لندن میں 'لنچ بکس': ایک بہادر پاکستانی خاتون کی کہانی
ٹفن سروس میرا کام ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس سے میرا گھر چلتا ہے اور بہت سے لوگوں کی دعائیں بھی ملتی ہیں: لندن میں ٹفن سروس چلانے والی تنہا خاتون، شمع باجی
نصرت شبنم
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 16.03.2014 19:04
لندن — لندن میں کاروبار یا ملازمت کے دوران گھر کے کھانے کے خواہش مند تارکین وطن میں لنچ بکس یا ٹفن سروس بے حد مقبول ہے۔ خاص طور پر تنہا رہنے والے ملازمت پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد اس سہولت سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ چوں کہ ان کھانے کے ڈبوں کی قیمت انتہائی مناسب ہوتی ہے اسی لیے یہ عام لوگوں کی جیب پر بھاری نہیں پڑتے ہیں۔
مشرقی لندن میں والتھم فاریسٹ کے علاقے میں ٹفن سروس کے حوالے سے لوگوں میں ایک نام بہت جانا پہچانا ہے۔ یہ نام ہے شمع باجی کا جنھیں تنہا ملازمت پیشہ افراد میں اینجل بھی کہا جاتا ہے جوان کے گھر کے دروازے کی کنڈی پر کھانے کا تھیلا لٹکا جاتی ہیں۔
لیکن شمع کہتی ہیں کہ، ''ٹفن سروس میرا کام ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس سے میرا گھر چلتا ہے اور بہت سے لوگوں کی دعائیں بھی ملتی ہیں۔ میں خود بھی تنہا رہتی ہوں اوراپنا بوجھ خود اٹھانے پر یقین رکھتی ہیں، اسی لیے محنت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی"
x
ان کے نزدیک لنچ بکس کی ترسیل کا کام سب سے زیادہ محنت طلب ہوتا ہے۔ "میں ان ڈبوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیےایک ٹرالی استعمال کرتی ہوں جس میں کم از کم 50 ڈبے ہوتے ہیں۔ آس پاس کے محلوں میں کھانے کے ڈبے پیدل ہی پہنچاتی ہوں لیکن دور دراز کا سفر بس سے کرتی ہوں "۔
شمع کے بقول اپنی بھاری بھرکم ٹرالی کو ہاتھوں سے گھسیٹتے ہوئے بس اسٹاپ تک جانا، پھر بس میں سوار ہونا اور ہر دو چار اسٹاپ کے بعد اسی وزنی ٹرالی کے ساتھ بس سے اترنا اور سوار ہونا ان کا روز کا معمول ہے جسے موسم کی شدت یا بیماری بھی متاثر نہیں کرتی ہے۔
شمع نے بتایا کہ ان کا کام یہیں ختم نہیں ہوتا۔ جب شام میں ڈبوں کی ترسیل سے فارغ ہو کر وہ گھر لوٹتی ہیں تو بھی ان کی ٹرالی اتنی ہی وزنی ہوتی ہے کیونکہ واپسی میں ٹرالی اگلے روز کا کھانے پکانے کے سامان سے بھری ہوتی ہے۔
اپنے کام کو اس قدر خوش اسلوبی سے انجام دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ، "میرے دن کا آغاز ہر روز صبح پانچ بجے ہوتا ہے پھر روز کا مینیو تیار کرتی ہوں جس میں روٹیاں، بریانی، سالن اور سبزی کے ساتھ میٹھا اور سلاد رائتہ شامل ہوتا ہے"۔
شمع نے بتایا کہ "ٹفن سروس زیادہ تر دوکانداروں اور اسٹالز لگانے والوں کے علاوہ پاکستانی طالب علموں اور ملازمت پیشہ خواتین میں پسند کی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ اس کے خریداروں میں ایسے بزرگ افراد بھی شامل ہیں جو خود پکا نہیں سکتے ہیں۔ یہاں گھر کے کھانے کی بہت مانگ ہے۔ لوگ اپنی صحت کے حوالے سے بھی گھر کا سادہ کھانا کھانا پسند کرتے ہیں"۔
شمع نے ٹفن سروس کے کاروبار میں آنے کے حوالے سے 'وی او اے' سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ پردیس میں کمانے کی غرض سے آتے ہیں اور پیچھے آپ کا پورا خاندان آپ سے امیدیں باندھ لیتا ہےتو پھر یہ ذمہ داری دگنی ہو جاتی ہے۔ اس راہ پر قدم رکھنے کے بعد بہت سی قربانیاں دینی ہوتی ہیں میری بھی بس اتنی ہی کہانی ہے"۔
''چودہ سال کی عمر میں جہلم سے برطانیہ اپنے رشتہ داروں کے پاس آئی تھی۔ اس وقت خود کو سنبھالنے اور گھر چلانے کے لیے ایک نوکری درکار تھی۔ سو ابتدا میں ایک روٹی فیکٹری میں کام کیا اور پھر دوکانوں، اسٹالوں پربھی کام کیا۔ ان سبھی کاموں میں محنت بہت زیادہ لی جاتی ہے لیکن معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔ مجھے صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک اسٹال لگانے اور سمیٹنےکے 20 پونڈز ادا کئے جاتے تھے"۔
"اتنی محنت کے باوجود مجھے منزل دور دکھائی دے رہی تھی اس کے بعد میں نے بازار میں اپنی ایک چھوٹی سی دوکان بھی کھولی جہاں میں سموسے، پکوڑے اور بہت سے پکوان بیچتی تھی لیکن تنہا ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصے تک دوکان نہیں چلا سکی۔ بس یہیں سے گھر سے کھانا پکانے اور بازاروں میں پہنچانے کا خیال ذہن میں آیا"۔
"اب اگرچہ میں اپنی بیشتر ذمہ داریاں پوری کر چکی ہوں والدین بھی حیات نہیں رہے ہیں لیکن پردیس میں کسی ہم وطن تنہا لڑکی کی مدد کے لیے میرے گھر کے دروازے کھلے ہیں یہ میرے رشتہ داروں کا مجھ پر وہ قرض ہے جسے میں کسی اور کی مدد کرکے ادا کرنا چاہتی ہوں"۔