روشن صبح

جاسمن

لائبریرین
کراچی: طلبہ نے پلاسٹک کی بوتلوں سے کشتی بنالی
طال بعلموں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے تیار کی گئی اس کشتی کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔


کراچی کے نوجوان پلاسٹک بوتلوں سے بنائی ہوئی کشتی کو جھیل میں چلارہے ہیں
شائستہ جلیل
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 25.04.2014

کراچی — کبھی دیکھی ہے آپ نے ایسی کشتی؟ اگر نہیں تو اب دیکھ لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ کشتی کراچی کے نوجوانوں کی تخلیق ہے جنھوں نے پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلوں کو ضائع کرنے کے بجائے ان سے ایک کشتی بنا ڈالی ہے۔

کراچی کے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر بے کار اشیا کو کارآمد بنانے کیلئے ایک نئی سوچ کو 'تخلیق' میں بدل دیا ہے۔

نوجوانوں نے اس کشتی کو بنانے میں پلاسٹک کی 500 استعمال شدہ بوتلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ کشتی کی پیمائش سات فٹ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں دو افراد با آسانی بیٹھ سکتے ہیں۔

کراچی کی نجی یونیورسٹی کے آرٹس کے شعبے کے چار طالبعلموں نے مل کر اس کشتی کو بنایا ہے۔

نوجوان طالب علموں کے گروپ کی سربراہ طالبہ آمنہ نے 'وائس آف امریکہ' کی نمائندہ کو کشتی کے بارے میں بتایا کہ آرٹس کے طالبعلم ہونےکے ناتے بہت سی اشیا بنانے کےدوران کئی چیزوں کے ٹکڑوں کو ضایع کردیاجاتا تھا۔


نوجوانوں کی بنائی گئی اس کشتی میں دو افراد باآسانی بیٹھ سکتے ہیں

ان کے بقول اسی سبب انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان چیزوں کو ضائع کرنے کے بجائے استعمال میں لائیں یہی سوچ ہمیں ری -سائیکلنگ کی طرف لے آئی۔

یوں کئی آئیڈیاز سوچنے کےبعد ہم نے پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلوں سے کشتی بنانے کا سوچا۔

طالبعلموں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے کم خرچ میں تیار کی گئی اس کشتی کو ملک میں آنےوالے سیلاب اور بارشوں کے باعث طغیانی والے علاقوں میں استعمال کیاجاسکتا ہے ۔

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اگر انھیں بھرپور سپورٹ اور حوصلہ افزائی حاصل ہو تو ملک میں آنیوالے سانحات سے بخوبی نمٹاجاسکتا ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/kara...t-with-plastic-bottles-25apr2014/1901511.html
 

جاسمن

لائبریرین

دو پاکستانی طلبہ کے لیے کیمبرج کی اسکالر شپ
کیمبرج کی جانب سے سال 2014ء کی اسکالر شپس کیلئے پاکستان سے دو طلبہ کو چنا گیا ہے



06.05.2014

کراچی — برطانیہ کی معروف 'کیمبرج یونیورسٹی' نے دو پاکستانی طلبہ کو اعلیٰ تعلیمی کارکردگی پر اسکالر شپس سے نوازا ہے۔

کیمبرج کی جانب سے سال 2014ء کی اسکالر شپس کیلئے پاکستان سے دو طلبہ کو چنا گیا ہے جن میں رحیم یارخان کے 'ایف ایف سی گرامر اسکول' کے شاہزیب علی اور 'کراچی گرامر اسکول' کے فیض توفیق شامل ہیں۔

رحیم یار خان کے شاہزیب علی کو قدرتی سائنس میں مطالعے کیلئے 'سینٹ جان کالج' کے لیے جبکہ فیض توفیق کو حساب کے مضامین میں مطالعے کے لیے 'پیٹرہاوس کیمبریج' میں پڑھنے کے لیے اسکالر شپس دی گئی ہیں۔

شاہزیب علی کا کہنا ہے میری صلاحیتوں کے صلے میں کیمبرج کی جانب سے اسکالرشپس ملنا اعزاز کی بات ہے۔ جبکہ توفیق کا کہنا ہے کہ کیمبرج نے ریاضی مضامین میں پیش رفت کو ہمیشہ سب سے آگے رکھا ہے۔

اس اسکالرشپ کے تحت دونوں پاکستانی طلبہ کیمبرج یونیورسٹی میں انڈرگریجویٹ پروگرام کے تحت اپنی تعلیم مکمل کرینگے۔

'کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامینشن' کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ ہمیں خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ہم باصلاحیت طلبہ کو کیمبرج کی جانب سے اسکالرشپس دیتے ہیں۔ ان دونوں پاکستانی طلبہ کو بہترین گریڈز پر اس اسکالرشپس سے نوازا گیا ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/pakistani-students-get-cambridge-scholarship-06may2014/1909126.html
 

جاسمن

لائبریرین
کراچی کی ذہین طالبہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھے گی
انعم کہتی ہیں کہ " اعلی تعلیم حاصل کرنا میرا ایک خواب ہے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں داخلہ ملنے سے میرا یہ خواب حقیقت میں بدلنے جا رہاہے میں بہت خوش ہوں۔‘‘



شائستہ جلیل
18.06.2013

کراچی — کہتے ہیں کہ اگر انسان دل سے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے جستجو کرے تو اس میں کامیاب ضرور ہوتا ہے۔

ایسا ہی ہوا ہے کراچی کے پسماندہ علاقے اسماعیل گوٹھ میں رہنے والی انعم فاطمہ کے ساتھ، کراچی کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی امریکہ کی ہارورڈ یونییورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے جارہی ہے۔

ہاورڈ یونیورسٹی کا شمار امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے جہاں تعلیم حاصل کرنے کا خواب ہزاروں پاکستانی نوجوان دیکھتے ہیں۔

انعم فاطمہ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ان کے والد ایک ڈرائیور ہیں۔

والد کی معقول تنخواہ میں پڑھائی کے اخراجات اٹھانا انتہائی مشکل تھا



ایسے میں پاکستان میں تعلیم کے لیے کام کرنے والی ایک نجی تنظیم "دی سٹیزن فاونڈیشن" کے تعاون سے انعم نے پہلے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر پڑھائی کو جاری رکھتے ہوئے کراچی کے ایک سرکاری کالج میں کامرس کے مضامین میں 'ٹاپ' کیا۔

انعم کے تعلیم کے حاصل کرنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے نجی تنظیم سمیت والدین نے بھی ہمت افزائی کی، اسی تنظیم کے تعاون سے انعم نے بیرون ملک سے اسکالر شپ کے لیے اپلائی کیا اور یوں امریکہ کے تعاون سے پاکستانی نوجوانوں جے لیے اسکالر شپ پراجیکٹ کے تحت امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔

انعم نے بتایا کہ وہ کراچی میں ایم بی اے کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور رواں ہفتے ایک ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی جا رہی ہیں۔

اانعم کہتی ہیں کہ " اعلی تعلیم حاصل کرنا میرا ایک خواب ہے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں داخلہ ملنے سے میرا یہ خواب حقیقت میں بدلنے جا رہا ہے میں بہت خوش ہوں۔ وہاں جاکر امریکہ کو دیکھنے اور امریکی طالبعلموں کے ساتھ پڑھنے کا ایک موقع ملے گا"۔



انعم کا کہنا ہے کہ وہ جس علاقے میں رہتی ہیں وہاں بجلی کی سہولت میسر نہیں اور دوسرے علاقے میں پڑھنے جانے کے لیے انعم کو تین بسیں بدل کر جانا پڑتا ہے۔

یہی نہیں انعم فاطمہ خود تعلیم حاصل کرنےکے ساتھ ساتھ اپنے گوٹھ کی غریب لڑکیوں کو بھی مفت تعلیم دے رہی ہیں، انعم کی دیکھا دیکھی ان لڑکیوں میں بھی تعلیم کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔

انعم ان پسماندہ علاقے کی لڑکیوں کے لیے ایک مشعل راہ بنی ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ غریب گھرانوں سےتعلق رکھنے والی لڑکیوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ ہے، خواہ ان کے والدین کے پاس پڑھائی کے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں ہے مگر مفت تعلیم فراہم کی جائے تو یہ لڑکیاں بھی تعلیم کے میدان میں اہم کردار کرسکتی ہیں۔
http://www.urduvoa.com/content/girl...in-harvard-university-of-america/1683923.html

 

ماہی احمد

لائبریرین
کراچی: طلبہ نے پلاسٹک کی بوتلوں سے کشتی بنالی
طال بعلموں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے تیار کی گئی اس کشتی کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔


کراچی کے نوجوان پلاسٹک بوتلوں سے بنائی ہوئی کشتی کو جھیل میں چلارہے ہیں
شائستہ جلیل
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 25.04.2014

کراچی — کبھی دیکھی ہے آپ نے ایسی کشتی؟ اگر نہیں تو اب دیکھ لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ کشتی کراچی کے نوجوانوں کی تخلیق ہے جنھوں نے پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلوں کو ضائع کرنے کے بجائے ان سے ایک کشتی بنا ڈالی ہے۔

کراچی کے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر بے کار اشیا کو کارآمد بنانے کیلئے ایک نئی سوچ کو 'تخلیق' میں بدل دیا ہے۔

نوجوانوں نے اس کشتی کو بنانے میں پلاسٹک کی 500 استعمال شدہ بوتلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ کشتی کی پیمائش سات فٹ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں دو افراد با آسانی بیٹھ سکتے ہیں۔

کراچی کی نجی یونیورسٹی کے آرٹس کے شعبے کے چار طالبعلموں نے مل کر اس کشتی کو بنایا ہے۔

نوجوان طالب علموں کے گروپ کی سربراہ طالبہ آمنہ نے 'وائس آف امریکہ' کی نمائندہ کو کشتی کے بارے میں بتایا کہ آرٹس کے طالبعلم ہونےکے ناتے بہت سی اشیا بنانے کےدوران کئی چیزوں کے ٹکڑوں کو ضایع کردیاجاتا تھا۔


نوجوانوں کی بنائی گئی اس کشتی میں دو افراد باآسانی بیٹھ سکتے ہیں

ان کے بقول اسی سبب انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان چیزوں کو ضائع کرنے کے بجائے استعمال میں لائیں یہی سوچ ہمیں ری -سائیکلنگ کی طرف لے آئی۔

یوں کئی آئیڈیاز سوچنے کےبعد ہم نے پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلوں سے کشتی بنانے کا سوچا۔

طالبعلموں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے کم خرچ میں تیار کی گئی اس کشتی کو ملک میں آنےوالے سیلاب اور بارشوں کے باعث طغیانی والے علاقوں میں استعمال کیاجاسکتا ہے ۔

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اگر انھیں بھرپور سپورٹ اور حوصلہ افزائی حاصل ہو تو ملک میں آنیوالے سانحات سے بخوبی نمٹاجاسکتا ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/kara...t-with-plastic-bottles-25apr2014/1901511.html
ویری گڈ
 

جاسمن

لائبریرین
قطری بچے پڑھنے کا عالمی ریکارڈ بنانے کے لیے تیار
پانچ سے 10 سال کے ایک ہزار بچے عربی کی ریڈنگ کلاس میں ایک گھنٹے تک ہم آواز ہو کر سبق پڑھیں گے۔



22.04.2014

کراچی — خلیجی ریاست قطر کے بچوں نے ایک ساتھ مل کر کتاب پڑھنے کا عالمی ریکارڈ بنانے کی ٹھان لی ہے۔

قطر میں مختلف اسکولوں کے ایک ہزار سےزائد بچے ایک ساتھ کتاب پڑھ کر عالمی ریکارڈ قائم کریں گے۔

قطر کی 'سپریم ایجوکیشنل کونسل' کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پانچ سے 10 سال کے ایک ہزار بچے عربی کی ریڈنگ کلاس میں ایک گھنٹے تک ہم آواز ہو کر سبق پڑھیں گے۔

اس دوران انھیں بچوں کی 'ال غداب' یعنی غصے کے سبق والی کتاب پڑھائی جائےگی۔ جبکہ اس دوران عالمی ریکارڈ کا انتظام کرنے والی تنظیم 'گنیز بک' کے افسران بھی موجود ہوں گے۔

'دوحا نیوز' کے مطابق اس ریکارڈ کو قائم کرنے کے لیے قطر کے نیشنل کنونشن سینٹر میں کتاب کے عالمی دن پر ایک تقریب منعقد کی جائے گی۔ یہ پروگرام قطر میں 'مکتبہ قطرند' نامی ایک فاونڈیشن کی جانب سے منعقد کیاجارہا ہے۔

اس سے قبل ایک ساتھ کتاب پڑھنے کا عالمی ریکارڈ امریکہ کے اسکول کے 451 بچوں نے قائم کیا تھا۔
http://www.urduvoa.com/content/qatar-children-will-break-reading-record-22apr2014/1899027.html
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستانیوں نے قومی پرچم لہرا کر ایک اور ریکارڈ بنالیا
ہفتے کو لاہور کے نیشنل اسٹیڈیم میں 60 ہزار پاکستانیوں نے مل کر سبز ہلالی قومی پرچم لہرا کر دنیا میں بیک وقت سب سے زیادہ پرچم لہرانے کا ریکارڈ قائم کیا۔



01.03.2014

کراچی — پاکستان نے بیک وقت سب سے زیادہ قومی پرچم لہرانے کا عالمی ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا ہے۔

ہفتے کو لاہور کے نیشنل اسٹیڈیم میں 60 ہزار پاکستانیوں نے مل کر سبز ہلالی قومی پرچم لہرا کر دنیا میں بیک وقت سب سے زیادہ پرچم لہرانے کا ریکارڈ قائم کیا۔

پنجاب اسٹیڈیم میں ہونے والی تقریب میں شریک ہزاروں نوجوانوں نے جب سبز ہلالی پرچم فضا میں لہرائے تو پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے۔

اس سے قبل یہ ریکارڈ ارجنٹائن کے پاس تھے جہاں 49 ہزار 850 افراد نے ایک ساتھ مل کر اپنا قومی پرچم لہرایا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب میں جاری 'یوتھ فیسٹول' کے دوران حالیہ دنوں میں میں کئی عالمی ریکارڈ قائم کئَے گئے ہیں۔

فیسٹول کے دوران پاکستان اب تک 20 سے زائد عالمی ریکارڈ قائم کرچکا ہے۔ یوتھ فیسٹول میں عالمی ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے 'گنیز بک آف ورلڈ' کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
http://www.urduvoa.com/content/pakistan-make-most-people-waving-flag-record-01mar2014/1862143.html
 

جاسمن

لائبریرین
دنیا کی سب سے بڑی 'آرٹ کلاس' کا ریکارڈ
پاکستان میں پنجاب یوتھ فیسٹیول کے دوران جمعہ کو لاہور میں 5 ہزار 3 سو 51 نوجوانوں نے آرٹ کلاس میں حصہ لیا اور عالمی آرٹ کلاس کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔


28.02.2014

پاکستان کے نوجوانوں نے دنیا کی سب سے بڑی آرٹ کلاس کا ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔

پاکستان کے صوبے پنجاب میں ’پنجاب یوتھ فیسٹیول‘ کے دوران جمعہ کو لاہور میں 5 ہزار 3 سو 51 نوجوانوں نے آرٹ کلاس میں حصہ لیا اور عالمی آرٹ کلاس کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔

طالب علموں نے آرٹ کے مختلف نمونے اور ڈرائنگز بنائیں۔

اس سے قبل یہ عالمی ریکارڈ چین میں بنایا گیا تھا جس میں 4 ہزار سے زائد بچوں نے شرکت کی تھی۔

پنجاب یوتھ فیسٹیول جاری ہے جس میں پاکستانی نوجوان کئی نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں اور ان کے اندارج و توثیق کے لیے عالمی ریکارڈ جمع کرنے والے ’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ کے عہدیدار بھی لاہور میں موجود ہیں۔۔
http://www.urduvoa.com/content/world-biggest-art-class-record/1861681.html
 

جاسمن

لائبریرین
انسانی پرچم بنانے کا عالمی ریکارڈ پاکستان کے نام
لاہور میں پنجاب یوتھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے دوران 29 ہزار چار سو طلبہ و طالبات سبز اور سفید رنگ کےکارڈ اُٹھائے ہوئے تھے۔
8BA36515-D498-489F-BE35-46D46E588A79_w640_r1_s.jpg

15.02.2014

کراچی — پاکستان نے دنیا کا سب سے بڑا انسانی قومی پرچم بنانے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا ہے۔ انسانی پرچم بنانے میں 29 ہزار 400 نوجوانوں نے حصہ لیا۔

ہفتے کو 'پنجاب یوتھ فیسٹیول' کی افتتاحی تقریب کے دوران لاہور کے 'نیشنل اسٹیڈیم' میں ہزاروں طلبہ و طالبات نے مل کر دنیا کا سب سے بڑا انسانی پرچم بنایا۔

یوتھ فیسٹیول کی تقریب کے دوران اس ریکارڈ کو دیکھنے کیلئے وزیراعلٰی پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور صوبائی وزیر کھیل سمیت عالمی ریکارڈ محفوظ کرنے والے ادارے 'گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز' کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے پاکستان کے اس عالمی ریکارڈ کا اعلان کیا۔

اعلان کے بعد خطاب کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے اسٹیڈیم میں موجود نوجوانوں سمیت پورے پاکستان کو مبارکباد پیش کی۔

لاہور کے 'نیشنل اسٹیڈیم' میں ہونے والی یوتھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے دوران 29 ہزار چار سو طلبہ و طالبات سبز اور سفید رنگ کے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔ بارش اور سرد موسم کے باوجود کھلے آسمان تلے موجود ان نوجوانوں نے عالمی ریکارڈ کو قائم کیا۔

سب سے بڑے انسانی پرچم کا عالمی ریکارڈ بنتے ہی فضا میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونج اٹھے۔

اس سے قبل 2012ء میں منعقد ہونے والے 'پنجاب یوتھ فیسٹیول' کے دوران طلبہ و طالبات نے یہ ریکارڈ قائم کیا تھا جسے بنگلہ دیش نے 2012ء میں 27 ہزار افراد کو جمع کرکے توڑ دیا تھا۔ اب ایک بار پھر پاکستان کے 29 ہزار نوجوانوں نے مل کر بنگلہ دیش سے ریکارڈ چھین کر دوبارہ اپنے نام کرلیا ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/pakistan-largest-human-flag-world-record-15feb2014/1852109.html
 

قیصرانی

لائبریرین
پنجاب یوتھ فیسٹیول جاری ہے جس میں پاکستانی نوجوان کئی نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں اور ان کے اندارج و توثیق کے لیے عالمی ریکارڈ جمع کرنے والے ’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ کے عہدیدار بھی لاہور میں موجود ہیں۔۔
http://www.urduvoa.com/content/world-biggest-art-class-record/1861681.html
اصلی تے وڈے؟ :laughing:
 

جاسمن

لائبریرین
جنید جمشید



فنکار موسیقی
پیدائشی نام جنید جمشید
دیگر نام جے جے
ولادت 3 ستمبر، 1964ء
ابتدا کراچی، پاکستان
اصناف موسیقی پاپ
نعت خوانی
پیشہ گلوکار
موسیقار

سرگرم دور 1987ء تا 2002

جنید جمشید سابقہ پاپ گلوکار اور موجودہ نعت خواں ہیں۔ انھوں نے پاپ موسیقی گروپ وائتل سائنز کے نمائندہ گلوکار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور کے فارغ التحصیل ہیں۔ 1987ء میں دل دل پاکستان کی ریلز کے ساتھ ہی وہ شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیے۔ ان کی پاپ گلوگاری کے دور میں مندرجہ ذیل البمز ریلیز ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھ گیا اور آہستہ آہستہ وہ موسیقی کی صنعت کو خیر آباد کہہ گیے۔ اب وہ نعت خوان اور بزنس مین کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی بوتیک کی شاخیں پورے ملک میں ہیں۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/جنید_جمشید
 

جاسمن

لائبریرین
موسیقی کی دنیا سے نکل کر مذہب کی دنیا میں آ جانے والے گلوکار


04.04.2012

موسیقی کی چکاچوند دنیا سے اٹل اصولوں پر مبنی ’دیار مذہب‘ تک کا سفر،دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ دونوں متضاد پہلو ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو موسیقی اور مذہب مقناطیس کے دوایسے سرے ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔ لہٰذاشہرت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اچانک مذہب کی طرف راغب ہوجانا۔۔۔کسی بھی گلوکار یا موسیقار کے لئے ایسا عمل ہے جو پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل ہے۔

ایک دنیا سے دوسری دنیا میں بس جانے کا خیال ہی بہت کٹھن ہوتا ہے ، پھر اس پر فیصلہ کرنا اور ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہناانتہائی ضبط کا کام ہے۔۔ لیکن پاکستان کے کچھ سنگرز ایسے بھی ہیں جو موسیقی کی دنیاکے فاتح ہونے کے باوجود اچانک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مذہب کی طرف مائل ہوگئے مثلاً جنید جمشید، علی حیدر اور شیراز اپل وغیرہ ۔

جنید جمشید

سن 1987ء میں موسیقی کی دنیا میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں سنیما انڈسٹری آخری دموں پر تھی،پرائیویٹ چینلز کا خواب بھی کسی نے شاید نہیں دیکھا تھا صرف پاکستان ٹی وی گھر گھر دیکھا جاتا تھا وہ بھی شام سے نصف شب تک۔ ایسے میں جنید جمشید نے ایک پاپ گروپ ترتیب دیا جس کا نام تھا”وائٹل سائنز“۔اس گروپ نے ٹی وی پر ایک ملی نغمہ ”دل دل پاکستان“ متعارف کرایا جس میں مغربی آلات موسیقی استعمال کئے گئے تھے۔

”دل دل پاکستان“ ایک دوبار ہی ٹی وی اسکرین پر آیا اور اس کے بعد تو گویا دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں دلوں کی آواز بن گیا۔ اس وقت کا شاید ہی کوئی ٹی وی پروگرام، ٹاک شو، یا میوزک پروگرام ایسا ہوگا جس میں اس نغمے کا ذکر نہ ہوتاہو ورنہ شادی بیاہ سے لیکر تک دیگر تمام نجی تقریبات تک میں جیند جمشید اور ان کا ملی نغمہ چھایا رہتا۔ یوم آزادی ، یوم پاکستان اور دیگر قومی دنوں پر تو اس کی دھنیں بجنا لازمی سا بن گیا تھا۔

اس نغمے کی بدولت جنید جمشید موسیقی کی دنیا پر ایسے چھائے کہ اگلی پوری دھائی میں ان کو کوئی جوڑ پیدا نہ ہوسکا۔ ۔۔۔لیکن پھر اچانک ہی جنید کے ذوق نے ”یوٹرن “ لیا۔ کہاں تو وہ کلین شیو اور مغربی طرز کے جدید کپڑوں میں نظر آتے تھے اور کہاں اب وہ لمبی سی داڑھی رکھ کر نعتیہ کلام اور حمد وثناء پڑھتے نظر آنے لگے۔

اور ۔۔آج جب کہ نیا ہزاریہ شروع ہوئے بھی بارہ سال ہونے کو ہیں، جنید ٹی وی اسکرین پر ”مذہبی دانشور“کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ جنیدنے ایک نئی دنیا سے خود کو روشناس کرالیا ہے ۔ اوروہ تبلیغ کو اپنا نصف العین بناچکے ہیں۔

جنید کا نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ’جلوہ جاناں‘ سن 2005ء میں ریلیز ہوا تھا۔اس کے بعد ’محبوب یزداں‘ 2006 میں اور ’بدر الدجا‘2008 میں اور’بدیع الزماں‘2009 میں ریلیز کیا گیا۔اس دوران جنید جمشید نے اپنا بزنس بھی شروع کیا جس کی شاخیں آج ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایک اعلیٰ پہنچان رکھتی ہیں۔

علی حیدر
علی حیدر وہ پاپ سنگر ہیں جنھوں نے 1990ء کی دہائی میں کئی ہٹ گانے گائے۔خاص کر ان کا ایک گانا ”پرانی جینز اور گٹار“ انگنت نوجوانوں کے دل کی آواز بنا۔ لیکن پھر اچانک انھوں نے بھی مغربی طرز کی موسیقی کو خیر باد کہا دیا اور سن 2009 کے آتے آتے وہ بالکل ہی گانا گانا ترک کرچکے تھے۔ اب وہ ثناء خوانی کرنے لگے تھے۔بعد میں انہیں صوفیانہ کلام سے بھی رغبت ہوئی اور آج کل وہ اسی صنف تک محدود ہیں۔

علی حیدر کے اب تک تین حمدیہ البمزمارکیٹ میں آچکے ہیں جن کے نام” مولا دل بدل دے“،” شور ہے محشر کا“ اور” طلوع فکر“۔موسیقی سے کنارہ کشی کا سبب علی حیدر نے یہ بتایا کہ وہ موسیقی سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔

شیراز اپل
پاپ سنگنگ کی دنیا کو ترک کرنے والوں میں نیا اضافہ شیراز اپل کا ہے۔شیراز اپل نے اچانک گانا چھوڑنے کا اعلان کر کے اپنے پرستاروں کو چونکا دیا ۔اس اعلان سے قبل شیراز نے اپنے فیصلے کو اپنی زندگی کا نیا آغاز قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ مذہب سے لگاوٴ موسیقی کی دنیا سے ’وحشت کا سبب بنا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فی الوقت یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ مستقبل میں وہ ثنا ء خوانی یا نعت خوانی کریں گے یا نہیں۔
http://www.urduvoa.com/content/artists-left-music-behind-05apr12-146301225/1350848.html
 

جاسمن

لائبریرین

لیپہ ٹنل کا منصوبہ
کالم نگار | رشید ملک....کشمیر پوائنٹ
18 جون 2014 0


news-1403035146-5823.JPG

پاکستان کے بجٹ 2014-15ءمیں میاں نواز شرےف وزیر اعظم پاکستان کی ذاتی دلچسپی سے لیپہ ٹنل کی تعمیر کے لئے 7 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ میاں نواز شرےف اور میاں شہباز شرےف نے آزاد کشمیر میں 2011ءمیں ہونے والے انتخابات کی مہم میں ہیلی کاپٹر پر وادی لیپہ کا دورہ کیا البتہ ہمارے محترم مجید نظامی صاحب 1946ءمیں لاہور سے جموں اور پھر کشمیر گئے تھے۔ 9میل لمبی اور ڈیڑھ میل چوڑی اس چٹانوں، نوکیلے پتھروں سے بھری لیپہ کے درمیان سے چغتاں کے برفانی پہاڑوں، جنگلوں سے نکلنے والے چاندی جسیا سفید نالہ قاضی ناگ اس چھوٹی سی وادی کو حسن عطا کرتا ہے دو یونین کونسلز پر مشتمل وادی لیپہ کشمیر کی وادی کرناہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو پہلے 1947ءکے جہاد میں آزاد کرایا گیا تھا پھر 1971ءکی جنگ میں اس کا زیادہ خوبصورت حصہ (ٹنگ ڈار) ہم سے نکل گیاتھا۔ وادی لیپہ کے چھوٹے سے قصبہ کے سرپہ بجلدھار کی چوٹیوں پر بھارتی فوج بیٹھی ہے۔ ذرا نیچے پاکستانی فوج بھارتی فوج کا سامنا کر رہی ہے اور وادی کے شہریوں کا تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے۔ نالہ قاضی ناگ وادی سے گزر کر نوسیری کے قریب دریائے نیلم میں جاگرتا ہے۔ وادی لیپہ میں 9 ہزار فٹ بلند بھرت وارگلی سے گزر کر غا لباً 1957ءمیں سردار عبدالقیوم نے صدر کی حیثیت میں سفر کیا تھا۔ 1960ءمیں کے ایچ خورشید (مرحوم) نے صدر کی حیثیت میں وادی لیپہ کا باقاعدہ دورہ کیا تھا۔ راقم الحروف اپنے سرکاری فرائض کے سلسلہ میں اس دورہ میں ایچ خورشید کے ساتھ تھا۔ مظفر آباد جہازی سڑک پر نیلی کے مقام پر دریائے جہلم کو معلق پل کے ذریعہ عبور کر کے خورشید مرحوم نے یہ دورہ کیا تھا۔ انہوں نے ہی اس وادی میں سڑک کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا۔ 9ہزار فٹ بلند بھرت وار گلی کو پیدل عبور کر کے 6 ہزار فٹ بلند وادی لیپہ میں اترے تھے۔
سری نگر سے تقریباً 50 میل کے فاصلہ پر پہلگام کا خوبصورت سیاحتی شہر بڑے وسیع رقبہ پر ہے۔ یہاں کا بازار بارونق ہے اور اس جگہ اندر گاندھی نے ایک کلب تعمیر کر رکھا ہے۔ کلب کے سامنے کھلے وسیع رقبہ میں پوکلپٹس کے نوخیز درخت ترتیب کے ساتھ لگائے گئے تھے ان درختوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے فاصلے پر کوزیک بنچ رکھے ہوئے تھے۔ ان موزیک بنچوں پر آپ بیٹھ جائیں تو پانی کی باریک سی لہریں آپکے پاﺅں کو چھو کر گزرتی ہیں۔ پہلگام نالہ کے کناروں پر نرم سبز گھاس سے لدی روشیں بنائی گئی تھیں۔ یہاں پر سیاح اسی نرم گداز گھاس پر بیٹھ کر یالیٹ کر فضا کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم اس گھاس پر بیٹھے تو پاس کھڑے ایک مقامی کشمیری باشندے نے ہمیں بتایا کہ ایک ہفتہ قبل بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ اپنے بچوں کے ساتھ اسی طرح اس گھاس پر بیٹھ گئے تھے۔ لیپہ کاٹنل تعمیر ہو گا تو سیاحوں کی بڑی تعداد وادی لیپہ میں ذوق سیاحت پورا کرنے کے لئے آئے گی لیکن مظفر آباد سے لیپہ تک 60 میل کا سفر آرام دہ بنانا ہو گا جس طرح کہ بھارت نے جموں سے سری نگر جانے والی سڑک پر 13 ہزار فٹ بلند پیر پنجال کے مقام پر دوٹنل تعمیر کر رکھے ہیں جو کہ 9ہزار فٹ کی بلندی پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم بھارت منموہن سنگھ نے جموں سے بانہال تک (پیر پنجال کے قدموں) میں ریلوے لائن بچھانے کا پروگرام بنایا تھا لیکن وہ مکمل نہیں ہو سکا۔ تاہم وادی کشمیر کے میدانی علاقہ انت ناگ سے لے کر سوپور تک مقامی آبادی کی سہولت کیلئے ریلوے لائن بچھائی گئی ہے۔ لیپہ ٹنل جب تعمیر ہو گا تو لیپہ کی خوبصورت وادی سیاحوں کیلئے کھل جائے گی۔ آزاد کشمیر میں بھی اور لیپہ کے چھوٹی سے وادیوں میں بھی خوشحالی اور ترقی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/18-Jun-2014/309840
 

جاسمن

لائبریرین
’عالیشان پاکستان‘ دہلی میں
شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، دہلی

منگل 17 جون 2014
140617154122_pakistan_india_trade_304x171_bbc.jpg

دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں بہت سی سرکاری رکاوٹیں حائل ہیں

پاکستان کی ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بھارت کے ایوان صنعت و تجارت کے اشتراک سے دہلی میں ایک تجارتی نمائش کا اہتمام کر رہی ہے۔

دونوں ملکوں کے اشتراک سے ستمبر میں منعقد کی جانے والی اس نمائش میں سے سو سے زیادہ پاکستانی کمپنیاں حصہ لیں گی۔

اس موقعے پر ایک فیشن شو کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ دہلی میں نریندر مودی کی حکومت کے قیام کے بعد اس نمائش کو دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے ایک اچھا آغاز تصور کیا جا رہا ہے۔

دہلی میں پاکستانی نمائش کے اہتمام کا اعلان بھارت کے ایوان صنعت و تجارت (فکی) کے صدر دفتر پر دونوں ملکوں کے مندوبین کی ایک میٹنگ میں کیا گیا۔

یہ نمائش 11 سے 14 ستمبر تک چلے گی اور اس کا نام ’عالیشان پاکستان‘ رکھا گیا ہے۔ یہ اس نوعیت کی دوسری نمائش ہو گی، لیکن اس بار یہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور بڑی ہوگی۔ ٹریڈ ڈیویلپمنٹ آف پاکستان کے سربراہ ایس ایم منیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:

’ہم بہت بڑی نمائش کا اہتمام کر رہے ہیں۔اس سے پہلے بھارت نے لاہور میں ایک نمائش کی تھی جو انتہائی کامیاب رہی۔ جو چیزیں ہمیں یہاں سستی مل جائیں تو ہم دوسری جگہوں سے کیوں خریدیں؟ اسی طرح بھارت کو جو مصنوعات پاکستان میں سستی ملتی ہیں تو وہ کیوں نہ پاکستان سے خریدے۔‘

ملبوسات، زیورات ، فرنیچر اور پاکستانی دستکاری کی مصنوعات کی اس نمائش کا حصہ ہوں گی۔ پاکستان کی بڑی بڑی کمپنیاں اس میں حصہ لیں گی۔ نمائش سے پہلے ایک فیشن شو کا بھی اہمتمام کیا جائے گا۔ پاکستانی نمائش کو ایک بڑے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

’لائف سٹائل پاکستان‘ کی نمائندہ رابعہ جاویری آغا نے کہا: ’سارک ملکوں سے بھارت کی تجارت صرف پانچ فی صد ہے، جبکہ پوری دنیا سے وہ 300 ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان میں زبردست امکانات ہیں اور اب وقت آ گیا ہے۔‘

دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں بہت سی سرکاری رکاوٹیں حائل ہیں۔ صنعت کار اور تاجر ان رکاوٹوں کو ایک عرصے سے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

بھارت کی ایوان صنعت و تجارت کے نائب صدر ڈاکٹر جیوتسنا سوری کا خیال ہے کہ ان رکاوٹوں کو ختم کر کے تجارتی تعققات کو زبردست وسعت دی جا سکتی ہے: ’کچھ سہولیات کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ جیسے جیسے ماحول کھلے گا اور رکاوٹیں دور ہوں گی، ہر شعبے میں تجارت بڑھے گی۔‘

بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات بس برائے نام رہے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کے وسیع امکانات ہیں۔ لیکن اقتصادی رشتوں کے فروغ کے لیے دونوں حکومتوں کو سیاسی سطح پر بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/06/140617_pakistan_exhibition_delhi_zz.shtml
 

جاسمن

لائبریرین
عالیشان پاکستان میں فیشن شو کے نام پہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر تجارت نہیں ہو سکتی تھی؟
 

جاسمن

لائبریرین
خیبر پختونخوا میں 'تعمیرِ اسکول پروگرام' جاری
حکام کے مطابق 'تعمیرِ اسکول پروگرام' کےتحت حکومت کو اب تک 85 لاکھ روپے کے عطیات وصول ہوچکے ہیں۔


31.05.2014

پشاور — پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے صوبے میں 'تعمیر ِ اسکول پروگرام' کے نام سے مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد صوبے میں موجود سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کو پورا کرنا ہے۔

'تعمیرِ اسکول پروگرام' کا باقاعدہ آغاز صوبے کی حکمران جماعت 'پاکستان تحریکِ انصاف' کے چیرمین عمران خان نے 30 اپریل کو پشاور کے 'گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول دورانپور' کے دورے کے دوران کیا تھا۔

اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں پانچ اضلاع - ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، نوشہرہ اور پشاور کے نامکمل اسکولوں میں سہولتیں فراہم کرنا ہے۔

حکام کے مطابق اب تک 122 اسکولوں میں سہولتوں کی فراہمی کے کام کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں پروگرام کا دائرہ دیگر اضلاع کے اسکولوں تک بڑھایا جائے گا۔

خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر برائے تعلیم محمد عاطف نے 'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پروگرام کا بنیادی مقصد صوبے میں موجود سرکاری اسکولوں میں چاردیواری، بیت الخلا اور کلاس رومز کی تعمیر اور پینے کا صاف پانی مہیا کرنا ہے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ مہم کے دوران صوبے بھر کے اسکولوں میں ان سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک مختلف منصوبہ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

محمد عاطف کا کہنا تھا کہ اگر صاحبِ استطاعت لوگ اس منصوبے میں حصہ لینا چاہیں تو وہ 'تعمیرِ اسکول پروگرام' کی ویب سائٹ کے ذریعے عطیات دے سکتے ہیں۔
حکام کے مطابق 'تعمیرِ اسکول پروگرام' کےتحت حکومت کو اب تک 85 لاکھ روپے کے عطیات وصول ہوچکے ہیں جن کے ذریعے خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے گا۔
http://www.urduvoa.com/content/tameer-e-school-program-in-kpk/1926903.html
 

جاسمن

لائبریرین
tracking-info.gif

اچھی خبر
بدھ 20 شعبان 1435ه۔ - 18 جون 2014
b404945b-6401-4ef4-b7d3-83280f99af66_3x4_142x185.jpg

عظیم ایم میاں
اہل پاکستان کیلئے ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ بروکلین نیویارک کی ایک دس سالہ پاکستانی نژاد ہدیٰ ایاز نامی بچی خود پانچویں کلاس کی طالبہ ہے مگر اپنی ذہانت کی بدولت وہ ابھی سے اپنی عمر کے بچوں کے لئے تخلیقی کہانیوں کی کتابیں بھی لکھ رہی ہے جسے امریکہ کا ممتاز پبلشنگ ہائوس تجارتی پیمانے پر شائع کررہا ہے۔ ہدیٰ ایاز کی انگریزی میں کہانیوں اور ذہنی صلاحیتوں کا اعتراف اس کے اساتذہ اور والدین ہی نہیں کرتے بلکہ امریکی پبلشنگ ہائوس کے نمائندے بھی مداح ہیں۔

دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ 16 جون کو وہائٹ ہائوس میں صدر اوباما کے ہیلتھ کیئر پلان کے سلسلے میں امریکہ بھر سے جن 70 تا 80 افراد کو صلاح مشورے اور تعاون کے لئے شکریہ کے لئے مدعو کیا گیا تھا ان میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا‘‘ کے موجودہ صدر ڈاکٹر آصف رحمان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ تین گھنٹے کے سیشن میں ڈاکٹر آصف رحمان کی شرکت اور اظہار خیال ’’اپنا‘‘ اور پاکستانی کمیونٹی کے لئے ایک اعزاز ہے کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی صلاحیتوں سے ان کا آبائی وطن فائدہ اٹھانے سے کتنا ہی انکاری ہو امریکہ ان کی صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف اور استفادہ کرتا ہے۔
http://www.alarabiya.net/ur/politics/2014/06/18
 

جاسمن

لائبریرین
ثمینہ بیگ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون
انھوں نے یہ چوٹی اپنے بھائی علی مرزا کے ہمراہ سر کی جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پاکستان کے تیسرے اور کم عمر کوہ پیما ہونے کا اعزاز حاصل کیا


ثمینہ بیگ (فائل فوٹو)

19.05.2013

ثمینہ بیگ نے دنیا کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ ایورسٹ سر کرکے پاکستان کی پہلی ایسی خاتون کوہ پیما ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے جس نے 8848 میٹر بلند چوٹی سر کی۔

انھوں نے یہ چوٹی اپنے بھائی علی مرزا کے ہمراہ سر کی جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پاکستان کے تیسرے اور کم عمر کوہ پیما ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

21 سالہ ثمینہ بیگ اور ان کے بھائی 29 سالہ علی مرزا کا تعلق پاکستان میں وادی ہنزہ کےعلاقے شمشال سے ہے اور ان دونوں کو بچپن سے ہی کوہ پیمائی کا شوق تھا۔

یہ دونوں بھائی بہن اس سے قبل بھی متعدد بلند چوٹیاں سر کرچکے ہیں۔

ثمینہ کے پاس اس سے قبل پاکستان کی پہلی ایسی خاتون کوہ پیما ہونے کا اعزاز بھی ہے جنہوں نے 6400 میٹر بلند چاشکن چوٹی سر کر رکھی ہے۔

http://www.urduvoa.com/content/pakistan-mount-everest-samina/1663948.html
 
اکثر مراسلے تو بہت زبردست ہیں،بہت خوب میری کوشش ہے کہ میں بھی کچھ شیئر کروں، لیکں عجیب مایوسی اور جنجھلاہٹ ہے
ایک دو مراسلے تو پڑھ کر بہت غصہ بھی آیا
یہ یوتھ فیسٹول والے ریکارڈ تو بیکار ہیں ،یہ بہت بعد کی بات ہونی چاہیے ابھی تو بہت سے اشد ضروری کام ہیں
صرف نمود و نمائش کے لیے وقت اور وسائل ضائع کیے جا رہے ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستان میں طبی سیاحت کا بڑھتا رجحان

اٹھائیس سالہ ڈاکٹر شمیر خان پہلی بار ملائیشیا سے پاکستان آئے ہیں۔ انہوں نے سوچا، کہ اپنا آبائی ملک دیکھنے کے ساتھ ساتھ سرجری کے ذریعے بال بھی لگوا لیں۔
ڈاکٹر شمیر کا خاندان دو نسلوں سے ملائشیا میں رہائش پذیر ہے۔ وہ خود ڈاکٹر ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ اس قسم کے آپریشن ملائیشیا میں تقریباً تین ہزار ڈالر زیادہ مہنگے ہیں۔ �پاکستان آنے کے لیے ٹکٹ کے اخراجات کے باوجود، یہاں ملائیشیا، سنگاپور اور شاید تھائی لینڈ کے مقابلے میں آپریشن کروانا زیادہ سستا ہے۔ اور دوسری وجہ ہے کہ نتائج بہت اچھے ہیں۔ میرے اور بھی دوستوں نے یہ کروایا ہے اور وہ بہت خوش ہیں۔� پاکستان میں کاسمیٹک سرجری اتنی مقبول ہو رہی ہے کہ کاسمیٹک سرجنز کی تنظیم پاکستان اyسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجنز کے محتاط اندازوں کے مطابق اس کی سالانہ مالیت بیس سے پچیس کروڑ روپے ہے۔
اسلام آباد کے ایک مشہور سرجن ڈاکٹر ہمایوں مہمند کا کہنا ہے کہ بال لگوانے کے علاوہ لوگ ناک ٹھیک کرواتے ہیں اور آپریشن کے ذریعے چربی بھی نکلواتے ہیں۔ ان کے ہیر ٹرانسپلاٹ کروانے (بال لگوانے) والے مریضوں میں سے 80 فیصد بیرونِ ملک سے آتے ہیں۔ �وہی ہیر ٹرانسپلانٹ جو میں دبئی میں تیس ہزار ڈالر میں کرتا ہوں، یہاں مشکل سے پندرہ سو ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ اس پندرہ سو ڈالر میں کرایہ، نرسوں اور دیگر عملے کی تنخواہیں شامل ہیں اور برطانیہ اور امریکہ کے مقابلے میں ڈاکٹروں کی صلاحتیں تو برابر ہیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجنز کے صدر ڈاکٹر معظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ ان کے ایک چوتھائی مریض بیرونِ ملک سے آتے ہیں۔ غیر ملکی کم ہوتے ہیں، اور پاکستانی نژاد افراد زیادہ، جو چھٹیوں میں پاکستان آ کر سستے آپریشن کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ �میرے پاس جو باہر سے مریض آتے ہیں وہ خرچے کا موازنہ کر کے آتے ہیں، خاص طور پر جب وہ زرِمبادلہ میں ادائیگی کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں میڈیکل ٹورئزم، یعنی طبی سیاحت زور پکڑ رہی ہے جس سے قیمتی زرِمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ بھارت، سنگاپور، متحدہ عرب امارت کی ریاست دبئی اور لاطینی امریکہ کا ملک کیوبا وہ جگہیں ہیں جہاں ایسی سیاحت کی چاندی ہے۔ پاکستان میں کاسمیٹک سرجنز کہتے ہیں کہ ایسی سیاحت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ سکیورٹی کی صورتِ حال ہے جبکہ دوسری بڑی رکاوٹ عطائیوں کی تعداد میں اضافہ ہے جن کے خلاف قانونی کارروائی تو دور کی بات، ان کی نگرانی کا کوئی مؤثر طریقہ کار بھی نہیں ہے۔
http://mohmandvoice.com/demo/news.php?news_id=161&&cat_id=4
 

جاسمن

لائبریرین
مالم جبہ: برف پر بکھرے فیسٹیول کے رنگ

پاکستان میں سکی بازی (سکیئنگ) کے واحد مقام مالم جبہ میں پانچ روزہ برفانی میلہ شروع ہوگیا ہے جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک نے کیا۔
پاکستانی فوج کے زیر اہتمام منعقد ہونے والےاس پانچ روزہ فیسٹول میں پیرا گلائیڈنگ ، ہینگ گلائیڈ نگ ،ٹوبو گینگ اور ایرو ماڈلنگ سمیت دیگر مقابلے برف پر خوبصورت رنگ بکھیر رہے ہیں۔ برفانی تفریحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ محفل موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس میں ملک کے نامور فنکار اور بینڈ شرکت کر رہے ہیں۔ یہ فیسٹول ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔
اس فیسٹیول میں مقامی لوگوں کا جوش و جذبہ نہ صرف بڑھتی ہوئی سیاحتی سرگرمیوں کی غمازی کرتا ہے بلکہ ملاکنڈ ڈویژن میں دیرپا اور پائیدار امن کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن میں فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے کے ترجمان کرنل عقیل ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات میں پائیدار امن کی بحالی کے بعد نہ صرف زندگی تیزی سے معمول پر آ رہی ہے بلکہ ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد عسکریت پسندی سے متاثرہ اس علاقے کی بحالی ،سیاحت کے فروغ اور علاقے کی معیشیت کو بہتر بنانا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سیاحوں کی بڑی تعداد خصوصی تفریحی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ برفانی میلے میں شریک سیاحوں نے بتایا کہ یہاں کی خوبصورتی کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔

مالم جبہ میں واقع دوکانوں اور چھوٹے ہوٹلوں پر سیاحوں کا کافی رش ہے۔ ایک سپر سٹور کے مالک فرمان علی نے بتایا کہ ہر سال ہونے والے اس فیسٹول کے انعقاد سے یہاں گہما گہمی شروع ہوجاتی ہے اور سیاحوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھ جاتے ہیں اور ان کی آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
http://mohmandvoice.com/demo/news.php?news_id=160&&cat_id=4
 
Top