زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
جامعۂ آکسفورڈ کے کلّیہ برائے مشرقی علوم کی ویب گاہ پر فارسی زبان کا تعارف اِن الفاظ میں دیا گیا ہے:
"فارسی معاصر مشرقِ وسطیٰ کی ایک اہم زبان ہے۔ یہ زبان ایران بھر میں اور افغانستان کے ایک وسیع حصے میں بولی جاتی ہے، اور اس کی ایک شاخ 'تاجک' وسطی ایشیا میں بہ طورِ گستردہ رائج ہے۔ اوائلِ عصرِ جدید میں یہ برِ صغیر کی خواندہ اشرافیہ کی مشترکہ زبانِ رابطہ تھی اور تا حال وہاں کے مسلم معاشروں میں سکھائی جاتی ہے۔ اِس کے ادب میں بعض عالی ترین حماسی و غنائی شاعری موجود ہے اور اسلامی ثقافت میں اِس کی عمومی فکری و ہنری شراکت بے مثیل ہے۔"
ماخذ
× حَماسہ = epic

:in-love:
 
آخری تدوین:
فارسی میں جب بھی خ کے ساتھ و آئے تو واوء کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ برادرم حسان نے معلومات میں اضافہ کیا کہ ایسےواو کو واوء معدولہ کہتے ہیں۔
کیا یہ اصول عربی میں بھی مستعمل ہے؟
خوار میرے خیال میں عربی کا لفظ ہے۔ جس کا صحیح تلفظ خار کہا جاتا ہے۔ اگر خوار عربی کا لفظ ہے تو کیا عربی میں بھی واوِ معدولہ خ کے ہمراہ استعمال ہوتا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فارسی میں جب بھی خ کے ساتھ و آئے تو واوء کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ برادرم حسان نے معلومات میں اضافہ کیا کہ ایسےواو کو واوء معدولہ کہتے ہیں۔
کیا یہ اصول عربی میں بھی مستعمل ہے؟
خوار میرے خیال میں عربی کا لفظ ہے۔ جس کا صحیح تلفظ خار کہا جاتا ہے۔ اگر خوار عربی کا لفظ ہے تو کیا عربی میں بھی واوِ معدولہ خ کے ہمراہ استعمال ہوتا ہے؟
عربی میں ایسا کوئی قاعدہ نہیں ۔ہر حرف اور اس کی حرکت اور اعرابی حالت کے مطابق پڑھا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں جب بھی خ کے ساتھ و آئے تو واوء کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ برادرم حسان نے معلومات میں اضافہ کیا کہ ایسےواو کو واوء معدولہ کہتے ہیں۔
کیا یہ اصول عربی میں بھی مستعمل ہے؟
خوار میرے خیال میں عربی کا لفظ ہے۔ جس کا صحیح تلفظ خار کہا جاتا ہے۔ اگر خوار عربی کا لفظ ہے تو کیا عربی میں بھی واوِ معدولہ خ کے ہمراہ استعمال ہوتا ہے؟
خوار فارسی ہی کا لفظ ہے۔
واوِ معدولہ کی حکایت یہ ہے کہ جب فارسی زبان لکھی جانی شروع ہوئی تھی تو اُس وقت یہ واو تلفظ کیا جاتا تھا۔ یعنی خواہر کو xâhar کی بجائے xvâhar پڑھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے الفاظ کے املا میں واو شامل ہے۔ لیکن بعد میں اگرچہ اِس واو کا تلفظ مفقود ہو گیا، لیکن الفاظ کا املا وہی رہا جو شروع سے تھا۔
فردوسی نے مندرجۂ ذیل شعر میں دانہ کَش اور خوش کو ہم قافیہ باندھا ہے کیونکہ اُن کے زمانے میں لفظِ خوش کا قدیم تلفظ خوَش زندہ تھا۔ لیکن اب خوش کا واؤ ساکت ہے۔
میازار موری که دانه‌کَش است
که جان دارد و جانِ شیرین خوَش است
 
کہ کس نگشود و نگشاید بحکمت ایں معما را
شعر کا مطلب تو سمجھ آ گیا ہے کہ کوئی بھی حکمت سے یہ معما نہیں کھول سکا لیکن نگشود و نگشاید کی تھوڑی وضاحت کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معما را
شعر کا مطلب تو سمجھ آ گیا ہے کہ کوئی بھی حکمت سے یہ معما نہیں کھول سکا لیکن نگشود و نگشاید کی تھوڑی وضاحت کی ضرورت ہے۔
گُشودن = کھولنا
گشود = کھولا
نگشود = نہیں کھولا
گُشاید = کھولے
نگشاید = نہیں کھولے
گشود 'گشودن' کا صیغۂ ماضیِ مطلق ہے جبکہ گشاید اسی فعل کا صیغۂ مضارع ہے جو حال اور مستقبل دونوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس مصرعے کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہو گا: کسی نے حکمت کے ذریعے نہ اس معمے کو کھولا ہے اور نہ کھول پائے گا۔
شعر میں 'نگشود و نگشاید' کو گاف پر سکون کے ساتھ نَگْشود و نَگْشاید پڑھا جائے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایک شعر سنا تھا:
کیمیاگر بہ غصہ مردہ و رنج
ابلہ اندر خرابہ یافتہ گنج​
مطلب بیان فرما دیجیے۔
شکریہ۔
یہ شعر سعدی شیرازی کا ہے اور اِس میں اُنہوں نے زمانے کی ستم ظریفی پر تبصرہ کیا ہے کہ دانش مند کیمیاگر تو کئی بار خزانے کی تلاش میں غم و رنج کے ساتھ نامراد مر جاتا ہے جب کہ بے وقوف کو توقع کے بغیر ویرانے کے اندر گنجینہ مل جاتا ہے۔
 
یہ شعر سعدی شیرازی کا ہے اور اِس میں اُنہوں نے زمانے کی ستم ظریفی پر تبصرہ کیا ہے کہ دانش مند کیمیاگر تو کئی بار خزانے کی تلاش میں غم و رنج کے ساتھ نامراد مر جاتا ہے جب کہ بے وقوف کو توقع کے بغیر ویرانے کے اندر گنجینہ مل جاتا ہے۔
شکریہ حسان بھائی۔
مصرعِ اولیٰ کو یوں سنا گیا ہے:
کیمیا گر بغصہ مردہ برنج​
اس صورت میں اس کی نحوی تقطیع مطلوب ہے۔
آپ کی بیان کردہ صورت 'کیمیا گر بغصہ مردہ و رنج' کو بھی اگر دیکھا جائے تو کیا غصہ اور رنج کی نسبتِ عطفی کے درمیان 'مردہ' آ سکتا ہے؟ فارسی گرامر اس کی اجازت دیتی ہے یا پوئٹک لائسنس؟
 

حسان خان

لائبریرین
مصرعِ اولیٰ کو یوں سنا گیا ہے:
کیمیا گر بغصہ مردہ برنج​
اس صورت میں اس کی نحوی تقطیع مطلوب ہے۔
نحوی لحاظ سے تو یہ بھی درست ہے لیکن اِس صورت میں رنج سے ملحق 'بہ' زائد ہو جائے گا کیونکہ اس کا مفہوم 'غصہ' (= غم) سے پہلے آنے والے 'بہ' سے پورا ہو رہا ہے۔ لہٰذا اگر رنج کے ساتھ بھی 'بہ' ہو تو مصرعے کی فصاحت کم ہو جاتی ہے۔
آپ کی بیان کردہ صورت 'کیمیا گر بغصہ مردہ و رنج' کو بھی اگر دیکھا جائے تو کیا غصہ اور رنج کی نسبتِ عطفی کے درمیان 'مردہ' آ سکتا ہے؟ فارسی گرامر اس کی اجازت دیتی ہے یا پوئٹک لائسنس؟
جی، فارسی دستورِ زبان اِس چیز کی اجازت دیتا ہے اور یہ استعمال شاعری میں بہت عام ہے۔
سعدی ہی کا ایسا ایک اور شعر ہے:
یا رب تو آشنا را مهلت ده و سلامت
چندان که بازبیند دیدارِ آشنا را

ترجمہ: یا رب! تو آشنا کو اتنی مہلت اور عافیت دے کہ وہ (اپنے) آشنا کا دیدار دوبارہ دیکھ لے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری فارسی میں لوری کو 'اَلّہ/алла' کہتے ہیں۔ ایران اور افغانستان میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔

می‌رسد فارَم به گوشم، اَلّه‌های مادرم
زندگی رنگین برایم، با دعای مادرم
ترجمہ: میرے کانوں میں میری مادر کی لوریاں خوشگوار معلوم ہوتی ہیں؛ میری مادر کی دعا سے میرے لیے زندگی رنگین ہے۔
'فارَم' بمعنیِ خوشگوار و دلکش بھی ماوراءالنہری فارسی کا خاص لفظ ہے۔

ایرانی فارسی میں لوری کو 'لالائی' کہا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایرانی مردم باہمی دوستانہ گفتگو میں 'قربونت برم' یعنی 'میں تم پر قربان جاؤں' کا بہت استعمال کرتے ہیں۔
× قربونت برم (ghorboonet beram) = قربانت بروم
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تحریری فارسی میں اس کے لئے "سَرَت گَردَم" مستعمل ہے۔
'سرِ کسی گردیدن/گِردِ سرِ کسی گردیدن' ایک محاورہ ہے جس کا مطلب 'قربان ہونا، فدا ہونا' ہے۔ آپ نے درست فرمایا، یہ محاورہ صرف ادبی کتابی زبان میں استعمال ہوتا ہے۔
ایک مثال دیکھیے:
به محشر گر ز تو پرسند خسرو را چرا کشتی
سرت گردم چه خواهی گفت تا من هم همان گویم
(امیر خسرو دهلوی)

اگر محشر میں تم سے پوچھیں کہ تم نے خسرو کو کیوں قتل کیا؟ تو میں تم پر قربان جاؤں، (مجھے بتا‎ؤ کہ) تم کیا کہو گے تاکہ میں بھی وہی کہوں۔

(ایک روایت کے مطابق مصرعِ اول یوں ہے: 'به محشر گر بپرسندت که خسرو را چرا کشتی')
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ازبکستان کے فارسی گو علاقے
ماخذ: ویکی پیڈیا
640px-Tajiks_of_Uzbekistan.PNG
 
آخری تدوین:
بہارِ ہند بود بر شکال ہاں غالب
دریں خزاں کدہ ہم موسمے شرابے ہست

کیا برشکال ہاں برشکال یعنی برسات کی جمع ہے؟
اور خزاں کدہ ہم سے مراد ہمارا خزاں کدہ ہوگا؟
 

حسان خان

لائبریرین
بہارِ ہند بود بر شکال ہاں غالب
دریں خزاں کدہ ہم موسمے شرابے ہست

کیا برشکال ہاں برشکال یعنی برسات کی جمع ہے؟
اور خزاں کدہ ہم سے مراد ہمارا خزاں کدہ ہوگا؟
فارسی ادب میں 'ہاں' کا مفہوم قریباً وہی ہے جو اردو میں 'ہاں' کا ہے، اور یہ کلمہ عموماً تاکید کرنے یا آگاہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
http://dsalsrv02.uchicago.edu/cgi-bin/philologic/getobject.pl?c.7:1:5489.steingass
http://dsalsrv02.uchicago.edu/cgi-bin/philologic/getobject.pl?c.5:1:2996.hayyim

دریں خزاں کدہ ہم = اِس خزاں کدے میں بھی

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اس شعر کا اردو ترجمہ یوں کیا ہے:
غالب، برسات کا موسم ہندوستان کی بہار ہے۔ ہاں اس خزاں کدے میں بھی موسمِ شراب ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
علامہ اقبال فارسی زبان کے بارے میں فرماتے ہیں:
فکرِ من از جلوه‌اش مسحور گشت
خامهٔ من شاخِ نخلِ طور گشت

ترجمہ: اُس (یعنی فارسی) کے جلوے سے میری فکر مسحور ہو گئی اور میرا خامہ نخلِ طور کی شاخ بن گیا۔
 
فارسی میں شاعری میں سبکِ ہندی، عراقی وغیرہ سے کیا مراد ہے؟ یہ کن خصوصیات کی وجہ سے مخصوص ملک سے منصوب ہیں؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں شاعری میں سبکِ ہندی، عراقی وغیرہ دے کیا مراد ہے؟ یہ کن خصوصیات کی وجہ سے مخصوص ملک سے منصوب ہیں؟
سبکِ خراسانی، سبکِ عراقی اور سبکِ ہندی کہنہ فارسی شاعری کے تین تاریخی سبک یا اسالیب ہیں۔ مختصراَ تعارف یہ ہے کہ فارسی کے ابتدائی شعراء ماوراءالنہر اور خراسان کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کے سبکِ شاعری کو اسی وجہ سے سبکِ خراسانی کا نام دیا گیا ہے۔ اُن کی استعمال کردہ زبان میں قدامت اور سادگی کا عنصر موجود ہے جبکہ اُن کی شاعری کے مضامین بھی پیچیدگی سے خالی اور فطری ہیں۔ اِس طبقے کے شعراء کی زبان پر عربی کا اثر بعد کے ادوار کے مقابلے میں کم ہے اور اس دور میں غزل سے زیادہ قصیدہ گوئی کا رواج ہے۔ سامانی اور غزنوی دور کے سارے شعراء اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلجوقیوں کے دور میں فارسی شاعری کا مرکز ماوراءالنہر و خراسان کی بجائے عراقِ عجم اور آذربائجان کا علاقہ ہو گیا تھا، لہٰذا اس خطے میں شکوفا ہونے والے شعری سبک کو سبکِ عراقی کہا گیا ہے۔ اس دور میں زبان پر عربی غالب ہو گئی اور مضامین بھی واقعی کی بجائے فکری، فلسفی و اخلاقی ہو گئے۔ غزل کا رواج اور شاعری میں تصوف کی آمیزش اسی دور سے شروع ہوئی تھی۔ سعدی، حافظ، مولانا، سعدی، خسرو، نظامی، جامی وغیرہ اسی سبکِ‌ عراقی کے نمائندے ہیں۔ اس دور میں فارسی کا معیار مقرر ہو گیا تھا اور بعد کی صدیوں میں شعراء نے کم و بیش وہی زبان استعمال کی ہے جو سعدی و حافظ جیسے اساتذہ نے استعمال کی تھی۔ بعد ازاں، مغلوں کے عروج اور ایران میں صفویوں کی آمد کے بعد فارسی ادب کا بزرگ ترین مرکز ہند بن گیا تھا اور ایرانی شعراء اور ادباء جوق در جوق ہند ہجرت کرنے لگے اور مغلوں اور اُن کے ذیلی حاکموں کے درباروں سے وابستہ ہوتے رہے۔ یہاں ایک نیا سبک وجود میں آیا جس میں نازک خیالی اور مضمون آفرینی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور اسے ہی شاعری کا مقصود مانا جاتا ہے۔ یہ شاعری کا سبک اُن شاعروں کا پروردہ ہے جو یا تو ہند میں پیدا ہوئے تھے یا پھر ایران سے ہند آئے تھے، اس لیے اسے سبکِ ہندی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ صائب تبریزی، عرفی شیرازی، کلیم کاشانی، نظیری نیشابوری، طالب آملی، غنی کشمیری، بیدل، غالب وغیرہ نے اسی سبک میں شاعری کی ہے، امّا بیدل اور بیدل کے پیروؤں کی شاعری میں نازک خیالی اور مضمون پردازی دیگروں سےکہیں زیادہ ہے۔ صفوی دور کے اختتامی زمانے میں ایران میں اِس سبکِ ہندی کے خلاف ادبی تحریک چلی تھی اور ایرانی شاعروں نے سبکِ ہندی کو انحطاط کہہ کر دوبارہ سبکِ عراقی میں شعر کہنے کا آغاز کر دیا تھا، لہٰذا یہ سبک وہاں مردہ ہو گیا اور سبکِ ہندی کے شاعران وہاں گم نامی کی نذر ہو گئے۔ جبکہ دوسری جانب سبکِ ہندی نے ماوراءالنہر اور افغانستان کے ادبی حلقوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہاں بیسویں صدی تک صرف سبکِ ہندی میں شعر کہے جاتے رہے۔ حتیٰ کہ حالا بھی اِن علاقوں میں، خصوصاً افغانستان میں، سبکِ ہندی میں شعر گوئی کا رواج ہے۔ ایران میں کوئی شخص بیدل کا نام تک نہ جانتا تھا، جبکہ افغانستان اور ماوراءالنہر میں کوئی ایسا خواندہ شخص نہ تھا جس نے بیدل کو نہ پڑھا ہو اور کوئی ایسا شاعر نہ تھا جس نے بیدل کی پیروی نہ کی ہو۔ ایران میں سبکِ ہندی کے خلاف تحریک کو 'بازگشتِ ادبی' کہا جاتا ہے۔ ایران میں سبکِ ہندی کا مطالعہ گذشتہ صدی سے دوبارہ شروع ہوا ہے اور سبکِ ہندی کے شاعروں کے دواوین وہاں شائع ہوئے ہیں، لیکن ہنوز بیدل جیسوں کا اسلوب وہاں اتنا زیادہ مقبول نہیں ہے۔ تا حال، صرف صائب تبریزی کو دوبارہ وسیع مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top