روشن صبح

جاسمن

لائبریرین
پروفیسر ٹیجاٹا ٹیجاسین جو تھائی لینڈ کی ''چیانگ مائی یونیورسٹی '' کے شعبہ علم تشریح الاعضا کے چیئر مین ہیں ، نے جلد میں پائے جانے والے پین ریسیپٹرز پر تحقیق میں بہت وقت صرف کیا ہے۔ شروع میں وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ قرآن نے اس جیسی سائنسی حقیقت کو 1400 سال پہلے بیان کیا ہوگا۔ بعد ازں انہوں نے قرآن مجید کی اس خاص آیت (النساء، 4:56)کے معانی پر تحقیق وجستجوکی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں پروفیسر ٹیجاٹا ،قرآن مجید کی اس سائنسی مطابقت پر اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں '' قرآن وسنت میں سائنسی نشانیاں '' کے موضوع پر ہونے والی آٹھویں سعودی میڈیکل کانفرنس میں حاضرین کے سامنے بڑے فخر سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا اعلان کردیا.
 

جاسمن

لائبریرین
نیویارک میں 1001 مُسلم ایجادات کی نمائش

از مریم ستّار
07 جنوری 2011
نیویارک، نیویارک: آٹھ سالہ مریسا کیمپِس نیویارک کے نیویارک ہال آف سائنس اینڈ کوئینز میں منعقدہ ایک نئی نمائش "1001 ایجادات: اپنی دنیا میں مُسلم ورثے کو دریافت کریں!" میں ایک کھیل میں مصروف ہے۔ چھُونے سے چلنے والی سکرین پر ایک گھر کے بڑے کمرے کا منظر ہے اور نمائش دیکھنے والوں سے کوئی ایسی شئے منتخب کرنے کو کہا جاتا ہے جو 7ویں سے 17ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک ہزار سال پر محیط اسلام کے 'سنہرے دور' میں ایجاد ہوئی ہو۔

مریسا نے اپنی پسندیدہ ایجاد 'اندھیرے کیمرے' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا" انہوں نے جو کچھ بنایا وہ بہت دلچسپ ہے۔ مثلاً پرانی طرز کا یہ کیمرہ"۔ جدید فوٹو گرافی کی راہ اِسی کیمرے نے ہموار کی تھی۔ یہ بات اگرچہ مریسا کو معلوم نہیں ہے لیکن وہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے جنوبی حصے کی اسلامی ثقافت سے رُوشناس ہو رہی تھی۔

نیویارک ہال آف سائنس لندن اور استنبول میں ریکارڈ توڑ تعداد آٹھ لاکھ شائقین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بعد امریکہ میں اس نمائش کا یہ پہلا پڑاؤ تھا۔

نمائش میں رکھی گئی اشیاٴ شائقین کو نہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ سائنسی ایجادات کس طرح کام کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں کے بارے میں ان دقیانوسی تصوّرات کو بھی چیلنج کرتی ہیں جو اپنی قابلِ نفرت کارروائیوں کا تعلق اسلام کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اس امر کا اظہار پِیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ برائے سال 2009 میں بھی کیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ 38 فیصد امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ دیگر عقائد کی نسبت اسلام تشدد کی زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

یہ نمائش اس دقیانوسی تصوّر کو توڑتی ہے کہ مُسلمان اور تشدد لازم وملزوم ہیں۔ شائقین کو مسلمانوں کے بھرپور ثقافتی ورثے سے رُوشناس کرا کے اس حکایت کو بھی ختم کرتی ہے جو مشرق کے بارے میں اُس مغربی اندازِ فکر 'استشراق' کی پیداوار ہے جس پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں مشرقی تہذیبوں کو کم جدّت آمیز اور عمومی طور پر مغربی ثقافت کی حریف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مغرب میں یہ تصوّر کئی صدیوں سے قائم ہے۔ نمائش میں آنے والے تمام عقائد کے لوگوں کے لئے اسلام کے سنہری دَور کی سائنسی کامیابیوں کے بارے میں جاننا بہت حیرت انگیز تھا۔ بہت سے مُسلم امریکیوں کے لئے بھی یہ ان ایجادات کے بارے میں جاننے کا پہلا موقع تھا کیونکہ یہ تاریخ کا وہ دَور ہے جو مغرب کے بیشتر اسکولوں میں پڑھایا نہیں جاتا۔

نمائش میں تاریخ کے جِس دور کا احاطہ کیا گیا تھا وہ مُسلم تہذیب کا سہنری دور تھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یورپ کا تاریک دور بھی تھا۔ اس فرق کو نمائش کا تعارف کرانے والی مختصر دورانیے کی ایک ویڈیو فِلم "1001 ایجادات اور رازوں کی لائبریری" میں اُجاگر کیا گیا ہے جس میں اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اداکار بین کِنگزلے نے اداکاری کی ہے۔ فلم میں کنگزلے نے 12 ویں صدی عیسوی کے ترک مُوجد الجزری کا کردار ادا کیا ہے جو 21 ویں صدی کے نوعمر لڑکے لڑکیوں کے ایک گروپ کو اسلام کے سنہری دور کے سائنسدانوں اور انجینِئروں سے ملنے کے سفر پر لے جاتا ہے۔ اس فلم نے 2010 کے کینز فلم میلے میں بہترین تعلیمی فِلم کا ایوارڈ جیتا تھا۔

جامنی اور سنہرے رنگوں سے مزّین نمائش ہال سے گزرتے ہوئے الجزری کی تخلیق کردہ پانی سے چلنے والی گھڑی کا 20 فُٹ بلند نمونہ شائقین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ گھڑی کی دوسری طرف اُڑنے والی مشین کا ایک ماڈل ٹنگا ہوا ہے جو 9 ویں صدی کے مُوجد عباس ابنِ فرناس نے تخلیق کیا تھا جِسے بعض لوگ وہ پہلا شخص قرار دیتے ہیں جس نے سائنسی طریقے سے فضا میں اُڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایک اور قابلِ دید چیز 15 ویں صدی کے چینی نژاد مُسلمان ایڈمرل ژینگ ہی کے ایک بحری جہاز کی تصویر ہے۔ ژینگ ہی کے بحری جہاز تقریباً فُٹ بال گراؤنڈ جتنے بڑے ہوتے تھے۔

نمائش میں غیر مُسلم سائنس دانوں اور مُوجدوں مثلاً 12 صدی کے یہودی معالج مُوسیٰ بن میمون کا کام بھی دکھایا گیا ہے جس کا تعلق قرطبہ، سپین، سے تھا اور اُس نے مسلم فسلفیوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ مُوسیٰ بن میمون کو نمائش میں جگہ دینا سائنسدانوں کے درمیان کامیاب بین الثقافتی اشتراکِ کار کی نشاندہی کرتا ہے جس کے نتیجے میں تاریخ کی بعض عظیم ترین سائنسی کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں۔ اشتراکِ کار کی اس تاریخ کی جھلک اس حقیقت میں بھی نظر آتی ہے کہ اسلام کے سنہرے دور میں مُوجدوں نے قدیم روم اور یونان میں اپنے پیشروؤں کے علم سے فائدہ اٹھایا تھا اور بعد میں یورپ کے دورِ احیا میں ان مسلمان سائنسدانوں کے علم کو یورپی موجدوں نے استعمال کیا تھا۔

اس طرح کے روابط سائنسی کامیابیوں کی اس بھرپور میراث کی نشاندہی کرتے ہیں جو ساری انسانیت کی مشُترکہ ملکیت ہے۔

"1001 ایجادات" مالی منفعت کے لالچ کے بغیر چلنے والی غیر مذہبی علمی تنظیم 'فاؤنڈیشن برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور تہذیب' کی سرگرمی ہے اور یہ نمائش نیویارک میں اپریل تک جاری رہے گی۔ اس کا اگلا پڑاؤ لاس اینجلس میں کیلی فورنیا سائنس سینٹر ہے جہاں سے 2012 میں یہ واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل جیوگرافک میوزیم میں جائے گی۔ نمائش دیکھنے کے لئے آنے والوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہم مشرق ومغرب کے درمیان موجود آج کے اختلافات کو پسِ پُشت ڈال سکتے ہیں کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو عظیم ترین ایجادات آج بھی ہمارے استعمال میں ہیں وہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کی مشترکہ محنت سے وجود میں آئی تھیں۔

###

* مریم ستّار لندن میں پلی بڑھی ہیں اور آج کل کولمبیا یونیورسٹی کے سکول آف جرنلزم میں ایم اے کر رہی ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) کے لئے لکھا گیا ہے۔

ماخذ: کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز)، 7 جنوری 2011
www.commongroundnews.org
اس مضمون کی اشاعت کے لئے کاپی رایٹ کی اجازت حاصل کی جاچکی ہے۔
http://www.commongroundnews.org/article.php?id=29084&lan=ur&s


6CCA27B3-F2A8-4BC7-920B-CB14CAA5DEEF_w640_r1_s.jpg



.
 
آخری تدوین:
اللہ آپ کو بہترین جزا دے، آپ کو معلوم ہے بس یاد دہانی کروا رہا ہوں، کہ عمل کی جزا کا درومدار نیت پر ہے تو اگر میری نیت مسلم بہن بھائ کو خوش کرنے کی ہے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مجھے بھی اس طرح جزا دے گا۔
اللہ کی مخلوق کی خدمت بہت بڑا عمل ہے
 
اس سلسلے میں ایک معروف حدیث نبوی ؐ بھی ہے کہ روز حشررب کائنات اپنے بندے سے سوال کرے گاکہ اے میرے بندے جب مین بھوکا تھا تو تو نے مجھے کھانا کیوں نہ کھلایا؟بندہ پریشان ہو کر کہے گا کہ اے خالق کائنات تیری ذات مختارکل ہے اور کھانے پینے کی حاجتوں سے مبرا ہے۔پھر اللہ تعالی سوال کریں گے کہ اے میرے بندے مجھے پانی کی ضرورت تھی تو نے مجھے پیاسا رکھا ۔پھر اللہ تعالی کہیں گے مجھے کپڑوں کی ضرورت تھی تو نے مجھے کپڑے نہ دیے؟ اس طرح کے سوالات پر اس کا بندہ پوچھے گا کہ میرے پروردگار تو ان حاجتوں سے بے نیاز تھا تجھے ان چیزوں کی کیا ضرورت تھی؟ اس وقت اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے کہ ہاں مجھے تو ان چیزوں کی ضرورت نہیں تھی مگر میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تو نے اسے کھان نہ دیاگویا کہ مجھے کھانے سے محروم رکھا ،میرا فلاں بندہ پیاسا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا تو گویا مجھے پیاسا رکھا،میرا فلاں بندہ چیتھڑوں میں ملبوس تھا تو نے اسے برہنہ رکھا گویا کہ مجھے کپڑے عطا نہ کیے
 

جاسمن

لائبریرین
فاطمہ بھٹو برطانوی ادبی انعام کے لیے نامزد
فاطمہ بھٹو کو ان کی تحریر کردہ انگریزی کتاب "شیڈو آف دا کریسنٹمون " پر برطانیہ کے 'بیلیز ویمنز پرائز فار فکشن' کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
کراچی — bبرطانیہ کےایک اہم ادبی انعام کیلئے پاکستانی مصنفہ اور سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کی بھتیجی اور مرتضی بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو کو نامزد کیاگیا ہے۔

فاطمہ بھٹو کو ان کی تحریر کردہ انگریزی کتاب "شیڈو آف دا کریسنٹمون " پر برطانیہ کے 'بیلیز ویمنز پرائز فار فکشن' کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

ماضی میں 'اورینج پرائز' کے نام سے دیے جانے والا یہ ادبی انعام خواتین مصنفین کی جانب سے انگریزی زبان میں فکشن پر لکھی گئی اور برطانیہ سے شائع ہونے والی کتابوں کو دیے جاتا ہے۔

ایوارڈ کے لیے پاکستان کی فاطمہ بھٹو کے علاوہ برطانیہ، آئرلینڈ، امریکہ، کینیڈا اور نائجیریا کی 20 خواتین مصنفین کو نامزد کیا گیا ہے۔

انعام کے لیے کتابوں کا انتخاب کرنے والے ججوں کے پینل میں شامل سوفی راورتھ کا کہنا ہے کہ ججوں کا خیال ہے کہ مقابلے کیلئے انتہائی اعلیٰ معیار کی ایسی کتابیں منتخب کی گئی ہیں جو قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور کتاب شروع کرنے والا کوئی بھی شخص نہیں ختم کئے بغیر چین نہیں لے سکتا۔

ان کےبقول یہ ایسی کتابیں ہیں جن کے بارے میں آپ اپنے دوستوں کی پڑھنے کی بجا طور پر سفارش کرسکتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس انعام کے فاتح کا اعلان جون میں لندن کے مشہور 'رائل فیسٹیول ہال' میں کیا جائے گا۔ انعام جیتنے والی مصنفہ کو 30 ہزار پونڈ نقد اور کانسی کا ایک میڈل دیا جائے گا۔

فاطمہ بھٹو نے 'لندن یونیورسٹی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز' سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اس سے قبل بھی 'سپرز آف ڈیزرٹ' اور 'سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ' نامی کتابیں تصنیف کرچکی ہیں۔
http://www.urduvoa.com/content/fatima-bhutto-nominated-for-uk-literary-award-08mar2014/1867326.html
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
’ ینگ گلوبل لیڈرز پروگرام ‘ کے لئے تین پاکستانی منتخب
عالمی اقتصادی فورم نے’ ینگ گلوبل لیڈرز پروگرام ‘ کے لئے تین پاکستانی نوجوانوں کو منتخب کرلیا ہے جن کے نام سبین محمود، علی جہانگیر صدیقی اور مشرف زیدی ہیں۔ انہیں اپنے اپنے شعبے میں بہترین خدمات انجام دینے کے عوض منتخب کیا گیا۔

سبین محمود کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ آرٹس، کلچر اور معاشرتی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی رہی ہیں۔ مشرف زیدی تعلیم کے فروغ کیلئے سرگرم ایک غیرسرکاری تنظیم تشکیل دے چکے ہیں جو ملک کے مختلف شہروں میں تعلیمی پسماندگی کی بہتری کیلئے کام کررہی ہے جبکہ علی جہانگیر صدیقی، مہوش اینڈ جہانگیر صدیقی فا’نڈیشن ‘کے سربراہ ہیں

ان پروگرامز کے لئے دنیا بھر کے 66 ممالک میں سے 214 نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

عالمی اقتصادی گلوبل لیڈر شپ پروگرام کیلئے اس سے قبل آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم میکر شرمین عبید چنائے بھی منتخب ہوچکی ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد دنیا بھر میں معاشرتی، تجارتی،اور دیگر شعبوں سے وابسطہ نوجوانوں کی قائدادنہ صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے ۔
http://www.urduvoa.com/content/three-pakistanis-in-global-leadership-program/1872109.html
 

جاسمن

لائبریرین
عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی خوشی ہے، ڈاکٹر گل شہناز
لشمنائسز کی نئی دوا پر کام کرنے والی پاکستانی ڈاکٹر شہنازگل کی 'یونیسکو فیلو شپ 2014ء' ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو۔



اسدحسن ، واشنگٹن
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 12.04.2014 14:33

واشنگٹن — ڈاکٹر شہنازگل کا تعلق پاکستان کے پسماندہ علاقے کہروڑپکا سے ہے۔ سماجی رکاوٹوں اورصنفی مشکلات کے باوجود انہوں نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تحقیق کے میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے لشمنائسز (صحرائی مکھی اور پیراسائٹس کے کاٹے سے لاحق ہونے والی بیماری) پر نینو ٹیکنالوجی کے اطلاق سے نئی دوا تجویز کی ہے۔ ان کی اس تحقیق پر یونیسکونے انہیں فیلو شپ ایوارڈ سے نوازا ہے۔

وہ دنیا کی ان 15 خواتین میں شامل ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ڈاکٹرشہنازگل نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں بتایا ہے کہ لشمنائسزکے لیے دوا اگرچہ پہلے سے دستیاب ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مرض کے وائرس نے دوا کے خلاف مدافعت حاصل کر لی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ جو دوا تیار کی جائے گی اس کے ذیلی اثرات کو محدود کرنے کے لیے نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔

ڈاکٹرگل کی خواہش ہے کہ وہ پاکستانی اور عالمی اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدین نے جہاں حصولِ علم میں ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، وہیں پاکستان کے اداروں نے بھی انہیں اعلٰی تعلیم دلانے میں معاونت فراہم کی۔
http://www.urduvoa.com/content/dr-gul-shahnaz-interview-12apr2014/1892169.html
 

جاسمن

لائبریرین
لندن میں 'لنچ بکس': ایک بہادر پاکستانی خاتون کی کہانی
ٹفن سروس میرا کام ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس سے میرا گھر چلتا ہے اور بہت سے لوگوں کی دعائیں بھی ملتی ہیں: لندن میں ٹفن سروس چلانے والی تنہا خاتون، شمع باجی
نصرت شبنم
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 16.03.2014 19:04

لندن — لندن میں کاروبار یا ملازمت کے دوران گھر کے کھانے کے خواہش مند تارکین وطن میں لنچ بکس یا ٹفن سروس بے حد مقبول ہے۔ خاص طور پر تنہا رہنے والے ملازمت پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد اس سہولت سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ چوں کہ ان کھانے کے ڈبوں کی قیمت انتہائی مناسب ہوتی ہے اسی لیے یہ عام لوگوں کی جیب پر بھاری نہیں پڑتے ہیں۔

مشرقی لندن میں والتھم فاریسٹ کے علاقے میں ٹفن سروس کے حوالے سے لوگوں میں ایک نام بہت جانا پہچانا ہے۔ یہ نام ہے شمع باجی کا جنھیں تنہا ملازمت پیشہ افراد میں اینجل بھی کہا جاتا ہے جوان کے گھر کے دروازے کی کنڈی پر کھانے کا تھیلا لٹکا جاتی ہیں۔

لیکن شمع کہتی ہیں کہ، ''ٹفن سروس میرا کام ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس سے میرا گھر چلتا ہے اور بہت سے لوگوں کی دعائیں بھی ملتی ہیں۔ میں خود بھی تنہا رہتی ہوں اوراپنا بوجھ خود اٹھانے پر یقین رکھتی ہیں، اسی لیے محنت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی"
x


ان کے نزدیک لنچ بکس کی ترسیل کا کام سب سے زیادہ محنت طلب ہوتا ہے۔ "میں ان ڈبوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیےایک ٹرالی استعمال کرتی ہوں جس میں کم از کم 50 ڈبے ہوتے ہیں۔ آس پاس کے محلوں میں کھانے کے ڈبے پیدل ہی پہنچاتی ہوں لیکن دور دراز کا سفر بس سے کرتی ہوں "۔

شمع کے بقول اپنی بھاری بھرکم ٹرالی کو ہاتھوں سے گھسیٹتے ہوئے بس اسٹاپ تک جانا، پھر بس میں سوار ہونا اور ہر دو چار اسٹاپ کے بعد اسی وزنی ٹرالی کے ساتھ بس سے اترنا اور سوار ہونا ان کا روز کا معمول ہے جسے موسم کی شدت یا بیماری بھی متاثر نہیں کرتی ہے۔

شمع نے بتایا کہ ان کا کام یہیں ختم نہیں ہوتا۔ جب شام میں ڈبوں کی ترسیل سے فارغ ہو کر وہ گھر لوٹتی ہیں تو بھی ان کی ٹرالی اتنی ہی وزنی ہوتی ہے کیونکہ واپسی میں ٹرالی اگلے روز کا کھانے پکانے کے سامان سے بھری ہوتی ہے۔

اپنے کام کو اس قدر خوش اسلوبی سے انجام دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ، "میرے دن کا آغاز ہر روز صبح پانچ بجے ہوتا ہے پھر روز کا مینیو تیار کرتی ہوں جس میں روٹیاں، بریانی، سالن اور سبزی کے ساتھ میٹھا اور سلاد رائتہ شامل ہوتا ہے"۔

شمع نے بتایا کہ "ٹفن سروس زیادہ تر دوکانداروں اور اسٹالز لگانے والوں کے علاوہ پاکستانی طالب علموں اور ملازمت پیشہ خواتین میں پسند کی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ اس کے خریداروں میں ایسے بزرگ افراد بھی شامل ہیں جو خود پکا نہیں سکتے ہیں۔ یہاں گھر کے کھانے کی بہت مانگ ہے۔ لوگ اپنی صحت کے حوالے سے بھی گھر کا سادہ کھانا کھانا پسند کرتے ہیں"۔

شمع نے ٹفن سروس کے کاروبار میں آنے کے حوالے سے 'وی او اے' سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ پردیس میں کمانے کی غرض سے آتے ہیں اور پیچھے آپ کا پورا خاندان آپ سے امیدیں باندھ لیتا ہےتو پھر یہ ذمہ داری دگنی ہو جاتی ہے۔ اس راہ پر قدم رکھنے کے بعد بہت سی قربانیاں دینی ہوتی ہیں میری بھی بس اتنی ہی کہانی ہے"۔

''چودہ سال کی عمر میں جہلم سے برطانیہ اپنے رشتہ داروں کے پاس آئی تھی۔ اس وقت خود کو سنبھالنے اور گھر چلانے کے لیے ایک نوکری درکار تھی۔ سو ابتدا میں ایک روٹی فیکٹری میں کام کیا اور پھر دوکانوں، اسٹالوں پربھی کام کیا۔ ان سبھی کاموں میں محنت بہت زیادہ لی جاتی ہے لیکن معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔ مجھے صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک اسٹال لگانے اور سمیٹنےکے 20 پونڈز ادا کئے جاتے تھے"۔

"اتنی محنت کے باوجود مجھے منزل دور دکھائی دے رہی تھی اس کے بعد میں نے بازار میں اپنی ایک چھوٹی سی دوکان بھی کھولی جہاں میں سموسے، پکوڑے اور بہت سے پکوان بیچتی تھی لیکن تنہا ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصے تک دوکان نہیں چلا سکی۔ بس یہیں سے گھر سے کھانا پکانے اور بازاروں میں پہنچانے کا خیال ذہن میں آیا"۔

"اب اگرچہ میں اپنی بیشتر ذمہ داریاں پوری کر چکی ہوں والدین بھی حیات نہیں رہے ہیں لیکن پردیس میں کسی ہم وطن تنہا لڑکی کی مدد کے لیے میرے گھر کے دروازے کھلے ہیں یہ میرے رشتہ داروں کا مجھ پر وہ قرض ہے جسے میں کسی اور کی مدد کرکے ادا کرنا چاہتی ہوں"۔
 

جاسمن

لائبریرین
مسلمان بچوں کو سائنس کا علم حاصل کرنے کی جانب راغب کرنے کی ضرورت


نئی دہلی میں دو روزہ نمائش

میسکو علم ریسرچ فاونڈیشناور انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر دہلیکے تعاون سے دو روزہ نمائش کا اہتمام بمقامانڈیا اسلامک کلچرل سنٹر دہلی۲۳ اور ۲۴ جنوری ۲۰۱۰ء کیا گیا۔ تہذیب اور تمدن کے ارتقاع میں مسلمان سائنسدانوں کا کردار اس نمائش کا عنوان تھا۔اس نمائش کا افتتاح ایس ۔وائی۔قریشی ایلکشن کمشنر آف انڈیا نے کیا۔اس موقع پر ایس ۔وائی۔ قریشی نے کہا کہ آج کے دور میں سائنس کی بہت اہمیت ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ مسلمان بچوں کو سائنس کی تعلیم کی جانب کس طرح راغب کیا جائے۔جناب قریشی نے کہا کہ یہ ایک قابل تعریف اقدام ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان جذباتی مسائل میں اُلجھے رہنے کی بجائے تعلیم اور ترقی کی جانب توجہ دیں۔ پروفیسرعبدالعزیز وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ڈاکٹر سلمان اسد نے کہا کہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں غور و فکر کرنا چاہئے۔

اس سائینسی نمائش میں خصوصی تقاریر کا بھی اہتمام یا گیا تھا۔ مقررین نے سائنس کی اہمت اور افادیت پر بھر پور روشنی ڈالی۔ جس طرح ماضی میں مسلمان سائنسدانوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور نئی نئی ایجادیں کیں تھیں اسی طرح مستقبل میں آنے والی نسل ان کی راہ پر عمل کرے۔میسکو علمکے ڈائرکٹر محمد عبدالطیف نے تحقیقی طریقہ کار کے موضع پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کوئی بھی کھیل پڑھ کر نہیں کھیلا جاتا ہے بلکہ عملی طور پر کھیلا جاتا ہے، اسی طرح علم سائنس بھی تجربات کی اساس پر ہی حاصل ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر کمال الدین خان نے۔ پرسنالیٹی ڈیولپمنٹ۔ پدم شری پروفیسر حسنین نے ۔ سائنس کی اہمیت اور فادیت ۔ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔میسکو علمکے آنریری سیکریٹری ڈاکٹر فخرالدین نے نمائش کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو سائنس کی تعلیم کی جانب راغب کرانا ہے۔ نمائش میں قدیم نامور مسلم سائنسدانوں کی ایجادات، مسلم تہذیب و تمدن کے لئے ان کی خدمات، اسلامی تاریخ میں سائنس کے متعلق کئے گئے ان کے عظیم کارناموں کی معلومات پیش کی گئیں۔

نمائش کے پہلے دن جامعہ ملیہ اسکول اور نیو ہورائزن اسکول کے طلبا اور طالبات نے شرکت کی اور ان معلومات سے استفادہ حاصل کیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر سلیمان اسش، ریحان خان سوری وغیرہ بھی موجود تھے۔

نیوز۔۔۔ بشکریہ راشٹریہ سھارا۔ نئی دلّی۔
http://www.sherosokhan.com/id894.html
 

جاسمن

لائبریرین
ٹیکسٹائل کا روشن قطبی ستارہ
کالم نگار | اسد اللہ غالب
26 اپریل 2014 0

news-1398459597-2465.JPG

چودھری عبدالمجید کی تصنیف۔۔ امید آشنا۔۔ ۔ صاحب کتاب مرحوم میاں عبدالرشید کے برادر مکرم ہیں اور بہت بڑے کاروباری ادارے کے مالک، وہ ہمہ جہت انسان ہیں۔ ہر لحاظ سے سیلف میڈ اور کتاب کے ٹائٹل کے عین مطابق ہر وقت امید کا دامن ہاتھ میں تھامے ہوئے، انہوںنے ٹیکسٹائل میںنام کمایا اور نیشنل فوڈز کے برانڈ سے پاکستانی مصالحے اور فروزن فوڈ کا کام دنیا بھر میں پھیلا دیا۔۔
اان کا ایک جملہ میں کبھی نہیںبھولتا کہ ٹیکسٹائل میں مندا اس دن آئے گا جب انسان یہ تہیہ کرلے گا کہ وہ آئندہ سے ننگا پھرے گا۔ یقین جانیے یہی وہ نکتہ ہے جس پر میاں عبدالمجید کی کتاب امید آشناکا تانا بانا، بنا گیا ہے۔ٹیکسٹائل سے وابستہ لوگوں کا یہ رونا دھونا روز سنتے ہیں کہ مر گئے، ڈوب گئے، گیس نہیں ، بجلی نہیں، مگر میاں صاحب کا کہنا تھا کہ مرتا اور ڈوبتا وہ ہے جو ایسی خواہش کرتا ہے۔ باقی سب لوگ کما رہے ہیں اور خوب کما رہے ہیں۔
ٹیکسٹائل کے بارے میں مزید کہانیاں میں نے پروفیسر محفوظ قطب سے بھی سنیں۔ وہ ٹیکسٹائل انجنیئرنگ کے استاد ہیں، کئی یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے اور انہوںنے پاکستان کے ہر بڑے اور نامور ٹیکسٹائل ادارے میں خدمات انجام دیں، کوہ نور فیصل آباد سے لے کر نشاط اور ولیکا اور ملک سے باہر آئر لینڈ میں بھی دو سال گزارے۔وہ پاکستان کے منفرد جریدے ٹیکسٹائل جرنل کے بورڈ آف ایڈیٹرز میں شامل ہیں۔ یہ جریدہ عالمی معیار کا ہے ۔
انہوں نے خطاطی میں کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح شاعر ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھتے ہیں ، پروفیسر صاحب نے اسم اللہ اور محمد ﷺ کو گوناں گوں انداز میں رقم کیا ہے۔اسم محمد ﷺ کی میم کو جس محبت سے انہوں نے نقش کیا ہے، اسپر دیکھنے والے کی روح ایک عجب سرمستی کی کیفیت سے سرشار ہوجاتی ہے۔ان کی لائیبریری میں اگر ملکی یونیورسٹیوں سے زیادہ ٹیکسٹائل پر تحقیقی ذخیرہ ہے تو آرٹ اور مصوری کے شاہکار بھی ان کی لائیبریری کی زینت بنے ہیں ، عمل چغتائی ، مرقع چغتائی کے اولیں ایڈیشن، صادقین کے موئے قلم سے غالب کی شاعری، خیام،رومی اور حافظ کے منقش دیوان،قصیدہ بردہ کا کئی زبانوں میں ترجمہ، بائبل آف دی ورلڈ نامی کتاب میں دنیا بھر کی الہامی کتابیں۔انہوںنے بچوں کی طرح ٹکٹیں اور سکے بھی جمع کر رکھے ہیں۔کتابوں کے بارے میں ان کاایک قول مجھے یاد رہ گیا ہے کہ خواہ تم کتابوں کو کبھی نہ کھولو، کبھی نہ پڑھو ، پھر بھی ان سے بہتر سامان آرائش اور کوئی نہیں۔
ان کاگھر ماڈل ٹاﺅن میں فیض گھر کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔اچھے شعر اور وہ بھی بر محل ، انہیں ایسے یاد ہیں کہ فر فر ان کی زبان سے رواں ہو جاتے ہیں۔
۔انہوں نے خطاطی اور مصوری کے شہپارے کبھی فروخت نہیںکئے، ان کی کبھی کوئی نمائش بھی نہیں لگائی ، مگر آج تک ہزاروںکی تعداد میں یہ شاہکار اپنے دوستوں کو پیش کر چکے ہیں۔ کوئی ٹیکسٹائل ادارہ ایسا نہیںجس کی ڈیوڑھی میں ان کے شہ پارے آویزاں نہ ہوں
یہ خاموش طبع انسان مجلسوں میںنہیں جاتا ، اسے جو فارغ وقت ملتا ہے، اللہ اور محمد ﷺ کے اسم میں نورانی رنگ بھر نے میں گزار دیتا ہے۔http://www.nawaiwaqt.com.pk
 
ٹیکسٹائل کا روشن قطبی ستارہ
کالم نگار | اسد اللہ غالب
26 اپریل 2014 0

پروفیسر محفوظ قطب سے بھی سنیں۔ وہ ٹیکسٹائل انجنیئرنگ کے استاد ہیں، کئی یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے اور انہوںنے پاکستان کے ہر بڑے اور نامور ٹیکسٹائل ادارے میں خدمات انجام دیں، کوہ نور فیصل آباد سے لے کر نشاط اور ولیکا اور ملک سے باہر آئر لینڈ میں بھی دو سال گزارے۔وہ پاکستان کے منفرد جریدے ٹیکسٹائل جرنل کے بورڈ آف ایڈیٹرز میں شامل ہیں۔ یہ جریدہ عالمی معیار کا ہے ۔
انہوں نے خطاطی میں کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح شاعر ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھتے ہیں ، پروفیسر صاحب نے اسم اللہ اور محمد ﷺ کو گوناں گوں انداز میں رقم کیا ہے۔اسم محمد ﷺ کی میم کو جس محبت سے انہوں نے نقش کیا ہے، اسپر دیکھنے والے کی روح ایک عجب سرمستی کی کیفیت سے سرشار ہوجاتی ہے۔ان کی لائیبریری میں اگر ملکی یونیورسٹیوں سے زیادہ ٹیکسٹائل پر تحقیقی ذخیرہ ہے تو آرٹ اور مصوری کے شاہکار بھی ان کی لائیبریری کی زینت بنے ہیں ،
یہ خاموش طبع انسان مجلسوں میںنہیں جاتا ، اسے جو فارغ وقت ملتا ہے، اللہ اور محمد ﷺ کے اسم میں نورانی رنگ بھر نے میں گزار دیتا ہے۔http://www.nawaiwaqt.com.pk
تو کسی ایسے فن پارے تک رسائی کیسے ہو؟
 

جاسمن

لائبریرین
25 اپریل 2014
وقت اشاعت: 22:53
شادی یادگار بنانی ہے تو برج العرب کی چھت پر چلے آئیں
دبئی…اگر اپنی شادی کا دن یادگار بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دبئی کے برج العرب کی چھت سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ خرچہ بھی صرف 55 لاکھ روپے ہے۔دبئی کے لگژری ہوٹل " بر ج العرب "کی چھت پر وسیع ہیلی پیڈ کو شادی کی تقریبات کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔" ویڈنگ ان دا اسکائے" نامی اس پیشکش کے تحت دلہا دلہن ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیدھے ہوٹل کی چھت پر اتر سکتے ہیں یا لگژری کار رولز رائس میں بیٹھ کر آسکتے ہیں۔ ایسی ہی دوسری شاہانہ سہولتوں کے ساتھ اپنی شادی کو نہ صرف شاندار بناسکتے ہیں بلکہ دلہن کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔ ان تمام سہولتوں کا کم از کم بل ہو گا صرف 2 لاکھ درہم یعنی تقریباً 55 لاکھ روپے۔http://www.urdu.co/news/dilchasp-khabrain/geo-news-145746/
 

محمداحمد

لائبریرین
اسلام مخالف فلم ’’فتنہ‘‘ کے ڈسٹری بیوٹر ارونڈ وین ڈورن کے بعد ان کا بیٹا بھی مسلمان ہوگیا

دبئی: اسلام مخالف فلم ” فتنہ“ کے ڈسٹری بیوٹر ارونڈ وین ڈورن کے بعد ان کا بیٹا اسکندر امین نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
دبئی میں ایک تقریب کے دوران ارونڈ وین ڈورن کے 22 سالہ بیٹے اسکندر امین نے اسلام قبول کیا۔ اس دوران اسکندر نے سب کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ کر کہا کہ ’’ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘، اس موقع پر اسکندر امین نے عقیدہ ختم نبوت پر بھی اپنے مکمل ایمان کا اعلان کیا۔
اس موقع پر اسکندر امین کا کہنا تھا کہ میں نے یہ بات محسوس کی کہ میرے والد اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے سے زیادہ پر امن اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں جس کے باعث میرے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلام میں ضرور ایسی کوئی اچھائی موجود ہے جو انسانوں کو بہتر بنا دیتی ہے،اسکندر کے مطابق اپنے والد کی زندگی میں نمایاں تبدیلوں کے بعد اس نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا جب کہ علماء کے لیکچر بھی سنے جو اس کی اسلام کے بارے میں آگاہی کا ذریعہ بن گئے۔
واضح رہے کہ ارونڈ وین ڈورن جرمنی کا ایک سیاستدان اور اسلام مخالف پارٹی کے رکن کے ساتھ ساتھ 2008 میں بننے والی اسلام مخالف فلم ”فتنہ“ کا ڈسٹری بیوٹر بھی تھا تاہم فلم کے اجرا کے 5 سال بعد ارونڈ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

ربط
 

جاسمن

لائبریرین
وائس آف امریکہ

اردو سروس کے لیے 2013ء کا اعلیٰ کارکردگی کا اعزاز
تقریب میں اردو سروس کو ’آڈئینس انگیج منٹ‘کے شعبے میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر اعزاز دیا گیا۔




آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 22.04.2014 20:12

واشنگٹن — وائس آف امریکہ کے سربراہ ڈیوڈ اینسور نے اردو سروس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ سروس کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرام اور ویب سائٹ، بقول اُن کے، "مثالی کام کر رہے ہیں"۔
اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز سال 2013ء کے اعلیٰ کارکردگی کے سالانہ ایوارڈز تقسیم کرنے کی ایک تقریب کے موقع پر کہی۔ اس تقریب میں اردو سروس کو ’آڈئینس انگیج منٹ‘کے شعبے میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر انعام دیا گیا۔
اس موقع پر، اردو سروس کے سربراہ، فیض رحمٰن، منیجنگ ایڈیٹرز عمران صدیقی اور رضی احمد رضوی نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ اینسور سے اعلیٰ کارکردی کا سالانہ ایوارڈ حاصل کیا۔
ایوارڈ کے متن میں تحریر ہے کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ آپ ایسے پروگرام تیار کر رہے ہیں جِن کے باعث پاکستان میں ویب سائٹ پر آنے والے افراد میں آن لائن شرکت کی ترغیب ملتی ہے۔


وائس آف امریکہ اردو کے بارے میں:

’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کا آغاز 1951ء میں ہوا۔

ہماری ریڈیو نشریات 972 میڈئم ویو پر ساتوں دِن، 12 گھنٹے روزانہ ہوتی ہیں۔

روزانہ 30 منٹ کا پروگرام ریڈیو پاکستان کے 12 ایف ایم اسٹشنوں پر بھی نشر ہوتا ہے۔

’عاطف ود سن رائز‘: ہر ہفتے دو گھنٹے کا یہ پروگرام سن رائیز ایف ایم پر براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔

صدائے جہاں: ہفتہ وار ایک گھنٹے کا پروگرام، آٹھ بجے رات پاور 99 ایف ایم ریڈیو نیوز نیٹ ورک پر نشر ہوتا ہے۔

ٹیلی ویژن:

کہانی پاکستانی، آج ٹی وی، کیفے ڈی سی، پی ٹی وی وہرلڈ، وی او اے نیوز منٹ، آج ٹی وی، اے ٹی وی اینڈ ایکسپریس نیوز، زندگی 360، ہم ٹی وی پر نشر کیے جاتے ہیں۔

انٹرنیٹ ٹی وی:

ایکسیس پوائنٹ، 30 منٹ، ہفتہ وار

انڈی پنڈنس ایوینیو، 30 منٹ کا پروگرا، ہفتہ وار

ہمارے پروگرام، ہماری ویب سائٹ ’ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو اردووی اواےڈاٹ کام‘ پر سنے اور پڑھے جا سکتے ہیں۔

فیس بک: وی او اردو (تین لاکھ پچاس ہزار شائقین)

یوٹیوب چینل: اردو وی او اے (44لاکھ سے زائد ویوز)۔
http://www.urduvoa.com/content/voa-excellence-award-urdu-service/1898943.html
 

جاسمن

لائبریرین
گیری میلر ،کینیڈا کا ماہر علم ریاضی و منظق ۔۔ کہ جس نے قرآن کو چیلنج کیا تھا
کاتب: طارق اقبال بتاريخ: February 6, 2013 – 12:22 pmتبصروں کی تعداد: 8.
1977میں جناب گیری میلر (Gary Miller) جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماہر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ہیں ، اور کینڈا کے ایک سرگرم مبلغ ہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِمجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے ، جو اس کےمبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے ۔
تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا میلر کی دستاویز جائز تھیں اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے ۔ مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید کے متعلق دے سکتے تھے ۔ اس نے قرآنِ مجید کو بالکل ایسا ہی لیا جیسا ہونا چاہیئے تھا ،اور ان کا نتیجہ یہ تھا کہ:
1977میں پروفیسر میلر نے مسلمان اسکالر جناب احمد دیداتؒ سے ایک بہت مشہور مکالمہ،بحث و مباحثہ کیا اس کی منطق صاف تھی اور اس کا عذر (تائید) ایسے دکھائی دیتی تھی کہ جیسے وہ سچائی تک بغیر کسی تعصب کے پہنچنا چاہتا تھا بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کر کے مسلمان ہو جائے۔
1978 میں پروفیسر میلر نے اسلام قبول کرہی لیا اور اپنے آپ کو عبد الاحد کے نام سے پکارا ۔ اس نے کچھ عرصہ سعودی عرب تیل اور معدنیات کی یورنیورسٹی میں کام کیا اور اپنی زندگی کو دعویٰ بذریعہ ٹیلی ویژین اور لیکچرز کے لئے وقف کر دیا۔
جناب گیری میلر کی کتاب یہاں سے ڈاؤن لو ڈ کی جاسکتی ہےhttp://quraniscience.com/
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
بھارت: ’’پاکستان‘‘ نام کے 21 ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا بڑی تعداد میں لسٹوں سے نام غائب
26 اپریل 2014 0

نئی دہلی (آئی این پی) بھارت کی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات میں 21 ایسے شہریوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا جن کا نام ’’پاکستان‘‘ ہے۔ پاکستان نامی بھارتی شہریوں میں سب سے بڑے پاکستان کی عمر 78 برس ہے اور ان کا تعلق ریاست مہاراشٹر کے علاقے اترپردیش سے ہے۔ 78 سالہ پاکستانی کے والد کا نام عبدالرشید ہے جبکہ انتخابات میں سب سے کم عمر پاکستانی 25سال کا ہے، جس کے والد کا نام جے شنکر اور تعلق بہار سے ہے۔ بھارتی انتخابات میں پاکستانی نامی ووٹ ڈالنے والے شہریوں میں سے 5 پاکستانیوں کا تعلق بھارتی ریاست اڑیسہ سے چار کا تعلق اترپردیش سے ہے جبکہ راجستھان ،جھاڑکنڈ اور بہار سے بھی دو دو پاکستانیوں نے عام انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ دریں اثناء بھارتی الیکشن کمیشن نے مہاراشٹر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے نام ووٹر لسٹوں سے غائب ہونے پر معافی مانگی لی۔ http://www.nawaiwaqt.com.pk/front-page/26-Apr-2014/298721
 

جاسمن

لائبریرین
کرکٹر محمد یوسف کے ایک اور بھتیجے کا قبول اسلام، نام محمد قاسم رکھ دیا گیا
29 اپریل 2014 0

news-1398729303-3811.jpg

لاہور (سپورٹس رپورٹر) پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد یوسف کے ایک اور بھتیجے ہنی ارشاد نے اسلام قبول کر لیا جن کا اسلامی نام محمد قاسم رکھا گیا ہے۔ انہیں جامعہ اشرفیہ کے مفتی احمد علی نے کلمہ پڑھایا۔ محمد قاسم اپالو سپورٹس کی طرف سے کرکٹ کھیلتے ہیں اور ان کے بڑے بھائی محمد بلال ارشاد کا بھی اپالو سپورٹس کے آل رائونڈرز کھلاڑیوں میں شمار ہوتا ہے۔ یاد رہے کارسن گرائونڈ میں کھیلنے والے اس خاندان کے تین افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔ اس سعادت پر حاجی میاں محمد الیاس مغل، سیکرٹری جنرل پاکستان سپورٹس مین ویلفیئر ایسوسی ایشن منظور علی اور عارف کلب کے کھلاڑیو ں نے محمد یوسف کے خاندان کے افراد کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/29-Apr-2014/299377
 
Top