نیرنگ خیال
لائبریرین
بڑی بڑی مونچھیں، گہری سرخ آنکھیں،جب پہلی بار رہنما خان سے ملاقات ہوئی گماں گزرا کے موصوف ہوش وخرد سے بیگانہ ہونے والے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد یہ خیال یوں تو درست نہ ثابت ہوا مگر خرد سے انکی دشمنی دیگر وجوہات کی بنیاد پر ثابت ہوتی رہی۔ انگلش پر دسترس اور عمدہ سا انگریزی لہجہ۔ پہلے پہل تو ہم سمجھے کہ باہر کے ملک کی تعلیم کا اثر ہے۔ مگر بعد یہ راز افشا ہوگیا کہ سب ذاتی محنت کا کمال ہے۔ وگرنہ حقیقت میں تو ٹبی شیرداد سے آگے کبھی نہیں گئے تھے۔ ہم نے جانا کہ شائد رہنما خان ہی وہ شخصیت ہے جو ہماری رہنمائی صحیح کر سکتا ہے۔ بلاشبہ یہ اک نابغہ مگر اک آنچ زیادہ قسم کی شخصیت ہے اور اسے کسی بڑے مقصد کے لیئے پیدا کیا گیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسکی زندگی کے سارے مقصد ہماری دوستی کے ساتھ ہی چھوٹے ہو گئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ انکی زندگی کے اسرار ہم پر کھلتے چلے گئے۔ ہم نے جانا کہ ولائت اب چند ہی قدم دور رہ گئی ہے۔ اور کچھ عرصہ انکی صحبت میں رہے تو خوابوں کے علاوہ شیطان سے بالمشافہ گفتگو کا بھی موقع میسر آجائے گا۔
شروع شروع میں بلاضرورت نہیں بولتے تھے۔ اور بعد میں ضرورت ہونے کے باوجود خاموش نہیں رہتے تھے۔ زندہ دل آدمی تھے۔ محفل یاران میں کھل کر گفتگو فرماتے۔ زیادہ تر گفتگو اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کے سننے کی نہیں ہوتی تھی۔ بقیہ گفتگو سننے کی مقررہ عمرکم سے کم اکیسں برس تھی۔ اک دن راقم نے عرض کی کہ قبلہ زبان پر اسقدر ملکہ حاصل ہےنظر نیک سے محفوظ رہیں آپ۔ مگر یہ تو بتائیں کہ عوام دیگر از احباب اس قدر فصاحت و بلاغت کے متحمل کیسے ہوتے ہیں۔ تو ہنسنے لگے۔اس پر راقم دعائیں مانگنے لگا کہ جواب نہ ہی دیں۔ مگر خلاف توقع بڑے شگفتہ انداز میں فرمایا۔ ان لوگوں سے بات کی کیا ضرورت ہے۔بہتر ہے کہ اٹوانٹی کھٹوانٹی لیے پڑے رہو۔ بس خاموش رہ کر گزارہ کرلیتے ہیں۔ اس جواب کا نقصان یہ ہوا کہ احباب نےکسی محفل سے واپسی پر ملنا چھوڑ دیا۔مبادا فصاحت و بلاغت کا دریا جو کچھ دیر بند رہا ہے۔ ان کو ہی نہ بہا کر لے جائے۔
علم پر دسترس رکھنے کے باوجود طبیعت میں انکساری بہت تھی۔ اسی لیئے جب لوگوں کو بحث میں الجھتا دیکھتے۔ تو رسان سے سمجھاتے کہ دیکھو۔ اگر کسی بات کی سمجھ نہیں آرہی تو کسی صاحب علم سے پوچھنے میں عار نہ سمجھاکرو۔ "میرے مطابق تو یہ کچھ یوں ہوگا" کہہ کر ان بحث میں الجھنے والوں کو مفصل انداز میں جواب دیتے۔ دوران گفتگو کسی قسم کا لقمہ برداشت نہ کرتے اور ان کج فہموں کے لیئے حاصل کلام بھی ازخود واضح کرتے۔راقم نے بارہا توجہ دلائی کہ آپ اس طرح انکو راہ نہ دکھا یا کریں۔ کچھ کام انکے کرنے کو بھی چھوڑا کریں۔ تو انکسارانہ انداز میں فرماتے۔ دیکھو میاں۔ تم نے دیکھا ہی انکا حال۔ نہ علم نہ فن گفتگو۔ اب نتیجہ نہ نکال کر دیتا تو یہ ابھی اورالجھے رہتے۔ ہماری باتیں بہت گنجلک ہوتی ہیں۔ سو ان کے ذہنوں پر بوجھ نہ پڑے۔ اسی لیئے حاصل کلام واضح کرنا ضروری خیال کیا۔ اگر کوئی کج فہم اختلاف کی کوئی صورت نکال لاتا۔ تو کبھی برہم نہ ہوتے۔ بلکہ بڑے پیار سے اسکی رائے کو رد کردیتے۔ اسے سمجھاتے کہ زیربحث موضوع پر بات کرنے کے لیے جس علم و فن گفتگو کی ضرورت ہے وہ اس سے یکسر بےبہرہ ہے۔ دو لوگوں کی رائے کو بہت اہمیت دیتے۔ اپنی اور جو انکی ہاں میں ہاں ملاتا۔ اک دوست ہمیشہ انکی ہر بات کی تائید کرتا۔ راقم نے پوچھا کہ یہ اختلاف کی جسارت کیوں نہیں کرتا۔ تو ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے بولے۔ دنیا صرف جہلاء کا مسکن نہیں، کچھ لوگوں کو عقل سلیم سے بھی نوازا گیا ہے۔ حالانکہ سلیم کو کبھی مہذب انداز میں مخاطب نہ کرتے تھے۔اس میں جانے کیا رمز تھی۔
شاعری اور ادب دوستی کو وقت کا ضیاع اور شغل بیکار کے نام سے منسوب کرتے۔ فرماتے میاں کبھی شعرو تحریر سے بھی انقلاب آئے ہیں۔راقم نے حکیم الامت کی مثال پیش کی،کہ وہ انقلاب لے آئے تھے۔ تو ہنس کر فرمانے لگے۔ قائد کو خوب مکھن سے بال کی طرح نکال پھینکا تم نے۔ اور کچھ توقف کے بعد بولے، تو دیکھ بھی لیا نہ اس سستے انقلاب کا حال۔ قائد جب تک زندہ رہے تب تک ہی چلا۔ اسکے بعد کے ملکی و سیاسی حالات کو تو طوائف الملوکی سے ہی منسوب کرو گے نا۔ راقم نے تائید کی۔ تو بہت خوش ہوئے۔ فرمایا۔ سمجھدار ہوتے جاتے ہو۔ سیاسی بصیرت پر کبھی غرور نہیں کیا۔ سال میں اک آدھی خبر پڑھتے اور پورے سال کی سیاسی صورتحال کا اندازہ لگا لیتے۔ ہر کسی کوتسلی بخش جوابات سے نوازتے اور ہر موضوع کو گھما پھرا کر اسی خبر سے لاجوڑتے جو اس سال پڑھی ہوتی تھی۔ انہی باتوں کے سبب جو اک آدھی بار بحث میں الجھتا دوبارہ قریب سے نہ گزرتا تھا۔
نیکی کا مادہ بھی حد سے زیادہ تھا۔ نیکی کمانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے۔ اک دن ٹیکسی میں بیٹھے جا رہے تھے اور حسب عادت ڈرائیور سے گپ شپ بھی جاری تھی۔ اچانک کسی بات پر اس بخت برگشتہ نے کہا۔ کہ جی بس آپ دعا کیا کریں۔ اسے کہنے لگے کہ میاں ٹیکسی ذرا اک طرف روکو۔ جب اسنے اک طرف ٹیکسی روک لی۔ تو فرمانے لگے پہلے دعا کر لیتے ہیں۔ بعد میں بھول نہ جاؤں ۔ اور اس ٹیکسی ڈرائیور کے رزق میں اضافے کے لیئے دعا فرمائی۔ یہ منظر دیکھ کر راقم الحروف آبدیدہ ہوگیا۔ وہ ڈرائیور اس خلوص کے پیکر کو دیکھ کر مرید ہوا چاہتا تھا۔ بڑی مشکل سے اسے لوٹایا۔
اپنی پسند کی تعریف لازمی کرتے۔ اور بارہا کرتے۔ اک دن کسی چیز کی راقم نے تعریف کی تو ہنس کر کہنے لگے۔ میاں ذوق آتا جا رہا ہے تم میں۔ راقم کی حیرانگی کو یوں دور فرمایا کہ یار کچھ دن پہلے اس کی تعریف کر بیٹھا تھا۔ بس جس جس نے اس دن سن لی۔ اب اسکو بھی یہی پسند ہے کہ آخر ہم نے تعریف کی ہے۔ کوئی رمز تو پوشیدہ ہوگی۔ راقم کا تذبذب دیکھ کر کہنے لگے کہ اچھا تم کو یقین نہیں آتا۔ تو ابھی یہ کمال دیکھو۔ راہ جاتے اک شخص کو روک کر کہنے لگے۔ صاحب مرسیڈیز کیسی گاڑی ہے؟ اس نے بلا تامل جواب دیا۔ بہترین۔ تو فاخرانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ میاں اب بھی انکار ہی کرو گے۔ اس پر راقم کو ماننا ہی پڑا کہ زمانہ ان کی پسند کا دم بھرتا ہے۔
اپنی بےخوابی کا اکثر تذکرہ فرمایا کرتے۔ راقم کو کچھ دن انکے ساتھ رہنا نصیب ہوا تو دیکھا کہ دو دو دن مسلسل سوئے رہتے۔ صرف کھانے کے وقت ملاقات ہوتی۔ آخر عرض کی کہ قبلہ آپ کی بےخوابی کا کیا ہوا۔ تو تفصیلی انداز میں بیماری کے متعلق بتایا۔ کہنے لگے کہ تم نے دیکھا میں دو دن سے سو رہا ہوں۔ میرے اثبات میں سر ہلانے پر مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہا کہ قسم لے لو جو اک بھی خواب آیا ہو۔ بے خوابی کی یہ تعریف سنکر مجھے ان لوگوں پر بہت غصہ آیا۔ جو یونہی اناپ شناپ بول کر اس بیماری کو کیا کا کیا بتاتے تھے۔
جینز اور ٹی شرٹ کے شدید مخالف تھے۔ اور شباب بہار میں کبھی اس کلموہی سے دوستانہ نہ لگایا۔ لیکن جب خزاں کی آمد شروع ہوئی اور زیر دستار فصل جھڑنے لگی تو جینز پہننی شروع کر دی۔ پھر پرتکلف ملبوسات سے ایسے متنفر ہوئے کہ کبھی دوبارہ خوش لباسی کا وہ دور نہ آیا جو انکا تعارف ہوا کرتا تھا۔ مونچھیں بھی غائب ہوگئیں۔ اک ستم ظریف نے مشورہ دیا کہ حضرت ابرو اضافی دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر پنجابی میں اسقدر خوبصورت جواب دیا کہ اردو لغت کے تمام مہذب الفاظ بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
سمت اور راستہ بتانے میں خود کو صبح کا ستارہ کہا کرتے۔ راستہ ایسے سمجھاتے کہ آدھا گھنٹہ سمجھانے کے بعد پتا چلتا کہ جس سے بات ہو رہی ہے۔ وہ سڑک کے دوسری طرف کھڑا ہے۔ اور وہ بھی اکثر و بیشتر دوسرے کی خود ہی نظر پڑ جاتی تھی۔اک دوست کی قسمت جو ماری گئی۔ تو رہنما خان سے فرمانے لگا کہ یار کل اک جگہ جانا ہے۔ راستہ معلوم نہیں۔ تو رہنما خان نے بڑے فخر سے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ میاں ہمارے ہوتے ہوئے پریشانی کی کیا بات۔ یہ جو فلاں دفتر دیکھا ہے تم نے۔ اس نے کہا ہاں۔ بس اس کے بالکل ساتھ ہے۔ وہ خوش ہوگیا۔ اگلے دن راقم کو اسکا فون آیا کہ یار یہ اس دفتر کے ساتھ آہستہ آہستہ بائیک چلاتا جاتا ہوں۔ مگر مطلوبہ دفتر ابھی تک نہیں آیا۔ تمہیں کوئی خبر ہے۔ راقم نے حیران ہو کر استفسار کیا کہ ادھر کہاں پھر رہے ہو۔ تو بتانے لگا کہ یار رہنما خان نے یہاں بتا یا تھا۔ اس پر راقم نے عرض کی کہ رہنما خان کے علم پر تو انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں اسی سڑک پر قریب کوئی 18 کلومیٹر آگے تمہارا مطلوبہ دفتر موجود ہے۔ اور اس کے دائیں بائیں یہ مشہور عمارات موجود ہیں۔ اس نابکار نے اس بات کا بہت بتنگڑ بنا دیا۔ اورواپسی پر کہنے لگا کہ یار آج میں فلاں دفتر گیا تھا۔ راستہ رہنما سے پوچھ لیا۔ بس پھر سیدھا اس دفتر کے دروازے سے ٹکرا کر رکا۔ اس پر رہنما بڑے جز بز ہوئے۔ اور کہنے لگے یار ایسے لوگوں سے طبیعت پر بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ اک تو انکو راستہ بتاؤ۔ دوسرا ان کی باتیں سنو۔ بئی ظاہر ہے وہ تھوڑا آگے تو ہوگا ہی۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ دیوار سے دیوار جڑی ہے۔
اک پرانی گاڑی رکھی ہوئی تھی۔ جو مرزا کی سائیکل سے زیادہ نہیں تو کم بھی خیر نہیں تھی۔ اس کے عشق میں یوں مبتلا تھے کہ اگر کبھی دفتر دوسری گاڑی پر چلے جاتے تو اسکی چابیاں جیب میں ڈال کر لے جاتے تھے کہ گھر کے بقیہ افراد اس کی شان میں گستاخی نہ کردیں۔ احباب اور گھر والوں کے پرزور اصرار پر آخر کار اس کو فروخت کرنے کا ارادہ باندھ ہی لیا۔ اب جو خریدار آیا تو اس نے گاڑی کا ہر طرف سے یوں جائزہ لیا جیسے قربانی والے بکرے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ منہ تو تھا نہیں لیکن اس نے بونٹ کھول کر گاڑی کے دانت تلاشنے شروع کیے۔ اتنی دیر رہنما خان اس کو گاڑی کے فضائل کے بارے میں تفصیلابتاتے رہے۔ اور پھر پوچھا کہ گاڑی آپ خود چلائیں گے۔ یا پھر شوقیہ رکھیں گے۔ اس کمبخت نے جواب دیا کہ جی بیگم نے گاڑی چلانی سیکھنی ہے تو اس کو یہ لے کر دے رہا ہوں ۔ جب تھوڑی دسترس حاصل ہو جائے گی تو کوئی اچھی گاڑی لے دوں گا۔ یہ سننا تھا کہ پھڑکنے لگے۔ اور کہا کہ جاؤ میاں۔ گاڑی نہیں بیچنی ہیں ہمیں۔ تمیز چھو کر نہیں گزری تمہیں۔ دیر تک گاڑی کے ساتھ لپٹے رہے۔ بڑی مشکل سے الگ کیا کہ کوئی بات نہیں۔ بدتمیز آدمی تھا۔ دل پر مت لیں۔ جانے دیں اس بات کو۔ لیکن بقول انکے اس واقعہ کے بعد ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ اور کہا کہ یاررات کو ڈر کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ اک قبرستان ہے۔ اور اس پر اک قبر پر میری گاڑی کا ماڈل اور سن پیدائش لکھی ہے۔ قسم سے بقیہ رات کو سو نہیں پاتا۔ تمہیں پتا ہے ابھی بھی کسی نئے ماڈل کی کار کے ساتھ ریس لگا لیتا ہوں اس گاڑی پر۔اس پر ان برق رفتاری کےمقابلوں کے انجام کی بہت سی کہانیاں یاد آگئیں پر دل شکنی سے اجتناب کی خاطر راقم نے خاموشی اختیار کی۔
شروع شروع میں بلاضرورت نہیں بولتے تھے۔ اور بعد میں ضرورت ہونے کے باوجود خاموش نہیں رہتے تھے۔ زندہ دل آدمی تھے۔ محفل یاران میں کھل کر گفتگو فرماتے۔ زیادہ تر گفتگو اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کے سننے کی نہیں ہوتی تھی۔ بقیہ گفتگو سننے کی مقررہ عمرکم سے کم اکیسں برس تھی۔ اک دن راقم نے عرض کی کہ قبلہ زبان پر اسقدر ملکہ حاصل ہےنظر نیک سے محفوظ رہیں آپ۔ مگر یہ تو بتائیں کہ عوام دیگر از احباب اس قدر فصاحت و بلاغت کے متحمل کیسے ہوتے ہیں۔ تو ہنسنے لگے۔اس پر راقم دعائیں مانگنے لگا کہ جواب نہ ہی دیں۔ مگر خلاف توقع بڑے شگفتہ انداز میں فرمایا۔ ان لوگوں سے بات کی کیا ضرورت ہے۔بہتر ہے کہ اٹوانٹی کھٹوانٹی لیے پڑے رہو۔ بس خاموش رہ کر گزارہ کرلیتے ہیں۔ اس جواب کا نقصان یہ ہوا کہ احباب نےکسی محفل سے واپسی پر ملنا چھوڑ دیا۔مبادا فصاحت و بلاغت کا دریا جو کچھ دیر بند رہا ہے۔ ان کو ہی نہ بہا کر لے جائے۔
علم پر دسترس رکھنے کے باوجود طبیعت میں انکساری بہت تھی۔ اسی لیئے جب لوگوں کو بحث میں الجھتا دیکھتے۔ تو رسان سے سمجھاتے کہ دیکھو۔ اگر کسی بات کی سمجھ نہیں آرہی تو کسی صاحب علم سے پوچھنے میں عار نہ سمجھاکرو۔ "میرے مطابق تو یہ کچھ یوں ہوگا" کہہ کر ان بحث میں الجھنے والوں کو مفصل انداز میں جواب دیتے۔ دوران گفتگو کسی قسم کا لقمہ برداشت نہ کرتے اور ان کج فہموں کے لیئے حاصل کلام بھی ازخود واضح کرتے۔راقم نے بارہا توجہ دلائی کہ آپ اس طرح انکو راہ نہ دکھا یا کریں۔ کچھ کام انکے کرنے کو بھی چھوڑا کریں۔ تو انکسارانہ انداز میں فرماتے۔ دیکھو میاں۔ تم نے دیکھا ہی انکا حال۔ نہ علم نہ فن گفتگو۔ اب نتیجہ نہ نکال کر دیتا تو یہ ابھی اورالجھے رہتے۔ ہماری باتیں بہت گنجلک ہوتی ہیں۔ سو ان کے ذہنوں پر بوجھ نہ پڑے۔ اسی لیئے حاصل کلام واضح کرنا ضروری خیال کیا۔ اگر کوئی کج فہم اختلاف کی کوئی صورت نکال لاتا۔ تو کبھی برہم نہ ہوتے۔ بلکہ بڑے پیار سے اسکی رائے کو رد کردیتے۔ اسے سمجھاتے کہ زیربحث موضوع پر بات کرنے کے لیے جس علم و فن گفتگو کی ضرورت ہے وہ اس سے یکسر بےبہرہ ہے۔ دو لوگوں کی رائے کو بہت اہمیت دیتے۔ اپنی اور جو انکی ہاں میں ہاں ملاتا۔ اک دوست ہمیشہ انکی ہر بات کی تائید کرتا۔ راقم نے پوچھا کہ یہ اختلاف کی جسارت کیوں نہیں کرتا۔ تو ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے بولے۔ دنیا صرف جہلاء کا مسکن نہیں، کچھ لوگوں کو عقل سلیم سے بھی نوازا گیا ہے۔ حالانکہ سلیم کو کبھی مہذب انداز میں مخاطب نہ کرتے تھے۔اس میں جانے کیا رمز تھی۔
شاعری اور ادب دوستی کو وقت کا ضیاع اور شغل بیکار کے نام سے منسوب کرتے۔ فرماتے میاں کبھی شعرو تحریر سے بھی انقلاب آئے ہیں۔راقم نے حکیم الامت کی مثال پیش کی،کہ وہ انقلاب لے آئے تھے۔ تو ہنس کر فرمانے لگے۔ قائد کو خوب مکھن سے بال کی طرح نکال پھینکا تم نے۔ اور کچھ توقف کے بعد بولے، تو دیکھ بھی لیا نہ اس سستے انقلاب کا حال۔ قائد جب تک زندہ رہے تب تک ہی چلا۔ اسکے بعد کے ملکی و سیاسی حالات کو تو طوائف الملوکی سے ہی منسوب کرو گے نا۔ راقم نے تائید کی۔ تو بہت خوش ہوئے۔ فرمایا۔ سمجھدار ہوتے جاتے ہو۔ سیاسی بصیرت پر کبھی غرور نہیں کیا۔ سال میں اک آدھی خبر پڑھتے اور پورے سال کی سیاسی صورتحال کا اندازہ لگا لیتے۔ ہر کسی کوتسلی بخش جوابات سے نوازتے اور ہر موضوع کو گھما پھرا کر اسی خبر سے لاجوڑتے جو اس سال پڑھی ہوتی تھی۔ انہی باتوں کے سبب جو اک آدھی بار بحث میں الجھتا دوبارہ قریب سے نہ گزرتا تھا۔
نیکی کا مادہ بھی حد سے زیادہ تھا۔ نیکی کمانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے۔ اک دن ٹیکسی میں بیٹھے جا رہے تھے اور حسب عادت ڈرائیور سے گپ شپ بھی جاری تھی۔ اچانک کسی بات پر اس بخت برگشتہ نے کہا۔ کہ جی بس آپ دعا کیا کریں۔ اسے کہنے لگے کہ میاں ٹیکسی ذرا اک طرف روکو۔ جب اسنے اک طرف ٹیکسی روک لی۔ تو فرمانے لگے پہلے دعا کر لیتے ہیں۔ بعد میں بھول نہ جاؤں ۔ اور اس ٹیکسی ڈرائیور کے رزق میں اضافے کے لیئے دعا فرمائی۔ یہ منظر دیکھ کر راقم الحروف آبدیدہ ہوگیا۔ وہ ڈرائیور اس خلوص کے پیکر کو دیکھ کر مرید ہوا چاہتا تھا۔ بڑی مشکل سے اسے لوٹایا۔
اپنی پسند کی تعریف لازمی کرتے۔ اور بارہا کرتے۔ اک دن کسی چیز کی راقم نے تعریف کی تو ہنس کر کہنے لگے۔ میاں ذوق آتا جا رہا ہے تم میں۔ راقم کی حیرانگی کو یوں دور فرمایا کہ یار کچھ دن پہلے اس کی تعریف کر بیٹھا تھا۔ بس جس جس نے اس دن سن لی۔ اب اسکو بھی یہی پسند ہے کہ آخر ہم نے تعریف کی ہے۔ کوئی رمز تو پوشیدہ ہوگی۔ راقم کا تذبذب دیکھ کر کہنے لگے کہ اچھا تم کو یقین نہیں آتا۔ تو ابھی یہ کمال دیکھو۔ راہ جاتے اک شخص کو روک کر کہنے لگے۔ صاحب مرسیڈیز کیسی گاڑی ہے؟ اس نے بلا تامل جواب دیا۔ بہترین۔ تو فاخرانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ میاں اب بھی انکار ہی کرو گے۔ اس پر راقم کو ماننا ہی پڑا کہ زمانہ ان کی پسند کا دم بھرتا ہے۔
اپنی بےخوابی کا اکثر تذکرہ فرمایا کرتے۔ راقم کو کچھ دن انکے ساتھ رہنا نصیب ہوا تو دیکھا کہ دو دو دن مسلسل سوئے رہتے۔ صرف کھانے کے وقت ملاقات ہوتی۔ آخر عرض کی کہ قبلہ آپ کی بےخوابی کا کیا ہوا۔ تو تفصیلی انداز میں بیماری کے متعلق بتایا۔ کہنے لگے کہ تم نے دیکھا میں دو دن سے سو رہا ہوں۔ میرے اثبات میں سر ہلانے پر مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہا کہ قسم لے لو جو اک بھی خواب آیا ہو۔ بے خوابی کی یہ تعریف سنکر مجھے ان لوگوں پر بہت غصہ آیا۔ جو یونہی اناپ شناپ بول کر اس بیماری کو کیا کا کیا بتاتے تھے۔
جینز اور ٹی شرٹ کے شدید مخالف تھے۔ اور شباب بہار میں کبھی اس کلموہی سے دوستانہ نہ لگایا۔ لیکن جب خزاں کی آمد شروع ہوئی اور زیر دستار فصل جھڑنے لگی تو جینز پہننی شروع کر دی۔ پھر پرتکلف ملبوسات سے ایسے متنفر ہوئے کہ کبھی دوبارہ خوش لباسی کا وہ دور نہ آیا جو انکا تعارف ہوا کرتا تھا۔ مونچھیں بھی غائب ہوگئیں۔ اک ستم ظریف نے مشورہ دیا کہ حضرت ابرو اضافی دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر پنجابی میں اسقدر خوبصورت جواب دیا کہ اردو لغت کے تمام مہذب الفاظ بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
سمت اور راستہ بتانے میں خود کو صبح کا ستارہ کہا کرتے۔ راستہ ایسے سمجھاتے کہ آدھا گھنٹہ سمجھانے کے بعد پتا چلتا کہ جس سے بات ہو رہی ہے۔ وہ سڑک کے دوسری طرف کھڑا ہے۔ اور وہ بھی اکثر و بیشتر دوسرے کی خود ہی نظر پڑ جاتی تھی۔اک دوست کی قسمت جو ماری گئی۔ تو رہنما خان سے فرمانے لگا کہ یار کل اک جگہ جانا ہے۔ راستہ معلوم نہیں۔ تو رہنما خان نے بڑے فخر سے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ میاں ہمارے ہوتے ہوئے پریشانی کی کیا بات۔ یہ جو فلاں دفتر دیکھا ہے تم نے۔ اس نے کہا ہاں۔ بس اس کے بالکل ساتھ ہے۔ وہ خوش ہوگیا۔ اگلے دن راقم کو اسکا فون آیا کہ یار یہ اس دفتر کے ساتھ آہستہ آہستہ بائیک چلاتا جاتا ہوں۔ مگر مطلوبہ دفتر ابھی تک نہیں آیا۔ تمہیں کوئی خبر ہے۔ راقم نے حیران ہو کر استفسار کیا کہ ادھر کہاں پھر رہے ہو۔ تو بتانے لگا کہ یار رہنما خان نے یہاں بتا یا تھا۔ اس پر راقم نے عرض کی کہ رہنما خان کے علم پر تو انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں اسی سڑک پر قریب کوئی 18 کلومیٹر آگے تمہارا مطلوبہ دفتر موجود ہے۔ اور اس کے دائیں بائیں یہ مشہور عمارات موجود ہیں۔ اس نابکار نے اس بات کا بہت بتنگڑ بنا دیا۔ اورواپسی پر کہنے لگا کہ یار آج میں فلاں دفتر گیا تھا۔ راستہ رہنما سے پوچھ لیا۔ بس پھر سیدھا اس دفتر کے دروازے سے ٹکرا کر رکا۔ اس پر رہنما بڑے جز بز ہوئے۔ اور کہنے لگے یار ایسے لوگوں سے طبیعت پر بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ اک تو انکو راستہ بتاؤ۔ دوسرا ان کی باتیں سنو۔ بئی ظاہر ہے وہ تھوڑا آگے تو ہوگا ہی۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ دیوار سے دیوار جڑی ہے۔
اک پرانی گاڑی رکھی ہوئی تھی۔ جو مرزا کی سائیکل سے زیادہ نہیں تو کم بھی خیر نہیں تھی۔ اس کے عشق میں یوں مبتلا تھے کہ اگر کبھی دفتر دوسری گاڑی پر چلے جاتے تو اسکی چابیاں جیب میں ڈال کر لے جاتے تھے کہ گھر کے بقیہ افراد اس کی شان میں گستاخی نہ کردیں۔ احباب اور گھر والوں کے پرزور اصرار پر آخر کار اس کو فروخت کرنے کا ارادہ باندھ ہی لیا۔ اب جو خریدار آیا تو اس نے گاڑی کا ہر طرف سے یوں جائزہ لیا جیسے قربانی والے بکرے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ منہ تو تھا نہیں لیکن اس نے بونٹ کھول کر گاڑی کے دانت تلاشنے شروع کیے۔ اتنی دیر رہنما خان اس کو گاڑی کے فضائل کے بارے میں تفصیلابتاتے رہے۔ اور پھر پوچھا کہ گاڑی آپ خود چلائیں گے۔ یا پھر شوقیہ رکھیں گے۔ اس کمبخت نے جواب دیا کہ جی بیگم نے گاڑی چلانی سیکھنی ہے تو اس کو یہ لے کر دے رہا ہوں ۔ جب تھوڑی دسترس حاصل ہو جائے گی تو کوئی اچھی گاڑی لے دوں گا۔ یہ سننا تھا کہ پھڑکنے لگے۔ اور کہا کہ جاؤ میاں۔ گاڑی نہیں بیچنی ہیں ہمیں۔ تمیز چھو کر نہیں گزری تمہیں۔ دیر تک گاڑی کے ساتھ لپٹے رہے۔ بڑی مشکل سے الگ کیا کہ کوئی بات نہیں۔ بدتمیز آدمی تھا۔ دل پر مت لیں۔ جانے دیں اس بات کو۔ لیکن بقول انکے اس واقعہ کے بعد ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ اور کہا کہ یاررات کو ڈر کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ اک قبرستان ہے۔ اور اس پر اک قبر پر میری گاڑی کا ماڈل اور سن پیدائش لکھی ہے۔ قسم سے بقیہ رات کو سو نہیں پاتا۔ تمہیں پتا ہے ابھی بھی کسی نئے ماڈل کی کار کے ساتھ ریس لگا لیتا ہوں اس گاڑی پر۔اس پر ان برق رفتاری کےمقابلوں کے انجام کی بہت سی کہانیاں یاد آگئیں پر دل شکنی سے اجتناب کی خاطر راقم نے خاموشی اختیار کی۔