نایاب
لائبریرین
میرے محترم بھائیاحادیث سر آنکھوں پر
مگر اس بات کا پراپر جواب دیجئے
جذباتی ہوئے بغیر، ضد میں آئے بغیر
(یہ اقتباس ہے پورا تبصرہ اوپر ہے جسے آپ نے پڑھنا گوارہ نہیں کیا)
اب آپ بتائیے یہ معاملہ خطرناک ہے یا نہیں؟
خطرناک نہ ہوتا تو اللہ تعالی تفصیل سے بتا دیتا کہ روح کیا ہے
مگر کفار کے سوال کا جامع جواب دیا گیا کہ "روح امر اللہ ہے"
اب اگر کوئی دکان داری سجا لے
تو پیارے بھائی آپ بتاؤ
آپ کیا کرو گے؟
رسول اللہ ﷺ کے حکم پر سر جھکا کر اس قریب بھی نہیں جاؤ گے یا اپنے دماغ کی ذہانت کے غرور میں قریب جا کر دیکھنے کی کوشش کرو گے؟
جس موضوع " روح " پر یہ دھاگہ رواں ہے ۔
وہ موضوع روح کی ہیئت و ماہیت پر نہیں ہے ۔
اور نہ خلیل جبران نے اس تحریر میں روح کیساخت کو موضوع بنایا ہے ۔
ان مقولات میں روح کی ان خواہشوں کو موضوع بنایا گیا ہے
جن کی تکمیل پر کوئی روح توانا و کمزور ہوتے بلندی و پستی کی حقدار ٹھہرتی ہے ۔
آپ جس موضوع پر گفتگو کر رہے وہ اس موضوع سے بالکل الگ اک موضوع ہے ۔
سات مرتبہ میں نے اپنی روح کو حقیر جانا:
ساتویں مرتبہ میں نے اپنی روح کو اس وقت حقیر جانا جب وہ اپنی تعریف میں نغمے گانے لگی اور اسے نیکی اور خوش خلقی کی نشانی سمجھنے لگی۔
- پہلی مرتبہ اس وقت جب میں نے دیکھا وہ بلندیوں میں پرواز کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بہت مسکین اور عاجز نظر آتی تھی۔
- دوسری مرتبہ اس وقت جب میں نے دیکھا وہ اپاہج کے سامنے لنگڑا کر چل رہی ہے ۔
- تیسری مرتبہ اس وقت جب روح کو رنج و غم اور عیش و آرام میں سے ایک چیز کو منتخب کرنے کا موقع دیا گیا اور میں نے دیکھا کہ اس نے عیش و آرام کو منتخب کرلیا۔
- چوتھی مرتبہ میں نے روح کو اس وقت حقیر جانا جب اس نے ایک غلط کام کیا اور جواب طلبی پر یہ کہا کہ دوسرے لوگ بھی تو غلط کام کرتے ہیں مجھ سے غلطی ہوگئی تو کیا ہوا۔
- پانچویں مرتبہ اس وقت حقیر جانا جب وہ اپنی کمزوری پر قانع ہو کر بیٹھ گئی اور اس صبر و تحمل کو ذاتی قوت پر محمول کرنے لگی۔
- چھٹی مرتبہ اس وقت حقیر جانا جب اس نے ایک بد صورت چہرے کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور وہ یہ نہ جانتی تھی کہ یہ بد صورتی بھی تو اس کا اپنا ہی بہروپ تھا ۔
خلیل جبران