روحانی اقوال

حضرت خضر نے فرمایا " تمھیں یہ معلوم ہے کہ مجھے الله تعالیٰ نے اسرار و رموز کا خصوصی علم عطا فرمایا ہے -
تکوینی علم میں دسترس عطا فرمائی ہے - اور یہ علوم اسی کے حکم سے میں اس کے مقرب بندوں کو سکھاتا ہوں -
مجھے حکم ملا ہے کہ ایک راز سے تمھیں بھی آگاہ کر دوں -
کائنات میں جتنی چیزیں ہیں اور ان چیزوں کی جتنی صورتیں ہیں انھیں امر الٰہی نے چار چیزوں سے بنایا ہے -
مٹی ، پانی ، ہوا اور حرارت -
اگر یہ منتشر ہو جائیں تو ان کی صورتیں فنا ہو جاتی ہیں -
مجتمع ہوں تو منشائے مشیت کے مطابق صورت اختیار کر لیتی ہیں -
عناصر اربع کو مجتمع اور منتشر کرنے والا اسم یا بدیع السموات والارض اور یا مصور ہے -
جب کسی شے کو یا شخص کو یا خود کو منتشر کرنا ہو تو یا بدیع السموات والارض کہو -
اور جب دوبارہ کسی شے کو یا شخص کو یا خود کو شکل دینی ہو تا یا مصور کہو -
ان اسمائے حسنہ کے خواص الله تعالیٰ نے تمھیں عطا کیے ہیں - جو تمہارے کام آئیں گے - اب تم پہلے خود میری نگرانی میں تجربہ کرو یا بدیع السموات والارض کہ کر منتشر ہو جاؤ - تمھاری روح امرالٰہی کے ساتھ باقی ہے -
مٹی ، مٹی میں مل جائیگی -
ہوا ، ہوا میں
پانی ، پانی میں
اور حرارت ، حرارت میں تحلیل ہو جائے گی -
یہی حال تمہارے لباس کا ہوگا -
تمھیں تمہارے سوا نہ کوئی دیکھ سکے گا نہ محسوس کر سکے گا- "
 
حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ھیں..خود کو اچھی طرح ٹٹول لو اور تین مواقع پر اپنے ذھن کی کیفیت نوٹ کرلیا کرو..
نماز پڑھنے کے دوران..
قرآن پڑھتے وقت..
اور اللہ کا ذکر کرتے وقت..
ان تین مواقع پر اگر تم لطف و کیف محسوس کرو تو ٹھیک ورنہ جان لو کہ "دروازہ" بند ھے..!!
 
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﻣﻮﺗﯽ ﮔﻢ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻻﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ کو ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ.ﺳﺎﺭﮮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺰﺯﯾﻦ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﭘﮍﮮ، ﺩﻭ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﺎﺭ ﺗﻼﺵ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻣﻮﺗﯽ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ، ﺟﺒﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺭﮬﮯ.ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮈﮬﻮﻧﺪﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺣﺴﺐ ﻭﻋﺪﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯽ.ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮬﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺧﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﮩﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺩﯾﺌﮯ.ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﮐﮧ ﺟﺴﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﺗﯽ ﻣﻼ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺒﯿﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ.ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺟﻮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮬﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ
"ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﺗﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ! ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻌﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮬﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮮ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻣﻼ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮐﺮ ﺩﻭﻧﮕﺎ ! ﻣﻮﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﮬﯽ ﻣﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﺳﻌﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﮯ، ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻌﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻠﻮﺹ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﻣﻼ. ﻣﮕﺮ ﺍﮮ ﺷﺨﺺ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﮔﻮﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮬﮯ ؟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻄﺎ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯﺍﺣﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﮬﮯ،ﺗﻮ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺿﺎ ﮬﮯ. ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮬﻤﯿﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﯽ ﮬﮯ " ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻣﻮﺗﯽ ﮐﻮ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﭘﭩﺦ ﮐﺮ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﺎ:

ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﺗﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﭘﮍﮮ ﮬﯿﮟ ِ ﭘﺎ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺟﺘﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻧﮧ ﭘﺎ ﮐﺮ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﮮ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺰﯾﺰ ﮬﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﺍ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭﯼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺗﮑﺒﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮩﯿﮟ !ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺠﻠﺲ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ !!ﮬﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺨﺸﺶ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﭼﺎﮬﺌﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﻨﺪ ﻧﺎﻗﺺ ﺳﺠﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻋﻮﺽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﭘﺮ ﻗﺪﻏﻦ ﻟﮕﺎﻧﯽ ﭼﺎﮬﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻓﻀﻞ ﮐﺮﮮ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﮐﺮﮮ !!ﮬﻤﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮬﺌﮯ، ﭼﺎﮬﮯ ﻭﮦ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﺑﻨﺪﮮ ﮬﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮬﻮﮞ ۔
 
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح علیہ فرماتے ھیں کہ اپنے احوال کے چہرے کو اس وقت تک بے نقاب نہ کرو جب تک کہ تم مخلوقات سے خارج ھو کر....اپنے تمام احوال میں اس کو پسِ پشت ڈالتے ھوئے...اپنی تمام خواھشات کو فنا نہ کردو ! پھر جب تمہارے عزائم و تمنّائیں زائل ھو چکیں گی تو پھر تم دنیا و آخرت کے لوگوں سے فنائیت حاصل کر کے اس سوراخ دار برتن کی طرح ھو جاؤ گے جس میں خدا کے ارادے کے سِوا کوئی ارادہ باقی نہیں رہ جائے گا...! اور تمہیں اس طرح نور سے لبریز کر دیا جائے گا کہ تمہارے قلب میں خدا کے سوا کسی کی بھی گنجائش باقی نہ رھیگی...!!!

ماخوز از...فتوح الغیب...(حضرت عبد القادر جیلانی رح علیہ)
 
10259435_1424423684477062_1521774020_n.jpg
 
دوستی کا معیار اور سنگت کا لحاظ

امام حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ جس سے دوستی کرو اور جس سے سنگت اختیار کرو، جس کی رفاقت لو، جس کی معیت لو، جس کے دوست بنو، اس دوستی، رفاقت اور سنگت سے پہلے یہ سوچا کرو کہ یہ سنگت آخرت میں قیامت کے دن کام آئیں گی یا نہیں۔ ۔ ۔ اگر اس کی دوستی قیامت کے دن کام آنے والی ہے تو سنگت لے لو اور جس نے قیامت کے دن کام نہیں آنا تو اس دنیا میں اس سے کیا لینا۔ ۔ ۔ کسی ایسے سے دوستی کرو جو آگے بھی کام آئے۔ ۔ ۔ دوستی ہو تو ایسی جسے اکابر علماء دیوبند کے پیرومرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے بیان کیا اور ان کے ملفوظات کو اشرف علی تھانوی صاحب نے شمائل امدادیہ اور امداد المشتاق کے نام سے مرتب کیا۔
’’ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یہ واقعہ کہ ایک شخص فوت ہوگیا، قبر میں فرشتے اس سے سوالات پوچھنے آئے تو وہ ہر سوال کے جواب میں کہتا میں غوث پاک کا دھوبی ہوں۔ ۔ ۔ وہ پوچھیں من ربک تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے: غوث پاک کا دھوبی ہوں۔ ۔ ۔ وہ پوچھیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہے کہ میں غوث پاک کا دھوبی ہوں۔ ۔ ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اب اس سے کیا سلوک کریں؟ فرمایا بخش دو۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس کی حکمت کیا ہے؟ یعنی یہ واقعہ کہ اسے معاف کردیا گیا، بخشش ہوگئی، اس کی حکمت کیا ہے؟ فرمایا کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آیا ہر سوال کے جواب میں اس کا کہنا کہ میں غوث پاک کا دھوبی ہوں دراصل توحید مطلب کی طرف اشارہ تھا۔ ۔ ۔ وہ جواب یہ دینا چاہتا تھا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ ۔ ۔ میں غوث پاک کے کپڑے دھونے والا ہوں، کیا میں بھی کبھی یہ بھول سکتا ہوں کہ رب کون ہے اور دین کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ساری زندگی غوث پاک کی خدمت کی ہے، کیا خیال ہے کہ مجھے خدا کی معرفت نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ وہ ہر سوال کے جواب میں بتاتا کہ غوث پاک کی سنگت والا ہوں۔ ۔ ۔ گویا فرشتوں کو یہ بتانا چاہا کہ جو ان کا رب ہے وہ میرا رب ہے۔ ۔ ۔ جو ان کا دین ہے وہ میرا دین ہے۔ ۔ ۔ گویا سنگت کی پختگی ان کے ایمان کے متعلق آگاہ کررہی تھی۔
سنگت کے حوالے سے ہی ایک اور بات حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی بیان کی کہ
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جہاں بیٹھتے، بغداد کے کتوں میں سے ایک کتا جسے آپ سے محبت ہوگئی آپ کی مجلس میں آ کر بیٹھ جاتا اور دور سے ان کو تکتا رہتا۔ ۔ ۔ ایک دن حضرت جنید بغدادی کی نگاہ اس کتے پر پڑگئی کہ میں جہاں بھی بیٹھتا ہوں، یہ کتا تلاش کرکے وہیں پہنچتا ہے اور مجھے تکتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ آپ نے اس کی طرف توجہ کی تو اس کتے کا حال بدل گیا۔ ۔ ۔ اس دن کے بعد وہ کتا بغداد شہر کی جس گلی میں بیٹھتا، دس بیس کتے اس کے اردگرد بیٹھ جاتے اور اس کتے کو تکتے رہتے۔ ۔ ۔ جس کتے پر جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر پڑگئی وہ اپنی نسل والوں یعنی کتوں کا محبوب بن گیا۔
اس سے بھی کسی کے دل میں سنگت کی اہمیت نہ اترے تو وہ قرآن میں اصحاب کہف کے کتے کا واقعہ پڑھ لے جو 309 سال تک ولیوں کی غار کی دہلیز پر بیٹھا رہا اور توجہ کی بناء پر حال یہ ہوا کہ جب اصحاب کہف دائیں بائیں کروٹ بدلتے تھے، کتا بھی کروٹ بدلتا۔ ۔ ۔ اور 309 سال تک جہاں اصحاب کہف کے جسم زندہ و سلامت رہے، ان کی توجہ اور فیض سے کتا بھی بغیر کھائے پئے زندہ و سلامت رہا۔ ۔ ۔ وہ ایک کتا تھا، پلید جانور تھا مگر ولیوں کی سنگت کی وجہ سے اصحاب کہف کے ساتھ اللہ نے قرآن میں اپنے کلام میں اس کتے کا بھی ذکر کیا۔ ۔ ۔ اور آج ہم اصحاب کہف کے واقعہ کے ساتھ اس کتے کے واقعہ کی بھی تلاوت کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اس کتے کے آداب نشست کا بھی ذکر ہے۔ ۔ ۔ اور جب اصحاب کہف کا عدد بیان کیا کہ کئی کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے تو قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ پانچ تھے تو چھٹا ان کا کتا تھا۔ ۔ ۔ کئی کہتے ہیں کہ وہ چھ تھے، قرآن کہتا ہے کہ اگر چھ وہ تھے اور ساتواں ان کا کتا تھا۔ ۔ ۔ کئی کہتے ہیں کہ اصحاب کہف سات تھے، قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ سات تھے تو آٹھواں ان کا کتا تھا۔
اب کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی کے ہاں دعوت پر جائیں اور آپ سے کوئی پوچھے کہ کتنے لوگ آئے؟ تو کیا آپ یہ کہتے ہیں۔ پانچ ہم ہیں اور چھٹا ہمارا کتا ہے۔ ۔ ۔ نہیں، لیکن قرآن پڑھ کر دیکھیں تو قرآن میں تو اس کا ذکر ہے۔ پس کتے کو جو سنگت ملی، تو رب نے اس کتے کی سنگت کو بھی رائیگاں جانے نہ دیا جہاں اصحاب کہف کا ذکر ہے وہاں کتے کا ذکر ہے۔
 
حاصل کسی چیز کے پا لینے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک سفر کا نام ہے، جو پانے اور نہ پانے سے مبرا ہے۔ اور سفر توبہر صورت وسیلہ ظفر ہی ہے۔ اس لیے انسان کا حاصل یہ نہیں کہ اس نے کیا پایا، اس کا حاصل تو وہ سفر ہے، جو اس نے طے کیا۔ اور سفر سارے ہی اچھے ہوتے ہیں، بشرطیکہ انہیں خلوصِ نیت سے طے کیا جائے۔ تو اس لیے، جو بھی کریں، مکمل جذبے سے کریں۔ سفر ہی آپ کا حاصل ہے اور یہی آخرکار آپ کی شخصیت کی عکاسی کرے گا۔ اللہ پاک ہمارے لیے ہماری منزلوں کو آسان فرمائے اور ہمیں اپنے پر ہوئی نعمتوں کو فضل میں تبدیل کرنے کی ہمت دے (آمین)۔
 
شیخ احمد الرفاعی الکبیر قدؑس اللہ سرؑہ العزیز نے فرمایا :
"خبردار!۔۔اہلِ دنیا کی صحبت سے بچ کر رہو۔ کیونکہ ان سے تقرب دل میں سختی لاتا ہے۔ فقراء کی صحبت اختیار کرو اور ان کو محبوب جانو، انکی تعظیم کرو اور انکی خدمت میں مشغول رہو۔ اور اگر ان میں سے کوئی تمہارے پاس آجائے تو انکے سامنے فروتنی اختیار کرو ا، دعا کے طالب رہو اور ان کا رنگ اختیار کرو کیونکہ جو کسی کی سے مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ انہی میں شمار کیا جاتا ہے اور جن لوگوں سے محبت رکھتا ہے انہی کے ساتھ حشر میں اٹھایا جاتا ہے۔ اور اگر لوگ اپنے رب کو اس طرح سے جان پائیں جس طرح ان فقراء نے جانا، تو دنیاوی اومعاشی امور اور متعلقہ احوال سے کلیتہؑ منقطع ہوجائیں۔۔۔"
 
تصوف اور سائنس از اشفاق احمد ڈرامہ کا نام من چلے کا سودا
بہت شکریہ شئیر کرنے کا۔بہت خوب بات کی!
لیکن جناب جمال صاحب شاید سکرپٹ پڑنے میں غلطی کر گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ "ہندسہ لفظ سےمحترم (معتبر) ہو گیا" (04:30)۔۔۔۔۔۔۔نہ کہ لفظ ہندسے سے معتبر ہو گیا۔ اگر میں غلط ہوں، تو تصحیح کر دیجیے گا۔ کوئی میری بات سے گمراہ نہ ہو جائے۔
شکریہ۔
 
بہت شکریہ شئیر کرنے کا۔بہت خوب بات کی!
لیکن جناب جمال صاحب شاید سکرپٹ پڑنے میں غلطی کر گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ "ہندسہ لفظ سےمحترم (معتبر) ہو گیا" (04:30)۔۔۔ ۔۔۔ ۔نہ کہ لفظ ہندسے سے معتبر ہو گیا۔ اگر میں غلط ہوں، تو تصحیح کر دیجیے گا۔ کوئی میری بات سے گمراہ نہ ہو جائے۔
شکریہ۔
جی آپ کی بات درست ہے ہندسہ لفظ سے محترم ہوگیا۔
 
1656153_797955910233752_1660442337_n.jpg

بیٹیاں
وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ دے دو وہ اُف کیئے بغیر تمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لیئے ان کے ساتھ ہولیتی ہیں۔ سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں، کبھی دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کرلیا، آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے ہیں وہ آٹے میں جذب ہوجاتے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں،
غیرت مند! ان کی قدر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں۔
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری
 

قیصرانی

لائبریرین
1656153_797955910233752_1660442337_n.jpg

بیٹیاں
وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ دے دو وہ اُف کیئے بغیر تمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لیئے ان کے ساتھ ہولیتی ہیں۔ سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں، کبھی دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کرلیا، آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے ہیں وہ آٹے میں جذب ہوجاتے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں،
غیرت مند! ان کی قدر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں۔
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری
مولانا بخاری بھی عام سے دیسی انسان نکلے :(
 

قیصرانی

لائبریرین
اوہ بھائی آپ ولایت میں رہ رہ کر شائد ولایتی ہوگئے ہو ۔۔۔ ۔۔ اس دیسی ماحول میں بہت کم بہادر لڑکیاں ولایتی حقوق پر لڑ جاتی ہیں
جس چیز کا حق شریعت نے دیا ہے، اسے ولایتی حقوق کیوں کہتے ہیں؟ یہ ہمارے ثقافتی لحاظ سے تو درست ہو سکتا ہے لیکن مذہبی اعتبار سے غلط ہے۔ مولانا کی اسی فرو گزاشت کی طرف اشارہ کیا ہے
 
جس چیز کا حق شریعت نے دیا ہے، اسے ولایتی حقوق کیوں کہتے ہیں؟ یہ ہمارے ثقافتی لحاظ سے تو درست ہو سکتا ہے لیکن مذہبی اعتبار سے غلط ہے۔ مولانا کی اسی فرو گزاشت کی طرف اشارہ کیا ہے
ہاں آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن دیسی معاشرے میں ہماری انا ہمیں اسلام اور شریعت سے زیادہ عزیز ہے
 
ﺍﻧﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ
ﻓﻨﺎ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺑﯿﻌﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ
ﻧﻤﺎﺯِ ﻋﺸﻖ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺟﺒﯿﮟ ﻣﺤﺮﻭﻡ
ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ
ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮭﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﺎ
ﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﺎ
ﮐﺴﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ
ﻣﻨﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﺎ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺭﺳﺘﮧ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ
ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮬﺠﺮ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ
ﺍُﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺣﺮﻑِ ﺑﮯ ﮨﻨﺮ ﮐﻮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺳﻮﻏﺎﺕ ﻣﻠﺘﯽ
ﮨﮯ
ﺩﻋﺎﮰِ ﺷﻮﻕ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﻓﺘﮕﯽ ﮐﻮ
ﺑﺎﺭﯾﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﺭﺍﺕ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﮐﺲ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﺗﺐ ﺗﮏ
ﻃﻠﺐ ﮨﯽ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮﺟﺎﮰ
ﻓﻨﺎ ﮐﺎ ﺍﺳﻢِ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﮰ
شاعر نامعلوم
 
ﺍﻧﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ
ﻓﻨﺎ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺑﯿﻌﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ
ﻧﻤﺎﺯِ ﻋﺸﻖ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺟﺒﯿﮟ ﻣﺤﺮﻭﻡ
ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ
ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮭﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﺎ
ﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﺎ
ﮐﺴﯽ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ
ﻣﻨﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﺎ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺭﺳﺘﮧ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ
ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮬﺠﺮ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ
ﺍُﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺣﺮﻑِ ﺑﮯ ﮨﻨﺮ ﮐﻮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺳﻮﻏﺎﺕ ﻣﻠﺘﯽ
ﮨﮯ
ﺩﻋﺎﮰِ ﺷﻮﻕ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﻓﺘﮕﯽ ﮐﻮ
ﺑﺎﺭﯾﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﺭﺍﺕ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﮐﺲ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﺗﺐ ﺗﮏ
ﻃﻠﺐ ﮨﯽ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮﺟﺎﮰ
ﻓﻨﺎ ﮐﺎ ﺍﺳﻢِ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﮰ
شاعر نامعلوم
واہ واہ۔۔۔۔کیا کہنے۔۔۔بہت ہی خوبصورت کلام جناب۔۔۔
 
سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا
جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا
میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں
پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا
میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں
کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب ہوا
سمندروں کا سفر بھی تو دشت ایسا تھا
جسے جزیرہ سمجھتے تھے اک سراب ہوا
وہ پوچھتا تھا کہ آخر ہمارا رشتہ کیا
سوال اس کا مرے واسطے جواب ہوا
ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں
وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا
نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا
یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا
 
Top