عبدالقیوم چوہدری
محفلین
پاکستان میں کسی بھی سٹوڈنٹ تھیسس (بی ایس، ایم ایس وغیرہ) میں 20 فیصد plagiarismکی اجازت ہوتی ہے۔ HEC کی جانب سے سپروائزرز کو سوفٹ وئیر دیا جاتا ہے جو کسی بھی تھیسس کو چیک کر لیتا ہے اور تھیسس کے آخر میں plagiarism report بھی لگائی جاتی ہے۔کاپی پیسٹ اصل میں plagiarism کی ذیل میں آتا ہے۔ plagiarism سے ہماری انٹرنیت کمیونٹی میں اتنی واقفیت نہیں ہے۔ plagiarism کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی کے کام کو استعمال کر لیں اور اپنا نام لگا کر اسے آگے بڑھا دیں۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ جو کاپی پیسٹ مواد ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے، جس سے پوری پوری ٹوئٹر اور فیس بک کی ٹائم لائنز بھری ہوتی ہیں وہاں کیا ہوتا ہے۔ وہاں کسی کی بھی بات بغیر سیاق و سباق کے شئیر کر دی جاتی ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ اچھی بات کس نے اصل میں کہی۔
ریسرچ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں آپ موضوع سے متعلق کتابوں اور انٹرنیٹ پر سے پڑھ کر اس موضوع کو سمجھتے ہیں اور پھر جو آپ facts سمجھے ہوں وہ تحریر کرتے ہیں۔ آپ اس میں اقتباسات بھی ان کتب اور ویب سائٹس سے شامل کر سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات کہ آپ کسی بھی جگہ سے سیکھی ہوئی بات کو اپنا ظاہر نہیں کرتے بلکہ اس کتاب یا ویب سائٹ کا سورس شئیر کر دیتے ہیں۔ اس طرح آپ کسی کی محنت اور قابلیت کو اپنا بنا کر پیش نہیں کرتے ہیں۔
کوئی بھی کتاب اور ویب سائٹ میں ریسرچ اسی طرح چھاپی جاتی ہے۔ جتنے ریسرچ پیپرز ہوتے ہیں، یا پھر کتب یا ویب سائٹس جن میں ریسرچ کی گئی ہو وہاں آخر میں reference کا ایک سیکشن ہوتا ہے جہاں ہر بات جو کسی کتاب یا کسی اور ریسرچ پیپر سے سیکھی گئی ہو اس کا سورس شئیر کیا گیا ہوتا ہے۔
میں جب گریجوئیشن کر رہی تھی تو جو بھی ہمیں اسئمنٹس ملتے تھے ان میں اگر ہم میں سے کوئی بھی references درج نہیں کرتا تھا تو ہمارا اسائمنٹ قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ سوالات بھی کئے جاتے تھے اور اگر کوئی بہت ہی بنیادی بات کا جواب نہیں دے پاتا تھا جو کہ اس نے اسائمنٹ میں درج کی ہوتی تھی تو اسے صفر نمبر عنایت کئے جاتے تھے کہ کاپی پیسٹ کر کے لے آوَ ہو، سیکھا کچھ بھی نہیں ہے۔
یہی اصل طریقہ ہے علم حاصل کرنے کا اور آگے بڑھانے کا۔ یہ جو ہمارے یہاں فیس بک اور ٹوئٹر پر نام نہاد فلاسفرز بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دوسروں کی کہی ہوئی بات کو بغیر اس شخص کے نام کے جس نے وہ بات کہی ہو آگے بڑھا دیتے ہیں، تو ان سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا علم یہی سکھاتا ہے کہ آپ کسی اور کی چیز کو اپنا کہہ کر ظاہر کریں؟ کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ کسی نے ہو سکتا ہے ناجانے کتنی محنت کی ہو اس علم کو حاصل کرنے کے لئے، ناجانے اس نے کتنی کتابیں پڑھی ہوں اور پھر وہ کوئی اچھی بات کہنے کے قابل ہوا ہو اور آپ اس کی محنت کو ایک منٹ میں اس کا نام ہٹا کر آگے بڑھا دیں؟ لوگ آئیں اور آپ کی تعریف کریں جبکہ آپ اس تعریف کو اصل میں deserve ہی نہیں کرتے ہیں۔ کیا یہ ٹھیک بات ہے جو اصل میں تعریف کا مستحق ہے اسے وہ تعریف اور دعائیں ملیں ہی نہیں؟
اسی لئے کاپی پیسٹ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگر کسی کو سمجھ نہ آئے اور سمجھنا نہ چاہے تو اس کی مرضی۔ میں نے چوری کا لفظ یہاں استعمال نہیں کیا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے لیکن plagiarism کو اصل میں چوری ہی سمجھا جاتا ہے اور اسی لئے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔
البتہ ریسرچ پیپر, ایم فل اور پی ایچ ڈی کا چیک کرنا پڑے گا۔