آپ گھر یا دفتر میں صفائی کرتے ہوئے زیادہ تر بے مصرف چیزیں

  • رکھ لیتے ہیں

    Votes: 10 43.5%
  • پھینک دیتے ہیں

    Votes: 13 56.5%

  • Total voters
    23

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اور ہم اپنی غزل فوراً لگا دیتے ہیں اور پھر محفلین بتاتے ہیں کہ رکھیں یا پھینکیں! :)
احمد بھائی ، محفلین نے تو آپ کی ہر چیز سنبھال کر ہی رکھی ہے ہمیشہ ۔ اگر کچھ پھینکا ہے تو بس داد و تحسین کے پھول پھینکے ہیں ۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
میں عموما ڈی کلٹرنگ کرتی رہتی ہوں۔ بلکہ اکثر اوقات اس چکر میں ضروری اشیا بھی ادھر ادھر کر دیتی ہوں جس کے لیے بعد میں باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ گھر میں کوئی شے نہ مل رہی ہو۔ سب کے پاس آسان جواب ہوتا ہے۔ اس نے پھینک دی ہو گی یا ظاہر ہے اگر اچھی حالت میں تھی تو کسی کو دےدی ہو گی۔ چاہے میں نے کچھ ایسا کیا ہو یا نہیں۔ بد سے بدنام برا۔حالانکہ خود بھی یہ سب ایسے ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈی کلٹرنگ کرتے ہوئے اکثر 50 فیصد چیزیں انسان پھر واپس رکھ لیتا ہے کہ بعد میں اچھی طرح دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور وہ بعد کئی بار مہینوں یا برسوں بعد آتی ہے۔ جیسے میرے یہاں ایسی بعد اس لانگ ویک اینڈ پر آئی جب میں نے اپنی میک اپ والی الماری کو دوبارہ ترتیب دیا۔اور اس بار میں نے 80 فی صد چیزیں نکال دیں۔
واہ !

یعنی آپ دل کڑا کرکے صفائی کرتی ہیں۔ :)

ویسے تو میرے گھر میں سب کی عادت ہے کہ ہر کچھ عرصہ کے بعد سامان اور الماریوں کی چھانٹی کی جاتی ہے لیکن خصوصا موسم تبدیل ہوتے وقت جب کپڑے نکالے اور رکھے جا رہے ہوتے ہیں تو اسی وقت الگ الگ تھیلے بن جاتے ہیں کہ جیسے ہی دوبارہ موسم آئے گا تو یہ تھیلے کسی اور کے پاس چلے جائیں گے۔موسم کے شروع میں دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس کو دیے جاتے ہیں وہ اسی وقت استعمال کر لیتا ہے ۔اصول یہ ہے کہ نیا پہننے والا کپڑا تب آئے گا جب الماری میں اس کی جگہ ہو گی۔ تو الحمد للہ اس طرح اللہ تعالیٰ میری وارڈروب میں بہت برکت ڈالتے ہیں۔
ماشاء اللہ!

زبردست!
صرف ایک چیز ایسی ہے جو میں چاہنے کے باوجود پاس ہی رکھی رکھتی ہوں اور وہ ہے کتابیں۔ لیکن اب زندگی ایسی مصروف ہو چلی ہے کہ عرصہ بیت جاتا ہے کسی پرانی بہت شوق سے لی ہو کتاب کو اٹھا کر پڑھنے کا۔ رہی سہی کسر کنڈل نے نکال دی ہے تو اب سوچ رہی ہوں کہ سب کتابیں عطیہ کر دوں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں کچھ نوجوانوں کا پتہ چلا تھا جو وہاں لائبریریاں بنا رہے ہیں تو ان سے رابطہ کیا۔ اب جب بھی فرصت ملی تو ان شاءاللہ سب کتابیں انھیں بھجوا دوں گی۔
اب آہستہ آہستہ ای بکس پر بات چلی جائے گی تو پھر پرانی کتابیں نکال کر پڑھنے بیٹھنے کا لطف بھی جاتا رہے گا۔ :)

بلوچستان میں بھی نوجوان یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ انہیں کافی پذیرائی مل گئی تھی سو اُن کا تو کافی حد تک کام بن چکا ہوگا۔ آپ اپنے ارد گرد کی لائبریریز کو بھی یہ کتابیں دے سکتی ہیں۔

اس سے یاد آیا آج کل میں اپنے حلقے میں ایک نیا پراجیکٹ شروع کرنے والی ہوں تا کہ مختلف جگہوں پر نصابی کتب کے بک بنک بنانے کی مہم چلائی جائے ۔ اس طرح ایک تو بچوں میں ہر چیز نئی استعمال کرنے والی عادت کو کم کرنے کا موقع ملے گا، دوسرا ماحولیات کا عنصر بھی ذہن میں تھا اور تیسرا والدین پر درسی کتب خریدنے کا جو بوجھ پڑتا ہے اس کو بھی کم کرنے کی کوشش ہے۔ البتہ جن لوگوں کا کتابوں کا کاروبار ہے انھیں پتہ چلا تو میری خیر نہیں۔

آج کل کی مہنگائی کے دور میں اور خراب معاشی پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ بہت اچھا خیال ہے۔

کراچی میں جماعتِ اسلامی والے ہر سال اسی طرح نصابی کتابوں کا اسٹال لگاتے ہیں جہاں پر لوگ اپنے بچوں کی کتابیں رکھ جاتے ہیں اور ضرورتمند وہاں سے اپنے حساب سے کتابیں لے جاتے ہیں۔ یہ اسٹال تین چار دن لگا رہتا ہے ۔ اور یہاں کافی رش دیکھنے کو ملتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی آپ محفل کی شان اور محفلین کی جان ہیں۔

بے حد محبت ہے خلیل بھائی آپ کی ۔ میں خود اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس محفل کے توسط سے مجھے ایسے اچھے اچھے دوست ملے ہیں کہ جو عام زندگی میں مجھے کبھی نہ مل پاتے۔ :in-love::in-love::in-love:
 

محمداحمد

لائبریرین
مگر یہ چاہے کتنے ہی کمرشل بنیادوں پر بنے ہوں ان کی موجودگی نے سرکاری اسکولوں کے ناقص تعلیمی نظام کا عمدہ بدل فراہم کیا ہے ۔ ان کی یہ مہربانی بھی لائق تحسین ہے ۔

یہ بات واقعی درست ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ ان کی مہربانی 'افورڈ' نہیں کر سکتا۔
 
بے حد محبت ہے خلیل بھائی آپ کی ۔ میں خود اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس محفل کے توسط سے مجھے ایسے اچھے اچھے دوست ملے ہیں کہ جو عام زندگی میں مجھے کبھی نہ مل پاتے۔ :in-love::in-love::in-love:
سچ پوچھیے تو ہم ناشتے کی محفلوں کو ترس رہے ہیں جہاں ہم آپ کی تازہ غزلوں اور نظموں کو آپ کے خوبصورت لہجے میں سن سکتے ہیں۔

بس ذرہ کووڈ کی یہ موذی لہر ختم ہو تو پھر ناشتے کی محفلوں میں ہم آپ کے سامعین میں بیٹھے ہوں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
السلام علیکم
میں عموما صفائی کرتے ہوئے صرف ضرورت کا سامان ہی سنبھال کے رکھتی ہوں اور باقی سب چیریٹی میں دے دیتی ہوں۔۔ اس میں ایکسٹرا برتن، بیڈنگ، تھروز، کپڑے، طلحہ کے کھلونے، کتابیں سب شامل ہیں۔۔
اپنی شادی کے ڈریسز وغیرہ بھی اسی منتھ میں ڈونیٹ کر کے اپنی امی اور ساس سے بہت ڈانٹ سنی تھی، بقول ان کے، کوئی بھی شادی کی چیزیں ایسے اٹھا کے نہیں دیتا اور میری سوچ کہ کیا گھر میں رکھ کر ان کا اچار ڈالنا ہے؟
اپنے اور طلحہ کے کپڑے لینے سے پہلے میں پرانے والے کسی چیرٹی میں دے دیتی ہوں۔
مجھے بہت زیادہ سامان سے بھرے کمرے بالکل بھی اچھے نہیں لگتے اس لیے کچھ نیا لینے سے پہلے پرانے والے کو سیکنڈ ہینڈ بیچ بھی دیتی ہوں۔
ایک اور چیز جو مجھے اچھی نہیں لگتی، وہ فوڈ سٹوریج۔ بہت سے لوگ فروٹ، ویجی ٹیبل ٹنز، پاسٹا، چاول، آٹا اور اس طرح کی بہت سی چیزوں سے اپنی پینٹریز کو بھر لیتے ہیں اور اکثر سامان آوٹ ڈیٹ ہو جاتا پھر اس کو پھینک دیتے ہیں، ویچ از ٹوٹلی رانگ
میں ویکلی شاپنگ کرتی ہوں اور صرف ایک ویک کا سامان لے کر آتی ہوں۔۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ زیادہ چیزیں آ گئی ہیں تو وہ فوڈ بینک میں ڈونٹ کر دیتے ہیں۔۔ میرے پاس یہ ایڈوانٹج ہے کہ طلحہ کے اسکول میں فوڈ بینک ہے جہاں ایوری فرائیڈے کو ڈونیشن لیا جاتا ہے اور بچوں کو انکریج کیا جاتا ہے کہ وہ خود جا کر سامان ڈونیٹ کریں۔
سو میرے گھر میں آپ کو اکثر کچھ بھی نہیں ملے گا، بقول تیمور کے میں اکثر ضرورت کی چیزیں بھی ڈونیشن بیگز میں ڈال دیتی ہوں :rollingonthefloor:

ویسے آپ سمیت ہماری محفل کی ساری بہنیں بڑی سخی واقع ہوئی ہیں۔ :)

اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو پورا پورا بدلہ عطا فرمائے۔ آمین۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے بھی اس طریقے کے بارے میں سنا ہے لیکن ایک بات ہے کہ وہی فیشن دوبارہ بھی تو آتا ہے :cowboy1:۔ پھر کیاکریں گے؟

بھئی! ہمارے لئے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ہمیں جب دوکاندار کہتے ہیں کہ آج کل یہ چل رہا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اسے واپس اپنی جگہ پر رکھ دو۔ ہم تو ایک ہی طرز کے کپڑے یونیفارم کی طرح سے پہننے کے عادی ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
سچ پوچھیے تو ہم ناشتے کی محفلوں کو ترس رہے ہیں جہاں ہم آپ کی تازہ غزلوں اور نظموں کو آپ کے خوبصورت لہجے میں سن سکتے ہیں۔

بس ذرا کووڈ کی یہ موذی لہر ختم ہو تو پھر ناشتے کی محفلوں میں ہم آپ کے سامعین میں بیٹھے ہوں گے۔

ملنے کو تو واقعی بہت دل چاہتا ہے۔ ان شاء اللہ !

یار زندہ صحبت باقی!
 
مدیر کی آخری تدوین:

ثمین زارا

محفلین
یہ بات واقعی درست ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ ان کی مہربانی 'افورڈ' ھنہیں کر سکتا۔
یہ تو ہے ۔ مگر دیکھیے کہ پھر بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اور یہ ایک بڑی آبادی کو باعزت روزگار بھی فراہم کر رہے ہیں ۔ یہ کتنی اچھی بات ہے ۔ ہر اسٹریٹ پر آپ کو یہ اسکولز ملیں گے اور کچھا کھچ بھرے ہیں ۔ ہم جیسی ایورج مڈل کلاس بھی ہمت کر کے افورڈ کر ہی لیتی ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ تو ہے ۔ مگر دیکھیے کہ پھر بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اور یہ ایک بڑی آبادی کو باعزت روزگار بھی فراہم کر رہے ہیں ۔ یہ کتنی اچھی بات ہے ۔ ہر اسٹریٹ پر آپ کو یہ اسکولز ملیں گے اور کچھا کھچ بھرے ہیں ۔ ہم جیسی ایورج مڈل کلاس بھی ہمت کر کے افورڈ کر ہی لیتی ہے ۔

یہ ایک مثبت بات ہے۔

لیکن اگر یہ متبادل موجود نہیں ہوتا تو پھر تمام تر لوگ بشمول حکومت میں موجود لوگ اس بات کی کوشش کرتے کہ سرکاری اسکولز کا معیار بلند کیا جائے ۔ کیونکہ اُن کے اپنے بچے بھی وہا ں پڑھتے۔

موجودہ صورتحال میں جب تعلیم درجات اور طبقات میں بٹ گئی تو سرکاری لوگوں کو اس سے کیا غرض کہ غریب کے بچے کی تعلیم کا کیا حال ہے۔ کیونکہ ان کے بچے تو بہتر نظام میں تعلیم پا رہے ہیں۔

غریب کے بچے پڑھ بھی نہیں پا رہے یا پڑھ بھی رہے ہیں تو اسی ناکارہ نظام سے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب کے بچے پڑھ لکھ بھی اُسی غربت والی کلاس میں رہیں گے اور سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے بچے طبقاتی فرق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیشہ آگے رہیں گے۔

یعنی یہ متبادل نظام موجود نہ ہوتا تو سب کے لئے بہتری ہوتی ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ ایک مثبت بات ہے۔

لیکن اگر یہ متبادل موجود نہیں ہوتا تو پھر تمام تر لوگ بشمول حکومت میں موجود لوگ اس بات کی کوشش کرتے کہ سرکاری اسکولز کا معیار بلند کیا جائے ۔ کیونکہ اُن کے اپنے بچے بھی وہا ں پڑھتے۔

موجودہ صورتحال میں جب تعلیم درجات اور طبقات میں بٹ گئی تو سرکاری لوگوں کو اس سے کیا غرض کہ غریب کے بچے کی تعلیم کا کیا حال ہے۔ کیونکہ ان کے بچے تو بہتر نظام میں تعلیم پا رہے ہیں۔

غریب کے بچے پڑھ بھی نہیں پا رہے یا پڑھ بھی رہے ہیں تو اسی ناکارہ نظام سے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب کے بچے پڑھ لکھ بھی اُسی غربت والی کلاس میں رہیں گے اور سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے بچے طبقاتی فرق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیشہ آگے رہیں گے۔

یعنی یہ متبادل نظام موجود نہ ہوتا تو سب کے لئے بہتری ہوتی ۔

اسی بات کو سرکاری ہسپتالوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے ۔

اگر سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے علاج کے لئے بہترین نجی ہسپتال میسر نہ ہوں تو وہ لوگ کوشش کریں گے کہ سرکاری ہسپتالوں کو ہی بہتر کریں ۔ تاکہ اُن کے اپنے اور وہ خود بہتر علاج پا سکیں۔

ہمارا موجودہ نظام سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کی خود غرضی پر مبنی ہے۔
 

ثمین زارا

محفلین
یہ ایک مثبت بات ہے۔
شکریہ ۔

آپ کی اسی بات کو دیکھتے ہوئے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گی ۔ امید ہے بات پسند نہ آنے پر درگزر فرمائیں گے ۔
لیکن اگر یہ متبادل موجود نہیں ہوتا تو پھر تمام تر لوگ بشمول حکومت میں موجود لوگ اس بات کی کوشش کرتے کہ سرکاری اسکولز کا معیار بلند کیا جائے ۔ کیونکہ اُن کے اپنے بچے بھی وہا ں پڑھتے۔
حکمرانوں کے بچے ان سے بھی مہنگے اسکولوں میں یا ملک سے باہر پڑھتے ہیں ۔ ان کرپٹ لوگوں کا عوام کو تعلیم دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ ڈھائی سو ارب ایک ٹرین پر خرچ کرنے کے بجائے پورے پنجاب میں اسکولوں کا جال بچھا دیتے ۔ سندہ میں اسکولوں میں اوطاقیں نہ بنائی جاتیں یا جانور نہ باندھے جاتے ۔ ان کو ووٹرز چاہیئں اس لیے یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے ۔ چاہے پرائیویٹ اسکولز ہوں یا نہ ہوں ۔ کے پی میں جیسے ہی اسکولز بہتر ہوئے لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سےنکالا ۔
موجودہ صورتحال میں جب تعلیم درجات اور طبقات میں بٹ گئی تو سرکاری لوگوں کو اس سے کیا غرض کہ غریب کے بچے کی تعلیم کا کیا حال ہے۔ کیونکہ ان کے بچے تو بہتر نظام میں تعلیم پا رہے ہیں۔
یہ بالکل بجا فرمایا آپ نے ۔ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے بھی ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہیں ۔ تعلیم اب غریب کی ترجیع ہے ہی نہیں ۔ وہ روٹی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ جب تک لازمی تعلیم سے متعلق کوئی سخت پالیسی نہیں بنتی غریب بچوں کی تعلیم ایک خواب ہی رہے گا ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟
غریب کے بچے پڑھ بھی نہیں پا رہے یا پڑھ بھی رہے ہیں تو اسی ناکارہ نظام سے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب کے بچے پڑھ لکھ بھی اُسی غربت والی کلاس میں رہیں گے اور سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے بچے طبقاتی فرق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیشہ آگے رہیں گے۔
جب سے اساتذہ سیاسی بنیادوں پر یا پیسے دے کر نوکری لینے لگے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار گر گیا ہے ۔ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ اسکول یا تو موجود ہی نہیں یا ان کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟
یعنی یہ متبادل نظام موجود نہ ہوتا تو سب کے لئے بہتری ہوتی ۔
میں نے گرافکس کی تعلیم کے لیے ایک سرکاری ادارے میں داخلہ لیا ۔ اس کے بڑے بڑے اشتہارات اخبار میں آتے ہیں ۔ مگر میرا بےکار وقت ضائع ہوا ۔ ساری باتیں ایک طرف، محترمہ استاد کا رویہ سب بچوں کے ساتھ خاصا ہتک آمیز تھا ۔ ہر بات پر طنز اور دھمکیاں۔ اگر کچھ بات پوچھو تو صرف ایک جواب کہ کورس میں یہ شامل نہیں ۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ ان کو سوفٹویرز کی بیسک چیزیں ہی معلوم ہیں - ہر روز ذہنی کوفت ہوتی تھی ۔ جیسے تیسے کورس ختم کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی خاصی فیس دے کر داخلہ لیا اور پھر معلوم ہوا کہ کیا فرق ہے ۔ اتنا اچھا ماحول، زبردست اساتذہ، اور ہر بچے کی بات کا جواب جب تک وہ مطمئن نہ ہو جائے ۔ بتائے اگر یہ پرائیویٹ ادارے نہ ہوں تو لوگوں کا کتنا وقت ضائع ہو ۔ حالانکہ سرکاری اساتذہ کی تنخواہ کہیں زیادہ ہے مگر وہ بادشاہ لوگ ہیں اپنے آپ کو بالکل بھی اپ ڈیٹ نہیں کرتے اور بچوں کو ڈرا ڈرا کے عزت کرواتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
شکریہ ۔

آپ کی اسی بات کو دیکھتے ہوئے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گی ۔ امید ہے بات پسند نہ آنے پر درگزر فرمائیں گے ۔

حکمرانوں کے بچے ان سے بھی مہنگے اسکولوں میں یا ملک سے باہر پڑھتے ہیں ۔ ان کرپٹ لوگوں کا عوام کو تعلیم دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ ڈھائی سو ارب ایک ٹرین پر خرچ کرنے کے بجائے پورے پنجاب میں اسکولوں کا جال بچھا دیتے ۔ سندہ میں اسکولوں میں اوطاقیں نہ بنائی جاتیں یا جانور نہ باندھے جاتے ۔ ان کو ووٹرز چاہیئں اس لیے یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے ۔ چاہے پرائیویٹ اسکولز ہوں یا نہ ہوں ۔ کے پی میں جیسے ہی اسکولز بہتر ہوئے لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سےنکالا ۔

یہ بالکل بجا فرمایا آپ نے ۔ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے بھی ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہیں ۔ تعلیم اب غریب کی ترجیع ہے ہی نہیں ۔ وہ روٹی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ جب تک لازمی تعلیم سے متعلق کوئی سخت پالیسی نہیں بنتی غریب بچوں کی تعلیم ایک خواب ہی رہے گا ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟

جب سے اساتذہ سیاسی بنیادوں پر یا پیسے دے کر نوکری لینے لگے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار گر گیا ہے ۔ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ اسکول یا تو موجود ہی نہیں یا ان کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟

میں نے گرافکس کی تعلیم کے لیے ایک سرکاری ادارے میں داخلہ لیا ۔ اس کے بڑے بڑے اشتہارات اخبار میں آتے ہیں ۔ مگر میرا بےکار وقت ضائع ہوا ۔ ساری باتیں ایک طرف، محترمہ استاد کا رویہ سب بچوں کے ساتھ خاصا ہتک آمیز تھا ۔ ہر بات پر طنز اور دھمکیاں۔ اگر کچھ بات پوچھو تو صرف ایک جواب کہ کورس میں یہ شامل نہیں ۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ ان کو سوفٹویرز کی بیسک چیزیں ہی معلوم ہیں - ہر روز ذہنی کوفت ہوتی تھی ۔ جیسے تیسے کورس ختم کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی خاصی فیس دے کر داخلہ لیا اور پھر معلوم ہوا کہ کیا فرق ہے ۔ اتنا اچھا ماحول، زبردست اساتذہ، اور ہر بچے کی بات کا جواب جب تک وہ مطمئن نہ ہو جائے ۔ بتائے اگر یہ پرائیویٹ ادارے نہ ہوں تو لوگوں کا کتنا وقت ضائع ہو ۔ حالانکہ سرکاری اساتذہ کی تنخواہ کہیں زیادہ ہے مگر وہ بادشاہ لوگ ہیں اپنے آپ کو بالکل بھی اپ ڈیٹ نہیں کرتے اور بچوں کو ڈرا ڈرا کے عزت کرواتے ہیں ۔

تمام تر باتوں سے متفق ہوں۔

اور آپ کی ان باتوں کے تناظر میں مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں عار نہیں ہے کہ سرکاری اداروں کی غیر فعالیت (نا اہلی) کی موجودگی میں پرائیویٹ ادارے غنیمت ہیں۔
کے پی میں جیسے ہی اسکولز بہتر ہوئے لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سےنکالا ۔

اگ ایسا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔

خود میں نے چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک گورنمنٹ اسکول میں پڑھا۔ اور وہ اُس وقت بہت اچھا اسکول تھا اور مجھے اُس اسکول سے پڑھنے پر کبھی ندامت نہیں ہوئی۔

بہرکیف ہماری گفتگو موضوع سے بالکل ہٹ گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ منتظمین یہ سوچیں کہ "رکھیں یا پھینکیں"۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
سو آپ بتائیے کہ آپ کن لوگوں میں سے ہیں۔ اور صفائی کرتے وقت آپ زیادہ تر چیزیں رکھ لیا کرتے ہیں یا پھینک دیا کرتے ہیں۔
بہت ضروری چیزیں سنبھالتے ہیں ورنہ صفائی کا خبت اچھی بھلی کام کی چیزیں پھنکوا دیتا بعد میں بھگتے رہتے ہیں :cool::cool:
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے ساتھ تو بہت مرتبہ یہ اور پھیکنے اور صفائی کے چکر میں بہت اہم فائل ٹھکانے لگا دی اور خاصہ نقصان بھگتنا پڑا۔۔۔
بہت ضروری چیزیں سنبھالتے ہیں ورنہ صفائی کا خبت اچھی بھلی کام کی چیزیں پھنکوا دیتا بعد میں بھگتے رہتے ہیں :cool::cool:

اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر معاملے میں اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ :)
 
Top