے لئے خوشی کی مزید ھائی پوٹینسی ڈوز چاھئے،، اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ھے یہانتک کہ جب بندے کے پاس دنیا کی ھر چیز موجود ھوتی ھے مگر خوشی نہیں ھوتی ! اب اسے صرف ایک ھی دوا نظر آتی ھے جو اسے تھرل دے سکتی ھے،کچھ نیا کر سکتی ھے اور وہ موت ھے ! یورپ میں خود کشی کا تناسب امیر گھرانوں میں زیادہ ھے !
یورپ کا مسئلہ کچھ مختلف ہے۔ ایک تو خودکشی ان ممالک میں زیادہ ہے جو زیادہ شمال میں ہیں۔ یعنی جہاں دن یا تو بہت لمبے ہوتے ہیں یا بہت چھوٹے۔ سورج کی روشنی سے آپ کا نیند کا دورانیہ یعنی سائیکل خراب ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی ذہنی امراض جنم لیتے ہیں۔ دوسرا یورپ میں زیادہ تر ممالک فلاحی ریاستیں ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ وہ ممالک فلاحی ریاستیں ہیں جہاں یہ مسائل زیادہ ہیں۔ بچے کے پیدا ہونے سے لے کراس کے جوان ہونے تک صحت اور تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات ریاست پورا کرتی ہے۔ اس کے بعد بھی جب بندہ اٹھارہ سال یعنی بالغ ہونے کے بعد بھی نوکری نہ کرے تو بھی اسے ریاست کی طرف سے اتنی رقم ملتی رہتی ہے (آج کل کے معاشی حالات میں مختلف شرائط کے ساتھ یہ ملتی ہے) کہ ان کے پاس رہنے کو گھر، کھانے کو رقم اور تقریباً مفت صحت کی سہولیات ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ افراد جو شراب یا منشیات استعمال کرنا شروع کر دیں یا جن کے بچپن کے حالات برے رہے ہوں، انہیں پھر گھر بیٹھ کر صرف سوچنا ہوتا ہے اور خالی ذہن شیطان کا گھر سمجھ لیجئے۔ ایسے افراد کی اکثریت پھر خود کشی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ایسی بہت ساری مثالیں دیکھ چکا ہوں کہ ایک ہی گھر میں پلنے والے بچے جن کا بچپن اچھا یا برا، جیسا بھی گذرا، اگر وہ نوکری کر رہے ہوں تو ان کے ذہن کو بگڑنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ تاہم اسی خاندان کے ایسے افراد جن کا بچپن برا گذرا ہو، سکول میں تنگ کیا گیا ہو اور نوکری بھی نہ ہو تو ان کے ذہنی امراض بہت زیادہ ہوتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
روحانی بابا، اگر ناراض نہ ہوں تو اس نکتے کی وضاحت فرمائیے
نکتہ: یعنی جب عورت کے پاس گیا تو عمل حیوانی سے پہلے جو شرعی طریقہ کار ہے
اس "عمل" میں تو انبیاء بھی ملوث رہے ہیں، آپ (یا صاحبِ تحریر) اسے کیوں حیوانی کہہ رہے ہیں؟
 
گاؤں کی ایک دوکان کے سامنے ایک شخص بیٹھا کرتا تھا دیکھنے میں تو وہ ایک بھکاری دکھتا تھا لیکن وہ بھیک نہیں لیتا تھا بس سارا دن وہیں بیٹھا رہتا تھا (ظاہر ہے فارغ وقت) اور تسبیح کے دانے پھیرتا رہتا ہے۔سالوں تک وہیں بیٹھنا اس کا معمول تھا۔ ایک دن اسے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی اس نے دوکاندار سے اپنی ضرورت بیان کی تو دوکاندار نے اپنے پیسوں کے گلہ سے بغیر گِنے سارے پیسے اس شخص کے ہاتھ پر رکھ دیئے تواس نے کہا کہ یار گن تو لیتے تو دوکاندار نے کہا"یاراں نال کہڑے لیکھے" تو اس شخص نے اپنی تسبیح کو توڑ دیا اور تسبیح کے دانے پھینکتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یاراں نال کہڑے لیکھے،یاراں نال کہڑے لیکھے۔۔۔۔۔(دوستوں کے ساتھ کیسا حساب کتاب)
 

ساقی۔

محفلین
عاشق
ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا، انہوں نے کہا عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غور و فکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چپ رہتا ہے جب اسے دیکھا جائے وہ نظر نہیں آتا، جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے تو سمجھتا نہیں اور جب اس پر کوئی مُصیبت آ جائے تو غمگین نہیں ہوتا، وہ بھوک کی پروا اور برہنگی کا احساس نہیں رکھتا، کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتا، وہ تنہائی میں اللہ تعالٰی سے التجائیں کرتا ہے، اس کی رحمت سے انس و محبت رکھتا ہے، وہ دنیا کیلئے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔
جناب ابو تراب بخشی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عشق کی علامات میں یہ چند شعر کہے ہیں۔
لا تخد عن فلل جیب دلائل
ولدیہ من تحف الحبیب وسائل
منہا تنمہ بمر بلائہ
وسرورہ فی کل ماھو فاعل
فالمنع منہ عطیۃ مقبولۃ
والفقر اکرام وبر عاجل
ومن الدلائل ان تری فی عزمہ
طوع الجبیب وان الح العاذل
ومن الدلائل ان یری متبسما
والقلب فیہ من الحبیب بلائل
ومن الدلائل ان یری متفہما
لکلام من یحظی لدیہ السائل
ومن الدلائل ان یری متقشفا
متحفظا من کل ماھو قائل
تو دھوکہ نہ دے کیونکہ محبوب کے پاس دلائل اور عاشق کے پاس محبوب کے تحفوں کے وسائل ہیں۔
ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی تلخ آزمائش سے لطف ابدوز ہوتا ہے، اور محبوب جو کرتا ہے وہ اس پر خوش ہوتا ہے۔
اس کی طرف سے منع کرنا بھی عطیہ ہے اور فقر اس کیلئے عزت افزائی اور ایک فوری نیکی ہے۔
ایک علامت یہ ہے کہ وہ محبوب کی اطاعت کا پختہ ارادہ رکھتا ہے، اگر اسے ملامت کرنے والے ملامت کریں۔
ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے مسکراتا ہوا پاؤ گے اگرچہ اس کے دل میں محبوب کی طرف سے آگ سلگ وہی ہوتی ہے۔
ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے خطاکاروں کی گفتگو سمجھتا ہوا پاؤ گے۔
اور ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے ہر اس بات کا حفاظت کرنے والا پاؤ گے جسے وہ کہتا ہے۔
 
روحانی بابا، اگر ناراض نہ ہوں تو اس نکتے کی وضاحت فرمائیے

اس "عمل" میں تو انبیاء بھی ملوث رہے ہیں، آپ (یا صاحبِ تحریر) اسے کیوں حیوانی کہہ رہے ہیں؟
انیباء کے ملوث ہونے کا تو نہیں پتہ ؟؟؟
لیکن تمام انبیاء کرام بشمول اولیاء اللہ نسل انسانی کے بقا کے لیئے اس فعل کو سرانجام دیتے رہے تاکہ دنیا میں نیک پاک اور طیب نفوس مؤجود رہیں۔ جہاں تک مجامعت کا تعلق ہے تو یہ فعل حیوانی ہی کہلاتا ہے کیونکہ انسان ایک حیوان ہی ہے دراصل یہ فلسفہ کے زیر اثر کہا گیا ہے جانداروں سے سے بڑھ کر حیوان کا درجہ ہے اور پھر انسان ہے اور قرآن مجید فرقان حمید کا عنوان انسان ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
روحانی بابا، اگر ناراض نہ ہوں تو اس نکتے کی وضاحت فرمائیے

اس "عمل" میں تو انبیاء بھی ملوث رہے ہیں، آپ (یا صاحبِ تحریر) اسے کیوں حیوانی کہہ رہے ہیں؟
انیباء کے ملوث ہونے کا تو نہیں پتہ ؟؟؟
لیکن تمام انبیاء کرام بشمول اولیاء اللہ نسل انسانی کے بقا کے لیئے اس فعل کو سرانجام دیتے رہے تاکہ دنیا میں نیک پاک اور طیب نفوس مؤجود رہیں۔ جہاں تک مجامعت کا تعلق ہے تو یہ فعل حیوانی ہی کہلاتا ہے کیونکہ انسان ایک حیوان ہی ہے دراصل یہ فلسفہ کے زیر اثر کہا گیا ہے جانداروں سے سے بڑھ کر حیوان کا درجہ ہے اور پھر انسان ہے اور قرآن مجید فرقان حمید کا عنوان انسان ہے۔

آپ دونوں کے مراسلات میں انبیا اکرام کے لیے لفظ"ملوث" استعمال کرنے پر سخت اعتراض ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
1. آلودہ، لتھڑا ہوا، خصوصاً کسی گندگی وغیرہ میں مبتلا، (مجازًا) ناپاک، نجس، تردامن، پلید۔

"مزاروں پر لوگ جاتے تھے تو وہاں کیا ہوتا تھا، عیش پرستی.... مخنث بازی میں بادشاہ و امرا سے لے کر عوام تک ملوث تھے"۔، [1]

2. شامل، شریک۔

"حکومت کی سیاست میں ملوث کہلانا بھی پسند نہیں کرتے"۔، [2]

3. مقدمہ میں ماخوذ ہونا۔

"وہ کسی جھگڑے میں ملوث ہو کر کچہری حاضری کے لیے آیا تھا"۔، [3]

4. گنہ گار، قصور وار۔

"اسی مجرمانہ غفلت میں نامور اشاعتی ادارے میں ملوث ہیں"۔، [4]

5. رشوت خور۔

(فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
یہ بات عین ممکن ہے کہ ایک ہی لفظ کے کئی مطالب ہوں، لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ انبیاء کی شان میں گستاخی نہیں کی گئی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے پہلے لنک سے دوسری تعریف "شامل" یا "شریک" بھی ہے جو میرا نہیں خیال کہ کوئی برا مطلب رکھتا ہو
 

ساقی۔

محفلین
یہ بات عین ممکن ہے کہ ایک ہی لفظ کے کئی مطالب ہوں، لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ انبیاء کی شان میں گستاخی نہیں کی گئی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے پہلے لنک سے دوسری تعریف "شامل" یا "شریک" بھی ہے جو میرا نہیں خیال کہ کوئی برا مطلب رکھتا ہو

مقدس ہستیوں کے لیے ایسے الفاظ جن کے معانی میں کسی قسم کا شائبہ ہو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اور یہ نادانستگی میں ہوا ہے ۔ اللہ رحم کرنے والا مہربان ہے۔
 
علم نہیں کہ یہ باتیں کام کی ہیں بھی کہ نہیں، لیکن درج کر رہا ہوں۔ غلطی ہو، تو براہ مہربانی ضرورتصحیح فرما دیجیے گا۔ بقول غالب: آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔۔۔۔

نعمت کا مل جانا آزمائش کا آغاز ہوتا ہے۔
رحمت اس شخص پر ہوتی ہے، جس کے پاس لوگ مشکل لے کے آتے ہیں۔
فضل کسی کی مشکل کا اس کے لیے آسان ہو جانا ہوتا ہے۔
کسی کے بارے اچھا خیال آنا بھی، اس کے لیے دعا کرنا ہوتا ہے۔
 
کسی بات کے قابل اعتبار هونے کی کسوٹی اس بات کے کہنے والے کی سچاءئ ہے اس بات کے ماخذ کا قابل اعتبار ہونا ہے بہترہے کہ اقوال کے ماخذ کا ذکربهی کر دیآ جائے -
 
کسی بات کے قابل اعتبار هونے کی کسوٹی اس بات کے کہنے والے کی سچاءئ ہے اس بات کے ماخذ کا قابل اعتبار ہونا ہے بہترہے کہ اقوال کے ماخذ کا ذکربهی کر دیآ جائے -
ماخذ کچھ خاص ہستیوں اور قرآنِ عظیم الشان کے بارے میں تو بالکل صحیح ہے۔ لیکن کیا کہا جارہا ہے اسے آپ خود سے بھی پرکھ سکتے ہیں۔ورنہ مآخذ کبھی کبھی صحیح بات میں میں بھی نقطہ نکالنے پر مجبور کرسکتا ہے۔۔۔۔
 
ہر علم کا ماخذ تو ایک ہی ہے۔ اس ماخذ سے بہت سے دریا اور ندی نالے نکلتے ہیں۔ ہم لوگ تو اپنی اپنی منزل اور رستے کے مطابق، جس ندی دریا پہ پہنچتے ہیں، اس سے فیض یاب ہو جاتے ہیں۔ تو بات سے اچھی چیز سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ ہیرا کوئلے کی کان سے نکلتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ پتے کی بات، عام لوگوں سے، عام ہی سی جگہوں سے مل جاتی ہے۔
 
Top