امام اعظم ابو حنیفہؒ پر قیاس کا الزام اور اس کی تردید
عبد اللہ بن مبارکؒ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے حج کیا تو ابو جعفر محمد بن علی بن حسینؓ بن علی ابی طالبؓ کی زیارت کی۔ ابو جعفر نے امام صاحبؒ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ"تم وہی ہو جو عقل و قیاس کے ذریعے حدیثوں کی مخالفت کر تے ہو؟" ابو حنیفہ نے فرمایا "اللہ کی پناہ تشریف رکھئیے۔ آپ کی تعظیم ہم پر واجب ہے کیونکہ آپ سادات میں سے ہیں۔" ابو جعفر محمد بیٹھ گئے، امام صاحبؒ نے با ادب عرض کیا "حضرت! آپ سے صرف تین مسئلے دریافت کر رہا ہوں جواب عنایت فرمائیں۔ اول یہ کہ مرد زیادہ کمزور ہے یا عورت؟" فرمایا "عورت۔" امام صاحبؒ نے عرض کیا"مرد اور عورت کے کیا کیا حصے وراثت میں ہوتے ہیں؟" ابو جعفر نے فرمایا"عورت کا حصہ مرد کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے۔" امام ابو حنیفہؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا اور عقل کا استعمال کرتا تو اسکے برعکس کہتا کیونکہ عورت مرد سے کمزور ہے لہٰذا اس کا دو حصہ ہو نا چاہیے تھا۔
دوسرا مسئلہ عرض یہ ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ؟ فرمایا "نماز" تب امام صاحبؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا تو دوسرا حکم دیتا اور کہتا کہ حائضہ عورت نماز کی قضا کرے، روزہ کی نہیں، کیونکہ نماز روزہ سے افضل ہے۔
تیسرا مسئلہ امام صاحب نے دریافت کیا کہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی؟ فرمایا"پیشاب زیادہ نجس ہے۔" اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا کہ اگر میں قیاس سے کہتا تو یہ حکم دیتا کہ پیشاب سے غسل واجب ہے، منی سے نہیں کیونکہ پیشاب زیادہ نجس ہے۔
اللہ کی پناہ کہ میں حدیث کے خلاف کوئی بات کہوں میں تو حدیث کے چاروں طرف پھرتا ہوں۔ یہ سن کر ابو جعفر محمد کھڑے ہو گئے اور ابو حنیفہ کا منہ چوم لیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام (متوفی ۱۴۸ھ)فقہ تشیع کے مروج، ابو حنیفہ (متوفیٰ ۱۵۰ھ)اور مالک بن انس (متوفیٰ ۱۷۹ھ)کے استادہیں اس طرح سے آپ سنی مذہب کے دو معروف مسلک ،حنفی ومالکی کے اماموں کے استاد رہے اسی لئے ابو حنیفہ کا یہ کہنا تھا ”لولا السنتان لھلک النعمان“اگر وہ دو سال (جو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلا م کی خدمت میں گزارے ہیں)نہ ہوتے تو نعمان (ابو حنیفہ )ہلاک ہو جاتا۔اسی طرح مالک بن انس کا کہنا ہے ”مارایت افقہ من جعفر بن محمد “میں نے جعفر بن محمد(امام صادق علیہ السلام ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ، (فی سبیل الوحدة الاسلامیة ص۶۳و۶۴)
ابن ابی لیلیٰ سے منقول ہے کہ مفتی وقت ابوحنیفہ اور میں بزم علم حکمت صادق آل محمد ، حضرت امام جعفر صادق۔ میں وارد ہوئے ۔
امام نے ابو حنیفہ سے سوال کیا تم کون ہو ؟
میں :ابو حنیفہ
امام: وہی مفتیِ اہلِ عراق ؟
ابو حنیفہ : جی ہاں
امام: لوگوں کوکس چیز سے فتویٰ دیتے ہو؟
ابو حنیفہ : قرآن سے
امام : کیا پورے قرآ ن نا سخ اور منسوخ سے لیکر محکم اور متشابہ تک کا علم ہے تمہارے پاس؟
ابوحنیفہ: جی ہاں
امام : قرآن میں سورۂ سبا کی ۱۸وی آیت وَجَعَلنَا بَینَہُم وَبَینَ القُرَی الَّتِی بَارَکنَا فِیہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَقَدَّرنَا فِیہَا السَّیرَ سِیرُوا فِیہَا لَیَالِی وَأَیَّامًا آمِنِینَ
ان میں بغیر کسی خوف کے رفت و آمد کرو ۔
اس آیت میں خدا وند عالم کی مراد کونسی جگہ ہے ؟
ابو حنیفہ : اس آیت میں مکّہ اور مدینہ مراد ہے
امام : ( امام نے یہ جواب سن کر اہل مجلس کو مخاطب کر کے کہا ) کیا ایسا ہوا ہے کہ مکّہ اور مدینہ کے درمیا ن میں تم نے سیر کی ہو اور اپنے جان اور مال کا کویی خوف نہ رہا ہو؟
اہل مجلس : با خدا ایسا تو نہیں ہے ۔
امام : افسوس ای ابو حنیفہ خدا حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ذرا یہ بتاؤ کہ خدا وند عالم سورۂ آلِ عمران کی ۹۷وی آیت میں کس جگہ کا ذکر کر رہا ہے : ومن دخلہ کان آمنا۔
ابو حنیفہ : خدا اس آیت میں بیت اللہ الحرام کا ذکر کر رہا ہے ۔
امام نے اہل مجلس کی طرف رخ کر کے کہا کیا عبد اللہ ابن زبیر اور سعید ابن جبیر بیت اللہ میں قتل ہونے سے بچ گیے ؟
اہل مجلس : آپ صحیح فرماتے ہیں ۔
امام : افسوس ہے تجھ پر اے ابو حنیفہ خدا حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔
ابو حنیفہ : میں قرآن کا نہیں قیاس کا عالم ہوں ۔
امام : اپنے قیاس کے ذریعہ سے یہ بتا کہ اللہ کے نزدیک قتل بڑ ا گناہ ہے یا زنا ۔
ابو حنیفہ : قتل
امام :پھر کیوں خدا نے قتل میں دوگوا ہوں کی شرط رکھی لیکن زنا میں چار گوا ہوں کی شرط رکھی۔
امام : اچھا نماز افضل ہے یا روزہ ۔
ابو حنیفہ: نماز
امام: یعنی تمہارے قیاس کے مطابق حایضہ پر وہ نمازیں جو اس نے ایامِ حیض میں نہیں پڑ ھی واجب ہیں نہ روزہ ، جبکہ خدا نے روزہ کی قضا واجب کی ہے نہ نماز کی ۔
امام : اے ابو حنیفہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی ؟
ابو حنیفہ : پیشاب۔
امام : تمہارے قیاس کے مطابق پیشاب پر غسل واجب ہے نہ منی پر ، جبکہ خدا نے منی پر غسل واجب کیا ہے نہ پیشاب پر ۔
ابو حنیفہ : میں صاحبِ رای ہوں ۔
امام: اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہاری نظر ا سکے بارے میں کیا ہے ، آقا اور غلام دونوں ایک ہی دن شادی کرتے ہیں اور اسی شب میں اپنی اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستر ہوتے ہیں ، ا سکے بعد دونوں سفر پر چلے جاتے ہیں اور اپنی بیویوں کو گھر پر چھوڑ دیتے ہیں ایک مدّت کے بعد دونوں کے یہاں ایک ایک بیٹاپیدا ہوتا ہے ایک دن دونوں سو تی ہیں ، گھرکی چھت گر جاتی ہے اور دونوں عورتیں مر جاتی ہیں ، تمہاری رأی کے مطابق دونوں لڑ کوں میں سے کون غلام ہے کون آقا کون وارث ہے کون مورث ؟
ابو حنیفہ : میں صرف حدود کے مسائل میں باہر ہوں ۔
امام : اس انسان پر کیسے حد جاری کرو گے جو اندھا ہے اور اس نے ایک ایسے انسان کی آنکھ پھوڑ ی ہے جسکی آنکھ صحیح تھی اور وہ انسان جسکے ہاتھ نہیں ہیں اور اسنے ایک دوسرے فرد کا ہا تھ کاٹ دیا ہے
ابو حنیفہ : میں صرف بعثتِ انبیا ء کے بارے میں جانتا ہوں
امام: اچھا ذرا دیکھیں یہ بتاؤ کہ خدا نے موسیٰ اور ہارون کو خطاب کر کے کہا کہ فرعون کے پاس جاؤ شاید وہ تمہاری بات کو قبول کر لے یا ڈر جاے ٔ: (فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی.طہ ۴۴ )یہ لعلّ تمہاری نظر میں شک کے معنیٰ میں ہے ؟
ابو حنیفہ : ہاں
امام : خدا کو شک تھا جو کہا شاید ؟
ابو حنیفہ : مجھے نہیں معلوم
امام : تمہارا گمان ہے کہ میں کتاب خدا کے ذریعہ فتویٰ دیتا ہوں جبکہ تم ا سکے اہل نہیں ہو ، تمہارا گمان ہے کہ تم صاحبِ قیاس ہو جبکہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا اور دینِ اسلام قیاس کی بنیاد پر بنا ہوا نہیں ، تمہارا گمان ہے کہ تم صاحب رأی ہو جبکہ دین اسلام میں رسول خدا کے علاوہ کسی کی رأ ی درست نہیں ہے اس لیے کہ خدا وندِ عالم فرماتا ہے :
فاحکم بینہم بما انزل اللہ۔.
تو سمجھتا ہے کہ حدود میں وارد ہے جس پر قران نازل ہوا ہے تجھ سے زیادہ حدود میں علم رکھتا ہو گا تو سمجھتا ہے کہ بعثتِ انبیا ء کا عالم ہے خود خاتمِ انبیاء، انبیائ کے بارے میں زیاد ہ واقف تھے اور میرے بارے میں تونے خود کہا فرزندرسول اور کوئی سوال نہیں کیا ، اب میں تجھ سے کچھ نہیں پوچھونگا اگر صاحبِ قیاس ہے تو قیاس کر۔
ابو حنیفہ : یہاں کے بعد اب کبھی قیاس نہیں کرونگا ۔
امام: ریاست کی محبّت کبھی تمکو اس کام کو ترک نہیں کرنے دیگی جسطرح تم سے پہلے والوں کو حبّ ریاست نے نہیں چھوڑ ا۔
(احتجاج طبرسی ج۲ ص۲۷۰تا ۲۷۴)