روشن صبح

جاسمن

لائبریرین
جب میں نانی بن کر پڑھ سکتی ہوں تو دیگر خواتین کیوں نہیں، رئیسہ بیگم
رضوان طاہر مبین

259230-Raeesabegum-1401646161-508-640x480.JPG

55 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دینے والی رئیسہ بیگم۔ فوٹو: فائل
1959ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والی رئیسہ بیگم میٹرک کے امتحان دے کر رشتے داروں سے ملنے کراچی آئیں۔ جس دن پہنچیں، اسی شام شادی ہوئی اور وہ دبئی چلی گئیں، تو نہ صرف ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا، بلکہ وہ اپنے میٹرک کے نتائج بھی نہ جان سکیں۔

تعلیم کا سلسلہ جوڑنا چاہتی تھیں، شوہر بھی ان کے ہم خیال تھے، لیکن گھر اور بچوں کی مصروفیات کے سبب ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ تعلیم کی شیدائی رئیسہ بیگم نے اپنے سب بچوں کو اعلا تعلیم دلائی۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ بڑی بیٹی شادی شدہ ہے، جب کہ دیگر بیٹیاں وکالت، فیشن ڈیزائننگ اور کمپیوٹر کے شعبوں سے وابستہ ہیں، جب کہ ایک بیٹی ایم بی اے اور تین بیٹے بالترتیب اے سی سی اے، بی کام اور میٹرک میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں بچوں کی بساط بھر مدد بھی کی اور ان کے لیے کبھی ٹیوشن پر انحصار نہیں کیا۔

رئیسہ بیگم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کچھ تعلیمی مراحل طے کیے، اس دوران اردو اور انگریزی کتب و رسائل کا مطالعہ جاری رہا۔ کہتی ہیں کہ ’’انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن پڑھ، پڑھ کر مختلف الفاظ یاد کرتی رہتی تھی، جو بعد میں انگریزی پڑھنے میں کافی مددگار ثابت ہوئے۔‘‘

رئیسہ بیگم کا سب سے چھوٹا بیٹا میٹرک میں آیا، تو ان کے بچوں نے ان کی بھی میٹرک بورڈ میں رجسٹریشن کرا دی۔ یوں انہوں نے 37 برس بعد دوبارہ میٹرک سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جوڑا اور پانچ ماہ میں کلاس نہم کے پرچے دیے۔ اردو کا مضمون بے حد پسند ہے۔ د بئی میں رہتے ہوئے عربی کی شد بد حاصل کر لی، اسی بنا پر سندھی زبان بھی انہیں آسان معلوم ہوئی۔ البتہ ریاضی کا پرچہ پہلے کی طرح خاصا کٹھن رہا۔ بقول رئیسہ بیگم ’’یہ پرچہ کسی پل صراط کی طرح معلوم ہوتا تھا!‘‘ ریاضی کے لیے انہیں ایک ماہ گھر پر ٹیوشن لینا پڑی۔ امتحان کی تیاری کے لیے ان کی بیٹی روزانہ ان کا ٹیسٹ لیتی تھی۔

تعلیمی سلسلہ مزید جاری رکھنے کے لیے بلند حوصلہ رئیسہ بیگم اردو یا انگریزی میں ماسٹرز کرنے کی خواہش مند ہیں۔ محنت سے کام یابی پر یقین رکھتی ہیں، چاہے کم نمبر آئیں، لیکن ان کا دل مطمئن رہتا ہے کہ انہوں نے نقل نہیں کی۔

37 سال بعد میٹرک کے پرچے دینے کے تجربے کا ذکر نکلا، تو انہوں نے بتایا کہ کمرہ امتحان میں بہت چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ ان کی نشست خصوصی طور پر سب سے آگے رکھی گئی تھی۔ بیٹی کے ساتھ جب پیپر دینے جاتی، تو اسکول کا چوکیدار دروازے پر روک لیتا کہ ’’آپ کی بیٹی کا پرچہ ہے، صرف وہی جائے گی، آپ کس لیے اندر جا رہی ہیں؟‘‘ اسے سمجھانا پڑتا کہ بچی کا نہیں، بلکہ انہی کا پیپر ہے۔ چوتھے پیپر میں انہیں کچھ تاخیر ہوئی۔ حسب سابق چوکیدار نے رئیسہ بیگم کو اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہیڈ مسٹریس سے اس معاملے کی شکایت کی، تو اسی وقت چوکیدار کی سرزنش اور تنبیہ کی گئی۔۔
پرانے زمانے میں تختیاں لکھوانے کے عمل کو رئیسہ بیگم بہت ضروری خیال کرتی ہیں۔ ’’پانچویں جماعت تک تختیاں لکھوانے سے طالب علموں کا خط نہایت صاف ہوتا تھا۔ اساتذہ بار بار مشق کراتے تھے اور طلبہ تختیاں لکھنے، صاف کرنے، دھونے اور پھر اسے خشک کرنے کی مشقت بھی کرتے۔‘‘ رئیسہ کا خیال ہے کہ آج بچوں کو دوبارہ قلم، دوات اور تختی سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی لکھائی اچھی ہوگی، بلکہ منہگائی کے اس دور میں کاپیوں کا خرچ بھی بچے گا۔
صحافی بننا چاہتی تھیں:

رئیسہ بیگم کے والد سلطان احمد خان 35 برس پاکستان ٹائمز سے منسلک رہے۔ ان کے ایک بھائی بھی صحافت سے وابستہ ہوئے۔ رئیسہ اپنے والد کے زیادہ قریب تھیں۔ اکثر ان کے ساتھ دفتر جایا کرتی تھیں۔ ان کی پذیرائی سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں اور ان کے دل میں بھی یہ امنگ جاگی کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح صحافی بنیں، مگر جلد شادی ہونے کی بنا پر وہ اس شعبے کا رخ نہ کر سکیں۔
http://www.express.pk/story/259230/
 
جب میں نانی بن کر پڑھ سکتی ہوں تو دیگر خواتین کیوں نہیں، رئیسہ بیگم
رضوان طاہر مبین

259230-Raeesabegum-1401646161-508-640x480.JPG

55 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دینے والی رئیسہ بیگم۔ فوٹو: فائل
1959ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والی رئیسہ بیگم میٹرک کے امتحان دے کر رشتے داروں سے ملنے کراچی آئیں۔ جس دن پہنچیں، اسی شام شادی ہوئی اور وہ دبئی چلی گئیں، تو نہ صرف ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا، بلکہ وہ اپنے میٹرک کے نتائج بھی نہ جان سکیں۔

تعلیم کا سلسلہ جوڑنا چاہتی تھیں، شوہر بھی ان کے ہم خیال تھے، لیکن گھر اور بچوں کی مصروفیات کے سبب ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ تعلیم کی شیدائی رئیسہ بیگم نے اپنے سب بچوں کو اعلا تعلیم دلائی۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ بڑی بیٹی شادی شدہ ہے، جب کہ دیگر بیٹیاں وکالت، فیشن ڈیزائننگ اور کمپیوٹر کے شعبوں سے وابستہ ہیں، جب کہ ایک بیٹی ایم بی اے اور تین بیٹے بالترتیب اے سی سی اے، بی کام اور میٹرک میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں بچوں کی بساط بھر مدد بھی کی اور ان کے لیے کبھی ٹیوشن پر انحصار نہیں کیا۔

رئیسہ بیگم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کچھ تعلیمی مراحل طے کیے، اس دوران اردو اور انگریزی کتب و رسائل کا مطالعہ جاری رہا۔ کہتی ہیں کہ ’’انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن پڑھ، پڑھ کر مختلف الفاظ یاد کرتی رہتی تھی، جو بعد میں انگریزی پڑھنے میں کافی مددگار ثابت ہوئے۔‘‘

رئیسہ بیگم کا سب سے چھوٹا بیٹا میٹرک میں آیا، تو ان کے بچوں نے ان کی بھی میٹرک بورڈ میں رجسٹریشن کرا دی۔ یوں انہوں نے 37 برس بعد دوبارہ میٹرک سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جوڑا اور پانچ ماہ میں کلاس نہم کے پرچے دیے۔ اردو کا مضمون بے حد پسند ہے۔ د بئی میں رہتے ہوئے عربی کی شد بد حاصل کر لی، اسی بنا پر سندھی زبان بھی انہیں آسان معلوم ہوئی۔ البتہ ریاضی کا پرچہ پہلے کی طرح خاصا کٹھن رہا۔ بقول رئیسہ بیگم ’’یہ پرچہ کسی پل صراط کی طرح معلوم ہوتا تھا!‘‘ ریاضی کے لیے انہیں ایک ماہ گھر پر ٹیوشن لینا پڑی۔ امتحان کی تیاری کے لیے ان کی بیٹی روزانہ ان کا ٹیسٹ لیتی تھی۔

تعلیمی سلسلہ مزید جاری رکھنے کے لیے بلند حوصلہ رئیسہ بیگم اردو یا انگریزی میں ماسٹرز کرنے کی خواہش مند ہیں۔ محنت سے کام یابی پر یقین رکھتی ہیں، چاہے کم نمبر آئیں، لیکن ان کا دل مطمئن رہتا ہے کہ انہوں نے نقل نہیں کی۔

37 سال بعد میٹرک کے پرچے دینے کے تجربے کا ذکر نکلا، تو انہوں نے بتایا کہ کمرہ امتحان میں بہت چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ ان کی نشست خصوصی طور پر سب سے آگے رکھی گئی تھی۔ بیٹی کے ساتھ جب پیپر دینے جاتی، تو اسکول کا چوکیدار دروازے پر روک لیتا کہ ’’آپ کی بیٹی کا پرچہ ہے، صرف وہی جائے گی، آپ کس لیے اندر جا رہی ہیں؟‘‘ اسے سمجھانا پڑتا کہ بچی کا نہیں، بلکہ انہی کا پیپر ہے۔ چوتھے پیپر میں انہیں کچھ تاخیر ہوئی۔ حسب سابق چوکیدار نے رئیسہ بیگم کو اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہیڈ مسٹریس سے اس معاملے کی شکایت کی، تو اسی وقت چوکیدار کی سرزنش اور تنبیہ کی گئی۔۔
پرانے زمانے میں تختیاں لکھوانے کے عمل کو رئیسہ بیگم بہت ضروری خیال کرتی ہیں۔ ’’پانچویں جماعت تک تختیاں لکھوانے سے طالب علموں کا خط نہایت صاف ہوتا تھا۔ اساتذہ بار بار مشق کراتے تھے اور طلبہ تختیاں لکھنے، صاف کرنے، دھونے اور پھر اسے خشک کرنے کی مشقت بھی کرتے۔‘‘ رئیسہ کا خیال ہے کہ آج بچوں کو دوبارہ قلم، دوات اور تختی سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی لکھائی اچھی ہوگی، بلکہ منہگائی کے اس دور میں کاپیوں کا خرچ بھی بچے گا۔
صحافی بننا چاہتی تھیں:

رئیسہ بیگم کے والد سلطان احمد خان 35 برس پاکستان ٹائمز سے منسلک رہے۔ ان کے ایک بھائی بھی صحافت سے وابستہ ہوئے۔ رئیسہ اپنے والد کے زیادہ قریب تھیں۔ اکثر ان کے ساتھ دفتر جایا کرتی تھیں۔ ان کی پذیرائی سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں اور ان کے دل میں بھی یہ امنگ جاگی کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح صحافی بنیں، مگر جلد شادی ہونے کی بنا پر وہ اس شعبے کا رخ نہ کر سکیں۔
http://www.express.pk/story/259230/
میں بھی سوچ رہا ہوں کہ دوبارہ سے یونیورسٹی میں داخلہ لے لوں
 

جاسمن

لائبریرین
اب ڈبل ایم کرنے کے لئے دوبارہ سے کچی جماعت میں داخلہ لیں۔
(انچارج تعلیمی مشورہ جات)
 

جاسمن

لائبریرین
ٹیکساس جنرل اسپتال کاپاکستانی سمیت 5طلباء کو اسکالر شپ دینے کا اعلان
geo-news-Raheel-Khanzada_6-4-2014_149786_l.jpg
4 جون 2014
خصوصی… ٹیکساس کے شہر گرانڈ پر ی میں واقع ٹیکساس جنرل اسپتال کی جانب سے میڈیکل کے شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہونہار طالب علموں کے لئے اس سال 2014ء میں پانچ طلبہ و طالبات کو اسکالر شپ دینے کا اعلان کیا گیا اس ضمن میں ٹیکساس جنرل اسپتال میں آرلنگٹن سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی آف ٹیکساس آرلنگٹن کے طالب علم راجہ راحیل اختر خانزادہ کو ان کے تعلیمی کیریئر میں بہترین پرفارمنس اور ساتھ ساتھ کمیونٹی کیلئے کی جانے والی خدمات کے اعتراف میں اسپتال کی جانب سے 5 ہزار ڈالر زاسکالر شپ دینے کے سلسلے میں ایک تقریب اسپتال میں منعقد کی گئی جس میں اسپتال کے مالکان ڈاکٹر حسن ہاشمی‘ سی ای او سلمان ہاشمی اور اسپتال کے بورڈ کے اراکین چیف آپریٹنگ آفیسر سید عثمان‘ نائب صدر فراز ہاشمی‘ چیف فنانشل آفیسر جولی اسٹیل‘ چیئرمین بورڈ آف آف ڈائریکٹر سلیمان ہاشمی‘ چیف نرسنگ آفیسر برانڈی کیوفی اور ایڈمنسٹریشن برنی کینڈی نے شرکت کی اور اسپتال کے مالک ڈاکٹر حسن ہاشمی نے طالب علم راجہ راحیل کو 5 ہزار ڈالر کا اسکالر شپ چیک دیا۔ ڈاکٹر حسن ہاشمی نے اس موقع پر کہاکہ اسپتال کی جانب سے تعلیمی کیریئر میں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرنے اور میڈیکل کی تعلیم میں دلچسپی لینے والے طالب علموں کیلئے اس اسکالر شپ کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ اسپتال کی جانب سے کمیونٹی کے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے انہوں نے کہاکہ ہونہار طالب علموں کیلئے اسپتال ہر طرح مدد و تعاون کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہاکہ گرانڈ پیری اور گرد و نواح کی کمیونٹی میں موجود طالب علم اس علاقہ اور ملک کے مستقبل کے معمار ہیں جن کی حوصلہ افزائی ضروری ہے انہوں نے کہاکہ اسپتال کی جانب سے کمیونٹی کیلئے دیگر خدمات کا سلسلے میں بھی کئی مزید پروگرام ترتیب دئیے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر اسکالر شپ حاصل کرنے والے طالب علم راجہ راحیل نے کہاکہ وہ مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں اور اس اسکالر شپ ایوارڈ کی رقم کو وہ UTA میں اپنی فیس دینے کیلئے استعمال کریں گے۔ انہوں نے اس موقع پر اسپتال کے رہنماؤں سے اظہار تشکر کیا۔
http://www.urdu.co/news/aalmi-khabrain/geo-news-149786/
 

جاسمن

لائبریرین
جہلم میں پاکستان کی تاریخ کا تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ دریافت
ذخیرے سے رواں ماہ کے آخر تک تیل کی پیداوار شروع ہونے کا امکان ہے
ہفتہ 7 جون 2014
260812-oilwell-1402152737-853-640x480.jpg

کنویں میں تیل کی پیداوار کے ذخیرے کا اندازہ 2 کروڑ 20 لاکھ بیرل لگایا گیا ہے، ذرائع فوٹو:فائل
ایکسپریس نیوز کے مطابق جہلم کی تحصیل سوہاوہ کے نواحی علاقے دھمیک میں تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت کیا گیا ہے جسے ملک میں تیل کی پیداوار کا سب سے بڑا ذخیرہ قرار دیا گیا ہے، ذرائع کے مطابق غوری ایکس ون نامی اس کنویں میں یومیہ تیل کی پیداوار کا تخمینہ 5500 بیرل ہے جبکہ کنویں میں تیل کی پیداوار کے ذخیرے کا اندازہ 2 کروڑ 20 لاکھ بیرل لگایا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ذخیرے سے رواں ماہ کے آخر تک تیل کی پیداوار شروع ہونے کا امکان ہے۔
http://www.express.pk/story/260812/
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
اتوار, جون 15, 2014

برازوکا پاکستانیوں کے لیے 'باعث فخر'
پاکستانی نژاد امریکی کارروباری شخصیت محمد اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مرکزی بازار حصص 'کراچی اسٹاک ایکسچینج' کی شاندار کارکردگی اور برازوکا جیسے تخلیقی کام سے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستانیوں کی کام کرنے کے جذبے کی عکاسی ہوتی ہے۔



پاکستان وہ ملک ہے جس نے کئی مقبول کھیلوں بشمول کرکٹ، ہاکی، اسکوئش اور اسنوکر میں عالمی مقابلے جیتے لیکن فٹبال میں جنوبی ایشیا کی سطح سے آگے نا بڑھ سکا۔
لیکن ورلڈکپ 2014 میں پاکستان کے بنے ہوئے فٹبال برازیل کے میدانوں میں وہاں پاکستان کی موجودگی کا سبب بنے، جہاں دنیا کی 32 ٹیمیں اس مقبول کھیل کے سب سے بڑے مقابلوں میں شریک ہیں۔

ایڈیڈاس برانڈ کے یہ فٹبال پاکستان شہر سیالکوٹ میں بنے جنہیں''برازوکا'' کا نا دیا گیا جس کا برازیلی زبان میں معنی قومی فخر ہے۔

'برازوکا' کی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صنتعی شہر سیالکوٹ میں بڑے پیمانے پر تیاری کو پاکستانی نژاد امریکی شہری ایک کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

برازوکا کی تیاری کا کارنامہ ایک ایسے وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب پاکستان کو خاص طور پر افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں سمیت ملک میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے سلامتی کے خطرات درپیش ہیں۔

ورجینیا میں مقیم ایک پاکستانی نژاد امریکی کارروباری شخصیت محمد اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مرکزی بازار حصص 'کراچی اسٹاک ایکسچینج' کی شاندار کارکردگی اور برازوکا جیسے تخلیقی کام سے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستانیوں کی کام کرنے کے جذبوں کی عکاسی ہوتی ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے واشنگٹن میں ایک تجارتی نمائش کا اہتمام کرنے کے لیے کوشاں ایک بڑی کارروباری شخصیت مرزا نسیم الدین کہتے ہیں کہ دہشت گردی جیسے مسئلے اور توانائی کی کمی نے ملک کی اقتصادی ترقی کی صلاحیت کو متاثر کیا لیکن "ایسے میں برازوکا نے امید اور لچک کا ایک پیغام دیا۔"

فٹبال کے بین الاقوامی میدانوں میں ماہر کھلاڑیوں نے پہلے ہی برازو کا تجرباتی طور پر استعمال کر کے اسے سراہا ہے۔ 2010ء میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے فٹبال کے عالمی کپ میں کھلاڑیوں کی طرف سے یہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ ایڈیڈاس کے چینی ساختہ جابولانی فٹبال نہ صرف "سخت" ہیں بلکہ ہوا میں اچھالنے کے بعد ان کی سمت بھی "غیر متوقع" ہوتی ہے۔

رواں عالمی کپ مقابلوں کے لیے فٹبال کی تیاری سے پاکستانیوں نے چین کو بھی مسابقت کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا اور برازوکا کی تیاری کا ٹھیکہ حاصل کیا۔

نئے فٹبال کی اس بڑے پیمانے پر تیاری کا چیلنج کرتے ہوئے سیالکوٹ میں فارورڈ اسپورٹس کے خواجہ مسعود اختر نے اپنے کارروبار کو بڑھانے کا موقع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بحیثیت بہترین کوالٹی کے فٹبال بنانے والے ملک کی ساکھ کو بحال کیا۔

843AE8C8-937B-45D0-B124-AD60FD970109_w268_r1.jpg
ہالینڈ کے روبن کا اسپین کے خلاف میچ میں ایک انداز
x

ہالینڈ کے روبن کا اسپین کے خلاف میچ میں ایک انداز
موقر امریکی اخبار "دی واشنگٹن پوسٹ" نے برازوکا کو عالمی کپ کا "سرپرائزنگ اسٹار" قرار دیتے ہوئے ارجنٹائن کے لیونل میسی اور اسپین کے گول کیپر کیسلیئس سمیت چند بڑے کھلاڑیوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے برازوکا کو ایک " بہترین گیند" قرار دیا۔

برازوکا کا وزن 437 گرام اور قطر 69 سینٹی میٹر ہے اور عالمی کپ سے قبل دنیا کے دس ملکوں میں سینکڑوں کھلاڑی اس گیند کو تجرباتی طور پر کھیل کر استعمال کر چکے ہیں۔

فٹبال بنانے والی کمپنی کے مالک کے بعد ان کے ہاں نوے فیصد کارکن خواتین ہیں جو کہ ترقی پذیر دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کی خال خال نظر والی ایک مثال ہے۔

D74B03A3-20AF-452A-932C-AE3B12EE3B31_w268_r1_cx2_cy11_cw96.jpg
برازوکا کی تیاری کا ایک مرحلہ
x

برازوکا کی تیاری کا ایک مرحلہ

دنیا بھر اور امریکہ میں بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے فٹبال کی تیاری فخر کا ایک اہم موقع ہے۔

(علی عمران سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، جہاں عالمی کپ میں استعمال ہونے والے یہ فٹبال بنے اور ڈیزائن کیے گئے۔ علی عمران واشنگٹن میں ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان 'اے پی پی' کے نمائندے ہیں۔)
http://www.urduvoa.com/content/pakistanis-are-proud-of-brazuca/1937205.html
 

جاسمن

لائبریرین
انٹیل سائنس میلہ، تین پاکستانی طالبات کو ایوارڈ
تینوں طالبات نے ہوا کے کم دباوٴ سے چلنے والے ونڈ ٹربائن کا کامیاب تجربہ پیش کیا

C910335D-E83D-4100-8156-F3672F3598C1_w640_r1_s.jpg

شائستہ جلیل: 18.05.2014

کراچی — پاکستانی اسکول کی تین طالبات نے لاس اینجلس میں منعقدہ ایک بین الاقوامی میلے میں سائنس کے تجربے پر ایوارڈ جیتا ہے۔

حال ہی میں، امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں ’بین الاقوامی انٹیل سائنس اینڈ انجینئرنگ میلہ2014ء‘ سجایا گیا، جس میں ان تین طالبات کو ان کے سائنسی تجربے کی بنا پر خصوصی انعام سے نوازا گیا۔

ان تینوں طالبات نے ہوا کے کم دباوٴ سے چلنے والے ونڈ ٹربائن کا ایک تجربہ پیش کیا، جسے انٹیل کی جانب سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔

ایوارڈ کے ساتھ، طالبات کو ملنے والے انعام کی مالیت ایک ہزار ڈالر بتائی گئی ہے۔ ایوارڈ حاصل کرنےوالی تینوں طالبات کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، انٹیل کی جانب سے ہونےوالے ایجوکیشن میلے 2014 ء میں دنیا بھر کے دیگر ممالک سمیت، پاکستان کے مختلف شہروں سے چھ طلبہ و طالبات نے حصہ لیا
http://www.urduvoa.com/content/three-pakistani-students-science-award/1917267.html
 

جاسمن

لائبریرین
ایک باہمت پاکستانی نوجوان کی کہانی۔۔۔
جہانزیب اعوان کا تعلق کراچی کے علاقہ ملیر سے ہے۔ سات سال کی عمر میں ایک ٹریفک حادثہ میں جہانزیب ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے۔



شہناز عزیز
27.07.2013

واشنگٹن ۔

جہانزیب اعوان کا تعلق کراچی کے علاقہ ملیر سے ہے۔ سات سال کی عمر میں ایک ٹریفک حادثہ میں جہانزیب ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے۔ رانا عمران نے بتایا کہ والد اور والدہ کی وفات اور ایک ٹانگ سے معذوری کے باوجود اس باہمت نوجوان نے اپنی پانچ بہنوں اور ایک بھائی کو سہارا دیا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی اور تخلیقی شعبوں میں بھی سرگرم رہے۔

جہانزیب اعوان بی کام کے طالب علم ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ٹانگ سے محرومی کے باوجود باڈی بلڈنگ ، جمناسٹک، رقص، اداکاری اور پروڈکشن میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور جمناسٹک میں ہاتھوں پر الٹا کھڑا رہنے کا ورلڈ ریکارڈ بنانے کی خواہش بھی ہے۔

پاکستان کے کچھ ٹی وی چینلز نے جہانزیب پر پروگرام کئے جن کے ویڈیو انہوں نے فیس بک پر پوسٹ کر دیئے اور اس طرح ان کا تعارف بھارت کے ایک ایسے ڈائرکٹر سدھارتھ داس سے ہوا جن کا ’پیشن‘ دستاویزی فلمیں بنانا ہے۔۔ سدھارتھ داس کا دل محض جہانزیب کی ہمت نے ہی اپنی طرف نہیں کھینچا تھا بلکہ ان کی اس بات نے بھی کہ،’ ان کے ہیرو سلمان خان ہیں‘ ۔ انہوں نے اس پاکستانی نوجوان کو اپنی دستاویزی فلم ’ٹیلنٹ آف پاکستان‘ میں مرکزی کردار کی آفر کی۔۔



جہانزیب کو اس آفر کے بعد مالی دشواریوں کا مسئلہ درپیش تھا۔ بھارت جانے کا کرایہ ان کی استطاعت سے باہر تھا اور اسی لئے انہوں نے ہمارے پروگرام ’میری کہانی‘ سے رابطہ کیا تھا۔ سدھارت نے بھارت میں ان کے تمام اخراجات اٹھانے کا وعدہ کیا ہے ۔ وائس آف امریکہ کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ بھارتی فلمساز و ہدیتکار سدھارتھ داس کی دستاویزی فلم ٹیلنٹ آف پاکستان میں مرکزی کردار کی آفر ملنے پر بہت خوشی ہوئی جسے میں نے فوراً قبول کر لیا۔ ٹیلنٹ آف پاکستان کا اسکرپٹ بھارتی رائٹر شنتانوسین نے لکھا ہے۔

اسی پروگرام میں شرکت کرنے والی ممتاز سماجی کارکن عارفہ شمسہ نے کہا کہ جہاں زیب جیسے فن کاروں کے مسائل، چینلز کو اجاگر کرنے چاہیئں۔

62AAF28F-4006-4088-954A-96416B1EFD3F_w268_r1.jpg
اعجاز جنجوعہ (دائیں ہاتھ سے تیسرے)
x

اعجاز جنجوعہ (دائیں ہاتھ سے تیسرے)
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمیں ایک انسان دوست شخصیت قریبی ریاست میری لینڈ میں ہی مل گئی۔ اعجاز جنجوعہ صاحب کا تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے۔ امریکہ میں انہوں نے اپنے شعبے بزنس ایڈمنسٹریشن اور مالیات میں آٹھ سال تک یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیئے اور پھر بالٹی مور میں اپنی ٹریول ایجنسی ’سپر ایگل ٹریولز‘ کے نام سے شروع کی جو اتنی تیزی سے آگے بڑھی کہ انہیں مکمل طور پر بزنس کو ہی وقت دینا پڑا۔ جہانزیب کی کہانی اور سدھارتھ داس کی انسانیت نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے فوری طور پر اس نوجوان فنکار کے لئے بھارت کے ہوائی سفر کا دو طرفہ ٹکٹ دینے کا وعدہ کر لیا۔۔

یہ فلم 14 اگست کو پاکستان اور 15 اگست کو بھارت میں ریلیز کی جائے گی۔

اور یوں ایک اور کہانی مسکراہٹوں کے ساتھ انجام کو پہنچی۔۔

اس پروگرام کی مزید تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر جائیں جہاں آپ یہ پورا پروگرام سن سکتے ہیں۔

http://www.urduvoa.com/audio/audio/309593.html
http://www.urduvoa.com/content/meri-kahani/1711336.html
 

جاسمن

لائبریرین
باہمت نوجوان رحمت علی شاہین کی کہانی
انتہائی غربت کے باوجود چھوٹے موٹے کام کرکے اس نوجوان نے ایف اے پاس کرلیا اور اب وہ اپنے بےاے کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے



شہناز عزیز
05.04.2013

واشنگٹن — چار اپریل کے پروگرام ’میری کہانی‘ میں پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’حسنہ‘ کے ایک نوجوان رحمت علی شاہین نے اپنی کہانی سنائی۔

رحمت علی بچپن میں ہی ٹانگوں سے معذور ہوگئے تھے اور اُن کی باہمت ماں اُنھیں گود میںٕ اُٹھا کر اسکول لے جاتی تھیں۔

انتہائی غربت کے باوجود چھوٹے موٹے کام کرکے اس نوجوان نے ایف اے پاس کرلیا اور اب وہ اپنے بےاے کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔

لیکن، اس کی انتھک محنت اور عزم کے باوجود اسے کوئی معقول نوکری نہیں مل سکی اور وہ ایک پرائمری اسکول میں عارضی ٹیچر کی جاب سے بمشکل ماہوار ایک ہزار روپے سے بھی کم کما پاتے ہیں، جب کہ گھر کی ذمہ داری بھی اب اُن کی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ درزی کا کام بھی کرتے ہیں۔

پاکستان کے معروف سیاست داں، راجہ ظفر الحق اس پروگرام میں ہمارے مہمان تھے جنھوں نے رحمت علی کی کہانی کو ہزاروں نوجوانوں کی کہانیوں سے تعبیر کیا، جنھیں سسٹم نے مایوس کیا ہے۔

راجہ ظفر الحق ’مؤتمر العالم الاسلامی‘ کے ایک سرکردہ رُکن ہیں۔

اُنھوں نے اس ادارے کی جانب سے رحمت علی شاہین کے لیے ہر ماہ پانچ ہزار روپے کے وظیفے کا اُس وقت تک کے لیے وعدہ کیا جب تک وہ بی اے پاس نہیں کرلیتے۔

اُنھوں نے رحمت کے لیے نوکری ڈھونڈنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
http://www.urduvoa.com/content/meri-kahani-tale-of-a-courageous-disable-youngster/1635943.html
 

جاسمن

لائبریرین
یوم تشکر اور فلک شیر کا خواب
لیکن، بینائی سے محروم دس روپے کے عوض ایک من آٹا پیسنے والے اِس محنت کش نے اپنا قرض ادا کردیا ہے اور اُنھیں خوشی ہے کہ اب اُن کے بچے روکھی روٹی نہیں کھا تے بلکہ گائے کے دودھ کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں جو اُن کے لیے ایک ایسی نعمت ہے


فلک شیر اپنی گائے کے ساتھ
شہناز عزیز
21.11.2012

واشنگٹن — میری کہانی: ’بس اگر میرے بچوں کو روٹی کے ساتھ کھانے کے لیے دودھ کا ایک پیالہ مل جائے تو تھوڑا سا سالن اور مجھ پر جو ستر ہزار روپے کا قرض ہے وہ ادا ہوجائے، تو میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کروں گا‘۔

یہ جواب تھا فلک شیر کا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’میری کہانی‘ میں، اُن سےیہ پوچھا گیا تھا کہ، کوئی ایسا خواب بتائیں جو آپ کی زندگی کا حاصل ہو۔

فلک شیر کی اس کہانی نے مجھ سمیت ہمارے بہت سے سننے والوں کو رلا دیا تھا۔

لیکن، اب وقت ہے آنسو پونچھ کر مسکرانے کا!

’العباس ایجوکیشن ٹرسٹ ‘ کے بانی غلام عباس بھٹی صاحب ہمارے اِس پروگرام کے مہمان تھے اور اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وہ فلک شیر کی اِن خواہشوں کو پورا کردیں گے، اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔

گذشتہ دِنوں، فلک شیر کو تحفے میں صرف ایک گائے ہی نہیں، بلکہ ایک بچھڑا بھی مل گیا اور ستر ہزار روپے بھی جِن سے اُنھوں نے فوری طور پر اپنا قرض ادا کردیا۔
جب خوشی سے لرزتی آواز کے ساتھ اُنھوں نے فون پر ہمیں یہ اطلاع دی تو اُس وقت وہ سب ملنے والوں کو مٹھائی بانٹ رہے تھے۔ میں نے مذاق میں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سب پیسے مٹھائی میں ختم نہ ہوجائیں۔



فلک شیر، غلام عباس بھٹی اور ظفر اقبال سے گائے وصول کرتے ہوئےلیکن، بینائی سے محروم دس روپے کے عوض ایک من آٹا پیسنے والے اِس محنت کش نے اپنا قرض ادا کردیا ہے اور اُنھیں خوشی ہے کہ اب اُن کے بچے روکھی روٹی نہیں کھا تے بلکہ گائے کے دودھ کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں جو اُن کے لیے ایک ایسی نعمت ہے کہ یہ اُن کا ایک ’مکمل دنیا‘ کا خواب تھا۔

فلک شیر کی یہ بھولی بھالی معصوم سی کہانی لاکھوں اور کروڑوں زندگیوں کی کہانی ہے۔ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر کی زندگیوں میں غلام عباس بھٹی جیسا کوئی شخص نہیں آیا جو اُن کا خواب پورا کرسکے۔

ایک ایسا شخص جِس نے اپنی زندگی کا آغازہی محنت مزدوری سے کیا، جو بھوک اور مصائب سے واقف ہے اور ساتھ ہی رزق ِحلال کےحصول کی خوشی سے بھی۔۔۔اپنی طالب علمی کے زمانے میں چلتے چلتے گھاس کے کسی ٹکڑے پر کھڑے ہو کر اپنے پیروں کو ٹھنڈا کرتا تھا اور پھر تیز دھوپ کا سفر شروع کرتا تھا۔۔۔ اور، پھر اللہ تعالیٰ نے اِس طرح نوازا کہ اب وہ نہ صرف سینکڑوں ضرورت مند طالب علموں کو علم کی دولت دے رہا ہے، بلکہ بہت سے گھرانوں کا چولہا جلانے کی ذمہ داری بھی اُن کی ہے۔ لیکن، اُن کا ایک عزم ہے ’بھیک نہیں، بلکہ ایسی امداد جو روزگار کا وسیلہ بنے‘ اور اِسی لیے زیادہ تر وہ فلک شیر جیسے لوگوں کو رکشا خرید کر دیتے ہیں۔۔۔ لیکن، چونکہ، فلک شیر بینائی سے محروم ہیں اِس لیے عباس صاحب کے خیال میں اُنھیں گائے کا دودھ صرف گھر میں ہی نہیں استعمال کرنا چاہیئے بلکہ اسے روزگار کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔
http://www.urduvoa.com/content/voa-program-meri-kahani-update/1550801.html
 

جاسمن

لائبریرین
ہمت اور حوصلے کی مثال: اعجازحسین
سنہ 1990 میں مجھے لیڈی ڈیانا سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ میرا انتخاب یورکشائرکے 5000 اسپیشل بچوں میں سے کیا گیا تھا، جہاں مجھےلندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ’چائلڈ آف دی ائیر‘ کا ایواڈ دیا گیا


اعجاز حسین

نصرت شبنم
25.10.2012

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اعجاز حسین کبھی چل نہیں سکتا ۔ تاہم، اعجاز حسین نے ڈاکٹروں کی اس پیشن گوئی کو نہ صرف غلط ثابت کیا، بلکہ وہ لوگوں کے لیے ہمت، لگن اور بلند ارادے کی ایک ایسی مثال بن گئے ہیں۔

تینتیس سالہ اعجاز حسین پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں سےمحروم ہیں۔ اس کے باوجود، اُنھوں نے ڈرائیونگ ٹیسٹ آٹھ معمولی غلطیوں کے ساتھ پہلی ہی دفعہ میں پاس کر لیا ۔اپنی اس کامیابی پر وہ انتہائی خوش نظر آتے ہیں۔ اُن کے لیے زندگی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کے ایک ایسا ڈرائیونگ اسکول شروع کریں جہاں اسپیشل افراد کو ڈرائیونگ مفت سکھائی جائے۔

اعجاز حسین برطانیہ کے شہر لیڈز میں پیدا ہوئےاور تین بچوں کے والد ہیں ۔ وہ سینٹ جیمز ہسپتال کے ایڈ منسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں ۔وہیں انھوں نے مصنوعی ٹانگ بھی لگوا لی ہے ۔

’وی او اے‘ سے بات کرتے ہوئے اعجاز حسین نے اپنے زندگی کی کچھ تلخ ا ور شیریں یادوں کا ذکر کیا۔

’میرا بچپن عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ تین بہنیں اور ایک بھائی۔ میری زندگی ان سب کی محتاج تھی۔ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ہمیشہ میرا خیال رکھا۔ وہ ہر کھیل میں مجھے اپنے ساتھ رکھتے مگر انھیں ویڈیو گیمز اور گھر سے باہر فٹبال کھیلتے دیکھ کر میں اپنے والدین سے شکوہ کرتا کہ 'میں ایسا کیوں ہوں ۔'

ایسےمیں، میرے والد مجھے سمجھاتے کہ تمہیں زندگی میں آگے بڑھنا ہے اور اس سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا۔

اُنھوں نے کہا میں اسپیشل اسکول جانے کے ساتھ ساتھ فزیو تھراپسٹ کےپاس بھی جایا کرتا تھا۔ایک دن جب میں کوشش کر کے کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گیا ، تو گھر میں سبھی بہت خوش تھے۔

’میں نے سمجھ لیا کہ اگر میں اپنی معذوری کو اپنی مجبوری بنا لوں گا، تو کچھ ہی دن میں سب مجھ سے بے زار ہو جائیں گے۔ لہذا، میں نے اپنی زندگی میں خوش رہنا سیکھ لیا۔ لوگوں سے ہنس ہنس کر بات کرنا۔اُنھیں لطیفے سنانا۔ بس، مجھےسبھی کے ساتھ مزا آنے لگا اور لوگ بھی مجھ سے بور نہیں ہوتے‘۔

سنہ 1990 میں مجھے لیڈی ڈیانا سے ملاقات کا موقع بھی ملا ۔میرا انتخاب یورکشائرکے 5000 اسپیشل بچوں میں سے کیا گیا تھا۔ جہاں مجھےلندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ’چائلڈ آف دی ائیر‘ کا ایواڈ دیا گیا۔

انھوں نے اپنی شادی کا قصہ سناتے ہوئے کہا کہ، ’میرے والد نے میری شادی پاکستان میں طے کر دی۔ مجھے یہ سوچ کر ہی عجیب لگتا تھا کہ کوئی کیوں ساری زندگی کے لیے میری ذمہ داری اٹھانا چاہے گا‘۔

’میں تو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا محتاج ہوں۔ ایسے میں، شادی کی ذمہ داری کے لیے میں تیار نہیں تھا۔ مگر، میرے تمام خدشات میری شریک ِحیات نے غلط ثابت کر دیے۔ ہماری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں اور ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ جبکہ، اس کے ٖفرائض میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میرےہر کام کی ذمہ داری بھی شامل ہے ‘۔

مسز حسین نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ،’میں اعجاز سے اپنی شادی کو اپنا مقدر مانتی ہوں۔ اور، اِس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ اگر میرا نصیب اعجاز کے ساتھ ہی جڑا تھا ، تو کسی ایکسیڈنٹ سے بھی ایسا ہو سکتا تھا‘ ۔

اعجاز نے بتایا کہ ان کے ڈرائیونگ سیکھنے کی کہانی پرانی ہے۔ جب وہ 18 سال کی عمر میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتے تھے، تب ان کویہ ناممکن سا لگتا تھا ۔

شادی کے بعد اپنی بیوی کی ہمت بڑھانےسے اُنھوں نے ایک بار پھرخود کو ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے تیار کیا ۔ اس میں ان کی سچی لگن اور پختہ ارادے کا ہاتھ تھا کہ اُنھوں نےنا ممکن کو ممکن بنا دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اسپیشل افراد کے لیے انسٹرکٹر ڈھونڈنا بھی مشکل کا م ہے مگر وہ خوش قسمت تھےکہ اُنھیں' لی' جیسا انسٹرکٹر ملا جِس کی حوصلہ افزائی سے اُن کے لیے گاڑی چلانا بہت آسان ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کے ڈرائیونگ سیکھنے کی خوشی اس لیے بہت زیادہ ہے کیوں کہ اب وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ویک اینڈ پر گھومنے جاتے ہیں۔ان کی زندگی پہلے کی بہ نسبت بہت سہل ہو گئی ہے ۔اس سلسلے میں اُنھوں نے اپنے انسٹرکٹر لی اور گھر والوں کا شکریہ ادا کیا جن کی سپورٹ سے آج وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں۔انھوں نے اپنی گاڑی میں ایک ہینڈ فری بٹن آپریٹڈ سسٹم ڈالنے کے لیے 3500 پاؤنڈ کا اضافی خرچہ بھی کیا ہے۔

اُن کا کہنا ہےکہ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اسپیشل افراد کے لیے صرف دن ہی نہ منائے جائیں، بلکہ اُن کی سہولت کے لیےبھی سوچنا سب لوگوں کا فرض بنتا ہے۔ شہری انتظامیہ کی جانب سےپارکنگ لاٹ میں زیادہ جگہ مختص ہونی چاہیئے،بہت سی جگہوں پر جانا اس لیے ناممکن ہوتا ہےکیوں کہ وہاں’ ریمپ‘ نہیں ہوتے ۔ا ِس کے علاوہ، اُنھوں نے لوگوں کے رویہ کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ لوگ اسپیشل افراد کو شاپنگ کرتے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ،جبکہ اُنھیں لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

انھوں نے کہا اکثر لوگ انھیں بہت ہمدردی سے دیکھتے ہیں جس کا انھیں برا نہیں لگتا، مگر جب کوئی خاص اشارہ کر کے ان سے تعلق کوئی چبھتی بات کرتا ہے تو انھیں یہ بات اچھی نہیں لگتی۔

اُن کے بقول، ’میں ایسے لوگوں کو خصوصا ًہماری ایشین کمیونٹی کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسےاسپیشل بچوں کے اندرخود اعتمادی کا جذبہ پیدا کریں اور اُنھیں بجائے ہمدردی کے اپنی محبت دیں تو یہی بچے کبھی بھی خود کو ناکارہ نہیں سمجھیں گے اور اپنی زندگی اعتماد سےگزارنے کے قابل ہو جائیں گے‘ ۔

اِس خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ چاہتے ہیں کہ اسپیشل افراد ڈرائیونگ سیکھیں اور اس مقصد کے لیے وہ ایک ڈرائیونگ اسکول کھولنے کے متمنی ہیں۔
http://www.urduvoa.com/content/selfrespecting-disabled-ejaz/1533629.html
 

جاسمن

لائبریرین
نابینا خاندان نے پورا محلہ روشن کر دیا


رانا محمدعمران خان - سیٹیزن جرنلسٹ - اردو وی او اے - اوکاڑہ
26.07.2012


Rana M. Imran - CJ Urdu VOAپاکستان کے سب سے بڑے صوبے ، پنجاب کے شہر دیپالپور( اوکاڑہ) میں محلہ ڈھکی کے مقام پر ایک نابینا خاندان اندھیروں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ لیکن، معزوری کے باوجود، نابینا خاندان خیرات اور صدقات کا طلب گار نہیں، بلکے خود اپنے زور بازو پر روزگار کمانا جانتا ہے۔




اِس نابینا خاندان کا سربراہ، عبدلرحمان مالش اور مساج کرتا ہے اور اس کا نابینا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے۔بڑی ماں نظیراں بی بی کو الله پاک نے اولاد کی نعمت سے نوازا ۔بڑے بیٹے عبدالخالق کے علاوہ تین بچے آنکھوں کی دولت سے محروم ہیں۔شکیلہ بی بی ،عبدالرحمن اور عبدالمنان نابینا ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ بچے بچپن سےنابینا نہ تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے محروم ہوتے گئے۔

نابینا بھائیوں نے آنکھوں کی معزوری کا سہارا لے کر بھکاریوں کا روپ اختیار نہیں کیا، بلکہ اپنی جمع پونجی سے قسطوں پر جنریٹر خریدا اور پورے محلے کو بجلی کا کنکشن دے کر نہ صرف خود روزگار کمایا، بلکہ محلہ کو لوڈشیڈنگ جیسی لعنت سے بچا لیا۔اہل محلہ اس نابینا خاندان کا مشکور ہے اور ان کی آنکھوں کے علاج کے لیےدعا گو ہے۔



اوکاڑہ کا نابینا خاندان’وائس آ ف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں نابینا خاندان کے سربراہ عبدلرحمان نے کہا کے بچپن میں بس اور ٹرین میں پکوڑے وغیرہ بیچا کرتا تھا، پھر میں نے گھر کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان میں مالش اور مساج کا کام شرو ع کیا ۔میرا چھوٹا بھائی عبد المنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے، اور وہ بھی آنکھوں سے محروم ہے۔

اُن کے الفاظ میں: ’میری بڑی بہن بھی آنکھوں سے محتاج ہے۔ لیکن پھر بھی، گھر میں جھاڑو پوچا لگاتی ہے، جبکے میری والدہ اسی سال کی بوڑھی خاتون ہے ۔میری شادی بھی ایک نابینا لڑکی سے ہوئی۔اب گھر میں یہ حالات ہیں کہ ہانڈی روٹی پکانے والا کوئی نہیں۔ہم بازار سے کھانا منگوا کر کھاتے ہیں ‘۔



عبدلرحمان کے چھوٹے بھائی عبدالمنان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں لوگ خیرات صدقات دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن، ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا، کیوں کہ ہم خود روزگار کمانا جانتے ہیں۔ بس ہماری یہ خواہش ہے کہ کسی طرح ہماری بینائی واپس آ جائے۔


عبدالرحمان اور عبدالمنان کی بڑی بہن شکیلہ نےکہا کہ اُن کی شادی نہ ہونے کی وجہ اُن کی آنکھوں کی مہتاجی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کا کھانا پکانے کو دل کرتا ہے۔ لیکن، وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔ اُنھیں اپنے دونوں بھائیوں پر فخر ہے کہ وہ آنکھوں کی محتاجی کے باوجود گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔
http://www.urduvoa.com/content/blind-family-lits-the-town/1447505.html
 

زیک

مسافر
انٹیل سائنس میلہ، تین پاکستانی طالبات کو ایوارڈ
تینوں طالبات نے ہوا کے کم دباوٴ سے چلنے والے ونڈ ٹربائن کا کامیاب تجربہ پیش کیا

C910335D-E83D-4100-8156-F3672F3598C1_w640_r1_s.jpg

شائستہ جلیل: 18.05.2014

کراچی — پاکستانی اسکول کی تین طالبات نے لاس اینجلس میں منعقدہ ایک بین الاقوامی میلے میں سائنس کے تجربے پر ایوارڈ جیتا ہے۔

حال ہی میں، امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں ’بین الاقوامی انٹیل سائنس اینڈ انجینئرنگ میلہ2014ء‘ سجایا گیا، جس میں ان تین طالبات کو ان کے سائنسی تجربے کی بنا پر خصوصی انعام سے نوازا گیا۔

ان تینوں طالبات نے ہوا کے کم دباوٴ سے چلنے والے ونڈ ٹربائن کا ایک تجربہ پیش کیا، جسے انٹیل کی جانب سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔

ایوارڈ کے ساتھ، طالبات کو ملنے والے انعام کی مالیت ایک ہزار ڈالر بتائی گئی ہے۔ ایوارڈ حاصل کرنےوالی تینوں طالبات کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، انٹیل کی جانب سے ہونےوالے ایجوکیشن میلے 2014 ء میں دنیا بھر کے دیگر ممالک سمیت، پاکستان کے مختلف شہروں سے چھ طلبہ و طالبات نے حصہ لیا
http://www.urduvoa.com/content/three-pakistani-students-science-award/1917267.html
https://www.societyforscience.org/press-release-intel-isef-2014-special-award-winners
 
Top