تیرہویں سالگرہ زبردست اور پرمزاح

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
محفل فورم کی تیرہویں سالگرہ کے موقعے پر ایک اور سلسلے کا آغاز کرتے ہیں۔ یہاں ان مراسلات کے اقتباسات اور روابط پیش کرنا ہیں جو ارکان محفل کو بہت پسند آئے ہیں یا ان سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جن مراسلات پر دس یا اس سے زائد مثبت ریٹنگز، جیسے کہ زبردست، پسندیدہ یا پرمزاح وغیرہ ہوں تو انہیں یہاں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی مراسلہ اس پیمانے پر پورا نہیں اتر رہا لیکن آپ کو اس کے باوجود زبردست یا پر مزاح لگ رہا ہے تو پھر بھی اسے یہاں پیش کیا جا سکتا ہے۔ :)

اس سلسلے میں سب سے پہلے نیرنگ خیال کی ذیل کی پوسٹ پیش کی جاتی ہے:

جدید قیود و ضحک از قلم نیرنگ خیال

السلام علیکم!
آپ کی بدقسمتی اور اردو محفل کی انتہائی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے یہ فورم جوائن کر لیا ہے۔ چونکہ آپ ایک انتہائی علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ اور آپ ہی وہ گائے ہیں جنہوں نے اردو کی دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔ لہذا اراکین کا آپ کو جاننے کا شوق آپ کو کسی پل چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ اور یہ جابجا آپ کے تعارف کے مشاق نظر آئیں گے۔ گرچہ اس تعارف لکھنے کے عمل میں آپ کے سینگ ہلنے سے دنیائے اردو میں زلزلہ آنے کا غالب امکان ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس دھاگے سے ملتا جلتا ایک اور آئیڈیا منفی ریٹنگز والے مراسلات کا بھی ہو سکتا ہے، جس کا عنوان ہوگا احمقانہ اور مضحکہ خیز مراسلات۔ :)
 
محمداحمد بھائی کی تحریر میٹر شارٹ کا یہ اقتباس دس کی شرط تو پوری نہیں کرتا، جس کی وجہ یقیناً یہی رہی ہو گی کہ یہ تحریر زیادہ لوگوں کی نظر سے نہیں گزری۔ اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اسے زبردست کی ریٹنگز ہی موصول ہوئی ہیں۔ :)
اگر کسی نے نثر میں شاعری کا مزا لینا ہو تو یہ تحریر ضرور پڑھے۔
آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے پر پھائے رکھ رہی تھی۔ جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی ہے۔ الفاظ اور احساسات جس قدر ہم آہنگ ہو جائیں گیتوں کی چاشنی اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتی بوندیں ہوا میں اور گیت کے مسکراتے مصرعے میرے ہونٹوں پر رقصاں تھے (جنہیں صرف میں ہی سُن سکتا تھا)۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے چاہو تو اُسے محسوس کرو اور چاہو تو اس احساس سے اجنبی ہو جاؤ۔

بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔ آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ تاہم ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔ یوں تو سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔ زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اگر خود ستائی کے الزام میں دھر نہ لیا جاؤں تو ذیل کی تحریر شرائط پر پوری اترتی ہے۔
ضرورتِ رشتہ
(کچھ دن پہلے ایک دلچسپ اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس سے تحریک پا کر ایک لمبا چوڑا اشتہار لکھ ڈالا)
ایک نو عمر سید زادہ،نیک چلن اور سیدھاسادہ، کامل شرافت کا لبادہ، کبھی بس پہ کبھی پیادہ، طبعیت کا انتہائی سادہ، لمبا کم اور پست زیادہ، کاروبار کرنے کا ارادہ، اپنی ماں کا شہزادہ، حُسن کا دلدادہ، شادی پر آمادہ،
خوبصورت جوان ،اعلی خاندان، اپنا ذاتی مکان ، رہائش فی الحال پاکستان ،ابھی پاس کیا ایم اے کا امتحان ، کبھی نادان کبھی شیطان ، ایک دفعہ ہوا یرقان ، کافی بار کروایا چالان، عرصہ سے پریشان کے لئے ،

ایک حسینہ مثلِ حور،چشم مخمور،چہرہ پُر نور،باتمیز باشعور، سلیقے سے معمور، نزاکت سے بھرپور، پردے میں مستور، خوش اخلاقی میں مشہور
باہنر سلیقہ مند،صوم و صلوۃ کی پابند، کسی کو نہ پہنچائے گزند، نہ کوئی بھابھی نہ کوئی نند، ستاروں پہ نہ سہی چھت پہ ڈالے کمند، صاف کرے گھر کا گند
باادب باحیاء، پیکرِ صدق و صفا، اک مثالِ وفا، سب کی لے دعا، نہ ہو کسی سے خفا، نہ کرے کسی کا گلا ،
نہ شائق سُرخی وکریم ،اعلی تربیت و تعلیم، سیرت و کردار میں عظیم، نرم خوئی میں شبنم و شمیم، سوچ میں قدیم، علالت میں حکیم
کوئی مہ جبین ،بے حد حسین،پردہ نشین، ذہین و فطین، بہن بھائیوں میں بہترین، پکانے کی شوقین، میٹھا بھی اور نمکین ، ساتھ لائے قالین ، سسرال کی کرے تحسین، شوہر جب ہو غمگین تو کرے حوصلے کی تلقین ، ساس کے سامنے مسکین، لفظ منہ سے نہ نکالے سنگین ، گھر کی کرے آرائش و تزئین، ہر بات پہ کہے آمین، یوں رہے جیسے اسرائیل کے سامنے فلسطین،
بقید حد، دراز قد، مصروف ید، حکم نہ کرے رد،
آہستہ خرام، شائستہ کلام،پیارا سا نام، مٹھاس جیسے چونسہ آم، رفتار جیسے تیز گام، شوہر کی غلام، زبان پر لگام، بات میں نہ کوئی ابہام، زبان پر نہ کوئی دشنام، امن و آشتی کا پیغام، خاندان میں لائے استحکام، جانتی ہو ہر کام، کبھی نہ ہو زکام،سب کا کرے احترام، ساس سے نہ لے انتقام، شوہر پر ہوں جو آلام، جلد بازی میں نہ کرے اقدام، مچائے نہ کوئی کہرام،
عجوبۂ کائنات، مصائب میں ثبات، عاریٔ جذبات ، ہمہ وقت محوِ خدمات ، نہ کرے سوالات، تمام دے مگر جوابات، اعلی و ارفع صفات، رفیقۂ حیات، صابرِ ممات

درکار ہے، لڑکا ہمارا افتخار ہے، لیکن کچھ بے قرار ہے،رابطے کا آپ کو اختیار ہے، اگر آپ کو اعتبار ہے، جلدجواب پر ہمیں اصرار ہے، ورنہ زندگی بےکار ہے،گرائیے جو رستے میں دیوار ہے، اب تو بس ہاں کا انتظار ہے۔

مسہری یا چارپائی،روئی بھری رضائی، قلم کے لیے روشنائی ، شوہر کے لیے ٹائی، چند زیور طلائی،نکاح سے پہلے رسمِ حنائی، منگنی پرمٹھائی، نکاح پر فائرنگ ہوائی ، بارات کے لیے دودھ ملائی، تھوڑی سی خود نمائی، تاکہ نہ ہو جگ ہنسائی، بعد میں نہ ہو لڑائی
شکوک سے پرہیز، بیاہ کے لیے بھاگو تیز،ابھی مٹی ہے زرخیز، کچھ کرسیاں اور میز،بس اس قدر جہیز،ہماری قوم نہ انگریز نہ چنگیز

لڑکی آپکی بھی کنواری ہے، شادی نہ ہوئی تو ہماری بھی خواری ہے، بتائیں اگر کوئی دشواری ہے، ہماری تو پوری تیاری ہے، ہاں کرنا آپ کی رواداری ہے۔

لڑکا گو اناڑی ہے، مگر کاروباری ہے۔
ایک چھوٹی سی دوکان اور منہ میں زبان اور کبھی کبھی پان رکھتا ہے۔

مزید بات چیت بلمشافہ ،یا بذریعہ لفافہ، بصورت ازیں چڑیا گھر میں دیکھیں زرافہ،
خط و کتابت بوعدہ صیغۂ راز ہے۔دوستو یہ آرزو دل کی آواز ہے۔

مکان نمبر: چار سو بیس
گلی نمبر : نو،دو،گیارہ
حیران چوک پریشان منزل
شہرِ غریباں، ملکِ عدم

(عرفان)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
السلام علیکم،
محفل فورم کی تیرہویں سالگرہ کے موقعے پر ایک اور سلسلے کا آغاز کرتے ہیں۔ یہاں ان مراسلات کے اقتباسات اور روابط پیش کرنا ہیں جو ارکان محفل کو بہت پسند آئے ہیں یا ان سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جن مراسلات پر دس یا اس سے زائد مثبت ریٹنگز، جیسے کہ زبردست، پسندیدہ یا پرمزاح وغیرہ ہوں تو انہیں یہاں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی مراسلہ اس پیمانے پر پورا نہیں اتر رہا لیکن آپ کو اس کے باوجود زبردست یا پر مزاح لگ رہا ہے تو پھر بھی اسے یہاں پیش کیا جا سکتا ہے۔ :)

اس سلسلے میں سب سے پہلے نیرنگ خیال کی ذیل کی پوسٹ پیش کی جاتی ہے:

جدید قیود و ضحک از قلم نیرنگ خیال
سب سے پہلے ڈی پی لگانے کا شکریہ نبیل بھائی :bighug:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محمداحمد بھائی کی تحریر میٹر شارٹ کا یہ اقتباس دس کی شرط تو پوری نہیں کرتا، جس کی وجہ یقیناً یہی رہی ہو گی کہ یہ تحریر زیادہ لوگوں کی نظر سے نہیں گزری۔ اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اسے زبردست کی ریٹنگز ہی موصول ہوئی ہیں۔ :)
اگر کسی نے نثر میں شاعری کا مزا لینا ہو تو یہ تحریر ضرور پڑھے۔
یہ حصہ تو میں فیس بک پر ہی اتنی بار لگا چکا ہوں کہ اس کو اب لوگ احمد بھائی کی بجائے میری تحریر سمجھتے ہیں۔ :devil3:
 
حسن علی امام بھائی کی تحریر تھوڑا سا گلہ بھی سن لے سے اقتباس۔ تحریر میری ہی شئر کردہ ہے، اور شئر کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ مزاح جبڑوں میں درد کرنے والا تھا۔ :)
اب قابلِ احترام دوستوں کو یہ کیسے سمجھائیں کہ قبلہ ، یہ مردہ بکرا اور پھیکے چاول ، زیتون کے تیل میں بھگو کر کھانے کے تصور ہی سے جھرجھری طاری ہو جاتی ہے ۔ اوپر سے اس میں خاص اہتمام کیساتھ متضاد ذائقوں والی اشیاء شامل کردی جاتی ہیں ، یعنی تلے ہوئے بادام کیساتھ کچے کھیرے اور ابلے ہوئے انڈوں کے ساتھ ثابت کشمش ۔ تصورکیجئے آپ ایک داڑھ سے کھیرا چبا رہے ہیں۔۔۔۔ اسی لمحے دوسری داڑھ میں کچ سے کشمش پھوٹے اور زیتون کا تیل مَلے تالو پر زبان سے بکرے کی چربی مسلی جائے ۔ اف میرے خدا ۔۔ بجائے نگلنے کے اگلنے کا جی چاہئے ۔۔ ایسی بے ہنگم ترتیب تو چھوٹی لڑکیوں کی ہنڈکلیا میں بھی نہیں ہوتی ۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ایک حسن ترتیب رکھی جاتی ہے اسی لئے بھنڈی بیگن کیساتھ، آلو ککڑی کیساتھ ، قیمہ مولی کیساتھ ، اور لوکی پالک کیساتھ کسی سلیم الفطرت گھرانے میں نہیں پکایا جاتا ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یوں تو یہ مکمل تحریر ہی مگر۔۔۔۔ خاص کر یہ

تو ایک روز اس عفیفہ نے مجھے رستہ میں گزرتے ہوئے کہا، اے بھلے آدمی! مدت سے تو مجھے روزن دیوار سے دیکھا کرتا ہے..........کیوں نہ تو مستقل ہمارے گھر میں ہی منتقل ہو جائے.......والد گرامی ایک عدد ملازم کی تلاش میں ہیں ، جو اُن کے ساتھ مل کر دن رات اللہ کی مخلوق کی خدمت بجا لائے..........میں نے باقاعدہ بغلیں بجائیں......اور ساڑھے تین درم کے بتاشے لے کر وہیں غربا میں تقسیم کی........اتفاق سے اس وقت ہم دونوں ہی وہیں تھے................
گھر تو اپنا نام کا تھا........سو ہمسایے کا ہی ایک جوڑا چھت سے اٹھایا...اور اُس عفیفہ کے گھر جا وارد ہوئے..........پہنچتے ہی اُس خضر صورت بزرگ نے میرا ماتھا چوما اور لالٹینوں میں تیل ڈالنے پر مامور کیا..............
 

محمداحمد

لائبریرین
حسن علی امام بھائی کی تحریر تھوڑا سا گلہ بھی سن لے سے اقتباس۔ تحریر میری ہی شئر کردہ ہے، اور شئر کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ مزاح جبڑوں میں درد کرنے والا تھا۔ :)
یوں تو یہ مکمل تحریر ہی مگر۔۔۔۔ خاص کر یہ

صد متفق!
 
عبدالقیوم چوہدری صاحب کی کچھ تلخ مگر جھنجھوڑ دینے والی تحریر سلام باؤ جی سے اقتباس
ایک دو بار میں نے سڑک کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر۔۔تھوڑا چھپ چھپا کر۔۔۔ اس کا دو چار منٹ مشاہدہ بھی کیا لیکن کسی بھی اور گزرنے والے کو کبھی اُسے سلام کرتے نہیں دیکھا۔ یہ 'سلام باؤ جی' شاید میرے لیے ہی مخصوص تھا۔ اور میں معبد کی کسی مقدس مورتی کی طرح جو اپنے چاہنے والوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ اس کی طرف مکمل طور پر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا کہ مبادا اس سے نگاہیں ملا کر سلام کا جواب دینے سے کہیں میری آنکھیں ناپاک نہ ہو جائیں یا شاید میں ۔۔۔۔۔۔ پورے کا پورا، سالم ہی پلیت نہ ہو جاؤں۔

لیکن میری یہ کیفیت صرف اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ہی ہوتی تھی، باقی چوبیس منٹ اور پینتالیس سیکنڈ میں ہر اس لڑکی اور عورت کو ایک بار نظریں سیدھی کر کے ضرور دیکھ لیتا جو سامنے آ جاتی تھی، کوئی زیادہ خوبصورت اور چنچل دکھتی تو اسے وقت بھی زیادہ دے دیا کرتا۔۔۔۔ لیکن، چھوٹے قد والی۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔وہ تو جسم فروش تھی، اسے میں آنکھیں سیدھی کر کے کیسے دیکھ سکتا تھا؟ ہیں بھلا۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟ بابو جیسا حلیہ، بظاہر شریف سا بندہ اور طوائف کو گھور رہا ہے۔ نہیں۔۔نہیں یہ مجھے گوارہ نہیں۔ یہاں میری اپنی مرتب کردہ اخلاقیات میرے سر چڑھ جاتیں اور میں اسے سلام کا جواب تو دیتا لیکن دیکھے بنا ہی۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اردو کے پہلے لگیچر بیسڈ نوری نستعلیق فونٹ علوی نستعلیق فونٹ کا اجراء واقعی اردو کمپیوٹنگ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس کے اجراء پر سب دوستوں کی خوشی دیدنی تھی۔

ایک تخلیق کار کی حیثیت سے میں ہر لمحہ اس میں تبدیلی کا خواہش مند رہا۔ اور ابھی بھی اس سے مطمئن نہیں۔ آپ بھی اس کو استعمال کرنے کے بعد شائد اس میں بے شمار چیزوں کی توقع رکھیں لیکن پھر بھی ہر ممکن سعی کی گئی ہے کہ یہ فانٹ کسی موڑ پر ناکام نظر نہ آئے۔ سب سے دشوار منزل ایک کیریکٹر بیسڈ فانٹ کی تکمیل تھی۔ جو نستعلیقی خوبصورتی کی حامل بھی ہو اور اس کی رفتار کو متاثر بھی نہ کرے۔ جیسا کہ ماضی میں مختلف دوستوں کی انتہائی محنت سے بنائے گئے فانٹس میں نظر آتا تھا۔یہ دشوار مرحلہ بھی صدف سافٹ وئیر کے خط رعنا کی مدد سے کسی نہ کسی طرح طے ہوا جس کے بعد مزید مشکل مرحلہ اس فانٹ کے اندر لیگیچرز کی شمولیت تھی ۔ یہ صحیح معنوں میں ایک محنت طلب اور تھکا دینے والے کام تھا جس کے دوران کئی بار ہمت جواب دے جاتی لیکن خدا معلوم وہ کون سی طاقت تھی جو میرے عزم اور حوصلے کو پھر سے تازہ دم کردیتی اور اگلے لمحے میں اس پر پھر سے کام شروع کردیتا۔ میری VBA کی پروگرامنگ کی پریکٹس نے مجھے اس کام میں بہت مدد دی۔ جس سےلیگیچرز کے لک اپس تیار ہوئے۔ لیگیچرز کی شمولیت نے فانٹ کی سپیڈ کو مزید بڑھا دیا۔ اس کی رفتار کا مشاہدہ آپ اس فانٹ کو دیگر فانٹس سے موازنہ کرکے بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہی رفتار اس کو ویب پر بھی ممتاز بناتی ہے اگرچہ اس فانٹ کی بنیاد ویب کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر نہیں کی گئی تھی اس لئے اس حوالے سے اس میں کافی تشنگی رہ گئی لیکن یہ پھر میری توقع سے بہتر رزلٹ دے رہا ہے۔مزید برآں لینکس سے عدم واقفیت اور عدم استعمال کی وجہ سے مجھے اس کا لینکس پر رزلٹ کا اندازہ نہیں اس کے بارے میں آپ لوگ بہتر رائے دے سکتے ہیں۔
 
راحیل فاروق بھائی کی قہقہ آور تحریر قضیہ چہار درویش (برقی) سے اقتباس۔
ویسے تو پوری تحریر ہی پڑھنے لائق ہے۔
یہ خالص اللہ کے ولی ہیں۔ انھیں دنیائے دوں کی ہر شے پسند ہے۔ آپ ہمارا یقین کیجیے کہ آپ خود کو اتنا پسند نہیں کرتے جتنا یہ آپ کو پسند فرماتے ہیں۔
آپ آئن سٹائن کے نظریۂِ اضافت کے رد میں ایک مدلل اور مبسوط مضمون شائع کیجیے۔ گرما گرم بحثیں ہوں گی۔ یار دوست اسے زبردست قرار دیں گے۔ موئے دشمنوں کی جانب سے مضحکہ خیز کی درجہ بندیاں عطا ہوں گی۔ متفق غیرمتفق کا چلن عام ہو گا۔ کچھ علمِ تجوید کے فضلا جو آئن سٹائن کو آئین شٹائین پڑھتے اور بولتے ہیں، آپ کو ناقص املا کا تمغہ بھی دیں گے۔ اس دھما چوکڑی میں دھیرے سے ایک اطلاع نامہ موصول ہو گا:
"یوسف سلطان نے آپ کا مراسلہ پسند کیا۔"
آپ "چوں چوں چوں چوں چا چا۔ گھڑی پہ چوہا ناچا۔ الخ" لکھ کر شائع کیجیے۔ کچھ دیر بعد مطلع کیا جائے گا:
"یوسف سلطان نے آپ کا مراسلہ پسند کیا۔"
آپ لکھیے:
"اوئی!"
اطلاع آئے گی:
"یوسف سلطان نے آپ کا کیفیت نامہ پسند کیا۔"
الغرض، آپ کے سنِ ولادت سے لے کر عالمِ سکرات تک کچھ ایسا نہیں جو جناب یوسف سلطان کو پسند نہ ہو۔ ہمیں تو، خاکم بدہن، یہاں تک بدگمانی ہے کہ یہ آپ کے سسرالیوں کو بھی پسند فرماتے ہیں!
 

نور وجدان

لائبریرین
محفل کا نشہ


ابھی راستے میں آتے ہوئے ایک جگہ ہم نے محمد خلیل الرحمٰن بھائی کو لڑکھڑاتے اور ہکلاتے ہوئے دیکھا کہ



خلیل بھائی کو صرف ہزار گھونٹ میں ہی اتنا نشہ ہوگیا ہے!!! یہ دیکھ کر میں نے شکر کیا کہ ابھی تک پانچسو سے تجاوز نہیں کیا اور ہوش و حواس میں ہوں۔:) لیکن اگر ان کی ہزار پیگ میں یہ حالت ہوگئی ہے تو جنہوں نے کنستر کے کنستر چڑھائے ہوئے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔;)

عزیزامین اب تک کوئی ساڑھے تین ہزار پیگ چڑھا چکےہیں اور شائد اسی لئے اب پئے ہوئے طوطے کی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر اُدھر دیکھتے پائے جاتے ہیں اور دھاگے کھول کھول کر پوچھنے کی نوبت آگئی ہے کہ بھائیو میرے علاوہ اور کون کون ہے یہاں۔:confused:

نایاب صاحب ان سے بھی زیادہ پونے چارہزار پیگ چڑھا چکے ہیں اسی لئے ٹائپنگ کرتے ہوئے انگلیوں پر اختیار نہیں رہا اور جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی خود بخود اینٹر کا بٹن دب جاتا ہے۔ پہلے پہل تو ہم سمجھے کہ شائد یہ ہر بات اشعار میں کہنے کی کوشش کرتےہیں۔ پھر خیال مسترد کیا کہ نہیں شائد نثری شاعری کرتے ہیں۔ لیکن اب حقیقت کھلی کہ یہ فورم کے نشے کا اثر ہے۔:)

فاتح بھی اس نشے میں آگےبڑھتے نظر آتےہیں۔ البتہ اب ان کی آواز کے بھاری اور رعب دار ہونے کا پول کھل گیا۔ ظاہر ہے چھ ہزار پیگ پینے کے بعد ملکہ ترنم کی آواز تو نکلنےسے رہی۔:)

لیکن حیرت ہے محمد وارث بھائی پر کہ بارہ ہزار پیگ اب تک چڑھا چکے ہیں لیکن ان کے مراسلوں سے تو صحت مندی ہی عیاں ہوتی ہے۔ یا تو مراسلہ کرنے سے دو دن پہلے چھوڑ دیتے ہوں گے کہ بقائمی ہوش و حواس لکھ سکیں اور محفلین نایاب صاحب جیسے اثرات کو جان نہ پائیں۔ لیکن آفس میں کام کیسے کرتے ہوں گے یہ سوچنے کی بات ہے۔ محفل کا نشہ چوری چھپے آفس میں کرنے کا تو یہ ایک بار نشے کی حالت میں ہی یہیں کسی دھاگے میں اعتراف کر چکے ہیں۔ ایک ٹانگ میز کے نیچے رکھی ڈسٹ بن میں اور دوسری ٹیبل پر، سر کرسی کی پشت پر ڈھلکا ہوا، گود میں لیپ ٹاپ، اسکرین پر محفل اور یہ داد عیش دینے میں مصروف، اوپر سے باس کی کال آئی وارث ذرا اوپر آنا، دل ہی دل میں باس کو چار سنائیں تیرے۔۔۔۔ ابااااا۔۔۔ کا۔۔۔ نو۔کر ہوں کیا ۔۔۔ لیکن فون پر جی ی۔۔۔۔جی ی ی سر ابھ ابھی آآآ یاااا۔:)

الف عین تو وارث بھائی سے بھی ڈبل بیس ہزار ۔ اس عمر میں اتنا جگرا بڑی ہمت ہے۔لیکن پرانے دور کی خالص غذاوں کی وجہ سے ہے۔ البتہ اثر تو پھر بھی ہوہی جاتا ہے نا۔اصلاح سخن کرتے ہوئے دھیان ہی نہیں رہتا کہ کون اپنا جگری یار ہے اور کون نیا پنچھی۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں اور کلام دیکھ رہے کسی یار محفل کا۔ نیا پنچھی سمجھ کر ٹھیک ٹھاک اٹھاخ پٹاخ کردی۔اب جو اصلاح آن لائن گئی تو یار محفل پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ لیکن سمجھ گیا کہ بیس ہزار کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا۔ البتہ اوپری دل سے بھرپور شکریہ ادا کردیا کہ سر یہی تو میں چاہتا تھا کہ کڑی جانچ کی جائے میرے کلام کی۔ اب جو آنکھوں کی سرخی دور ہوئی اور نام پہ نظر پڑی تو سٹپٹا گئے کہ ارے یہ کون زد میں آگیا۔ اب لگے محفل پر بہانے بنانے کہ ارے میاں تم تو جانتے ہی ہو میں کھرا آدمی ہوں اصلاح کرتے ہوئے لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ لیکن اب یار غار کا سامنا کس منہ سے کریں۔ لہذا اگلے کئی دن تک محفل میں جھانکتے بھی نہیں۔ اب برقی کتابوں کا کام ہوتا ہے اور یہ ہوتے ہیں۔ اتنا کام کرتےہیں کہ لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ یہ آدمی ہے یا مشین۔ اب جو محفل سے دوری کے باعث نشہ چھٹتا ہے اور چاق و چوبند ہوجاتے ہیں تو پھر کبھی ذہن کو یکسانیت سے بچانے کے لئے محفل کا رخ کرتے ہیں اور پھر وہی سرخ ڈورے۔۔۔۔:)

لیکن نبیل بھائی کے کیا کہنے۔ چودہ ہزار!!! ہمیں حیرت اس پر ہے کہ بانئ محفل ہونے کے باوجود صرف چودہ ہزار۔ ان کی تو ہمارے حساب سے کوئی دو چار لاکھ تک نوبت پہنچنی چاہئے تھی۔ لیکن اس کمی کی وجہ غالبا یہ ہے کہ محفل کی صفائی ستھرائی اور جھاڑو پوچا کرنے میں ہی پورا دن نکل جاتا ہے تو نشہ کس وقت کریں۔ ان کے لئے اتنا ہی بہت ہے ۔ یہ بھولے بھٹکے سے جو ایک آدھ مراسلہ آجاتا ہے تو وہ بھی اس وجہ سے کہ ڈسٹنگ کرتے ہوئے کہیں کسی کا کوئی پیگ پڑا مل گیا تو چڑھا لیا ورنہ خود سے نیا پیگ نکالنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ لیکن یہ کاہلی بھی اسی چودہ ہزار چڑھانے کا نتیجہ ہے ۔ اور یہ واحد مثال ہے کہ زیادہ چڑھانے کے نتیجے میں کمی آئی ہے۔:)

اب مجھے سمجھ آرہا ہے کہ زیک صاحب اتنے چاق و چوبند کیوں رہتے ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے عید کے چاند کی طرح سال میں ایک پیگ چڑھانا ہے اور اپنے کام سے لگ جانا ہے اسی لئے اکثر پہاڑوں پر جھولتے پھرتے پائے جاتےہیں۔ اسی طرح یہ بھی واحد مثال ہے کہ کم چڑھانے کے نتیجے میں آوارہ گردی کے شکار ہوگئے ہیں۔:)

اور ابن سعید بھائی! یقین نہیں آتا کہ ان سے آدھا گراف رکھنے والوں کی حالت غیر ہوچکی ہے تو یہ 43 ہزار کے بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑے کیسے ہیں۔ لیکن اسکی وجہ جو میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ ابھی تو آتش جوان ہے۔ اور جوانی کی ترنگ میں بڑا سٹیمنا ہوتا ہے۔ لیکن بالکل بچے ہوئے یہ بھی نہیں ہیں۔ ہاتھ کپکپانے لگےہیں۔ پوسٹ کرتے ہوئے حیرانگی کا اظہار کرنا ہے تو وہی اسمائلیز کی لسٹ میں سے سب سے پہلی ہنستی مسکراتی اسمائلی، اگر کسی کو لتاڑنا ہے تو بھی وہی، خفگی کا اظہار تو بھی وہی، اور تو اور اظہار تعزیت پر بھی وہی ۔ اور یہ علامت ہے ہاتھ کپکپانے کی۔ کہ ہمت کرکے اسمائلیز کا ٹیب تو کھول لیا ہے لیکن اب اسکرول کرنا کاردارد۔ لہذا سستی و کاہلی کاعظیم مظاہرہ کرتےہوئے پہلی پر ہی کلک کردیتے ہیں۔ اور یاداشت بھی متاثر ہونا شروع ہوگئی ہے اور ذہن اکثر منتشر رہتا ہے۔ کوئی کچھ پوچھ لے تو جواب ملتا ہے بھائی ابھی طبعیت بڑی عجیب سی ہورہی ہے ابھی کچھ لکھا تو حق ادا نہیں ہوپائے گا۔ سائل بیچارہ امید لگا بیٹھتا ہےکہ شائد اگلے دن تک طبعیت سنبھل جائے گی لیکن اسے کیا پتہ محفل کا نشہ یاداشت پر بھی اثر ڈال چکا ہے۔:)

اب شمشاد بھائ کو دیکھیں۔ کیا کوئی یقین کرسکتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ تک نوبت پہنچا کر بھی کوئی بندہ بچا رہ سکتا ہے۔ ناممکن۔ صرف نشہ ہی نشہ رہ جاتا ہے بندہ تو ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر یہ آئے دن اتنی چستی سے چاق و چوبند اندا ز میں اتنی پوسٹس کیسے ہورہی ہیں۔ ناقابل یقین۔ اس کی تو ایک ہی صورت ذہن میں آتی ہے کہ بہرحال یہ اب ڈیڑھ لاکھ پیگ پینے کے بعدکچھ پوسٹ کرنے کے قابل تو رہے نہیں ہوں گے۔ ہر وقت باکل ہی ٹُن رہتے ہوں گے۔ اور ایک بندہ ملازم رکھا ہوا ہوگا جو ان کی طرف سے پوسٹس کرتا رہتا ہوگا۔ یقین مانیں اس کے علاوہ کوئی صورت ہوہی نہیں سکتی۔ اور یہ انہوں نے مظہر کلیم سے سیکھا ہوگا۔ ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھے اپنے بچپن سے مظہر کلیم کی عمران سیریز پڑھتے چلے آرہے ہیں اور خود ختم ہونے کے قریب ہیں لیکن مظہر کلیم کی عمران سیریز ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ وہ اسی طرح جوان ہے اور ہر ماہ ایک نیا ناول پیش کئے جارہا ہے۔ اسی طرح محفل پر سو سال کے بعد ہم میں سے صرف ایک بندہ اسی چابک دستی سے پوسٹ کررہا ہوگا۔ اور سو سال بعد یہ ہم آج کے محفلین کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے پائے جائیں گے، "ایک ہمارے مرحوم رانا بھائی ہوتے تھے۔۔۔۔۔" یا پھر یہ اسٹائل ہوگا "اللہ بخشے فاتح بھائی کی غزلیں کیا کمال کی ہوا کرتی تھیں۔۔۔":)
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
فاتح صاحب از استاد جی ۔ بے آواز فلاں فلاں

مرکزی خیال
ڈائری کا ایک ورق
27 جولائی 2049

آج ذہن پرانی یادوں کی جگالی کرتے ہوئے ماضی میں کہیں دور بھٹک گیا ۔ سبیل اس کی یوں بنی کہ سر شام ہی ٹی وی پر ایک مشاعرہ آرہا تھا جس میں ملک کے نامور شاعر فاتح الدین بشیر صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے اور خوب داد سمیٹ رہے تھے۔ ہمیں وہ دن یاد آگئے جب فاتح صاحب نے ابھی نئی نئی شاعری شروع کی تھی اور ہم سے داد لیا کرتے تھے۔ بڑی محنت کی تھی ہم نے فاتح میاں کو اس مقام تک پہنچانے میں۔ اب یاد آتا ہے تو ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ انہیں شاعری کا شوق کیا ہوا ہماری شامت آگئی۔ ہر وقت اصلاح لینے کے لئے آگے پیچھے پھرا کرتے تھے۔ لیکن ہم نے بھی کبھی انکار نہیں کیا کہ نگاہ دوربین سے بھانپ گئے تھے کہ ان میں شاعری کے اچھے خاصے جراثیم ہیں کہیں ضائع نہ ہو جائیں۔ لیکن ان کی شاعری کو نکھارنے کے سفر میں بڑے بڑے کٹھن مرحلے بھی آئے۔ بس اوپر والے نے توفیق دی جو ہم نے اس جوہر کی تراش کرکے ایک اچھے شاعر کی صورت دی۔ کئی مرتبہ تو انکی حماقتوں سے انکا کیرئیر تباہ ہوتے ہوتے بچا اگر ہم بروقت معاملات سنبھال نہ لیتے تو آج کہیں نام بھی نہ ہوتا۔

ایک بار تو حد ہی کردی فاتح میاں نے۔ ایک مصرعہ ان کو بہت آیا ہوا تھا لیکن دوسرا سوجھتا نہ تھا۔ حسب روایت ہم سے مدد مانگی۔ ہم اس وقت ڈسکوری پر قطب جنوبی کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے بے دھیانی میں قطب جنوبی کا لفظ ہی منہ سے نکل گیا۔ بس پھر کیا تھا اندھا کیا چاہے دو آنکھیں فاتح میاں نے جھٹ دوسرے مصرعہ میں قطب شمالی کے ساتھ جڑ دیا ۔ اور پھر صبر بھی نہ کیا رات ہی رات میں دوستوں کی محفل میں شئیر بھی کردی۔ اب جو صبح اٹھ کر ہم نے دیکھا تو پریشان ہوئے کہ اب تو تدوین کا بھی وقت نہیں رہا۔ اب کیا ہوگا کہیں آغاز شباب میں ہی شاعرانہ کیرئیر ختم نہ ہوجائے ۔ ہم نے سوچا تیل دیکھیئے تیل کی دھار دیکھئے شائد کوئی راہ نکل آئے۔ اتنے میں دو تین دوستوں نے تعریف کردی بس جناب ہم نے بھی ڈونگرے برسا دیئے ہماری دیکھا دیکھی محفل کے منجھے ہوئے شاعر استادوں نے بھی داد دے ڈالی کہ بڑے استاد جی نے اگر داد دی ہے تو کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی۔ اصل میں قصور اس میں ان کا بھی اتنا نہیں بات ساری فرمابرداری کی ہے کہ ہمارے منہ سے اگر لگڑ بھگا بھی نکل جاتا تو بڑی عقیدت کا اظہار کرتے کہ استاد نے جو کچھ فرمایا ہے تو حکمت سے خالی تو نہ ہوگا کیا ہوا اگر ہماری سمجھ میں نہ آیا۔

ایسی لا ابالی کوئی ایک بار تو نہ کی ہوگی۔ کوئی دن نہ جاتا تھا جب ہمیں ان کی کسی بے تکی کاروائی کو سنبھالا نہ دینا پڑتا ہو۔ لیکن دوستی اور مروت ہم میں ایسی تھی کہ ماتھے پر شکن تک نہ لاتے تھے۔ ایسے ہی ایک بار کہیں سے ایک لفظ سن کر آگئے اور سر ہوگئے کہ ہمیں مطلب بتائیے فاحشہ کا۔ ہم نے سوچا ابھی کچی عمر ہے ۔ صحیح بتادیا تو کہیں خراب نہ ہوجائے اس لئے اصل مطلب تو نہ بتایا لیکن لوازمات کچھ اس طرح بے ترتیبی سے بتائے کہ کل کلاں کو اصل مطلب پتہ لگے تو ہمیں غلط بھی سمجھے اور اصل بھی نہ سمجھے۔ لیکن برا ہو اسکی شاعرانہ طبعیت کا کہ کوئی اور عنوان نہ ملا تو اسی پر غزل لکھ ماری۔ ہم نے دیکھا تو سمجھایا کہ میاں یہ کیا کردیا لوگ کیا کہیں گے۔ خدا لگتی کہتے ہیں اس پر تو کوئی داد کا مرض بھی نہ دے گا۔ کاہے کو خانہ اپنا خراب کرتے ہو۔ اب جو ہم نے تفصیل سے سمجھایا تو چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں منتیں کرنے لگے کہ کوئی ترکیب نکالئے حضور ورنہ کہیں کا نہ رہوں گا۔ اس دل کی نرمی کا کیا کیجئے کہ پگھل گیا۔ پوری غزل غور سے پڑھی کہ شائد کسی سبیل رہائی ہو۔ تو نظر اپنے ہی ایک شعر پر جا ٹھہری جو فاتح میاں نے بغیر اجازت شامل کردیا تھا۔ بس پوری غزل میں وہی ایک شعر تھا جس کی تعریف کی جاسکتی تھی سو ہم نے سب سے پہلے جا کر اس شعر پر داد دے ڈالی۔ بس پھر کیا تھا داد کے انبار لگ گئے۔ فاتح میاں کوبھی اندازہ تھا کہ اس شعر کے علاوہ کوئی شعر داد کے قابل نہیں لیکن بہت ہی بھولے تھے فاتح میاں کہ محفل پر بھی اظہار کردیا کہ ہمیں پتہ تھا آپ کو یہی شعر پسند آئے گا۔

بس فاتح میاں سے کچھ ایسا تعلق ہوگیا تھا کہ صرف شاعری میں ہی نہیں عام اخلاقی تربیت میں بھی ہمارا بہت ہاتھ تھا ورنہ تو آج پتہ نہیں کہاں ہوتے۔ ہمارے محلہ سے دو تین کوس کے فاصلے پر ایک محلہ بنام کوچہ ملنگاں تھا۔ جہاں بھانت بھانت کے چرسی موالی جمع ہوکر ڈیرا جمائے رکھتے تھے۔ ہم اکثر فاتح میاں کو اس طرف سے گزرنے سے منع کرتے تھے کہ بری صحبت کا اثر ہوتےدیر نہیں لگتی۔ لیکن پتہ نہیں کس کے کہنے میں آکر وہاں اُٹھنا بیٹھنا شروع کردیا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ میاں یہ شرفا کا طریق نہیں لوگ کیا کہیں گے۔ لیکن ہر بار ایک ہی جواب ہوتا کہ ہم کوئی ساتھ شامل تھوڑا ہی ہوتے ہیں بس گپ شپ تک رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں پتہ تھا کہ صحبت کا اثر ہوکر ہی رہے گا۔ آخر وہی ہوا کہ ایک دن وائن ہاوس جا پہنچے اور بوتل کا مطالبہ کردیا۔ وہاں تو بکتی ہی بوتلیں تھیں کاونٹر بوائے نے ایک نکال کر رکھ دی لیکن کوچہ ملنگاں میں شرط لگا کر آئے تھے کہ ہم بڑی پیتے ہیں اس لئے اڑ گئے کہ ہمیں تو وہ چاہئے جو دروازے پر رکھی ہے۔ بار والوں نے بہترا سمجھایا کہ بھائی وہ بیچنے کی نہیں صرف شوپیس کے طور پر ہے لیکن کہاں مانتے تھے۔ تنگ آکر بار کے مالک نے کہ ہماری بڑی عزت کرتا تھا ہمیں فون گھمادیا کہ بھائی آپ ہی آئیے گا تو کچھ ہوگا۔ ہم بھاگم بھاگ پہنچے بڑا سمجھایا کہ میاں یہ بڑی بوتل بکنے کی نہیں۔ آخر چار بندوں سے وہ بوتل اُٹھوا کر الٹی کرکے دکھائی کہ دیکھو اس کے اندر کچھ بھی نہیں تو پھر کہیں جوش ٹھنڈا ہوا۔ ہم نے بارمین کے کان میں کہا کہ ایک صاف بوتل میں اورنج جوس بھر کر سیل کرکے دے دو۔ وہ ہم نے فاتح میاں کو پکڑائی اور گھسیٹتے باہر لے چلے۔ بار بار مڑ کر بڑی بوتل کو دیکھتے کہ شائد ہم نے انہیں الو بنادیا ہے لیکن کیا کرتے اپنے سامنے کیسے عزیز کو خراب ہوتے دیکھ سکتے تھے۔

بس کیا کیا بتائیں۔ کیا کیا دکھ نہیں جھیلے فاتح میاں کو اس مقام تک پہنچانے میں۔ آخر ہماری محنت رنگ لائی اور آج وہ کافی سمجھدار ہوگیا ہے اور شاعری میں بھی اصلاح کی ضرورت کچھ ایسی خاص محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ہماری عزت بہت کرتا ہے جانتا ہے کہ جو کچھ ہے ہماری ہی وجہ سے ہے۔ آج کے مشاعرے میں بھی فون کرکے بہت اصرار سے بلایا تھا مگر اب طبعیت گھبراتی ہے۔ بس فاتح میاں جہاں رہو خوش رہو۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:
:) :) :)
میں اپنے دادا جان کا بڑا بھائی تھا ۔آدمی نے کہا، جب دادا جان پیدا ہوئے تو میں آٹھ سال کا تھا۔ میں دادا جان کو گود میں لے کر ٹہلنے جاتا۔ ایک دفعہ میں نے دادا جان کو گود میں لیا اور ہم گھومتے ہوئے بازار کی طرف نکل گئے۔ ایک دوکان کے سامنے دادا جان نے انڈے کی طرف اشارہ کیا کہ وہ چاہیے۔ میں نے دادا کو انڈہ دلا دیا اور ہم گھر کی طرف بڑھے۔ راستے میں میں نے دادا جان کو کہا کہ انڈہ مجھے دے دیں لیکن وہ نہ مانے اور اس کو مٹھی میں پکڑے رہے کہ اچانک وہ گرا اور ٹوٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں دادا جان کو اس حرکت پر ڈانٹتا کہ کیا دیکھتا ہوں اس ٹوٹے ہوئے انڈے کی بکھری ہوئی زردی سے مرغ کا بچہ نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگا یہاں تک کہ اونٹ کے برابر ہوگیا۔ اس پر تین چار لوگ آرام سے سواری کر سکتے تھے۔ میں نے دادا جان کو مرغے کی پیٹھ پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھا اور ہم گھر کی طرف چلے۔
 
محفل کی ہر سالگرہ پر کم از کم ایک دفعہ پھر سے پڑھنے کے قابل تحریر! :) :) :)
میاں جی : ایں! پھر ووئچ اردو محفل؟
ہم : ابااااااا ۔۔۔ آپ کو تو بس لڑنے موقع اچ ہونا
میاں جی : لڑنے؟ کل جمعہ چھٹی کا دن خاموشی سے نکل گیا بولکے میں تو خوش اچ تھا ۔۔۔
ہم : وہ تو میں خون کے آنسو پی کے چپکے ہی بیٹھی تھی بول کے سمجھو
میاں جی : اوہ ہو ۔۔۔ تم اور چپ بیٹھنا؟ تمہاری زبان کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی ناں؟ کیسا برداشت کری ہوگی بچاری زبان؟ نہ وہ الف بے پے والے کھیل کا ذکر ، نہ وہ گندم چنا ، نہ آج کیا کھایا کیا پکایا ، کون آیا کون گیا ، کیسا گزرا دن ۔۔ اس کو دھمکی دو ، اس کو مارو ۔۔۔ الم غلم ۔۔۔ کچھ بی نئیں کیا بی نئیں ۔۔۔
ہم : ہَو صحیح بولے ، اور وہ جو آپ گھنٹوں گھنٹوں فیس بک پر ٹیگاں مارتے رہتے ، وہ کچھ بی نئیں کیا بی نئیں؟
میاں جی : ارے وہ تو مارکیٹنگ اسٹریٹیجی ہے بھئی
ہم : بھاڑ میں جائے پھٹیچرجی ، وہ ایک ذات شریفہ جو بار بار ناس ماری غزلیں ٹیگ کرتی رہتی وہ کیا ہے پھر؟ وہ بھی مارکیٹنگ؟
میاں جی : ارے بھئی وہ بچاری نئی نئی کر ری شاعری ، اصلاح چاہیے ہوتی اس کو
ہم : اس چھمک چھلو کی ایسی تیسی۔۔ انے کون جی تم کو؟ ہم بولے کہ ذرا دیکھو کیسا لکھی ۔۔ تو انجان ہو جاتے۔ یا پھر ایک بولے تو ایک سنتے۔ ذرا سا کچھ شعراں ادھر ادھر ٹانک دئے تو کیا کم پڑ جاتا دماغ؟ بس لڑنا ہو تو سارے پرزے اچھا کاماں کرنے لگتے ، صاف صاف سمجھنے لگتے ۔۔ میں کچھ بولی کہ یہ ذرا دیکھو کیسا ہے مضمون بولے تو بس گم صم ہو جاتے ۔۔۔ کیا ہو جاتا ذرا ماصوم مٹھے دو شعراں یاد سے لکھ دیتے
 

لاریب مرزا

محفلین
ابن سعید کا انداز بیاں بے حد خوبصورت ہے۔ سادہ، دلکش، لطیف، سلیس اور کبھی کبھی ثقیل بھی محسوس ہوتا ہے۔ انٹرویو - انٹرویو وِد ابنِ سعید میں ان کا پورا انٹرویو ہی زبردست ہے لیکن انہوں نے انٹرویو کا آغاز اتنے دلچسپ و زبردست انداز میں کیا ہے کہ اردو گرامر کے قواعد یاد آ جاتے ہیں۔ :p :)

ما قبل انٹرویو تمام حاضر و غائب، مذکر و مؤنث کو ایک مطلق بات بتا دیں کہ ماضی قریب و بعید میں کم از کم پانچ مختلف محفلین نے استمراری بنیادوں پر متکلم کو انٹرویو کے کٹہرے میں گھیرنے کی تمنا کی، لیکن بات ٹلتی رہی۔ احتمال تو ہمیں ہر لحظہ رہتا تھا کہ بکرے اور اس کی ماں والا محاورہ کسی بھی وقت صادق آ سکتا ہے اور وہی ہوا۔ بہر کیف اب شرط یہ ہے کہ سوالات کی تعداد محدود رکھی جائے اور یومیہ بنیادوں پر اتنے ہی سوالات کیے جائیں جن کے جوابات دیگر مصروفیات کے ساتھ بسہولت دیے جا سکیں۔ بہتر ہوگا کہ ابتدا میں سوالات فقط انٹرویو کو آرڈینیٹر کی طرف سے کیے جائیں، باقی احباب اپنے سوالات ان کو بھیج دیں یا اخیر کے لیے بچا کر رکھیں، ممکن ہے تب تک اس سے ملتے جلتے دوسرے سوالات پوچھے جا چکے ہوں، یوں ہمیں ایک جیسے سوالات کے لیے مختلف جوابات لکھنے کی زحمت سے نجات مل جائے گی۔ آج صبح یہ لڑی دیکھ کر ہمارا حال کچھ ایسا بے حال ہوا کہ فوری طور پر بے بسی بھری مسکان کے سوا اور کچھ سرزد نہ ہو سکا، مستقبل میں کیا ہوگا، کون جانے! بہر کیف بہنوں کے نادر شاہانہ دلار بھرے امر کے سامنے کس بھائی کی نہی چلی ہے جو ہماری چلے گی۔ کہتے ہیں کہ فاعل جب سائل بننے کے لیے آلات و اوزار سمیت زبردستی کی طرف مائل دکھے تو مفعول کو چاہیے کہ کان دبا کر معمول بن جائے اور معروف و مجہول، زمان و مکان کی فکر چھوڑ دے نیز بقدر توفیق سوالات کے مصادر و مقاصد سمجھ کر ان کے جوابات دے۔ لہٰذا قواعد کی کتاب کو بند کر کے ہم بھی وہی کرتے ہیں۔ :) :) :)
 
Top