نبیل
تکنیکی معاون
مضحکہ خیز بچ رہا ہے
غیر متفق بھی رہتا ہے۔
یہ ریٹنگز ایک نئے ممبر رجسٹر ہو کر دیں گے، جوکہ پہلے بھی عبداللہ محمد بھائی پر کافی مہربان رہے ہیں۔
مضحکہ خیز بچ رہا ہے
غیر متفق بھی رہتا ہے۔
وہ تو پھر پورا برسٹ فائر کریں گے پہلے کی طرح۔ مراسلوں کی پوری پوری پلٹن کھیت رہے گی۔یہ ریٹنگز ایک نئے ممبر رجسٹر ہو کر دیں گے، جوکہ پہلے بھی عبداللہ محمد بھائی پر کافی مہربان رہے ہیں۔
واہ واہ! کیسے کیسے رضاکار ہیں ہماری محفل میں!دلچسپ و زبردست سے خیال آیا کہ کیا کوئی ایسا مراسلے بھی ہے جس پر تمام درجہ بندیوں کی زور آزمائی کی جا چُکی ہو؟
بس اب مضحکہ خیزیت کی کسر رہ گئی ہے۔واہ واہ! کیسے کیسے رضاکار ہیں ہماری محفل میں!
اوہ، اب تو میں نے دے دی!یہ ریٹنگز ایک نئے ممبر رجسٹر ہو کر دیں گے، جوکہ پہلے بھی عبداللہ محمد بھائی پر کافی مہربان رہے ہیں۔
ٹیگ کریں کسی رضاکار کو!بس اب مضحکہ خیزیت کی کسر رہ گئی ہے۔
ایک تو ہمارے پیارے خالد محمود چوہدری صاحب ہیں، وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عطا فرما دیتے ہیں۔ٹیگ کریں کسی رضاکار کو!
کیا وجہ ہے ہر نیا آنے والا ادارے پر ہی مہربان ہوتا ہے.یہ ریٹنگز ایک نئے ممبر رجسٹر ہو کر دیں گے، جوکہ پہلے بھی عبداللہ محمد بھائی پر کافی مہربان رہے ہیں۔
کیونکہ ادارہ پہلے مراسلے پر ہی گچی سے پکڑ لیتا ہے، بلکہ اب تو پہلی ریٹنگ پر ہی۔کیا وجہ ہے ہر نیا آنے والا ادارے پر ہی مہربان ہوتا ہے.
کہیں نہ کہیں "ادارہ" بھی وجوہات میں شامل تو نہیں؟کیونکہ ادارہ پہلے مراسلے پر ہی گچی سے پکڑ لیتا ہے، بلکہ اب تو پہلی ریٹنگ پر ہی۔
ڈیٹا چوری کرنے میں؟محفل اینالیٹیکا کیمبرج اینالیٹیکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز ہے۔
ڈیٹا چوری کرنے میں؟
خواجہ آصف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تو ہمارے پیارے خالد محمود چوہدری صاحب ہیں، وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عطا فرما دیتے ہیں۔
یہ مراسلہ بھی نشانہ نہ بن جائے
یہ مارگلہ ہلز کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتا وہ راستہ تھا، جہاں لوگ شاذ ہی قدم رکھتے ہیں۔ فطرت اپنے اصل حسن کے ساتھ موجود تھی۔ پگڈنڈی تھی کہ خیابان کی تفسیر تھی۔ دونوں اطراف سے درختوں نے راستے کو یوں ڈھک رکھا تھا کہ ہلکی بارش کی رسائی زمین تک ناممکن سی ہوگئی تھی۔ بل کھاتا چڑھائی چڑھتا یہ راستہ تھکا دینے والا تھا۔ لیکن جتنا وجود تھکتا تھا ذہن پر جمی گرد اتنی ہی دھلتی چلی جا رہی تھی۔ تازہ ہوا پھیپھڑوں میں اتری تھی کہ ایک بار نظام تنفس بھی پریشان ہوگیا۔ آج کوئی مٹی کوئی گرد نہیں۔ جسم میں ایک تازگی کی لہر سے دوڑ گئی۔ اسی جوش کے زیر اثر جو میں نے تیز رفتاری دکھانے کی کوشش کی تو پاؤں کے نیچے آنے والے خزاں رسیدہ پتوں نے اس مملکت کے عام آدمی سے زیادہ شور مچا دیا تھا۔ وہ اتنی زور سے چلائے تھے کہ ایک بار تو میں نے بھی رک کر دیکھا ، پتے ہی ہیں نا۔
کتنی بھلی لگتی ہے فطرت کی خاموشی۔کبھی پرندوں کا چہچہانا اس خاموشی کو توڑتا تھا۔ تو کبھی کسی بھولے بھٹکے چوپائے کی چلنے سے جھاڑیاں شور مچاتی تھیں جیسے کسی نے انہیں بےسبب کچی نیند سے بیدار کر دیا ہو۔ یہ خاموشی فراواں کلام کرتی ہے۔ سماعتوں کو وہ لفظ سناتی ہے جو روزمرہ کی گفتگو سے متروک ہوچکے ہیں۔ وہ خیال، وہ جذبے وہ چاہتیں جو دم توڑ چکی ہیں ان کو زندہ کرتی ہے۔
اوپر پہنچا تو ایک خوبصورت نظارہ منتظر تھا۔ نیچے عمیق وادی میں بےرحم شہر اقتدار پھیلا تھا۔ بلند و بالا عمارات چھوٹی ہو کر نشان سا رہ گئی تھیں۔ دور کہیں راول جھیل کا پانی ایک بڑے تالاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اور مشرق سے نکلتا انڈے کی زردی جیسا سورج مجھے ناصر کاظمی کےاشعار یاد دلا رہا تھا۔ ایسے موسم میں یہ ہلکی ہلکی بارش کسی معصوم بچے کے لمس جیسی لگ رہی تھی۔ گزری رات کے سائے سمٹ چکے تھے۔ روز مرہ کی فکریں، پریشانیاں جھنجھٹ سب نیچے رہ گیا تھا۔ اوپر اگر کوئی چیز تھی تو وہ حسن تھا خالق کا۔ مالک کا۔
خواجہ آصف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے والےٹریکٹر ٹرالی یا دوسرے والا ؟؟
دوسرے والے
یہی دوسرا والا خواجہ باقی سارے بھی دل میں سوچ کے رہ جاتےہیں جب آپ سیاسی لطائف والی پوسٹس پر بھی مضحکہ خیز عطا فرماتے ہیں اور نیویں نیوں نکل جاتے ہیں۔ گستاخی معاف!دوسرے والے