[SIZE=26px]وہ مسجد والا سکول[/SIZE]
عباد احمد
27 دسمبر 2021
پہلی سے 10ویں جماعت کی سطح کے تقریباً 1200 طلبہ اس کورس میں شامل ہیں۔ یہاں کچھ ایسے طلبہ بھی ہیں جو کمپیوٹر اور اس کے علاوہ فارسی، ترک اور عربی زبان بھی سیکھ رہے ہیں۔ یہ تمام کورسز بالکل مفت اور بہترین اساتذہ کی زیر نگرانی کروائے جارہے ہیں۔
اس فلاحی منصوبے کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی ماہ گزرے ہیں۔ اس علاقے کی سماجی حرکیات سے آگاہ ایک مبصر کے مطابق ان کورسز میں شامل طلبہ کا تحرک، ماضی میں سیاسی اور فرقہ وارانہ تناؤ کا شکار رہنے والے اس علاقے کے ماحول کو تبدیل کررہا ہے۔
دراصل اس کا آغاز تقسیم ہند کے بعد ہی ہوگیا تھا جب ایک مذہبی اسکالر علامہ ریاض سہروردی مرحوم اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے کراچی کے اس مہاجر اکثریتی علاقے کے وسط میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں توسیع کرکے مدرسہ بھی قائم کرلیا۔
اب 70 سال بعد ان کے پوتے نجم سہروردی نے ’آف دی اسکول‘ کے نام سے اس فلاحی منصوبے کو شروع کیا ہے۔
نجم ایک صحافی اور شیو ننگ اسکالر ہیں جو کہ یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے ریلیجن اینڈ لا میں ماسٹرز کرکے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’یہاں طالبات کی تعداد دو تہائی ہے۔ ہم نے یہاں معمول کے تعلیمی کورسز کے ساتھ ساتھ ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ اور پروگرامنگ کی کلاسیں بھی شروع کی ہیں۔ یہ ایک طرح سے کمیونٹی لرننگ سینٹر ہے۔ ہمارا مقصد مالی مشکلات کا شکار لوگوں کو معیاری تعلیم اور سیکھنے کا ماحول فراہم کرنا ہے‘۔
مشرف زیدی تبادلیب کے سینیئر فیلو ہیں۔ تبادلیب اسلام آباد میں واقع ایک تھنک ٹینک اور مشاورتی خدمات فراہم کرنا والا ادارہ ہے جو قومی اور غیر ملکی اداروں اور سرکاری اداروں کو مشاورتی خدمات فراہم کرتا ہے۔ مشرف کے خیال میں پاکستان کے موجودہ تعلیمی بحران کو اس میں موجود تقسیم کے کئی نکات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان نکات میں طبقات، جنس اور زبان (انگریزی میں مہارت) جیسی چیزیں شامل ہیں۔
ان کے مطابق ’مڈل اسکول کی سطح پر لڑکیوں کے اسکول چھوڑ دینے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دنیا اور معاشرے میں ان معاشی ایجنٹوں کو پسند کیا جاتا ہے جو انگریزی میں مہارت رکھتے ہوں اور یہ مہارت نہ ہونا معاشی اور سماجی ترقی میں ایک رکاوٹ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے معاشرے کے تمام طبقات خاص طور پر مذہبی طبقے کو مرکزی دھارے میں لانے کی فوری ضرورت ہے‘۔
نجم اپنے خاندان کی وجہ سے خود بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے مدرسے کے طلبہ کے لیے خصوصی کورس شروع کیے ہیں تاکہ انہیں نوکریوں کے موجودہ مواقعوں کے لیے تیار کیا جائے۔ معمول کے اسکول کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی مختصر پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں جن میں طلبہ کو بورڈ کے امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک گرومنگ پروگرام بھی ہے جو کہ طلبہ کی شخصیت سازی کرتا ہے۔ یہاں طلبہ کو ڈیجیٹل مہارت فراہم کرنے کے لیے مختلف زبانوں اور کمپیوٹر کے کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔
محمد عمر ایک انگریزی روزنامے کے سٹی ایڈیٹر ہیں اور ابتدائی درجے کی انگریزی سکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ منصوبہ والدین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ اس موقع کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اب وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم فراہم کرسکتے ہیں جو پہلے ان کی دسترس سے باہر تھی‘۔
لیکن یہاں وہی سوال موجود ہے کہ کیا یہ منصوبہ برقرار رہ سکتا ہے؟ نجم کے مطابق تو ایسا ہوسکتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یہاں جو اساتذہ موجود ہیں وہ درکار تعلیمی نتائج کی فراہمی ممکن بناسکتے ہیں اور یہ کہ ان کا منصوبہ دیگر مدارس کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔ وہ اسے ’اشرافیہ کی گرفت میں موجود ریاست‘ کو چیلنج کرنا پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔
نجم کی میز پہ ایک صفحے کے کنارے پر بڑے حروف میں تحریر تھا کہ ’ہم یقین کرنے کے لیے نہیں بلکہ سوال کرنے کے لیے سیکھتے ہیں‘۔
یہاں ایسے اسکول ہیں جن کی تعلیم کسی بھی غیر ملکی ادارے جتنی ہی معیاری ہے تاہم ایک چھوٹا مراعت یافتہ طبقہ ہی ان تک رسائی رکھتا ہے۔
www.dawnnews.tv