ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
وہ ہم ہوں ، آپ ہوں یا اور کوئیہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں
سر، کچھ وضاحت ہو جائے، ہمیں تو بحر کی پیچیدگیوں کا کچھ زیادہ علم نہیں۔وہ ہم ہوں ، آپ ہوں یا اور کوئی
اب اِس منزل کو بھی سر کرگئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(شکیل احمد خان)
اجیت سنگھ حؔسرت کی غزل کا محض یہی ایک شعر بحرکی پیچیدگیوں سے بھی دوچار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
سر، کچھ وضاحت ہو جائے، ہمیں تو بحر کی پیچیدگیوں کا کچھ زیادہ علم نہیں۔
اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا بہت مشکل ہے۔ ہمیں حوصلہ دینے والا اپنی کتابوں کے لیے کس قدر دکھی ہوا۔ لیکن الحمد اللہ اب ٹھیک ہے۔ خوش ہے الحمد اللہ۔ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں
کیونکہ ہم نے اپنی اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے خاص طور پر معاملات میں ۔ اور جن قوموں نے ان اقدار کو اپنا لیا وہ آج عروج پر ہیں۔۔۔ہم مسلمان اتنے بُرے کیوں ہو گئے ہیں؟ اس قدر بڑے جرائم بھی ہم لوگ کر رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹیں بھی ہم میں ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا بہت مشکل ہے۔ ہمیں حوصلہ دینے والا اپنی کتابوں کے لیے کس قدر دکھی ہوا۔ لیکن الحمد اللہ اب ٹھیک ہے۔ خوش ہے الحمد اللہ۔
یہ حادثات بھی ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ فائر بریگیڈ کے جانے کے بعد طلبہ کے ساتھ ساتھ کے کچے علاقے کے لوگ بھی لوٹنے آ گئے۔ جسے جہاں سے اندر داخل ہونے کی جگہ ملی، وہ ہاسٹل میں گھس گیا اور جو جو ہاتھ لگا، وہ لے گیا۔
کسی نے نہیں سوچا کہ چوری جرم ہے، گناہ ہے، شریعت کی رو سے سزا بھی ہاتھ سے محرومی ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ سب جو لُوٹ رہے ہیں، کسی نے سالوں میں جمع کیا ہو گا۔ کتنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کے یہ سب لیا ہو گا۔
یہ ہم لوگ کس طرف چل رہے ہیں!!!
علی بھائی !کل ایمی کہتی کہ ہم مسلمان اتنے بُرے کیوں ہو گئے ہیں؟ اس قدر بڑے جرائم بھی ہم لوگ کر رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹیں بھی ہم میں ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
ہماری نوجوان نسل ہم سے سوال کر رہی ہے اور ہم لاجواب ہیں۔
کیونکہ ہم نے اپنی اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے خاص طور پر معاملات میں ۔ ۔۔۔۔
شکیل بھائی!علی بھائی !
جاسمن بہن کی باتوں پر اپنا خیال ،اپنے تاثرات یا یوں کہیں حالات وواقعات کو دیکھ کر پیدا ہونیوالااپنا ذہنی خلفشار اپنے الفاظ میں آپ بھی بیان کریں اور اپنی تحریر کی فارمیٹنگ کے لیے اوپر جسٹی فیکشن کا اختیار بھی بالضرور استعمال کریں تاکہ آپ کا لکھا کم ازکم کتاب کے لکھے کی طرح تو نظر آئے ،کتاب جس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری تحریریں یہ گواہی دے رہی ہیں کہ ہمارارشتہ اور تعلق دن بدن کمزورتر ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔دن بدن۔۔۔کمزور تر۔۔۔
اصل قصور وار تو میں انتظامیہ کو سمجھتا ہوں کہ اتنے برس گزرنے کے باوجود جامعہ کو تفرقہ بازی کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ یہ بچے تو دو چار سال پڑھ کر چلے جاتے ہیں، مگر انتظامیہ وہیں موجود ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کسی پلان کے تحت ہوتا ہے۔ ایچ ای سی کاکیا کردار ہے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا، حکومت کا کیا کردار ہے؟آگ لگانا اور چوری کرنا۔۔۔
لیکن جو زبان کی بنیاد پہ کونسلز بنی ہوئی ہیں اور اسی بنا پہ آپس میں تفرقے ہوتے ہیں، یہ چیز بہت ہی زیادہ تکلیف دہ ہے۔
پہلے پشتونوں نے پنجابیوں کو مارا۔ محمد تو امن کا داعی ہے لیکن مار اسے بھی پڑی۔( کئی پختون اس کے بہت اچھے دوست ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ لڑائی ہوتی ہے تو پھر دوست مارتا تو نہیں ہے لیکن بچاتا بھی نہیں ہے۔ ) پھر پنجابیوں نے پختونوں کو مارا۔ پھر پختونوں نے آگ لگائی۔ آگ محمد کے کمرے کے دروازے تک آئی تھی۔
ہم ایک بار محمد سے ملنے گئے تو اس کے ہم جماعت اور دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ روم میٹ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور نمازوں کی حفاظت کا کہا۔ وہ کہنے لگا کہ آنٹی یہ بھی پنجابی ہے اور میرے علاقے کا ہے تو میں اس کا خیال ضرور رکھوں گا۔ کچھ ایسے ہی الفاظ تھے۔ بڑا افسوس لگا۔ اسے ٹوکا کہ بیٹا! آپ دونوں مسلمان ہو الحمد اللہ اور ایک جسم کی مانند ہو۔ بس اسی بنا پہ ایک دوسرے کا خیال رکھو۔
میری سہیلی نے ایسے بچوں کے لیے اپنے گھر میں سکول کھولا ہے کہ جو آوارہ گردی کرتے ہیں، بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کی زندگی کوئی مقصد نہیں ہے۔
وہ پڑھانے کے ساتھ انہیں کچھ ہنر دینا چاہتی ہے کہ صرف تعلیم سے ان کی زندگی نہیں سنور سکتی۔
آپ کے مشورے درکار ہیں۔
وہ اپنے سینٹر میں ایک بڑا انٹرنیٹ ٹی وی رکھیں اور سوشل میڈیا پر پیغام دیں کہ دنیا بھر سے جو بھی بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے ایک گھنٹے کا کلینڈر ٹائم دے۔ بچوں کو بھی وہ کلینڈر معلوم ہو۔ یوں درد دل رکھنے والے قاری سے لے کر امریکہ برطانیہ کے ڈاکٹر انجینئر اور پاکستان کے دیگر شیروں کے ہنرمند لڑکے لڑکیاں ان بچوں کو آن لائن تعلیم دیں۔میری سہیلی نے ایسے بچوں کے لیے اپنے گھر میں سکول کھولا ہے کہ جو آوارہ گردی کرتے ہیں، بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کی زندگی کوئی مقصد نہیں ہے۔
وہ پڑھانے کے ساتھ انہیں کچھ ہنر دینا چاہتی ہے کہ صرف تعلیم سے ان کی زندگی نہیں سنور سکتی۔
آپ کے مشورے درکار ہیں۔
میں نے بھی تقریباً ایسے ہی سوچا تھا۔کسی بچے کو ہنر مند بنانا دراصل تعلیم دینے کے ہی برابر ہوتا ہے۔ ویسے، بہتر ہے کہ اس طرح کے ہنر ان کو سکھا دیے جائیں: سلائی، کڑھائی،خراب برقی آلات کی درستی، کھانا پکانے کی مہارتیں، کمپیوٹر کی بنیادی تربیت، یعنی ٹائپنگ، ورڈ پروسیسرز کا استعمال، انٹرنیٹ کی بنیادی مہارتیں، چھوٹے کاروبارکی بنیادی نوعیت کی باتیں۔ اس کے علاوہ مصنوعات یا سروسز کی فروخت۔ری سائیکلنگ کی تعلیم، وغیرہ۔ کیا خیال ہے آپ کا؟