محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
کل رات چیونٹی کی رفتار سے ساڑھے تین کلومیٹر کا فیصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرکے بلوچستان سجی ھاؤس پہنچے تو درجن بھر محفلین کو بے صبری کے ساتھ انتظاکرتے پایا جن میں آج کی تقریببِ بہرِ ملاقات کے میزبان خالد محمود چوہدری کے علاؤہ محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی ، سید عمران بھائی، شعیب صفدر بھائی، اکمل زیدی بھائی، ڈاکٹر فاخر رضا بھائی، فہیم بھائی، محمد امین صدیق بھائی، محمد احمد بھائی وغیرہم نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ذرا کی ذرا میں ٹرومین بھائی اور م م مغل یعنی مغزل بھائی بھی آن موجود ہوئے اور یوں بقول کسے ایشیا کی سب سے بڑی فلیٹوں کی بستی گلستانِ جوہر کے مشہور پرفیوم چوک پر واقع بلوچستان سجی ھاؤس کے سامنے لبِ سڑک ایک بڑے تخت پر متمکن ہوئے تو سامنے ہفتے کی شب کا مخصوص موٹر گاڑیوں کا ایک سیلِ رواں جاری تھا۔ یوں بھانت بھانت کی انسانی و میکانیکی آوازیں فضا میں رقصِ شیطانی
میں مصروف تھیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس نقار خانے میں یوں بھی طوطی کی بھلا کون سنتا۔
ٹھہریے! آمبیانس (ambiance) کے اس بیان میں کہیں یہ بات ہی دب کر نہ رہ جائے کہ دو خاص ہستیاں یعنی مغزل بھائی اور شعیب صفدر بھائی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ان دونوں قد آور شخصیات نے ہماری تقریببِ ملاقات کو جو استناد عطا کیا اس کے لیے ہم ان دونوں کے ممنون و متشکر ہیں۔
محفل کے چار بہت پرانے محفلین یعنی فہیم بھائی، مغزل بھائی، محمد احمد بھائی اور شعیب صفدر بھائی نے واقعی اس مجلس کو چار چاند لگادئیے۔
آنتیں بھوک سے مچل رہی تھیں اور قل ھو اللہ کے ساتھ نہ جانے اور کیا کیا پڑھ رہی تھیں کہ بیرے نے سلاد رائتے کی پلیٹیں دسترخوان پر رکھ دیں اور یوں ہم سلاد ٹونگنے کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ میں بظاہر مصروف ہوگئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کی ہماری قوتِ شامہ نے بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو کی چغلی کھائی اور آن کی آن میں اشتہاء انگیز ڈشیز ہمارے سامنے دسترخوان پر سجادی گئیں۔
شور کے باعث تمام محفلین ایک دوسرے سے مخاطب نہ ہو سکتے تھے لہذا شرکاء نے مختلف ٹولیوں کی صورت میں بات چیت شروع کردی۔ ایک جانب مغزل بھائی ٹرومین بھائی، شعیب بھائی اور فہیم بھائی کے ساتھ اپنی دربارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی تفصیلات شریک کر رہے تھے تو دوسری جانب عمران بھائی، خالد بھائی، زیدی بھائی اور نقیبی بھائی کے ساتھ مذہبی گفتگو میں مصروف تھے۔ ہم فاخر بھائی، آمین صدیق بھائی اور احمد بھائی کے ساتھ دسترخوان کے درمیان میں موجود تھے، ہم نے ان کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا، جیب سے موبائل نکالا اور اپنی اور ادیب رضوی صاحب کی تصویر نکال کر دکھانے لگے۔
کھانے میں، مٹن کڑاہی، چکن کڑاہی، چکن سجی اور تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ تندوری نان لطف دے رہے تھے۔
کھانا شروع ہوا تو خالد بھائی نے تقریباً چیختی آواز میں محفلین کو مخاطب کیا اور ٹھنڈے مشروب کی پسند دریافت کرنے لگے۔
ایک جانب سڑک پر گاڑیوں کا اژدھام اور دوسی جانب پیدل چلنے والوں کا ہجوم تھا لیکن ہم محفلین دنیا و مافیہا سے بے خبر کھانے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ لذیذ پکوان اور پیارے پیارے محفلین کی دلکش گفتگو مزہ دے گئے۔
کھانا ختم ہوا اور چائے پیش کی گئی تو رات بھیگ چلی تھی۔ ہم نے محفلین سے استدعاء کی کہ جبکہ محفل میں مغل بھائی اور محمد احمد بھائی کی صورت میں دو مستند شعراء موجود ہیں تو کیوں نہ ان سے ان کا تازہ کلام سناجائے۔ اسی اثناء میں خالد بھائی مغل بھائی کے قریب نشست سنبھال چکے تھے انہوں نے ہماری بات پکڑلی اور معترض ہوئے کہ " خلیل بھائی اس درمیان اپنا کلام سنانے کے لیے بھی بے چین ہیں"۔ مغل بھائی نے خالد بھائی کی ٹانگ کھینچی کہ "اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں تو مجھے اس پر یقین نہیں"۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور دست بدستہ عرض کی کہ "ہم جیسے تُک بند کو شاعروں میں شامل نہ کیا جائے"۔ زیادہ اصرار پر ہم نے اپنے آپ کو آدھا شاعر تسلیم کرتے ہوئے ڈھائی شاعروں کے ناموں کا اعلان کردیا اور اردو کے مستند شاعر جناب م م مغل کے سامنے شمع رکھ دی یعنی ان سے اپنا کلام عطا فرمانے کی درخواست کردی۔
مغزل بھائی نے ایک غزل، ایک نعت اور چند نثری نظمیں (بلا عنوان کےکنام سےسیہ نثری نظمیں محفل پر موجود ہیں) سنا کر گویا مشاعرہ ہی لوٹ لیا۔ ابھی کچھ نقدِ جاں باقی تھی جو دوسرے بڑے اور خوب صورت، صاحبِ طرز شعر محمد احمد نے لوٹ لی۔ دو غزلیں سناکر انہوں نے اجازت چاہی تو ہماری باری آئی۔ اس عرصے میں ہمارے تخت پر قبضہ کرنے کی سازش مکمل ہوچکی تھی، یعنی دوسری پارٹی ہماری جگہ لینے کے تیار تھی نیز ریستوران انتظامیہ کی جانب سے بھی ہمیں تخت چھوڑنے کا مسلسل اشارہ مل رہا تھا لہذا ہم نے ایک انگریزی نظم کا منظوم ترجمہ سنانے پر اکتفا کیا اور یوں اس محفل کا باقاعدہ اختتام ہوا۔
اس اثناء میں مغل بھائی کے اندر کا شاعر پوری طرح بیدار ہوچکا تھا لہذا انہوں نے کسی چائے خانے پر جاکر محفل کی کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ دیا لیکن ہم چونکہ تھک چکے تھے اور باوجود کوشش مزید ٹھہر نہیں سکتے تھے لہذا ہم نے بادلِ ناخواستہ اجازت چاہی اور سب محفلین سے گلے مل کر رخصت ہوئے۔
اردگرد کے شور اور تخت پر قبضہ کرنے والوں کے بے پناہی دباؤ میں آمین صدیق بھائی کیکجادو بھری آواز میں پرانے فلمی گیت اور اکمل زیدی کی تازہ غزل سننا رہ گئے جس کا ہمیں بے حد ملال ہے۔ طے پایا کہ بعد عید الفطر آئیندہ ملاقات بہادرآباد کے ناشتے پر ہی ہو تاکہ اس کے بعد ہل پارک کی خاموش اور خوب صورت فضا میں مشاعرہ اور گیت کی محفل بھی منعقد کی جاسکے۔
ہم نے محمد احمد بھائی سے لفٹ مانگی جسے انہوں نے بخوشی قبول کرنے کا عندیہ دیا اور یوں ہم دونوں نے راستے کی کلفتوں کو کم کرتے ہوئے مزید پندرہ منٹ خوب صورت تبادلہ خیال میں گزارے اور اس خوب صورت شام کی میٹھی یادیں لیے اور عمران بھائی ،عدنان بھائی، زیدی بھائی، آمین بھائی، فاخر بھائی کی پیاری پیاری باتیں نہ سن سکنے پر تشنگی لیے گھر لوٹ آئے۔
میں مصروف تھیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس نقار خانے میں یوں بھی طوطی کی بھلا کون سنتا۔
ٹھہریے! آمبیانس (ambiance) کے اس بیان میں کہیں یہ بات ہی دب کر نہ رہ جائے کہ دو خاص ہستیاں یعنی مغزل بھائی اور شعیب صفدر بھائی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ان دونوں قد آور شخصیات نے ہماری تقریببِ ملاقات کو جو استناد عطا کیا اس کے لیے ہم ان دونوں کے ممنون و متشکر ہیں۔
محفل کے چار بہت پرانے محفلین یعنی فہیم بھائی، مغزل بھائی، محمد احمد بھائی اور شعیب صفدر بھائی نے واقعی اس مجلس کو چار چاند لگادئیے۔
آنتیں بھوک سے مچل رہی تھیں اور قل ھو اللہ کے ساتھ نہ جانے اور کیا کیا پڑھ رہی تھیں کہ بیرے نے سلاد رائتے کی پلیٹیں دسترخوان پر رکھ دیں اور یوں ہم سلاد ٹونگنے کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ میں بظاہر مصروف ہوگئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کی ہماری قوتِ شامہ نے بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو کی چغلی کھائی اور آن کی آن میں اشتہاء انگیز ڈشیز ہمارے سامنے دسترخوان پر سجادی گئیں۔
شور کے باعث تمام محفلین ایک دوسرے سے مخاطب نہ ہو سکتے تھے لہذا شرکاء نے مختلف ٹولیوں کی صورت میں بات چیت شروع کردی۔ ایک جانب مغزل بھائی ٹرومین بھائی، شعیب بھائی اور فہیم بھائی کے ساتھ اپنی دربارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی تفصیلات شریک کر رہے تھے تو دوسری جانب عمران بھائی، خالد بھائی، زیدی بھائی اور نقیبی بھائی کے ساتھ مذہبی گفتگو میں مصروف تھے۔ ہم فاخر بھائی، آمین صدیق بھائی اور احمد بھائی کے ساتھ دسترخوان کے درمیان میں موجود تھے، ہم نے ان کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا، جیب سے موبائل نکالا اور اپنی اور ادیب رضوی صاحب کی تصویر نکال کر دکھانے لگے۔
کھانے میں، مٹن کڑاہی، چکن کڑاہی، چکن سجی اور تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ تندوری نان لطف دے رہے تھے۔
کھانا شروع ہوا تو خالد بھائی نے تقریباً چیختی آواز میں محفلین کو مخاطب کیا اور ٹھنڈے مشروب کی پسند دریافت کرنے لگے۔
ایک جانب سڑک پر گاڑیوں کا اژدھام اور دوسی جانب پیدل چلنے والوں کا ہجوم تھا لیکن ہم محفلین دنیا و مافیہا سے بے خبر کھانے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ لذیذ پکوان اور پیارے پیارے محفلین کی دلکش گفتگو مزہ دے گئے۔
کھانا ختم ہوا اور چائے پیش کی گئی تو رات بھیگ چلی تھی۔ ہم نے محفلین سے استدعاء کی کہ جبکہ محفل میں مغل بھائی اور محمد احمد بھائی کی صورت میں دو مستند شعراء موجود ہیں تو کیوں نہ ان سے ان کا تازہ کلام سناجائے۔ اسی اثناء میں خالد بھائی مغل بھائی کے قریب نشست سنبھال چکے تھے انہوں نے ہماری بات پکڑلی اور معترض ہوئے کہ " خلیل بھائی اس درمیان اپنا کلام سنانے کے لیے بھی بے چین ہیں"۔ مغل بھائی نے خالد بھائی کی ٹانگ کھینچی کہ "اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں تو مجھے اس پر یقین نہیں"۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور دست بدستہ عرض کی کہ "ہم جیسے تُک بند کو شاعروں میں شامل نہ کیا جائے"۔ زیادہ اصرار پر ہم نے اپنے آپ کو آدھا شاعر تسلیم کرتے ہوئے ڈھائی شاعروں کے ناموں کا اعلان کردیا اور اردو کے مستند شاعر جناب م م مغل کے سامنے شمع رکھ دی یعنی ان سے اپنا کلام عطا فرمانے کی درخواست کردی۔
مغزل بھائی نے ایک غزل، ایک نعت اور چند نثری نظمیں (بلا عنوان کےکنام سےسیہ نثری نظمیں محفل پر موجود ہیں) سنا کر گویا مشاعرہ ہی لوٹ لیا۔ ابھی کچھ نقدِ جاں باقی تھی جو دوسرے بڑے اور خوب صورت، صاحبِ طرز شعر محمد احمد نے لوٹ لی۔ دو غزلیں سناکر انہوں نے اجازت چاہی تو ہماری باری آئی۔ اس عرصے میں ہمارے تخت پر قبضہ کرنے کی سازش مکمل ہوچکی تھی، یعنی دوسری پارٹی ہماری جگہ لینے کے تیار تھی نیز ریستوران انتظامیہ کی جانب سے بھی ہمیں تخت چھوڑنے کا مسلسل اشارہ مل رہا تھا لہذا ہم نے ایک انگریزی نظم کا منظوم ترجمہ سنانے پر اکتفا کیا اور یوں اس محفل کا باقاعدہ اختتام ہوا۔
اس اثناء میں مغل بھائی کے اندر کا شاعر پوری طرح بیدار ہوچکا تھا لہذا انہوں نے کسی چائے خانے پر جاکر محفل کی کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ دیا لیکن ہم چونکہ تھک چکے تھے اور باوجود کوشش مزید ٹھہر نہیں سکتے تھے لہذا ہم نے بادلِ ناخواستہ اجازت چاہی اور سب محفلین سے گلے مل کر رخصت ہوئے۔
اردگرد کے شور اور تخت پر قبضہ کرنے والوں کے بے پناہی دباؤ میں آمین صدیق بھائی کیکجادو بھری آواز میں پرانے فلمی گیت اور اکمل زیدی کی تازہ غزل سننا رہ گئے جس کا ہمیں بے حد ملال ہے۔ طے پایا کہ بعد عید الفطر آئیندہ ملاقات بہادرآباد کے ناشتے پر ہی ہو تاکہ اس کے بعد ہل پارک کی خاموش اور خوب صورت فضا میں مشاعرہ اور گیت کی محفل بھی منعقد کی جاسکے۔
ہم نے محمد احمد بھائی سے لفٹ مانگی جسے انہوں نے بخوشی قبول کرنے کا عندیہ دیا اور یوں ہم دونوں نے راستے کی کلفتوں کو کم کرتے ہوئے مزید پندرہ منٹ خوب صورت تبادلہ خیال میں گزارے اور اس خوب صورت شام کی میٹھی یادیں لیے اور عمران بھائی ،عدنان بھائی، زیدی بھائی، آمین بھائی، فاخر بھائی کی پیاری پیاری باتیں نہ سن سکنے پر تشنگی لیے گھر لوٹ آئے۔
آخری تدوین: