سیما علی
لائبریرین
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
جاسمن بٹیا جیتی رہیے کہ آپ نے ڈاکٹر مبشر رحمانی کے تعارف سے صبح کو روشن کیا۔۔
مجھے محبت ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند`
ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی کوکمپیوٹر سائنس کے شعبے میں دنیا کے بہترین1 فیصد محققین میں سے ہیں ۔
ہمارے لئیے ایسے نوجوان باعثِ صد افتخار ہیں جو دنیا و عقبیٰ کی پرواہ کرتے اور اسلامی تعلیمات جنکے لیے مقدم جب کہ دنیا کی مغرب کی تقلید میں اندھا دھند بھاگ رہی ہے۔۔
ڈاکٹر مبشر کہتے ہیں، کہ ’میں اپنا یہ اعزاز، اپنی بہنوں اور اپنی پسندیدہ شخصیت حیدرآباد کے مفتی محمد نعیم میمن کے نام کرتا ہوں۔ بہنوں کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کا میری زندگی میں بہت بڑا کردار ہے۔ جب میں عام پاکستانی نوجوانوں کی طرح دین اور دنیاوی تعلیم میں الجھا ہوا تھا، اس وقت انہوں نے مجھے درست راہ دکھائی۔ ان کے اس احسان نے مجھے آج دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت دی‘۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میں ان کو اپنا محسن اس لیے بھی مانتا ہوں کہ انجینئرنگ کے دوسرے سال میرے ذہن میں آیا کہ میں انجینئرنگ کی تعلیم چھوڑ دوں۔ دین کا کام سیکھوں اور تبلیغ پر چلا جاؤں۔ اس وقت انہوں نے مجھے کہا ’بھائی کیسی باتیں کر رہے ہو۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا، اس میں اچھے نمبر لانا بھی دین ہے۔ یہی ہمارا دین کہتا ہے‘۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے نے کہا کہ 'آج بھی اکثر نوجوانوں کے ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں دین اور ملک کی خدمت کرنی چاہیے، اور یہ سب دنیاوی تعلیم چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر روشن ذہن والے بزرگوں کا فیض حاصل ہوجائے تو بہتر رہنمائی حاصل ہوتی ہے'۔ کئی بار ذہنی الجھن کا شکار رہا بتاتے ہیں کہ دورانِ تعلیم اور زندگی کے مختلف ادوار میں آج کا نوجوان کئی بار ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اچھے نمبر، اچھے کالج میں داخلہ اور پھر اچھی نوکری کا دباؤ۔ ڈاکٹر مبشر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور انہیں جہاں صحت اور تندرستی برقرار رکھنے کے لیے ورزش اور خوراک کا خیال رکھنے کا کہا جاتا ہے وہیں انہیں احساس دلائیں کہ ذہنی صحت کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے اور ہمارے لیے بحیثیت خاندان اور دوست اپنے اطراف کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہیں بروقت فیصلہ سازی کی ترغیب دیں اور ان کی مثبت ذہن سازی کریں۔
بہت ساری دعائیں ڈاکٹر مبشر کے لئیے اللّہ اُنکو اپنی حفظ وامان میں رکھے آمین۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر مبشر کے
ایک انٹرویو سے منقول۔۔۔
جاسمن بٹیا جیتی رہیے کہ آپ نے ڈاکٹر مبشر رحمانی کے تعارف سے صبح کو روشن کیا۔۔
مجھے محبت ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند`
ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی کوکمپیوٹر سائنس کے شعبے میں دنیا کے بہترین1 فیصد محققین میں سے ہیں ۔
ہمارے لئیے ایسے نوجوان باعثِ صد افتخار ہیں جو دنیا و عقبیٰ کی پرواہ کرتے اور اسلامی تعلیمات جنکے لیے مقدم جب کہ دنیا کی مغرب کی تقلید میں اندھا دھند بھاگ رہی ہے۔۔
ڈاکٹر مبشر کہتے ہیں، کہ ’میں اپنا یہ اعزاز، اپنی بہنوں اور اپنی پسندیدہ شخصیت حیدرآباد کے مفتی محمد نعیم میمن کے نام کرتا ہوں۔ بہنوں کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کا میری زندگی میں بہت بڑا کردار ہے۔ جب میں عام پاکستانی نوجوانوں کی طرح دین اور دنیاوی تعلیم میں الجھا ہوا تھا، اس وقت انہوں نے مجھے درست راہ دکھائی۔ ان کے اس احسان نے مجھے آج دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت دی‘۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میں ان کو اپنا محسن اس لیے بھی مانتا ہوں کہ انجینئرنگ کے دوسرے سال میرے ذہن میں آیا کہ میں انجینئرنگ کی تعلیم چھوڑ دوں۔ دین کا کام سیکھوں اور تبلیغ پر چلا جاؤں۔ اس وقت انہوں نے مجھے کہا ’بھائی کیسی باتیں کر رہے ہو۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا، اس میں اچھے نمبر لانا بھی دین ہے۔ یہی ہمارا دین کہتا ہے‘۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے نے کہا کہ 'آج بھی اکثر نوجوانوں کے ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں دین اور ملک کی خدمت کرنی چاہیے، اور یہ سب دنیاوی تعلیم چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر روشن ذہن والے بزرگوں کا فیض حاصل ہوجائے تو بہتر رہنمائی حاصل ہوتی ہے'۔ کئی بار ذہنی الجھن کا شکار رہا بتاتے ہیں کہ دورانِ تعلیم اور زندگی کے مختلف ادوار میں آج کا نوجوان کئی بار ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اچھے نمبر، اچھے کالج میں داخلہ اور پھر اچھی نوکری کا دباؤ۔ ڈاکٹر مبشر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور انہیں جہاں صحت اور تندرستی برقرار رکھنے کے لیے ورزش اور خوراک کا خیال رکھنے کا کہا جاتا ہے وہیں انہیں احساس دلائیں کہ ذہنی صحت کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے اور ہمارے لیے بحیثیت خاندان اور دوست اپنے اطراف کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہیں بروقت فیصلہ سازی کی ترغیب دیں اور ان کی مثبت ذہن سازی کریں۔
بہت ساری دعائیں ڈاکٹر مبشر کے لئیے اللّہ اُنکو اپنی حفظ وامان میں رکھے آمین۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر مبشر کے
ایک انٹرویو سے منقول۔۔۔
آخری تدوین: