پاکستانی طلبا نے دل کے دورے سے خبردار کرنے والاآلہ تیارکرلیا
January 20
2017
AR Sajid
جامعہ کراچی اور سرسید یونیورسٹی کے طالبعلموں نے دل کے دورے سے خبردار کرنے والا ایک آلہ بنایا ہے جو کسی مریض میں ہارٹ اٹیک کا پتا لگا کر خبردار کرسکتا ہے اور وہ قریبی عزیزوں کو ایس ایم ایس سے مطلع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جامعہ کراچی میں واقع ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولرمیڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی ) کی پی ایچ ڈی طالبات اور سرسید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک طالبعلم نے مشترکہ طور پر یہ آلہ تیار کیا ہے۔
پاکستان میں تیار کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا واحد پروٹوٹائپ ہے جس میں موجود سرکٹ ڈسپلے پر دل دھڑکنے کی رفتار ظاہر کرتا رہتا ہے۔
فی الحال یہ ایک نمونہ یا پروٹوٹائپ ہے جسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ صبا مجید، کنول افتخار، ماہا شاہد، عائشہ عزیز، مہوش سبحان، مہوش تنویراور مریم آسکانی نے اس کے پیرامیٹرز اور اصول وضع کئے ہیں جب کہ سرکٹ ڈیزائننگ اور تیاری کا کام سعد احمد خان نے کیا ہے جو سرسید یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ تمام طالبات نے یہ پروجیکٹ ڈاکٹر پروفیسر شبانہ سیم جی کی نگرانی میں بنایا ہے۔
ٹیم میں شامل طالبات پی سی ایم ڈی میں فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ان میں ایک بلوچ طالبہ مریم آسکانی بھی ہیں جو کراچی کے علاقے لیاری میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے خاندان میں ڈاکٹریٹ کرنے والی پہلی لڑکی ہیں۔ مریم نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا اور اب ان کی تعلیم کو دیکھ کر خاندان کے دیگر لوگ بھی اپنی بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔
صبا مجید نے مقامی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آلے کو انگلی پر پہنا جاتا ہے جو نبض اور جسمانی درجہ حرارت کو نوٹ کرتا رہتا ہے ۔ اگریہ دونوں اشاریئے معمول سے زیادہ یا کم ہوں تو اس کا الارم بج جاتا ہے اور اس میں جی ایس ایم ٹیکنالوجی سے مریض کے مقام کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے جبکہ سم کارڈ کے ذریعے ایمبولینس، ڈاکٹر، عزیز رشتے دار سمیت کئی افراد کو ایس ایم ایس کے ذریعے مریض کی کیفت سے آگاہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہارٹ اٹیک ڈٹیکشن ڈیوائس نامی یہ آلہ ای سی جی کی جگہ تو نہیں لے سکتا لیکن ابتدائی صورتحال سے خبردار کرسکتا ہے۔ دل کے دورے میں فوری طور پر ابتدائی طبی امداد ضروری ہوتی ہے اور ہر گزرتا ہوا منٹ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اسی لیے ابتدائی حالت ظاہر کرکے یہ جانی نقصان سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
طالبات کے مطابق اسے اسلام آباد میں منعقدہ ایک اختراعاتی مقابلے کے لیے طبی و حیاتیاتی اختراع کے زمرے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس مقابلے کا نام ڈسٹنگوئشڈ انوویشن کولیبریشن اینڈ اینٹرپرونیئرشپ (ڈائس) تھا جہاں اس نے پہلا انعام حاصل کیا تھا۔
اس پروٹوٹائپ کی تیاری پر 30 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے تاہم تمام طالبات نے اتفاق کیا کہ اسے مریضوں پر آزمانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آلے کی معیاربندی اور کیلبریشن کی بہت ضرورت ہے جو فیلڈ ورک کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ دوسری جانب پورے آلے کو کسی کڑے (ہینڈ بینڈ) میں سمونے سے یہ مزید بہتر، مختصر اور مؤثر ہوسکتا ہے۔
صبا مجید کے مطابق اس کامیابی کے بعد ہمیں مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ امراضِ قلب کے ماہرین، بایومیڈیکل انجینئر اور دیگر پروفیشنلز کی ایک سرگرم ٹیم کی ضرورت ہے تاکہ اس کام کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔ دوسری جانب اس کی کامیابی کے لیے امراضِ قلب کے ماہرین اور بایو میڈیکل انیجینئروں پر مشتمل ایک ماہرانہ ٹیم کی ضرورت پر بھی زوردیا گیا ہے۔
http://urdu.educationist.com.pk/?p=407