ہمارے کچن میں ایک ڈیکوریٹو شیلف ہے۔ کافی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ اس میں سجانے کے لئے کچھ ڈیکوریشن پیسز لائے جائیں۔ ایک دو بار خریدنے گئی لیکن کچھ خاص پسند نہ آیا۔ ایک ہفتے پہلے آئیڈیا آیا کہ کیوں نا شیشے کی جو بوتلیں خالی ہوتی ہیں ان کو سجا بنا کر اس شیلف کو ڈیکوریٹ کیا جائے۔ اتفاق سے کچھ پرانی خالی بوتلیں اور جارز نکل بھی آئے۔ یوٹیوب اور کچھ بلاگز وغیرہ سے آئیڈیاز دیکھے۔ پھر ان کو پینٹ کیا، کچھ خوبصورت ریپرز وغیرہ چڑھائے اور کچھ بیکار کی بوتلوں کو قابلِ استعمال بنا لیا۔
پرانی اور بیکار چیزوں کو سجا سنوار کر ایک دم نیا بنا لیا تھا تو بے اختیار ہی ایک کہاوت دماغ میں آئی بڈھی گھوڑی لال لگام۔
قسمت خراب کہ
یہاں کیفیت نامے میں ڈال دی۔ کہاوتیں اور محاورے میں پہلے بھی کیفیت ناموں میں ڈالتی رہی ہوں۔ گھر کی مرغی دال برابر، کریلا وہ بھی نیم چڑھا، کھسیانی بلی کھمبا نوچے وغیرہ۔ ان کے پیچھے زیادہ تر کوئی نا کوئی ذاتی واقعہ یا عمل ہوتا ہے۔ کریلا وہ بھی نیم چڑھا کا کیفیت نامہ میں نے ایک بار کریلے خراب پکانے پر ڈالا تھا۔
لاریب مرزا نے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے بتا بھی دیا تھا کہ کیوں لکھا ہے۔
یہ انتہائی فضول قسم کے کیفیت نامے ہوتے ہیں۔ کسی بھی فضول قسم کے واقعے یا بات پر میں اکثر عام زندگی میں بھی ایسے ہی محاوروں اور کہاوتوں کا کمنٹ کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔
کیفیت نامے پر جس طرح کے تبصرے آئے اس پر مجھے بھی غصہ چڑھ گیا کیونکہ بات کسی کو معلوم تھی نہیں کہ میں نے کیوں اور کس لئے کہا ہے۔ غصے میں میرا موڈ نہیں ہوا کہ میں خود سے وضاحت دوں کہ کیوں اور کس لئے یہ بات کہی ہے۔ کسی نے مجھ سے وجہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنی طرف سے ناجانے کیا اس کہاوت کا مطلب لیا گیا اور جس کا دل چاہا وہ کہا۔
جو ہوا سو ہوا لیکن جو مزے کی بات ہے وہ یہ کہ اپنی طرف سے باتیں فرض کر لینا کتنا عام ہے۔ بلا تحقیق کسی کی بھی فضول سی بات کو لے کر اس کی شخصیت پر تبصرے کرنا کتنا آسان ہے۔ اس طرح کے رویوں سے نہ تو اب کوئی دکھ ہوتا ہے اور نہ ہی حیرت ہوتی ہے۔
میں کسی کو جواب دہ تو نہیں تھی کہ میں نے یہ کیوں کیفیت نامہ لکھا تھا۔ لیکن سوچا کہ بتانا چاہئے کہ کیا بات تھی اور کیا اس کو بنا دیا گیا۔ بہت شکریہ!
برائے مہربانی میرے اس مراسلے کو کوٹ کر کے یا اس معاملے پر مجھے مخاطب کر کے کوئی بات نہ کرے۔ میرا واقعی موڈ نہیں ہے اس معاملے پر بات کرنے کا۔