روزوں کے متعلق چند اہم سوالات کے جوابات

زیک

مسافر
نایاب بھائی نے صحیح کہا کہ اسرائیلیات میں " ملک الموت کو " جناب عزرائیل علیہ السلام " کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے ۔
اور جب اسلرائیلیات اسلام سے نہ ٹکرا نہ رہی ہوں تو ان تردید نہیں کر سکتے۔ شاید اسی لئے امت کے اکثر علماء اس نام کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اکثر مفسرین نے بھی انکا یہ نام ذکر کیا ہے۔
عزرائیل اصل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے عبداللہ۔


یم دوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتہ مرگ ۔۔۔ قابض ارواح ۔۔۔ پیامی اجل

عزر : مدد
ایل: خدا
عزرائیل: خدا کا مددگار
 

حسیب

محفلین
مجھے لگتا ہے کہ ایک سازش کے تحت عوام الناس کو علما سے متنفر کیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے۔کہ ہربندہ عالم بن جائے ، ہر بندہ عالم تو بن نہیں سکتا ہاں نیم ملا ضرور بن جائے گا اور ٹامک ٹوئیاں مارے گا اور گمراہی کا اندیشہ زیادہ ہے
ابتدائے اسلام سے ہی کچھ مسلم افراد علما ہوتے تھے اور باقی عامی مسلم ان سے مسائل اور معاملات کے متعلق راہنمائی لیتے تھے
ہر بندے کو عالم بننے کا کوئی نہیں کہتا۔ یہاں مراد بنیادی مسائل کی ہے
یہاں ڈرائیور کی مثال لے لیں۔ عموما پروفیشنل ڈرائیور گاڑی کے بنیادی مسائل کے بارے میں جانتے ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مکمل مکینک بن چکے ہوتے ہیں یا انہیں مکینک کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی
آپ کبھی اپنے معاشرے میں لوگوں سے اسلام کے بارے میں معلومات لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس بارے میں کتنی جہالت ہے
 
ہر بندے کو عالم بننے کا کوئی نہیں کہتا۔ یہاں مراد بنیادی مسائل کی ہے
یہاں ڈرائیور کی مثال لے لیں۔ عموما پروفیشنل ڈرائیور گاڑی کے بنیادی مسائل کے بارے میں جانتے ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مکمل مکینک بن چکے ہوتے ہیں یا انہیں مکینک کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی
آپ کبھی اپنے معاشرے میں لوگوں سے اسلام کے بارے میں معلومات لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس بارے میں کتنی جہالت ہے
(جی اس مثال کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ گیٗر بکس میں کچھ خرابی پید ا ہوگئی ہے فرض کریں یہاں تک تو ڈرائیور کو معلوم ہوگیا ہے ، اب کیا خرابی ہے ؟ کتنی قسم کی خرابیاں ہوتی ہیں ؟
اب یوں کہا جائے کہ خرابی کی تفصیل میں جانے کی ضرورت بالکل بھی ںہیں ہے!!! بس یہ اصل بات ہے کہ یہ یاں تو کام کرتا ہے یا ں کام نہیں کرتا،

کسی علم یا فن کی تفاصیل یا بنیادی علم کو بیان کرنے کا حق ہم اس کے ماہرین کو دینے تو تیار نہیں ہیں ، تو ہم ( اصولی طور پر) صحت کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں کرتے، کہ خود ہی ماہر ڈاکٹر بن جائیں
جہاں تک اسلامی بنیادی مسائل یا معلومات کا تعلق ہے ، ہمارے معاشرے میں ان معلومات کے حصول کیا ذریعہ ہے، ظاہر ہے اسلامی علماٗ
اب عالم ایک بات کو بیان کرتا ہے تو ایک عامی مسلم اس کو رد کرتے ہوئے کہے کہ ان کا تفصیل بیان کرنا، معاملے کو پچیدہ بنانا ہے ،
تو اس عالم کی بات کا اعتبار نہیں ہے، تو پھر ظاہر ہے پروفیشنل ڈرائیور یا عام ڈرائیور، مکینک کی بات کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنی رائے کو فوقیت دے گا اور بیڑا غرق کرنے کا بہت امکان رہے گا۔

عوام الناس کی بنیادی روزمرہ مسائل سے عدم واقفیت تو بالکل ظاہر ہے، اس کو وجوہات میں ایک بڑی وجہ، عام افراد یا مخصوص گروہوں کا ،علماٗ کے بیان کردہ مسائل میں نکتہ چینی کر کے ان کو دانستہ یا غیر دانستہ طور ہر ان کو ناقابل اعتبار قرار دینا ہے اور صرف اپنے فہم پر بھروسہ کرکے کسی نتیجہ پر پہنچنا ہے
جب علماٗ ناقابل اعتبار ٹھہرے تو عام افراد کہاں جائیں گے، اور کیا علم حاصل کریں گے۔ اب لوگ کہیں کہ چھوڑیں جی یہ مولویوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں، کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ،

بے شک نام نہاد علما سو بھی موجود ہیں اور احتیاط کی ضرورت ہے کہ اصل علماٗ کی پہچان کی جائے اور ان کے بیان کردہ معاملات کو اختیار کیا جائے
جب ہمیں پتہ ہے کہ شہر میں کونسا ڈٓاکٹر سب سے اچھا ہے ، بہترین کپڑا کہاں سے ملتا ہے تو ہمیں یہ ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ علما حق کونسے ہیں۔
 

موجو

لائبریرین
مفتی منیب صاحب فرقہ باز قسم کے آدمی نہیں ہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ لے کر چلنے والے ہیں وہ حنفی اور بریلوی مسلک سے ہیں تو ظاہر ہے وہ اپنی رائے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہی بیان کریں گے اصل میں مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اصل میں تو میری رائے حق اور دوسرے کی باطل اور اسے میری رائے ہی اختیار کرنی چاہیے ورنہ وہ گمراہ ہے۔
زیک
کیا آنکھ میں دوا ڈالنے سے معدے تک نہیں پہنچتی؟
 
نایاب بھائی نے صحیح کہا کہ اسرائیلیات میں " ملک الموت کو " جناب عزرائیل علیہ السلام " کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے ۔
اور جب اسلرائیلیات اسلام سے نہ ٹکرا نہ رہی ہوں تو ان تردید نہیں کر سکتے۔ شاید اسی لئے امت کے اکثر علماء اس نام کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اکثر مفسرین نے بھی انکا یہ نام ذکر کیا ہے۔
عزرائیل اصل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے عبداللہ۔

عزر : مدد
ایل: خدا
عزرائیل: خدا کا مددگار

اسرائیل کے معنی عبداللہ
 

قیصرانی

لائبریرین
(جی اس مثال کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ گیٗر بکس میں کچھ خرابی پید ا ہوگئی ہے فرض کریں یہاں تک تو ڈرائیور کو معلوم ہوگیا ہے ، اب کیا خرابی ہے ؟ کتنی قسم کی خرابیاں ہوتی ہیں ؟
اب یوں کہا جائے کہ خرابی کی تفصیل میں جانے کی ضرورت بالکل بھی ںہیں ہے!!! بس یہ اصل بات ہے کہ یہ یاں تو کام کرتا ہے یا ں کام نہیں کرتا،

کسی علم یا فن کی تفاصیل یا بنیادی علم کو بیان کرنے کا حق ہم اس کے ماہرین کو دینے تو تیار نہیں ہیں ، تو ہم ( اصولی طور پر) صحت کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں کرتے، کہ خود ہی ماہر ڈاکٹر بن جائیں
جہاں تک اسلامی بنیادی مسائل یا معلومات کا تعلق ہے ، ہمارے معاشرے میں ان معلومات کے حصول کیا ذریعہ ہے، ظاہر ہے اسلامی علماٗ
اب عالم ایک بات کو بیان کرتا ہے تو ایک عامی مسلم اس کو رد کرتے ہوئے کہے کہ ان کا تفصیل بیان کرنا، معاملے کو پچیدہ بنانا ہے ،
تو اس عالم کی بات کا اعتبار نہیں ہے، تو پھر ظاہر ہے پروفیشنل ڈرائیور یا عام ڈرائیور، مکینک کی بات کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنی رائے کو فوقیت دے گا اور بیڑا غرق کرنے کا بہت امکان رہے گا۔

عوام الناس کی بنیادی روزمرہ مسائل سے عدم واقفیت تو بالکل ظاہر ہے، اس کو وجوہات میں ایک بڑی وجہ، عام افراد یا مخصوص گروہوں کا ،علماٗ کے بیان کردہ مسائل میں نکتہ چینی کر کے ان کو دانستہ یا غیر دانستہ طور ہر ان کو ناقابل اعتبار قرار دینا ہے اور صرف اپنے فہم پر بھروسہ کرکے کسی نتیجہ پر پہنچنا ہے
جب علماٗ ناقابل اعتبار ٹھہرے تو عام افراد کہاں جائیں گے، اور کیا علم حاصل کریں گے۔ اب لوگ کہیں کہ چھوڑیں جی یہ مولویوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں، کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ،

بے شک نام نہاد علما سو بھی موجود ہیں اور احتیاط کی ضرورت ہے کہ اصل علماٗ کی پہچان کی جائے اور ان کے بیان کردہ معاملات کو اختیار کیا جائے
جب ہمیں پتہ ہے کہ شہر میں کونسا ڈٓاکٹر سب سے اچھا ہے ، بہترین کپڑا کہاں سے ملتا ہے تو ہمیں یہ ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ علما حق کونسے ہیں۔
یعنی دیگر الفاظ میں اگر ہم کسی پیشے کے ماہر سے مشورہ لیتے ہیں تو اس کی غلطی پر گرفت کرنا بھی ہمارا حق ہوگا۔ کیا علمائے دین کی غلطی گرفت کی جا سکتی ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
آنکھ کی دوائی معدے میں نہیں جاتی البتہ خون میں جاتی ہے
مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اگر ایک شخص مریض ہے، اگر وہ آنکھ میں دوائی ڈالے گا بھی اور اگر وہ معدے میں چلی بھی جائے تو اس میں کتنی طاقت چھپی ہوگی جو روزے کو ساقط کر دے؟ اس حساب سے تو اگر پاس بیٹھا کوئی بندہ سگریٹ پئے تو اس کا دھواں بھی ہمارا روزہ فسخ کرنے کے لئے کافی ہوگا اور یہی اصول تیز چلتی موٹر سائیکل کی سواری میں سانس کے ذریعے جانے والے دھول کا بھی ہوگا؟
 
عزر : مدد
ایل: خدا
عزرائیل: خدا کا مددگار
In Jewish mysticism, he is commonly referred to as "Azriel," not "Azrael." The Zohar (a holy book of the Jewish mystical tradition of Kabbalah), presents a positive depiction of Azriel. The Zohar says that Azriel receives the prayers of faithful people when they reach heaven, and also commands legions of heavenly angels. Accordingly, Azriel is associated with the South and is considered to be a high-ranking commander of God's angels. (Zohar 2:202b)​
 
یعنی دیگر الفاظ میں اگر ہم کسی پیشے کے ماہر سے مشورہ لیتے ہیں تو اس کی غلطی پر گرفت کرنا بھی ہمارا حق ہوگا۔ کیا علمائے دین کی غلطی گرفت کی جا سکتی ہے؟
اس بارے میں اہم بات تو تعین کرنا ہے کہ غلطی ہوئی ہے
اگر کسی طریق یہ اطمینان ہو کہ غلطی ہوئی ہے تو گرفت کرنا اور حق کو ( حکمت کے ساتھ) واضح کرنا لازم ہوگا
اب جھوٹ بولنا اس قدر قبیح عمل ہے کہ اس کے کرنے والے کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور مزید وعید آئی ہے ، لیکن کچھ صورتوں میں یہ جائز اور کارثواب ہے
اب اگر ایک بندے کو یہ معلوم نہ ہو کہ کن صورتوں میں یہ جائز اور کارثواب ہے تو اس صورت میں بھی اس کو گناہ گردانے گا اور غلطی قرار دے گا
تو قصور اس کے ناقص علم کا ہے
بعض اوقات ناقص علم یا ناقص عقل۔۔۔۔۔۔۔ یا۔۔۔۔۔۔۔ دونوں ناقص ہوں تو گمراہی کا موجب ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
اس بارے میں اہم بات تو تعین کرنا ہے کہ غلطی ہوئی ہے
اگر کسی طریق یہ اطمینان ہو کہ غلطی ہوئی ہے تو گرفت کرنا اور حق کو ( حکمت کے ساتھ) واضح کرنا لازم ہوگا
اب جھوٹ بولنا اس قدر قبیح عمل ہے کہ اس کے کرنے والے کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور مزید وعید آئی ہے ، لیکن کچھ صورتوں میں یہ جائز اور کارثواب ہے
اب اگر ایک بندے کو یہ معلوم نہ ہو کہ کن صورتوں میں یہ جائز اور کارثواب ہے تو اس صورت میں بھی اس کو گناہ گردانے گا اور غلطی قرار دے گا
تو قصور اس کے ناقص علم کا ہے
بعض اوقات ناقص علم یا ناقص عقل۔۔۔۔۔۔۔ یا۔۔۔۔۔۔۔ دونوں ناقص ہوں تو گمراہی کا موجب ہیں
ایسے عالم جن کے قول و فعل میں واضح تضاد ہو، ان کی بات ماننی چاہئے یا نہیں؟ بالخصوص جب وہ خود کو ایک خاص فقہ سے تعلق ظاہر کر کے علم بیان کریں جو محض ان کے فقہ کی حد تک درست ہو لیکن پورے عالم اسلام کے لئے قابلِ قبول نہ ہو؟ واضح رہے کہ میں فقہی معلومات نہیں بلکہ بنیادی اسلامی معلومات کی بات کر رہا ہوں :)
 

دلاور خان

لائبریرین
مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اگر ایک شخص مریض ہے، اگر وہ آنکھ میں دوائی ڈالے گا بھی اور اگر وہ معدے میں چلی بھی جائے تو اس میں کتنی طاقت چھپی ہوگی جو روزے کو ساقط کر دے؟ اس حساب سے تو اگر پاس بیٹھا کوئی بندہ سگریٹ پئے تو اس کا دھواں بھی ہمارا روزہ فسخ کرنے کے لئے کافی ہوگا اور یہی اصول تیز چلتی موٹر سائیکل کی سواری میں سانس کے ذریعے جانے والے دھول کا بھی ہوگا؟
دین نام اپنی عقل سمجھ کا نہیں ہے کہ ایسا ہوتا ہے تو ایسا کیوں نہیں۔
بلکہ دین وہ ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہمیں ملا۔ اور اس میں جو چیز ہے اور ثابت ہے کہ یہ ہے تو اس پر عمل کرنا ہی ایک مسلمان کا کام ہے کیونکہ ہماری عقلوں میں غلطی ہوسکتی ہے۔
وہ غلط سوچ سکتی ہے لیکن دین کے کسی احکام غلطی نہیں ہوسکتی۔

اور دین کے کسی بھی احکام کا مذاق بنانا یا اس پر اپنی عقل لڑا کر بحث کرنا کہ معلومات نہ ہوں بس اپنی عقل کی بنیاد پر ہم بحث شروع کردیں۔ تو یہ چیز مناسب نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دین نام اپنی عقل سمجھ کا نہیں ہے کہ ایسا ہوتا ہے تو ایسا کیوں نہیں۔
بلکہ دین وہ ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہمیں ملا۔ اور اس میں جو چیز ہے اور ثابت ہے کہ یہ ہے تو اس پر عمل کرنا ہی ایک مسلمان کا کام ہے کیونکہ ہماری عقلوں میں غلطی ہوسکتی ہے۔
وہ غلط سوچ سکتی ہے لیکن دین کے کسی احکام غلطی نہیں ہوسکتی۔

اور دین کے کسی بھی احکام کا مذاق بنانا یا اس پر اپنی عقل لڑا کر بحث کرنا کہ معلومات نہ ہوں بس اپنی عقل کی بنیاد پر ہم بحث شروع کردیں۔ تو یہ چیز مناسب نہیں۔
آپ ثابت کر دیں کہ قرآن و حدیث کے مطابق بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا فرض ہے؟ آنکھ میں یا کان میں دوائی تبھی ڈالی جائے گی نا، جب کوئی بیماری یا تکلیف ہو۔۔۔
 
آپ ثابت کر دیں کہ قرآن و حدیث کے مطابق بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا فرض ہے؟ آنکھ میں یا کان میں دوائی تبھی ڈالی جائے گی نا، جب کوئی بیماری یا تکلیف ہو۔۔۔
سارا مسئلہ ایسے ہی حل ہوجاتا ہے۔ جسے دوا کی ضرورت ہے وہ روزہ نا رکھے دوا استعمال کرے اور صحت مند ہوکر روزے کی قضا کر لے۔ کسی عالم دین کو یا شریعت کو کسی مسلمان کا روزہ توڑنے کا شوق نہیں ہوتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سارا مسئلہ ایسے ہی حل ہوجاتا ہے۔ جسے دوا کی ضرورت ہے وہ روزہ نا رکھے دوا استعمال کرے اور صحت مند ہوکر روزے کی قضا کر لے۔ کسی عالم دین کو یا شریعت کو کسی مسلمان کا روزہ توڑنے کا شوق نہیں ہوتا۔
یہی تو سارا پوائنٹ ہے کہ عالمِ دین کو اتنا بنیادی سا مسئلہ نہیں دکھائی دے رہا کہ بیمار کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے کیا روزہ فسخ ہو جائے گایا نہیں :(
 
یہی تو سارا پوائنٹ ہے کہ عالمِ دین کو اتنا بنیادی سا مسئلہ نہیں دکھائی دے رہا کہ بیمار کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے کیا روزہ فسخ ہو جائے گایا نہیں :(
ایسی بات نہیں علماء بتاتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتاہے۔ لیکن اگر کسی نے روزہ رکھا اور دوا استعمال کرنا پڑی تو آنکھ میں ڈالنے سے ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اس طرح مجبوری میں ٹوٹا ہوا روزہ بھی ایسے ہی ہے جب مجبوری میں کھانا کھا کر روزہ توڑا جائے۔ بعد میں ایسے روزے کی قضا رکھی جاسکتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ایسی بات نہیں علماء بتاتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتاہے۔ لیکن اگر کسی نے روزہ رکھا اور دوا استعمال کرنا پڑی تو آنکھ میں ڈالنے سے ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اس طرح مجبوری میں ٹوٹا ہوا روزہ بھی ایسے ہی ہے جب مجبوری میں کھانا کھا کر روزہ توڑا جائے۔ بعد میں ایسے روزے کی قضا رکھی جاسکتی ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی حالت میں جب روزے کی رخصت موجود ہے، روزہ رکھنا مستحسن بات نہیں۔ خیر، میری رائے میری ہی رائے ہے :)
 
میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی حالت میں جب روزے کی رخصت موجود ہے، روزہ رکھنا مستحسن بات نہیں۔ خیر، میری رائے میری ہی رائے ہے :)
ظاہر ہے جب پتا جو ہے کہ دواء استعمال کرنی پڑے گی تو روزہ رکھ کر توڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
 

صرف علی

محفلین
امام اعظم ابو حنیفہؒ پر قیاس کا الزام اور اس کی تردید
عبد اللہ بن مبارکؒ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے حج کیا تو ابو جعفر محمد بن علی بن حسینؓ بن علی ابی طالبؓ کی زیارت کی۔ ابو جعفر نے امام صاحبؒ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ"تم وہی ہو جو عقل و قیاس کے ذریعے حدیثوں کی مخالفت کر تے ہو؟" ابو حنیفہ نے فرمایا "اللہ کی پناہ تشریف رکھئیے۔ آپ کی تعظیم ہم پر واجب ہے کیونکہ آپ سادات میں سے ہیں۔" ابو جعفر محمد بیٹھ گئے، امام صاحبؒ نے با ادب عرض کیا "حضرت! آپ سے صرف تین مسئلے دریافت کر رہا ہوں جواب عنایت فرمائیں۔ اول یہ کہ مرد زیادہ کمزور ہے یا عورت؟" فرمایا "عورت۔" امام صاحبؒ نے عرض کیا"مرد اور عورت کے کیا کیا حصے وراثت میں ہوتے ہیں؟" ابو جعفر نے فرمایا"عورت کا حصہ مرد کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے۔" امام ابو حنیفہؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا اور عقل کا استعمال کرتا تو اسکے برعکس کہتا کیونکہ عورت مرد سے کمزور ہے لہٰذا اس کا دو حصہ ہو نا چاہیے تھا۔
دوسرا مسئلہ عرض یہ ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ؟ فرمایا "نماز" تب امام صاحبؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا تو دوسرا حکم دیتا اور کہتا کہ حائضہ عورت نماز کی قضا کرے، روزہ کی نہیں، کیونکہ نماز روزہ سے افضل ہے۔
تیسرا مسئلہ امام صاحب نے دریافت کیا کہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی؟ فرمایا"پیشاب زیادہ نجس ہے۔" اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا کہ اگر میں قیاس سے کہتا تو یہ حکم دیتا کہ پیشاب سے غسل واجب ہے، منی سے نہیں کیونکہ پیشاب زیادہ نجس ہے۔
اللہ کی پناہ کہ میں حدیث کے خلاف کوئی بات کہوں میں تو حدیث کے چاروں طرف پھرتا ہوں۔ یہ سن کر ابو جعفر محمد کھڑے ہو گئے اور ابو حنیفہ کا منہ چوم لیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام (متوفی ۱۴۸ھ)فقہ تشیع کے مروج، ابو حنیفہ (متوفیٰ ۱۵۰ھ)اور مالک بن انس (متوفیٰ ۱۷۹ھ)کے استادہیں اس طرح سے آپ سنی مذہب کے دو معروف مسلک ،حنفی ومالکی کے اماموں کے استاد رہے اسی لئے ابو حنیفہ کا یہ کہنا تھا ”لولا السنتان لھلک النعمان“اگر وہ دو سال (جو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلا م کی خدمت میں گزارے ہیں)نہ ہوتے تو نعمان (ابو حنیفہ )ہلاک ہو جاتا۔اسی طرح مالک بن انس کا کہنا ہے ”مارایت افقہ من جعفر بن محمد “میں نے جعفر بن محمد(امام صادق علیہ السلام ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ، (فی سبیل الوحدة الاسلامیة ص۶۳و۶۴)

ابن ابی لیلیٰ سے منقول ہے کہ مفتی وقت ابوحنیفہ اور میں بزم علم حکمت صادق آل محمد ، حضرت امام جعفر صادق۔ میں وارد ہوئے ۔

امام نے ابو حنیفہ سے سوال کیا تم کون ہو ؟

میں :ابو حنیفہ

امام: وہی مفتیِ اہلِ عراق ؟

ابو حنیفہ : جی ہاں

امام: لوگوں کوکس چیز سے فتویٰ دیتے ہو؟

ابو حنیفہ : قرآن سے

امام : کیا پورے قرآ ن نا سخ اور منسوخ سے لیکر محکم اور متشابہ تک کا علم ہے تمہارے پاس؟

ابوحنیفہ: جی ہاں

امام : قرآن میں سورۂ سبا کی ۱۸وی آیت وَجَعَلنَا بَینَہُم وَبَینَ القُرَی الَّتِی بَارَکنَا فِیہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَقَدَّرنَا فِیہَا السَّیرَ سِیرُوا فِیہَا لَیَالِی وَأَیَّامًا آمِنِینَ

ان میں بغیر کسی خوف کے رفت و آمد کرو ۔

اس آیت میں خدا وند عالم کی مراد کونسی جگہ ہے ؟

ابو حنیفہ : اس آیت میں مکّہ اور مدینہ مراد ہے

امام : ( امام نے یہ جواب سن کر اہل مجلس کو مخاطب کر کے کہا ) کیا ایسا ہوا ہے کہ مکّہ اور مدینہ کے درمیا ن میں تم نے سیر کی ہو اور اپنے جان اور مال کا کویی خوف نہ رہا ہو؟

اہل مجلس : با خدا ایسا تو نہیں ہے ۔

امام : افسوس ای ابو حنیفہ خدا حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ذرا یہ بتاؤ کہ خدا وند عالم سورۂ آلِ عمران کی ۹۷وی آیت میں کس جگہ کا ذکر کر رہا ہے : ومن دخلہ کان آمنا۔

ابو حنیفہ : خدا اس آیت میں بیت اللہ الحرام کا ذکر کر رہا ہے ۔

امام نے اہل مجلس کی طرف رخ کر کے کہا کیا عبد اللہ ابن زبیر اور سعید ابن جبیر بیت اللہ میں قتل ہونے سے بچ گیے ؟

اہل مجلس : آپ صحیح فرماتے ہیں ۔

امام : افسوس ہے تجھ پر اے ابو حنیفہ خدا حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔

ابو حنیفہ : میں قرآن کا نہیں قیاس کا عالم ہوں ۔

امام : اپنے قیاس کے ذریعہ سے یہ بتا کہ اللہ کے نزدیک قتل بڑ ا گناہ ہے یا زنا ۔

ابو حنیفہ : قتل

امام :پھر کیوں خدا نے قتل میں دوگوا ہوں کی شرط رکھی لیکن زنا میں چار گوا ہوں کی شرط رکھی۔

امام : اچھا نماز افضل ہے یا روزہ ۔

ابو حنیفہ: نماز

امام: یعنی تمہارے قیاس کے مطابق حایضہ پر وہ نمازیں جو اس نے ایامِ حیض میں نہیں پڑ ھی واجب ہیں نہ روزہ ، جبکہ خدا نے روزہ کی قضا واجب کی ہے نہ نماز کی ۔

امام : اے ابو حنیفہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی ؟

ابو حنیفہ : پیشاب۔

امام : تمہارے قیاس کے مطابق پیشاب پر غسل واجب ہے نہ منی پر ، جبکہ خدا نے منی پر غسل واجب کیا ہے نہ پیشاب پر ۔

ابو حنیفہ : میں صاحبِ رای ہوں ۔

امام: اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہاری نظر ا سکے بارے میں کیا ہے ، آقا اور غلام دونوں ایک ہی دن شادی کرتے ہیں اور اسی شب میں اپنی اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستر ہوتے ہیں ، ا سکے بعد دونوں سفر پر چلے جاتے ہیں اور اپنی بیویوں کو گھر پر چھوڑ دیتے ہیں ایک مدّت کے بعد دونوں کے یہاں ایک ایک بیٹاپیدا ہوتا ہے ایک دن دونوں سو تی ہیں ، گھرکی چھت گر جاتی ہے اور دونوں عورتیں مر جاتی ہیں ، تمہاری رأی کے مطابق دونوں لڑ کوں میں سے کون غلام ہے کون آقا کون وارث ہے کون مورث ؟

ابو حنیفہ : میں صرف حدود کے مسائل میں باہر ہوں ۔

امام : اس انسان پر کیسے حد جاری کرو گے جو اندھا ہے اور اس نے ایک ایسے انسان کی آنکھ پھوڑ ی ہے جسکی آنکھ صحیح تھی اور وہ انسان جسکے ہاتھ نہیں ہیں اور اسنے ایک دوسرے فرد کا ہا تھ کاٹ دیا ہے

ابو حنیفہ : میں صرف بعثتِ انبیا ء کے بارے میں جانتا ہوں

امام: اچھا ذرا دیکھیں یہ بتاؤ کہ خدا نے موسیٰ اور ہارون کو خطاب کر کے کہا کہ فرعون کے پاس جاؤ شاید وہ تمہاری بات کو قبول کر لے یا ڈر جاے ٔ: (فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی.طہ ۴۴ )یہ لعلّ تمہاری نظر میں شک کے معنیٰ میں ہے ؟

ابو حنیفہ : ہاں

امام : خدا کو شک تھا جو کہا شاید ؟

ابو حنیفہ : مجھے نہیں معلوم

امام : تمہارا گمان ہے کہ میں کتاب خدا کے ذریعہ فتویٰ دیتا ہوں جبکہ تم ا سکے اہل نہیں ہو ، تمہارا گمان ہے کہ تم صاحبِ قیاس ہو جبکہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا اور دینِ اسلام قیاس کی بنیاد پر بنا ہوا نہیں ، تمہارا گمان ہے کہ تم صاحب رأی ہو جبکہ دین اسلام میں رسول خدا کے علاوہ کسی کی رأ ی درست نہیں ہے اس لیے کہ خدا وندِ عالم فرماتا ہے :

فاحکم بینہم بما انزل اللہ۔.

تو سمجھتا ہے کہ حدود میں وارد ہے جس پر قران نازل ہوا ہے تجھ سے زیادہ حدود میں علم رکھتا ہو گا تو سمجھتا ہے کہ بعثتِ انبیا ء کا عالم ہے خود خاتمِ انبیاء، انبیائ کے بارے میں زیاد ہ واقف تھے اور میرے بارے میں تونے خود کہا فرزندرسول اور کوئی سوال نہیں کیا ، اب میں تجھ سے کچھ نہیں پوچھونگا اگر صاحبِ قیاس ہے تو قیاس کر۔

ابو حنیفہ : یہاں کے بعد اب کبھی قیاس نہیں کرونگا ۔

امام: ریاست کی محبّت کبھی تمکو اس کام کو ترک نہیں کرنے دیگی جسطرح تم سے پہلے والوں کو حبّ ریاست نے نہیں چھوڑ ا۔

(احتجاج طبرسی ج۲ ص۲۷۰تا ۲۷۴)
 
آخری تدوین:
Top