دید کی خواہش تو ہے پر اب وہ بینائی کہاں
زندگی مجھ کو بتا دے تو مجھے لائی کہاں
میں کروں ترکِ وفا یا تم کرو ترکِ وفا
جان جائے گی مگر ، جائے گی رسوائی کہاں
تم بھی ہو اب ساتھ میرے اور سکوں بھی ہے بہت
ان بہاروں کے دنوں میں آنکھ بر آئی کہاں
میں تو خود زندان میں اترا ہوں اپنے شوق سے
اس نے میرے پاؤں میں زنجیر پہنائی کہاں
طفلِ مکتب ہوں ابھی اصلاح کے قابل نہیں
شاعری میں میر ، غالب سی وہ گہرائی کہاں
یہ لیں شمشاد بھائی