فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جب آپ اپنی دليل کی بنياد دہشت گردی کی بدولت پاکستان کے عوام کی جانب سے چکائ جانے والی قيمت پر رکھتے ہيں تو لامحالہ اس کليے ميں سب سے اہم ترين عنصر جسے نا نظرانداز کيا جا سکتا ہے اور نا ہی پس پش ڈالا جا سکتا ہے، وہ انسانی نقصان ہی ہے۔
اس ضمن ميں ياد دہانی کے ليے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔
http://www.satp.org/satporgtp/countries/pakistan/database/casualties.htm
کيا آپ واقعی سمجھتے ہيں کہ پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہريوں کی موت کوئ ايسا معمولی اور بے ضرر معاملہ ہے جسے دہشت گردی جيسے ايشو کے حوالے سے کسی تعميری بحث کا حصہ بنانا سرے سے ضروری ہی نہيں ہے؟
يہ تصديق شدہ اعداد وشمار ہی وہ بنيادی وجہ ہيں جن کی وجہ سے پاکستان کو عالمی شراکت داروں کے ساتھ ان مشترکہ کاوشوں کا حصہ بننے کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کے عفريت کے خاتمے کے ليے کی جا رہی ہيں۔
اس کے علاوہ جب آپ دہشت گردی کی بدولت معاشی نقصان اور معاشرے پر اس کے لامحالہ بوجھ کو اجاگر کرتے ہيں تو پھر آپ کو اس حقيت کو بھی تسليم کرنا چاہيے کہ بہرصورت يہ دہشت گردوں کے خونی سياسی ايجنڈے کا ہی شاخسانہ ہے جو عوام الناس پر اپنے سياسی تسلط کو بڑھانے کے ليے قتل وغارت گری پر مبنی ايک منظم مہم چلا رہے ہيں۔
آپ کرکٹ کی مثال ديکھ ليں۔ سال 2008 ميں دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹيم کے ساتھ جو کيا اس کی بدولت پاکستان کرکٹ بورڈ اور عام عوام عالمی کرکٹ سے محروم ہو گئ جس ميں سال 2011 ميں ہونے والی عالمی کپ جيسے اہم ٹورنامنٹ کی مشترکہ ميزبانی کا موقع بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعے سے ملک کو جو معاشی نقصان ہوا، اس سے قطع نظر ملکی ساکھ اور شہرت کو جو بٹا لگا اس کا تو تعين بھی نہيں کيا جا سکتا ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ بغير سوچے سمجھے دہشت گردی کا ايک واقعہ تھا جس کی لپيٹ ميں اتفاق سے سری لنکا کی ٹيم آ گئ يا پاکستان کے عوام کو طويل مدت تک معاشی نقصان پہنچانے کے ليے باقاعدہ ايک سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ اس واقعے کے تناظر ميں اگر آپ کی رائے کو ديکھ جائے تو کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ حکومت پاکستان کو دہشت گرد تنظيم کے مطالبات کے سامنے سرتسليم خم کر لينا چاہيے تھا يا مجرموں کا پيچھا کرنا چاہيے تھا؟ اور کيا ان مجرموں کا تعاقب کرنے پر آپ پاکستان کی حکومت اور فوج پر يہ الزام لگا سکتے ہيں کہ وہ کسی اور کی جنگ لڑ رہے ہيں؟
دہشت گردی کے ايشو کی بدولت معاشی مشکلات اور طويل بنيادوں پر زرمبادلہ کو پہنچنے والی زک سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ ليکن اس ضمن ميں حتمی ذمہ داری ان مجرموں کی ہے جو اپنے ايجنڈے کو بڑھانے کے ليے دہشت گردی کا سہارا ليتے ہيں اور جس کی پاداش ميں ہزاروں عام پاکستانی شہريوں کے ذرائع آمدنی چھن جاتے ہيں۔
تمام تر واضح شواہد کے باوجود اب بھی ايسے رائے دہندگان موجود ہيں جو اس دليل کو بنياد بنا کر جذباتی بحث ميں الجھتے ہيں کہ دہشت گردی کا وہ عفريت جس نے گزشتہ ايک دہائ ميں پاکستان ميں بربريت کی نئ مثاليں قائم کی ہے، وہ يکايک منظر سے غائب ہو جائے گا اگر موت کے ان سوداگروں کو کھلی چھٹی دے دی جائے اور ان کے خلاف کوئ تاديبی کاروائ نا کی جائے۔
يہ بات تاريخ سے ثابت ہے کہ اگر معاشرہ جرائم پيشہ عناصر کی مناسب سرکوبی نہ کرے تو اس سے جرم کے پھيلنے کے عمل کو مزيد تقويت ملتی ہے۔
اس بارے ميں بحث کی کيا گنجائش رہ جاتی ہے کہ يہ جنگ کس کی ہے – يہ جانتے ہوئے کہ اس عفريت کی زد ميں تو ہر وہ ذی روح آيا ہے جس نے ان ظالموں کی محضوص بے رحم سوچ سے اختلاف کيا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ عالمی برادری بشمول اہم اسلامی ممالک نے مشترکہ طور پر اسے "ہماری جنگ" قرار ديا ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو رواداری اور برداشت کا پرچار چاہتا ہے اور اپنے شہريوں کی دائمی حفاظت کو مقدم سمجھتا ہے وہ اس مشترکہ عالمی کوشش ميں باقاعدہ فريق ہے جسے کچھ مبصرين غلط انداز ميں "امريکی جنگ" قرار ديتے ہيں۔
حکومت پاکستان اور افواج پاکستان امريکی پاليسيوں کی وجہ سے ان قوتوں کے خلاف نبرد آزما نہيں ہیں۔ ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف جنگ کی وجہ يہ ہے کہ يہ مجرم پاکستانی شہريوں، اعلی حکومتی عہديداروں، فوجی جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو روزانہ قتل کر رہے ہیں، اور يہ وہ حتمی قيمت ہے جو کسی بھی صورت نظرانداز نہيں کی جا سکتی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu