اِس جملے میں یہ "موردِ حملہ بنا/واقع ہوا" کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔چابهار که «نگین توسعه شرق ایران» نام گرفته روز پنجشنبه با بمبگذاری مورد حمله قرار گرفت.
قرار گرفتن کا ویسے تو معنی استوار شدن، محکم گشتن اور ساکن شدن ہے، لیکن مندرجہ بالا جملے میں اس کا معنی کیا ہوگا؟
مُعاصر ایران میں اِس چیز کو «مَتَرْسَک» (متَرْس + کافِ تصغیر) کہتے ہیں۔ ماوراءالنہر میں یہ لفظ رائج نہیں ہے (اِلّا ایرانی فارسی سے مُتأثر ادیبوں کی تحریروں میں)۔ ماوراءالنہر کے مختلف فارسی گو خِطّوں میں مختلف علاقائی فارسی و تُرکی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، لیکن معیاری کتابی زبان کا لفظ «خوسه» (хӯса) ہے۔x مترس=کھیتوں میں پرندوں کو ڈرانے کے لئے ایک انسان نما پُتلا جو چوب، سنگ یا کپڑے سے بنا ہوتا ہے۔
فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی میں «خوسه» کے مدخل کے ذیل میں یہ معنی درج ہے:معیاری کتابی زبان کا لفظ «خوسه» (хӯса) ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب سخن دانِ فارس (۱۸۸۷ء) میں ترکستانی ترکوں اور ازبکوں کے ساتھ فارسی زبان میں گفتگو کرنے کی دو حکایتیں بیان کی ہیں:
"ایک دفعہ جوانی کی ہمت اور شوقِ سیاحت مل کر مجھے ترکستان کے ملک میں لے گئی۔ بلخ سے چند منزل آگے بڑھ کر ہمارا قافلہ اترا۔ اُن ملکوں کے لوگ کم علم، کم معلومات ہوتے ہیں۔ اپنی آرام طلبی اور رستوں کی دشواری انہیں ادھر کے سفر میں سدِ راہ ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک کے آدمیوں کے ساتھ شوق سے ملتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات معلوم کر کے خوش ہوتے ہیں۔ چنانچہ گاؤں کے لوگ آ کر قافلہ میں پھرنے لگے۔ دستور ہے کہ اہلِ آبادی روٹیاں، گھی، دودھ، دہی، انڈے، گوشت، مرغیاں، قالین (اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے) لاتے ہیں۔ قافلہ والے قیمت میں کپڑا، سوئیاں، رانگ، پیتل کی انگوٹھیاں، جگنیاں، کانچ اور شیشہ کے دانے دے کر خریدتے ہیں۔ ایک ترک بچّہ طالبِ عالم میرے بستر کے پاس آ بیٹھا۔ دو تنگے (۱) میرے ہاتھ میں تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے اُس نے پوچھا۔ در ملکِ شما ہمیں تنگہ رواج دارد۔ ایک افغان کا بستر برابر تھا۔ وہ بولا کہ در ہند روپیہ کلدار است فرنگی براں تصویرِ خود را نقش میکند۔ طالبِ علم نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ چہ طور؟ میں نے کہا راست (۲) میگوید۔ روپیۂ ہند سہ برابرِ تنگۂ شماست۔ اُس نے پوچھا۔ تصویر چرا نقش میکند؟ میں نے کہا۔ سکۂ سلطنت است۔ در دورِ دائرہ نام و میانہ اش تصویرِ شاہ است۔ آں ہم تمام نیست۔ کلّہ اش را نقش میکنند۔ ترک بچّہ بولا۔ آرے بہ ہمیں سبب روپیہ را کلہ دار نام کردہ باشند۔ کلدار کو کلّہ دار کا مخفف سمجھا۔ خوب سمجھا۔ مگر غلط سمجھا۔
ایک دن میں کوکان میں چند اشخاص کے ساتھ بیٹھا تھا۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ ایک بڈھے فرتوت نے پوچھا کہ در ملکِ شما فرنگی سلطنت مے کند؟ میں نے کہا۔ بلے۔ اس نے کہا؟ او چہ نام دارد؟ میں نے کہا۔ بادشاہ در ملکِ فرنگ بہ پایۂ تختِ خود است۔ برائے ما نائبے فرستادہ است۔ او حکم میراند۔ بادشاہِ ما ہمانست۔ پوچھا۔ آخر او چہ نام دارد؟ میں نے کہا۔ بعدِ ہر چند سالے عوض میشود۔ البتہ بہ اعتبارِ عہدہ و منصب آن را لات میگوند۔ ایک بولا گوبرناس (۳) باشد (یہی گورنر)۔ میں نے کہا۔ بلے۔ ہمچنیں۔ ایک اور ترک نے کہا۔ لات چہ معنی دارد؟ میں نے تامّل کیا کہ کیا کہوں۔ دوسرا بولا۔ ہماں لات و منات است۔ دوسرا بولا۔ نے! فرنگ بت پرست نیست۔ بڈھے ازبک نے کہا۔ آخر کافر است۔ کفر بہ ہر جا یکیست۔ لاتشاں ہماں لات و منات باشد۔
اب تم غور سے خیال کرو۔ ہندُستان میں جو انگریزی روپیہ کے لیے کلدار کا لفظ پیدا ہوا۔ یہ بھی ایک عجیب اور اتفاقی ولادت تھی۔ پھر بھولے بھالے ترک نے جو اس کے لیے وجہ نکالی یہ عجیب در عجیب اتفاق ہے۔
لاٹھ کو اور لارڈ کے معنوں کو دیکھو کہ ہندُستان میں آ کر لفظ میں کیا تغیر پیدا ہوا؟ اور معنی اس کے یہاں کیا خیال پیدا کرتے ہیں؟ پھر اُس اُزبک کو دیکھو کہ کیا سمجھا اور اور دلیل کیا خوب پیدا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلیتِ الفاظ کی تحقیق بہت نازک کام ہے۔ قیاس و انداز ہمارا ہرگز قابلِ اطمینان نہیں۔ اندھیرے میں تیر پھینکنے ہیں۔ لگا تو لگا ورنہ یا قسمت۔"
۱) تنگہ۔ ترکستان بخارا میں چاندی کا سکّہ ہوتا ہے۔
۲) افغان کا مطلب یہ تھا کہ تصویر کے ذکر سے ہماری بت پرستی ثابت کرے اور ترک بچّہ کے خیالاتِ اسلامی کو چمکا دے۔
۳) روس کی بدولت یہ لفظ وہ بھی جان گئے تھے۔ گورنر کو 'گوبرناس' کہتے تھے۔
وعلیکم السلام!سلام برادر۔۔۔
اگر آپ کا اشارہ یائے مجہول کی آواز (e) کی جانب ہے، تو یہ آواز قدیم زمانے میں کُل فارسی گو خِطّے کی فارسی میں موجود تھی، اور تا ہنوز افغانستان، تاجکستان اور پاکستان کی فارسی میں یہ آواز رائج ہے، لیکن اگر آپ اُس حَرف کے بارے میں پوچھ رہے تھے جس کو اردو میں «بڑی یے» کہا جاتا ہے، تو نہیں، یہ حَرف کبھی معیاری فارسی حروفِ تہجّی کا حصّہ نہیں رہا، اور فقط فارسی خطّاطی میں 'ی' کی ایک مُتبادل شکل کے طور پر، یا پاکستان میں اردو رسم الخط اور طرزِ نوِشتار میں لکھی جانے والی فارسی میں استعمال ہوا ہے۔کیا قدیم فارسی میں "ے" استعمال ہوتا تھا؟
«می» میں فقط تلفُّظ کا فرق ہے۔آج کل مختلف علاقہ جات میں فقط تلفظ کا فرق ہے (e/i) یا معنیٰ میں بھی فرق ہے؟
یہ سوال میں سمجھ نہیں پایا۔ «می» تو ہر طرح کی فارسی میں متکلّم کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے، مثلاً: میروم، میگُفتم وغیرہ۔ایک افغانی دوست کے بقول (اگر میں اس کو سمجھنے میں خطا نہیں کر رہا) "می" دری میں متکلم کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں شاید۔۔۔ اس نے غالباََ کچھ یوں مثال دی کہ "می کنید" اور ایرانی فارسی میں "می کنیدم" (آپ وضاحت کر دیجیے اس سے دوبارہ گفت و شنید کر لوں گا)۔۔۔
مُختصراً یہ کہ «می» کلاسیکی فارسی میں عموماً اِن معنوں کے لیے استعمال ہو سکتا تھا:مزید اینکہ آپ اس "علامتِ استمرار و امتداد و تکرار" کے متعلق مزید لبِ گہر فشاں وا کیجیے