روداد محفلین کراچی چیپٹر کی تیسری ملاقات منعقدہ سولہ مارچ سنہ دو ہزار انیس کی

کل رات چیونٹی کی رفتار سے ساڑھے تین کلومیٹر کا فیصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرکے بلوچستان سجی ھاؤس پہنچے تو درجن بھر محفلین کو بے صبری کے ساتھ انتظاکرتے پایا جن میں آج کی تقریببِ بہرِ ملاقات کے میزبان خالد محمود چوہدری کے علاؤہ محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی ، سید عمران بھائی، شعیب صفدر بھائی، اکمل زیدی بھائی، ڈاکٹر فاخر رضا بھائی، فہیم بھائی، محمد امین صدیق بھائی، محمد احمد بھائی وغیرہم نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ذرا کی ذرا میں ٹرومین بھائی اور م م مغل یعنی مغزل بھائی بھی آن موجود ہوئے اور یوں بقول کسے ایشیا کی سب سے بڑی فلیٹوں کی بستی گلستانِ جوہر کے مشہور پرفیوم چوک پر واقع بلوچستان سجی ھاؤس کے سامنے لبِ سڑک ایک بڑے تخت پر متمکن ہوئے تو سامنے ہفتے کی شب کا مخصوص موٹر گاڑیوں کا ایک سیلِ رواں جاری تھا۔ یوں بھانت بھانت کی انسانی و میکانیکی آوازیں فضا میں رقصِ شیطانی
میں مصروف تھیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس نقار خانے میں یوں بھی طوطی کی بھلا کون سنتا۔


ٹھہریے! آمبیانس (ambiance) کے اس بیان میں کہیں یہ بات ہی دب کر نہ رہ جائے کہ دو خاص ہستیاں یعنی مغزل بھائی اور شعیب صفدر بھائی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ان دونوں قد آور شخصیات نے ہماری تقریببِ ملاقات کو جو استناد عطا کیا اس کے لیے ہم ان دونوں کے ممنون و متشکر ہیں۔

محفل کے چار بہت پرانے محفلین یعنی فہیم بھائی، مغزل بھائی، محمد احمد بھائی اور شعیب صفدر بھائی نے واقعی اس مجلس کو چار چاند لگادئیے۔

آنتیں بھوک سے مچل رہی تھیں اور قل ھو اللہ کے ساتھ نہ جانے اور کیا کیا پڑھ رہی تھیں کہ بیرے نے سلاد رائتے کی پلیٹیں دسترخوان پر رکھ دیں اور یوں ہم سلاد ٹونگنے کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ میں بظاہر مصروف ہوگئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کی ہماری قوتِ شامہ نے بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو کی چغلی کھائی اور آن کی آن میں اشتہاء انگیز ڈشیز ہمارے سامنے دسترخوان پر سجادی گئیں۔

شور کے باعث تمام محفلین ایک دوسرے سے مخاطب نہ ہو سکتے تھے لہذا شرکاء نے مختلف ٹولیوں کی صورت میں بات چیت شروع کردی۔ ایک جانب مغزل بھائی ٹرومین بھائی، شعیب بھائی اور فہیم بھائی کے ساتھ اپنی دربارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی تفصیلات شریک کر رہے تھے تو دوسری جانب عمران بھائی، خالد بھائی، زیدی بھائی اور نقیبی بھائی کے ساتھ مذہبی گفتگو میں مصروف تھے۔ ہم فاخر بھائی، آمین صدیق بھائی اور احمد بھائی کے ساتھ دسترخوان کے درمیان میں موجود تھے، ہم نے ان کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا، جیب سے موبائل نکالا اور اپنی اور ادیب رضوی صاحب کی تصویر نکال کر دکھانے لگے۔

کھانے میں، مٹن کڑاہی، چکن کڑاہی، چکن سجی اور تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ تندوری نان لطف دے رہے تھے۔

کھانا شروع ہوا تو خالد بھائی نے تقریباً چیختی آواز میں محفلین کو مخاطب کیا اور ٹھنڈے مشروب کی پسند دریافت کرنے لگے۔

ایک جانب سڑک پر گاڑیوں کا اژدھام اور دوسی جانب پیدل چلنے والوں کا ہجوم تھا لیکن ہم محفلین دنیا و مافیہا سے بے خبر کھانے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ لذیذ پکوان اور پیارے پیارے محفلین کی دلکش گفتگو مزہ دے گئے۔

کھانا ختم ہوا اور چائے پیش کی گئی تو رات بھیگ چلی تھی۔ ہم نے محفلین سے استدعاء کی کہ جبکہ محفل میں مغل بھائی اور محمد احمد بھائی کی صورت میں دو مستند شعراء موجود ہیں تو کیوں نہ ان سے ان کا تازہ کلام سناجائے۔ اسی اثناء میں خالد بھائی مغل بھائی کے قریب نشست سنبھال چکے تھے انہوں نے ہماری بات پکڑلی اور معترض ہوئے کہ " خلیل بھائی اس درمیان اپنا کلام سنانے کے لیے بھی بے چین ہیں"۔ مغل بھائی نے خالد بھائی کی ٹانگ کھینچی کہ "اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں تو مجھے اس پر یقین نہیں"۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور دست بدستہ عرض کی کہ "ہم جیسے تُک بند کو شاعروں میں شامل نہ کیا جائے"۔ زیادہ اصرار پر ہم نے اپنے آپ کو آدھا شاعر تسلیم کرتے ہوئے ڈھائی شاعروں کے ناموں کا اعلان کردیا اور اردو کے مستند شاعر جناب م م مغل کے سامنے شمع رکھ دی یعنی ان سے اپنا کلام عطا فرمانے کی درخواست کردی۔

مغزل بھائی نے ایک غزل، ایک نعت اور چند نثری نظمیں (بلا عنوان کےکنام سےسیہ نثری نظمیں محفل پر موجود ہیں) سنا کر گویا مشاعرہ ہی لوٹ لیا۔ ابھی کچھ نقدِ جاں باقی تھی جو دوسرے بڑے اور خوب صورت، صاحبِ طرز شعر محمد احمد نے لوٹ لی۔ دو غزلیں سناکر انہوں نے اجازت چاہی تو ہماری باری آئی۔ اس عرصے میں ہمارے تخت پر قبضہ کرنے کی سازش مکمل ہوچکی تھی، یعنی دوسری پارٹی ہماری جگہ لینے کے تیار تھی نیز ریستوران انتظامیہ کی جانب سے بھی ہمیں تخت چھوڑنے کا مسلسل اشارہ مل رہا تھا لہذا ہم نے ایک انگریزی نظم کا منظوم ترجمہ سنانے پر اکتفا کیا اور یوں اس محفل کا باقاعدہ اختتام ہوا۔

اس اثناء میں مغل بھائی کے اندر کا شاعر پوری طرح بیدار ہوچکا تھا لہذا انہوں نے کسی چائے خانے پر جاکر محفل کی کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ دیا لیکن ہم چونکہ تھک چکے تھے اور باوجود کوشش مزید ٹھہر نہیں سکتے تھے لہذا ہم نے بادلِ ناخواستہ اجازت چاہی اور سب محفلین سے گلے مل کر رخصت ہوئے۔

اردگرد کے شور اور تخت پر قبضہ کرنے والوں کے بے پناہی دباؤ میں آمین صدیق بھائی کیکجادو بھری آواز میں پرانے فلمی گیت اور اکمل زیدی کی تازہ غزل سننا رہ گئے جس کا ہمیں بے حد ملال ہے۔ طے پایا کہ بعد عید الفطر آئیندہ ملاقات بہادرآباد کے ناشتے پر ہی ہو تاکہ اس کے بعد ہل پارک کی خاموش اور خوب صورت فضا میں مشاعرہ اور گیت کی محفل بھی منعقد کی جاسکے۔

ہم نے محمد احمد بھائی سے لفٹ مانگی جسے انہوں نے بخوشی قبول کرنے کا عندیہ دیا اور یوں ہم دونوں نے راستے کی کلفتوں کو کم کرتے ہوئے مزید پندرہ منٹ خوب صورت تبادلہ خیال میں گزارے اور اس خوب صورت شام کی میٹھی یادیں لیے اور عمران بھائی ،عدنان بھائی، زیدی بھائی، آمین بھائی، فاخر بھائی کی پیاری پیاری باتیں نہ سن سکنے پر تشنگی لیے گھر لوٹ آئے۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
ہمیشہ کی طرح رواں اور خوبصورت روداد۔ مغزل صاحب کیسے پکڑ میں آ گئے؟
اللہ سب کو ہنستا رکھے۔

کل ہی Mark Wiens کا کراچی کا فوڈ ٹور دیکھ رہا تھا۔ ایسی ایسی غذائیں کہ دیکھ کر ہی بندے کی رال ٹپکنے لگے۔ کوئی ہمیں بھی دعوت دے دے کراچی آنے کی!
 
ہمیشہ کی طرح رواں اور خوبصورت روداد۔ مغزل صاحب کیسے پکڑ میں آ گئے؟
اللہ سب کو ہنستا رکھے۔

کل ہی Mark Wiens کا کراچی کا فوڈ ٹور دیکھ رہا تھا۔ ایسی ایسی غذائیں کہ دیکھ کر ہی بندے کی رال ٹپکنے لگے۔ کوئی ہمیں بھی دعوت دے دے کراچی آنے کی!
آداب۔

واقعی مغزل بھائی تو عید کا چاند بن کر نمودار ہوئے اور چھاگئے۔

مزید یہ کہ محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی نے اپنے معصومانہ انداز میں ضرور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ کاش تمام پاکستان کے محفلین ایک جگہ جمع ہوکر تقریب منعقد کرسکیں۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، وہ ضرور آپ کی خواہش کو پورا فرمائیں گے۔
 

فلسفی

محفلین
کھانے میں، مٹن کڑاہی، چکن کڑاہی، چکن سجی اور تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ تندوری نان لطف دے رہے تھے۔

طبیعت کے عین مطابق پوری تحریر میں بس یہی الفاظ چمکتے ہوئے معلوم ہوئے۔ :p

اللہ پاک آپ سب خوش رکھے۔ دین اور دنیا کی تمام برکتیں عطا کرے۔ آمین
 
بہت عمدہ۔
مغزل بھائی نے ایک غزل، ایک نعت اور چند نثری نظمیں پیش کرکے مشاعرہ لوٹ لیا۔ ابھی کچھ نقدِ جاں باقی تھی جو دوسرے بڑے اور خوب صورت، صاحبِ طرز شعر محمد احمد نے لوٹ لی۔ دو غزلیں سناکر انہوں نے اجازت چاہی تو ہماری باری آئی۔ اس عرصے میں ہمارے تخت پر قبضہ کرنے کی سازش مکمل ہوچکی تھی، یعنی دوسری پارٹی ہماری جگہ لینے کے تیار تھی نیز ریستوران انتظامیہ کی جانب سے بھی ہمیں تخت چھوڑنے کا مسلسل اشارہ مل رہا تھا لہذا ہم نے ایک انگریزی نظم کا منظوم ترجمہ سنانے پر اکتفا کیا اور یوں اس محفل کا باقاعدہ اختتام ہوا۔
اکمل زیدی بھائی سے کچھ نہ سننے پر میری جانب سے احتجاج نوٹ فرما لیں۔
 

فلسفی

محفلین
رات کو لگتا ہے زیادہ کھا لیا، ابھی تک سو رہے ہیں سارے؟ یا وعدے کے مطابق امورخانہ داری نبھا رہے ہیں؟
 
ہم نے صبح اٹھتے ہی اللہ کریم کی حمد ثناء کے بعد پکا والا ارادہ کر لیا تھا کہ آج ہم ہر صورت محفلین کے اس بابرکت اجتماع لازمی شریک ہونا ہے ۔دوران ناشتے بیگم صاحبہ کو اپنے دل کے ارادے سے آگاہ کیا،
آپ اس آگاہی کے مفہوم سے بخوبی واقف ہیں اس لیے وضاحت ضروری نہیں :p۔
۔
ناشتے سے فراغت پا کر رزق حلال کی جستجو میں گھر سے روانہ ہوئے ،سارا دن ملازمت کا حق ادا کرتے ذہن میں رات کی ملاقات کا خیال زیر گردش ہی رہا ۔شام سات بجے بج کر چالیس منٹ پر اپنے ساتھیوں کو اللہ حافظ کہہ کر گھر کے لیے روانہ ہوئے ،گھر پہنچ کر بیگم صاحب کی خیریت دریافت کر کے دعوت میں جانے کی تیاری شروع کردی۔
ٹھیک آٹھ پینتالیس پر گھر سے جائے ملاقات کی جانب اپنی موٹر سائیکل پر رخت سفر باندھا۔ کئی مقامات پر ٹریفک کے رش سے واسطہ پڑتا رہا اور نیپا چورنگی کے بعد سے الہ دین پارک تک شدید ترین ٹریفک جام تھا ۔خیر جیسے تیسے رستہ بناتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچے اور اللہ کریم کا شکر ادا کیا ۔
بلوچستان سجی ہاوس پر شدید رش کو دیکھا کر پہلا خیال جو دل میں آیا کہ یا اللہ کیا ان لوگوں کے گھروں میں کھانا نہیں پکایا جاتا جو اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں مزے سے کھانا تناول فرما رہے ہیں ۔ان ہی خیالات کے ساتھ ساتھ تلاش محفلین بھی جاری تھی ۔
ایک تخت پر ہمیں اپنے اردو محفل کے محفلین کی جماعت نظر آئی ۔ہم نے دور سے ہی خالد بھائی کو ہاتھ کا اشارہ کیا مگر شاید دوری ہونے کے سبب خالد بھائی ہمارا اشارہ نہیں دیکھ سکے ۔اس دوران میں ہم نے اپنی موٹرسائیکل پارکنگ میں کھڑی کی اور دوبارہ تصدیق کے لیے خالد بھائی کو اشارہ کیا ،ان اشارے بازیوں میں ہمیں بھیا کا دیدار نصیب ہوا تو ہم اس جماعت میں شمولیت کی غرض سے تخت کی جانب چل پڑے۔
جماعت میں سب سے پہلے فہیم بھائی سے بغل گیر ہوئے پھر شعیب صفدر بھائی ،احمد بھائی ،اکمل بھائی ، بھیا اور خالد بھائی امین بھائی سے سلام دعا کی اور خیریت دریافت کی ۔
بھیا نے تو ہمیں کہی کا نا چھوڑا، ہمارا استقبال طنز کرتے ہوئے یہ کہہ کر کیا کہ آپ تو نہیں آنے والے تھے اور آگئے آپ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں ۔
خیر ہم نے محفل کے آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے بھیا کی بات کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر حلق سے اتارا اور محفلین سے گفتگو میں مصروف ہوگئے ۔کچھ دیر بعد سر محمد خلیل الرحمن بھی تشریف لے آئے ۔
اکمل بھائی، بھیا ،امین بھائی ، خالد بھائی اور ہم خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے ۔اس دوران میں سجی ہاوس کے ویٹر نے رائتہ اور سلاد لاکر رکھا ۔بھیا نے تو باتوں کے دوران ہی سلاد کی پلیٹ خالی کر ڈالی اور ہم حسرت سے دیکھے گئے ، بچی ہوئی پیاز سے ہم نے لطف اٹھایا۔دوران گفتگو محفل کے حوالے سے کئی اہم موضوعات زیر گفتگو رہے ۔اس دوران میں م م مغل صاحب کی آمد ہوئی ،تمام احباب نے گرم جوشی سے م م مغل صاحب کو خوش آمدید کہا ۔ابھی م م مغل صاحب کو خوش آمدید کہہ کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ محترم شاہد بھائی المعروف ٹرومین اردو محفل والے بھی تشریف لے آئے ۔دوبارہ سے میل ملاقات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔اس کے بعد باقاعدہ گفتگو کا آغاز ہوا بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا کہ گفتگو کا سلسلہ جہاں سے رکا تھا وہاں سے ہی دوبارہ جوڑ دیا گیا ۔اس دوران میں ویٹرز گرم گرم کھانے سجانے میں مصروف ہو گئے اور سب محفلین کھانے میں مصروف ہوگئے دوران کھانے بھی ہلکی پھلکی کی تفریح گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا ،کھانے کے بعد خالد بھائی کی جانب سے محفلین کی تواضح کے لیے چائے کا آڈر جاری کر دیا گیا۔چائے آتے ہی مختصر محفل مشاعرے کا آغاز ہو گیا ۔سب سے پہلے م م مغل صاحب نے محفل کا آغاز کرتے ہوئے اپنی عمدہ شاعری سے محفلین کے قلوب کو گرم ڈالا ۔
م م مغل صاحب کے بعد شمع محفل احمد بھائی کے سامنے رکھی گئی تو انھوں نے بھی اپنی شاندار شاعری مخصوص انداز میں پڑھی کر سنائی ۔اس کے بعد سر خلیل نے اپنا کلام محفلین کے روبرو پیش کی ۔
ٹرومیں بھائی سے ہماری پہلی ملاقات تھی ۔ٹرومین بھائی بہت نفیس اور زبردست شخصیت کے مالک ہیں۔ان سے بھی مختصر گفتگو ہوئی ۔ہمیں ٹرومین بھائی کا انداز گفتگو بہت پسند آیا ۔
سجی ہاوس کی جانب سے محفلین سے تخت خالی کرنے کا آرڈر آیا تو سب اٹھ کھڑے ہوئے ۔یوں محفل ملاقات اپنے جزوی اختتام کی جانب چل پڑی ۔ہم نے اپنے لمبے سفر کی پریشان کا ذکر کیا اور تمام محفلین سے اجازت طلب کر کے گھر کے لیے روانہ ہوگئے ۔
نوٹ ! ہمیں بس اتنا ہی یاد ہے اب اگر احوال لکھنے میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہو تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں ۔:D
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
شام سات بجے بج کر چالیس منٹ
یہ کون سا وقت ہوتا ہے بھائی :eek:
یا اللہ کیا ان لوگوں کے گھروں میں کھانا نہیں پکایا جاتا جو اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں مزے سے کھانا تناول فرما رہے ہیں ۔
اب ہر کوئی آپ جیسا سگھڑ تو نہیں ہوتا نا:)
 
ہمارے پیارے جناب عزت مآب صاحب کی لائی ہوئی مٹھائی کا بھی تذکرہ ہو جائے۔ بہت بہت شکریہ جناب محمد امین صدیق بھائی
ارے واہ کیا خواب یاد دلایا خالد بھائی ،
کل کی ملاقات میں دو مٹھائی کے شوقین کا بس نہیں چل رہاتھا کہ وہ ڈبہ مسلسل اپنے قبضہ میں ہی رکھیں مگر ایسا ممکن نا تھا ،پھر بھی کافی حد تک شافی انداز میں اکمل بھائی اور عمران بھیا اس جستجومیں کامیاب رہے ۔
خالد بھائی ایک بار پھر ہم کل کی پرتکلف دعوت کے اہتمام کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اللہ کریم آپ کی محبت اور آپ کے رزق میں خوب برکتیں عطا فرمائے۔آمین
 
Top