روشن صبح

جاسمن

لائبریرین
غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور فحش مواد سے پاک سرچ انجن ’’حلال گوگلنگ‘‘ متعارف
ویب ڈیسک اتوار 7 جولائ 2013
147187-HalalGoogling-1373201753-916-640x480.jpg

’’حلال گوگلنگ‘‘ ایسے تطہیری نظام سے منسلک ہے جس سےغیراسلامی اور فحش مواد خود بخود ہی صارف کی اسکرین پر نہیں آئے گا۔ فوٹو: پبلسٹی
انٹرنیٹ پر غیراخلاقی، غیر اسلامی اور فحش مواد سے پاک سرچ انجن ’’حلال گوگلنگ‘‘ متعارف کرایا گیا ہے۔
حلال گوگلنگ نامی سرچ انجن سرچنگ کے نتائج تو ”گوگل“ اور ”بنگ“ جیسے مشہور سرچ انجنوں سے ہی حاصل کرتا ہے لیکن یہ ایسے خود کار تطہیری نظام کے تحت کام کرتا ہے جو غیراسلامی، غیر اخلاقی اور فحش مواد کو صارف کی اسکرین تک نہیں پہنچنے دیتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حلال گوگلنگ میں صارفین کو یہ سہولت بھی فراہم کی گئی ہے کہ اگر سرچنگ کے دوران ان کی اسکرین پر کوئی ایسا مواد نظر آتا ہے جو کہ حرام یا غیر اسلامی ہے تو وہ ہلال گوگلنگ کو ای میل کے ذریعے اسے ہٹانے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تمام سرچ انجنوں سے ہر قسم کا مواد صارفین کی پہنچ میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں بسنے والے ڈیرھ ارب مسلمان اپنے بچوں کو غیراخلاقی مواد سے بچانے کے لیے متبادل نظام کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ حلال گوگلنگ کی ٹیم کے مطابق اس سرچ انجن کی یہ خوبی ہے کہ یہ دیگر سرچ انجنوں سے کسی بھی متعلقہ موضوع سے متعلق فلٹر کرکے مواد صارف کو فراہم کرتا ہے۔

http://www.express.pk/story/147187/
 

arifkarim

معطل
غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور فحش مواد سے پاک سرچ انجن ’’حلال گوگلنگ‘‘ متعارف
ویب ڈیسک اتوار 7 جولائ 2013
147187-HalalGoogling-1373201753-916-640x480.jpg

’’حلال گوگلنگ‘‘ ایسے تطہیری نظام سے منسلک ہے جس سےغیراسلامی اور فحش مواد خود بخود ہی صارف کی اسکرین پر نہیں آئے گا۔ فوٹو: پبلسٹی
انٹرنیٹ پر غیراخلاقی، غیر اسلامی اور فحش مواد سے پاک سرچ انجن ’’حلال گوگلنگ‘‘ متعارف کرایا گیا ہے۔
حلال گوگلنگ نامی سرچ انجن سرچنگ کے نتائج تو ”گوگل“ اور ”بنگ“ جیسے مشہور سرچ انجنوں سے ہی حاصل کرتا ہے لیکن یہ ایسے خود کار تطہیری نظام کے تحت کام کرتا ہے جو غیراسلامی، غیر اخلاقی اور فحش مواد کو صارف کی اسکرین تک نہیں پہنچنے دیتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حلال گوگلنگ میں صارفین کو یہ سہولت بھی فراہم کی گئی ہے کہ اگر سرچنگ کے دوران ان کی اسکرین پر کوئی ایسا مواد نظر آتا ہے جو کہ حرام یا غیر اسلامی ہے تو وہ ہلال گوگلنگ کو ای میل کے ذریعے اسے ہٹانے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تمام سرچ انجنوں سے ہر قسم کا مواد صارفین کی پہنچ میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں بسنے والے ڈیرھ ارب مسلمان اپنے بچوں کو غیراخلاقی مواد سے بچانے کے لیے متبادل نظام کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ حلال گوگلنگ کی ٹیم کے مطابق اس سرچ انجن کی یہ خوبی ہے کہ یہ دیگر سرچ انجنوں سے کسی بھی متعلقہ موضوع سے متعلق فلٹر کرکے مواد صارف کو فراہم کرتا ہے۔

http://www.express.pk/story/147187/

میرے ویب براؤزر میں ریٹنگ کے بٹن کام نہیں کرتے اسلئے اس خبر پر:
:D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D

امید ہے یہ "حلال" سرچ انجن مختلف فرقوں ، مسلکوں، جماعتوں کے عقائد سے پاک "اسلامی" رزلٹ دیتا ہوگا :)
 

arifkarim

معطل
میرے ویب براؤزر میں ریٹنگ کے بٹن کام نہیں کرتے اسلئے اس خبر پر:
:D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D

امید ہے یہ "حلال" سرچ انجن مختلف فرقوں ، مسلکوں، جماعتوں کے عقائد سے پاک "اسلامی" رزلٹ دیتا ہوگا :)

میرا شک یقین میں بدل گیا۔ ابھی اس حلال گوگل پر قادیانیوں سے متعلق کچھ سرچ کی ہے اور دلچسپ طور پر ان کی آفیشل ویب سائٹ https://www.alislam.org/ وہاں مکمل بلاک ہے :D
لو ہو گئی قربانی :)
 

ملائکہ

محفلین
”سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے۔“
پاکستان کے افق کا ایک تابندہ ستارہ
ایک عہد ساز شخصیت کے احوال زندگی -ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی

حکیم محمد سعید واقعتاً ایک انعام تھے۔ وہ انعام کے طور پر ملے اور سزا کے طور پر واپس لے لئے گئے۔ جب وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان پہنچے تو ان کے پاس دام و درہم نام کی کوئی شے نہ تھی اور جب شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے تو کروڑوں نہیں اربوں کے مالک بن چکے تھے۔ مال و دولت ‘ مرتبہ ‘ جائیداد --- لیکن وہ اپنے ساتھ کچھ بھی لے کے نہ گئے۔ دمِ رخصت اپنی تمام دولت ایک ٹرسٹ کی صورت میں غریبوں کیلئے وقف کر گئے۔ صرف یہ کہا کہ میں نے اس مٹی سے جو کچھ کمایا اس پہ اسی مٹی کا حق ہے۔ ایک دانا شخص نے کہا حکیم محمد سعید طبیب نہیں حکیم تھے۔ طبیب وہ ہوتا ہے جسے طب میں کما ل حاصل ہو۔ حکیم وہ ہوتا ہے جو طب کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی یدِ طولیٰ رکھتا ہو۔ فہم و فراست کا پیکر، دانشمندی کا مظہر۔ حکیم سعید دیدہ ور تھے۔ حُسنِ نظر سے مزین۔ وہ ادیب بھی تھے اور مقرر بھی۔ بولتے تو پھول جھڑتے اور لکھتے تو چمن کھلا دیتے۔ لہجے میں گداز اور لفظوں میں خوشبو۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں تقریریں کیں اور بیسیوں کتابیں لکھیں۔ انکی تقریریں بھی کما ل‘ انکی تحریریں بھی کمال۔ اخلاص انکی عادت تھی اور انکسار ان کا وطیرہ۔ وہ ایک عظیم منتظم بھی تھے۔ ہمدرد کے نام سے ملک بھر میں پھیلا ہُوا کاروباری ادارہ انکی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہ بات معجزہ نہیں کہ ایک شخص نے طب اور مشروبات کو بھی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بنا دیا۔ حکیم سعید نے طب کا علم اس وقت اٹھایا جب لوگ اس سے منہ موڑ رہے تھے۔ بڑا آدمی وہ نہیں جو خود عظمت سے ہمکنار ہو۔ بڑا آدمی تو وہ ہے جو نئے راستوں کا تعین کر لے اور پھر لوگ ان راستوں کو اپنی منزل بنا لیں۔ حکیم سعید نے ہمدرد پاکستان کی صورت میں ایک راستے کا تعین کیا اور پھر بہت سے لوگ اس راستے پر چلنے لگے۔ حکیم سعید نے دنیا بھر کی سیر کی اور کئی ایک سفرنامے بھی لکھے۔کچھ منتخب تحریریں، زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب۔ یہ ایسا ادب ہے جو قلب و جاں کو راحت بھی دیتا ہے اور ایک کسک بھی بیدار کرتا ہے۔ یہ کسک جستجو سے عبارت ہے۔ تبدیلی کی طرف آمادہ کرتی ہے، کسی بڑے آدرش سے جوڑتی ہے، ذات سے بلند کرکے انسانیت کی طرف لے جاتی ہے۔ حکیم سعید نے اپنی زندگی میں عوامی اور سیاسی عہدے بھی قبول کئے۔ جب گورنر بنے تو تنخواہ ‘ گاڑی اور دیگر مراعات لینے سے انکار کر دیا۔ کوئی ہے جو ایثار کی یہ مثال قائم کر سکے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو صدر یا سپیکر بن کر قومی دولت سے مستفید ہوتے ہیں اور پھر تاحیات انہی مراعات کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ اس عظیم شخص کی یاد میں ہونے والی اس خوبصورت تقریب میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ محترمہ ذکیہ شاہنواز ‘ جسٹس نذیر احمد غازی‘ ابصار عبدالعلی، حکیم سعید کی نواسی، مشہور قانون دان ایس ایم ظفر اس تقریب کے منتظم تھے۔ انہوں نے بے حد خوبصورت باتیں کیں رُلا دینے والی۔ ان باتوں کے دوران انہوں نے یہ سوال بھی پوچھا کہ ”کیا کوئی قوم حکیم سعید کو بھی شہید کر سکتی ہے۔“ کچھ لوگوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی --- ”جب حرص اور طمع کے اندھیرے پھیلنے لگیں‘ جب تعصب اور جہالت وطیرہ بن جائیں‘ جب شرافت اور اقدار منہ موڑ لیں‘ جب کم ظرف کرسی¿ اقتدار کی طرف دیکھنے لگیں‘ جب سیاست اور خدمت کاروبار بن جائیں تو قدرت اپنا انعام واپس لے لیتی ہے۔ اس گھٹی ہوئی فضا میں حکیم سعید زندہ نہیں رہتے شہید ہو جاتے ہیں۔“ کچھ مقررین نے بہت سی ایسی باتیں کیں جن پر لوگوں کی آنکھیں بھیگنے لگیں لیکن آنسو اظہارِ ندامت ہیں، جرم کا مداوا نہیں۔ حکیم سعید کا خون ہمارے قومی ضمیر پر بدنما داغ ہے۔ اس خون سے ہماری بزدلی اور بے حسی کی بُو آتی ہے۔ اُٹھو اے اہلِِ پاکستان اُٹھو --- نفرت اور تشدد‘ حرص اور طمع، تعصب اور جہالت، ان کا خاتمہ کرو۔ وطن کی مٹی سے یہ سوال نہ پوچھو کہ اس نے تمہیں کیا دیا، اپنے آپ سے یہ سوال پوچھو کہ تم نے اس مٹی کو کیا دیا۔ تقسیم اور تخریب یا ایثار اور قربانی، محبت اور بھائی چارہ --- ”بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“حکیم محمد سعید ہر روز جنم نہیں لیتے۔ انہوں نے جو کمایا وہ وطنِ عزیز کو لوٹا دیا، دولت ہی نہیں زندگی بھی دے دی شاید اس لئے کہ کچھ اور لوگوں کو زندگی مل سکے۔ اے اہلِ وطن! تم بھی تو کچھ دو کہ جو دیتا ہے وہی بقا سے ہمکنار ہوتا ہے۔ حکیم سعید کی شہادت پر بہت سی آنکھیں اشکبار ہوئیں لیکن ان کے بھائی حکیم عبدالحمید نے دلی سے جو پیغام بھیجا وہ امر ہو گیا۔ انہوں نے لکھا ”سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے۔“ یہ فقرہ صرف حکیم سعید کا مرثیہ نہیں پوری قوم کا مرثیہ ہے۔ وہ ایک خوبصورت شام تھی۔
:-( حکیم سعید کی قبر پر جانے کا اتفاق ہوا مجھے ، میں نے بچپن سے ہمدرد کی کہانیاں پڑھی اور حکیم سعید کی ایک 12 جلدوں کی ڈائری تھی جو کتابی صورت میں چھاپی گئی تھی بچوں کے لئے وہ میں نے بچپن میں پڑھی ہے ایسا لگتا ہے جیسے حکیم سعید میرے استاد ہوں انکی کتابیں پڑھ پر بہت کچھ سیکھا اللہ انھیں جنت نصیب کرے :-( انکے بھائی کا جملہ واقعی سچ ہے ۔۔۔
 
میرے ویب براؤزر میں ریٹنگ کے بٹن کام نہیں کرتے اسلئے اس خبر پر:
:D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D :D

امید ہے یہ "حلال" سرچ انجن مختلف فرقوں ، مسلکوں، جماعتوں کے عقائد سے پاک "اسلامی" رزلٹ دیتا ہوگا :)
چھوڑیں آپ کیوں ٹینشن لے رہے ہیں، یہ بچوں کو غیر اخلاقی اور غیر ضروری مواد سے بچانے کی ایک کوشش ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور فحش مواد سے پاک سرچ انجن ’’حلال گوگلنگ‘‘ متعارف
ویب ڈیسک اتوار 7 جولائ 2013
147187-HalalGoogling-1373201753-916-640x480.jpg

’’حلال گوگلنگ‘‘ ایسے تطہیری نظام سے منسلک ہے جس سےغیراسلامی اور فحش مواد خود بخود ہی صارف کی اسکرین پر نہیں آئے گا۔ فوٹو: پبلسٹی
انٹرنیٹ پر غیراخلاقی، غیر اسلامی اور فحش مواد سے پاک سرچ انجن ’’حلال گوگلنگ‘‘ متعارف کرایا گیا ہے۔
حلال گوگلنگ نامی سرچ انجن سرچنگ کے نتائج تو ”گوگل“ اور ”بنگ“ جیسے مشہور سرچ انجنوں سے ہی حاصل کرتا ہے لیکن یہ ایسے خود کار تطہیری نظام کے تحت کام کرتا ہے جو غیراسلامی، غیر اخلاقی اور فحش مواد کو صارف کی اسکرین تک نہیں پہنچنے دیتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حلال گوگلنگ میں صارفین کو یہ سہولت بھی فراہم کی گئی ہے کہ اگر سرچنگ کے دوران ان کی اسکرین پر کوئی ایسا مواد نظر آتا ہے جو کہ حرام یا غیر اسلامی ہے تو وہ ہلال گوگلنگ کو ای میل کے ذریعے اسے ہٹانے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تمام سرچ انجنوں سے ہر قسم کا مواد صارفین کی پہنچ میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں بسنے والے ڈیرھ ارب مسلمان اپنے بچوں کو غیراخلاقی مواد سے بچانے کے لیے متبادل نظام کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ حلال گوگلنگ کی ٹیم کے مطابق اس سرچ انجن کی یہ خوبی ہے کہ یہ دیگر سرچ انجنوں سے کسی بھی متعلقہ موضوع سے متعلق فلٹر کرکے مواد صارف کو فراہم کرتا ہے۔

http://www.express.pk/story/147187/
یہی کام تو آپ فلٹر کی درست سیٹنگز سے کر سکتے ہیں۔ لازمی اس کے لئے نیا سرچ انجن بنایا جائے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
چلیں ایجاد تو بہرحال ہوئی ہے۔ نئے سرے سے ہی سہی :)
میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک چیز کو نئے سرے ایجاد کیا جائے تو ایک تو آپ کے ریسورسز ضائع ہو رہے ہیں، دوسرا ترقی کے عمل کو آپ پہلی سیڑھی سے شروع کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس پہیئے کی موجودہ شکل کو ترقی دیں تو اس میں آپ کا اور دیگر لوگوں کا بھی فائدہ ہے۔ ورنہ ایک ہی چیز کو بار بار ایجاد کیا کرنا؟
مثلاً ایک اینٹی بائیوٹک 1950 میں دریافت ہوئی، 1970 کی دہائی میں اکثریت بکٹیریا اس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب وہ دوا موجود تو ہے لیکن کسی کام نہیں۔ اب 2014 میں میں اسے دنیا کی پہلی حلال اینٹی بائیوٹک کے نام سے ایجاد یا متعارف کراؤں تو کیا یہ وقت کا ضیاع نہیں ہے؟ اسی طرح حلال دوربین کی ایجاد ہو، حلال موٹر سائیکل ایجاد کی جائے، حلال ہوائی جہاز یا راکٹ تیار ہو، اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ اسی طرح یہ حلال گوگلنگ کس کام کی؟ آپ یہی کام بہت اچھے طریقے سے اپنی فلٹر سیٹنگ سے کر سکتے ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
بھارت: تامل فلموں کی معروف ہیروئن مونیکا نے اسلام قبول کرلیا
02 جون 2014
news-1401672383-6323.jpg

کراچی (نیٹ نیوز) بھارتی ریاست تامل کی معروف فلمی ہیروئن مونیکا نے اسلام قبول کرلیا۔26 سالہ ادکارہ نے اپنا اسلامی نام ایم جی رحیما رکھا ہے۔ بھارتی اخبار’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے لکھا کہ موسیقار اے آر رحمان اور یووان شنکر راجا کے بعد مونیکا بھی اس کاررواں میں شامل ہوگئی جنہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ مونیکا کے والدین کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔مونیکا کا کہنا ہے کہ وہ قبول اسلام کے بعد اب فلم نگری کو خیر باد کہہ دیں گی اور آئندہ کبھی اداکاری نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسلام کے متعلق 2010ء سے پڑھنا شروع کیا اور میں دیگر لوگوں کی طرح یہی سمجھتی تھی کہ اسلام انتہا پسندی کا مذہب ہے لیکن اسلام تو امن کا مذہب ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی شادی کے متعلق بھی میڈیا کو جلد آگاہ کروں گی جو میرے والدین کی مرضی سے ہوگی۔ حوصلہ افزائی کرنے پر انہوں نے اپنے والد کا شکریہ ادا کیا۔این این آئی کے مطابق پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا میرے دائرہ اسلام میں آنے کی وجہ پیسہ یا پیار و محبت نہیں بلکہ اسلامی اصول ہیں جنہوں نے مجھے اسلام کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے کہا میں نام تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھی تاہم ایم جی رحیما رکھا۔ ایم سے ان کے والد ماروٹھی راج اور جی سے ان کی والدہ گریسی مراد ہے۔ انہوں نے اسلامی عبایا میں بنائی گئی اپنی تصویر بھی میڈیا کو جاری کی ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/02-Jun-2014/306493
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خوبصورت عنوان اور دھاگہ! ابھی تمام صفحات نہیں پڑھے لیکن بہت اچھی تحاریر ملیں جتنی ابھی تک پڑھی ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
استنبول :’’ بھارت کشمیریوں کو حق خودارادیت دے‘‘ عالمی کانفرنس میں عبدالرشید ترابی کی قرارداد متفقہ منظور
02 جون2014
news-1401671548-3422.jpg

استنبول (این این آئی) جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے امیر، کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے کنوینئر عبدالرشید ترابی نے ترکی کے دارالحکومت استنبول میںایسام کے زیراہتمام منعقدہ عالمی کانفرنس میںمسئلہ کشمیر کے حوالے سے قراردادپیش کی جو متفقہ طورپر منظور کر لی گئی۔ جماعت اسلامی آزاد جموںوکشمیرکے ترجمان راجہ ذاکرخان کی رپورٹ کے مطابق عالمی کانفرنس میں اسلامی تحریکوں کے سربراہان ،اسلامی ممالک کی حکومتوں کے اہم پوزیشن ہولڈرز،سکالرز،سفارت کار صحافی، انسانی حقوق کی تنظیمات کے سربراہان شامل ہیں۔ 75ممالک کے 200مندوبین نے کشمیرپر قرارداد منظور کی اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں بدترین ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بند کرے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا بنیادی اور پیدائشی حق حق خودارادیت فراہم کرے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ او آئی سی اقوام متحدہ او ر عرب لیگ بھارت پر دبائو بڑھائیںتاکہ بھارت نے جو پوری دنیا کے سامنے کشمیریوںسے ان کا حق دینے کا عہد کیا تھا وہ پورا کرے۔ قرارد اد میں لکھا گیا ہے کہ عالمی امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے اسے حل کئے بغیر دنیا میںامن قائم نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ کشمیرامت کا دیرینہ مسئلہ ہے اور پورے امت کشمیریوںکے بنیادی حق کی حمایت کرتی ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/02-Jun-2014/306429
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستانی نوجوان سعودی عرب کی کرکٹ ٹیم میں شامل
02 جون 2014
نارووال( این این آئی ) سعودیہ میں مقیم نارووال کا نوجوان کرکٹر سعودی عرب کی قومی ٹیم میں شامل ہو گیا، اہلیان علاقہ میں خوشی کی لہر دوڑگئی ‘ رانا محمد ندیم جاوید جو سعودی عرب میں مقیم ہیں کوسعودی عرب کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے اور وہ سعودی ٹیم کے ہمراہ پانچ روزہ دورہ پرکراچی میں پریکٹس میچ کھیلیں گے۔ بعدازاںکراچی سے سعودی کرکٹ ٹیم سنگا پور کے 10روزہ دورہ پر4جون کو روانہ ہو گی جہاں پر مختلف ملکوں کی ٹیموں سے میچز کھیلے جائیں گے ۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/sports/02-Jun-2014/306575
 

ماہی احمد

لائبریرین
:-( حکیم سعید کی قبر پر جانے کا اتفاق ہوا مجھے ، میں نے بچپن سے ہمدرد کی کہانیاں پڑھی اور حکیم سعید کی ایک 12 جلدوں کی ڈائری تھی جو کتابی صورت میں چھاپی گئی تھی بچوں کے لئے وہ میں نے بچپن میں پڑھی ہے ایسا لگتا ہے جیسے حکیم سعید میرے استاد ہوں انکی کتابیں پڑھ پر بہت کچھ سیکھا اللہ انھیں جنت نصیب کرے :-( انکے بھائی کا جملہ واقعی سچ ہے ۔۔۔
ڈائری کس نام سے چھاپی گئی ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
حکیم محمد سعید
سہیل یوسف سہیل یوسف 16 اکتوبر, 2012

حکیم محمد سعید۔ تصویر بشکریہ ہمدرد فاونڈیش
یہ سترہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔
اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اُگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔
پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے نو جنوری انیس سو بیس کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔
لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تھا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کیساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
پھر یوں ہوا کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔
پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔
تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو سعید نے تمام کاروبار، عیش وآرام اور دولت چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیااور نو جنوری انیس سو اڑتالیس کو کراچی آگئے۔
شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لئے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔
پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔
گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔
محترمہ فاطمہ جناح نے چودہ اگست انیس سو اٹھاون میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔
انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں ۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ہی حکیم محمد سعید کے دل میں علم و حکمت کے فروغ کی تڑپ بڑھتی رہی اوروہ جنون میں بدل گئی-
کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔
بزمِ ہمدرد نونہال، ہمدر د شوریٰ، شامِ ہمدرد اور ہمدرد نونہال اسمبلی جیسے ماہانہ پروگراموں میں ممتاز عالموں ، علمائے سائنس ، ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کرکے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے فکری نظریات کو عام آدمی تک بھی پہنچایا۔
حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لاتعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا ۔ وہ ہرسال دنیا بھر میں تقریباً دس ہزار افراد کو عیدین اورنئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان،ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔
ممتاز قلمکار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔
میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔
حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔
http://urdu.dawn.com/news/27299/hakim-saeed
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستان میری ٹائم میوزیم
حفیظ خٹک

پیر, 05 مئی 2014

شہر قائد کی سب سے اہم اور مصروف ترین شاہراہ فیصل پر واقع کارساز سے اسٹیڈیم جانے کیلئے اوور ہیڈ برج تعمیرہے۔جس پر سے گذرتے ہوئے اسٹیڈیم جایا جاتا ہے۔اس سڑک کو پیرپگارا روڈ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہاں پر حروں کے روحانی پیشوا اور معروف سیاستدان پیر پگارا کی رہائشگاہ ہے۔انکی رہائش کے دوسری جانب جدید NuST یونیورسٹی ہے۔اس یونیورسٹی کے ساتھ ہی معروف ارینہ کلب اور بحریہ لایبرئری کی پر وقار عمارت ہے ۔اس کے ساتھ ملک کا ہی نہیں دنیا کے چند بڑے اور حوبصورت پارکوں میں شمار ہونے والاپاکستان میری ٹائم یابحریہ میوزیم واقع ہے۔

اس میوزیم اور اس سے متصل عمارتوں کی تعمیر سے قبل کارساز سے اسیٹیڈیم تک کا سارا علاقہ جنگل تھا ۔میوزیم کی تعمیر تیزی سے ہوئی ۔اس کی تعمیر میں اس کی حوبصورتی اور اس کی تزئین و آرائش اس طرح کی گئی کہ جس میں بحری فوج جھلک نمایا ں نظر آتی ہے۔افتتاح کے بعد سے آج تک یہ میوزیم آباد ہی رہا ہے۔کراچی کے حالا ت کی بے یقینی ، اور امن و امان کی ابتر صورتحال سے شہر قائد ہی نہیںپورے ملک کے شہری متاثر ہوتے ہیں ۔لہذا جب کبھی شہر میں حالات خراب ہوتے ہیں تو میوزیم بھی سائیں سائیں کر رہا ہوتا ہے۔لیکن جونہی امن قائم ہوتا ہے عوام کا جم غفیر اس میوزیم کی جانب امڈ آتا ہے۔میوزیم کے پاس گاڑیوں کی پار کنگ کیلئے وسیع
Dolphins-Show-IN-Karachi.jpg
و عریض جگہ رکھی گئی ہے جو کہ باقاعدہ چار جڈ ہوتی ہے۔میوزیم میں داخلے کیلئے ٹکٹ رکھا گیا ہے ۔ جس کی قیمت میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔بچوں کا داخلہ البتہ مفت ہے۔

داخلی دروازے پر پاک بحریہ کے جوان اپنے مضبوط اجسام پر خوبصورت وردی سجائے مسکراتے چہروں کے ساتھ آنے والوں کا استقبال کرتے ہیں۔داخلی دروازے سے داخل ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی سبز ملک یا جزیرے میں آگئے ہوں۔ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ، گھاس ، سلیقے سے کٹی ہوئی جھاڑیاں اور پودے ، بحریہ کا جہاز، آبدوز ، دیگر جنگی ساز و سامان کے ماڈل آنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں۔جگہ جگہ رکھی گئیں اشیاءکے متعلق تفصیلات کتبوں پر درج کی گئی ہیں۔آبدوز کی اندورنی ساخت اور بحری جہاز سے متعلق معلومات فراہم کرنے کیلئے وہاں بحریہ کا عملہ موجود ہوتا ہے جو کہ نہایت خندہ پیشانی سے آنے والے مہمانوں کو مکمل معلومات فراہم کرتا ہے۔پانی میں تیرتی مچھلیاں ، اور جھیل پر بنائے گئے خوبصورت پل پر سبھی اپنی تصاویر کھنچوانا نہایت ضروری سجمتھے ہیں۔جھیل کے اطراف میں رکھی گئی بینچوں پر بیٹھ کرلوگ جھیل کے پانی ، اس میں موجود مچھلیوں ، اور دیگر مناظر کا نظارہ کرتے ہیں ۔سورج ڈھلنے کا منظر تو نہایت دلفریب ہوتا ہے۔

اشیائے خوردو نوش کیلئے بنائے گئے مختلف اسٹالز،اور ریسٹورنٹ، پر بھی ماحول کی طرح نظم و ضبط کا اثر نمایاں
Pakistan-Maritime-Museum-in-Karachi.jpg
نظر آتا ہے۔ صاف ستھرکھانے کی فراہمی کے ساتھ مستعد عملہ اپنے مہمانوں کی تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔میوزیم ویسے تو شہر قائد کے باسیوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہی تھا ہی تاہم انتظامیہ نے ڈولفن شو کیلئے الگ جگہ محتص کر کے شو کے اسٹیڈیم کی تعمیر جلد کردی جس کے بعد میوزیم کی شہرت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ ڈولفن شو کو دیکھے بغیر میوزیم کا دورہ مکمل ہی نہیں ہوتا ہے۔یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مذکورہ دولفن شو ملک کا پہلا مرکز ہے کہ جہاں ڈولفن شو کا اہتما م کیا گیا ہے۔شہر کے تمام اضلاع سے اسکولوں ، کالجوں ،اور یونیوسٹی کے طلبہ و طالبات سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جوق در جوق ڈولفن شو دیکھنے آتے ہیں۔مذکورہ شو میں تین اقسام کی مچھلیاں ہیں جنہیں ایک مصری اور ایک روسی خاتون نے انتھک محنت کر کے عوام کے سامنے کرتب دکھانے اور عوام کے دل جیتنے کا قابل بنا یا ہے۔شو کو اوقات قار مختلف رکھے گئے ہیں ۔جبکہ اس شو کی انتری فیس جو کہ ۰۵۳ سے ۰۵۵ روپے رکھی گئی ہے۔شرکا ءشو میں سے اگر کوئی مچھلیوں کے ساتھ تصاویر بنوانا چاہتے ہون تو اس کا بھی الگ سے انتظام کیا گیا ہے۔

شو کے اختتام پر قومی ترانہ شرکا ءکے دلوں کو گرما دیتا ہے۔ترانے کے اختتام پر نعرے اور اس وقت کا ماحول دیدنی ہوتا ہے۔قومی ترانہ اور اس کے بعد کا ماحول شرکاءکو اپنے ملک اور ملت کیلئے ان میں کچھ کر گذرنے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ شہر قائد میں یہ میوزیم دیگر نامور تفریح گاہوں کی طرح ایک معروف حیثیتاحتیار کر گئی ہے۔میوزیم سے جہاں ملک کے اندر شہر قائد کا نام مزید اونچا ہوتا ہے وہان پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد کے باعث دنیا میں بھی کراچی کا اور پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر ہوتا ہے۔
http://www.karachiupdates.com/rehnuma-e-karachi/156-karachi-ki-tafreh-gahee/26891-hafez-khtak.html
 

جاسمن

لائبریرین
امن ٹیک کے فائنل پراجیکٹس کی نمائش
(عبدالولی خان)
ہفتہ, 31 مئی 2014
IMG_20140529_154918.jpg
امن فاﺅنڈیشن کے نوجوانوں کو فنی تربیت فراہم کرنے والے ادارے امن ٹیک کی جانب سے کورس مکمل کرنے والے کامیاب طلباءکے فائنل پراجیکٹس کی نمائش کا انعقا د کیا گیا جس میں انہوںنے اپنے کورس کے دوران حاصل کی گئی مہارت اور علم کا مظاہرہ کیا۔ نمائش میں تمام ٹریڈ کے طلبا ء نےاپنے پراجیکٹس رکھے تھے اور وہ ان کے بارے میں بریفنگ بھی دے رہے تھے۔ ان کے پراجیکٹس میں ورکنگ ماڈلز، کٹ ویز، ماڈل فرنیچر، پیٹنگز ، اسکیچز، آٹو موبائل، الیکٹریکل، مکینیکل اور ویلڈنگ شامل تھے، نمائش بدھ تا جمعہ جاری رہی۔

IMG_20140529_160042.jpg
جنرل الیکٹرک کے ایک گروپ نے ریلوے کنٹرول سرکٹ ڈیزائن کیا جس کی مدد سے ریلوے ٹریک پار کرنے والے افراد کے لئے آٹو میٹک سگنل کا ماڈل تیار کیا گیا تھا اس گروپ مین شاہ محمد فہد، محد شیراز ،محمد زاہد،جنید اور دیگر طلباءشامل تھے ، ان طلباءنے اپنے انسٹرکٹر کی مدد سے ڈیجیٹل ایل ای ڈی کلاک بھی تیار کی تھی ان کا کہنا تھا کہ یہ ماڈل ہے جس کی وجہ سے مہنگی ہے اگر اس کو تجارتی بنیادوں پر تیار کیا جائے تو سستی تیار ہو جائے گی۔

جنرل الیکٹرک ٹریڈ کے ایک اور گروپ نے اپنے لیڈر امیر معاویہ کی قیادت میں آٹو میٹک اسٹریٹ لائٹ سسٹم کا ماڈل تیار کیا تھا جس کی بریفنگ دیتے ہوئے
IMG_20140529_160802.jpg
معاویہ نے بتایا کہ ملک میں بجلی کا بحران ہے تو ہمارا یہ پراجیکٹ بجلی کی بچت میں معاون ثابت ہو سکتا ہے کہ جب سورج ہو تو سینسر کی مدد سے اسٹریٹ لائٹ آف ہو جائیں اور جب اندھیرا ہو تو خود بخود آن ہو جائیں۔

محمد مزمل نے آٹو میٹنک اسٹار ڈیلٹا موٹر اسٹارٹنگ بائی یوزنگ میگنیٹک کنٹرولر اور ٹائم ڈیلے کے پراجیکٹ میں بتایا کہ بعض اوقات ہمیں وولٹیج کو کنٹرول کرتے ہوئے آلات چلانا ہوتے ہیں یہ ماڈل اسی لئے تیار کیا ہے۔ ساتھ ہی موجود اسد علی، محتشم اور محمد کاشان نے تھری فیز موٹر کے کام کرنے کے طریقے اور سنگل فیز کے بارے میں بتایا۔
IMG_20140529_161253.jpg


دل مراد نے کٹ ویو آف شیل اینڈ ٹیوب ٹائپ کنڈنسر کے بارے بتایا کہ اس پراجیکٹ سے خصوصا شعبے کی مختصر معلومات رکھنے والوں کو فائدہ ہوگا وہ دیکھ سکیں گے یہ کام کیسے کرتا ہے۔

CADاورCAMکے طلباء نے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے ماڈل اور پارٹس کو تیار کروا کر رکھا ہوا تھا۔ شہیر خان اپنے تیار کئے گئے کار کے اسٹارٹنگ سسٹم کے ماڈل کے حوالے سے بریفنگ دے رہے ہیں۔ محمد حسین صدیقی آٹو موٹیو پارکنگ بریک کے ماڈل کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا۔
IMG_20140529_162010.jpg
وہیکل باڈی ٹائپس کے اسٹال پر طلباءکے ساتھ موجو د سینئر انسٹرکٹر آٹو موبائل تنویر حسن نے کہاکہ ہم یہاں طلباءکو ایسی ٹریننگ دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی ملک میں کام کریں تو ان کو پریشانی نہیں ہوگی ۔ انہوںنے بتایاکہ ہم ان کو گاڑیوںکو ٹائپس کے بارے میں بھی بتاتے ہیں عام آدمی کو ہر کار کو کار ہی سمجھتا ہے لیکن ہر گاڑی کے اصل نام ذرا مختلف ہوتے ہیں ۔
مجموعی طور پر طلباءکا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں حاصل کی گئی تربیت اور علم آگے زندگی میں بہت کام آئے گا، ان کہنا تھا کہ ہمیں کام میں کوئی عار نہیں خوا ہ
IMG_20140529_162248.jpg
پاکستان میں کریں یا بیرون ملک لیکن ہمارا کام ایک عام مکینک یا مستری سے مختلف ہوگا اور یہاں سے ملنے والے سرٹیفیکیٹ کی وجہ سے ہمیں پیشہ وارانہ سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اس موقع پر طلباءکی جانب سے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار پیٹنگز کی صورت میں بھی کیا ہوا تھا۔

۔http://www.karachiupdates.com/tanz-o-mazah.html
 
آخری تدوین:
Top