فارسی شاعری زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں ۔ امیر خسرو

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
روح خسرو اور روحانی بابا سے معذرت کے ساتھ
کسی شاعر کا شعر مدرسے جا پہنچا، کچھ طلبہ نے اور کچھ مدرسے کے اساتذۂ کرام نے اس شعر کی تشریح میں طبع آزمائی کی اور تشریح و معانی کے چکر میں وہ بال کی کھال نکالی کہ شعر کے تخلیق کار نے جب اپنے شعر کی تشریح سنی تو اس نے سر پیٹ لیا اور بے ساختہ کہا:"شعرِ مرا بہ مدرسہ کَے برد"یعنی میرے شعر کو مدرسے کون لے گیا تھا۔حضرت امیر خسرو کی اس کلاسیکل غزل کی تشریح کرنے کی جب مجھ جیسا طالب ِ علم کوشش کرے گا تو نہ صرف اساتذۂ فن بلکہ شاید روح شاعر بھی یہی پکار اُٹھے گی:"شعرِ مرا بہ مدرسہ کَے برد"
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
(حضرت امیرخسرو)
نوٹ: محترم روحانی بابا نے اس غزل کے آخری شعر کی جو تشریح بیان کی ہے اس سلسلےمیں مجھے اپنی عجز بیانی کے علاوہ کچھ نہیں کہنا ہے۔​
بات کا مخفف بت اور اس کی جمع بتیاں
چھاتی کا مخفف چھت اور اس کی جمع چھتیاں
رات کا مخفف رت اور اس کی جمع رتیاں
پتر کا مخفف پت اور اس کی جمع پتیاں
کھت (خط) کی جمع کھتیاں
سپیت=سفید
من= دل، نفس
ورائے راکھوں= صاف کروا کے رکھوں(ہندوستان میں جاروب کشی کو "جھاڑو والنا، جھاڑو لگانا، بُہارنا" کہتے ہیں۔ والنا ہی کا قدیم روپ وارنا ہے اسی سے ولانا۔وراناکا فعل متعدی المتعدی ورائے راکھوں یعنی دوسروں سے صفائی کروا کے رکھوں (دوسروں سے مراد پیر و مرشد کے وسیلے سے اپنا تزکیہ نفس کروا کے رکھوں)
وارنا کا ایک معنیٰ تصدق کرنا اور نچھاور کرنا بھی ہے(اس تناظر میں ورائے راکھوں سے مراداپنے تزکیہ شدہ قلب یا صاف شفاف آئینہ ٔ دل کو تصدق کردوں، نچھاور کر دوں، اگر جاکر پیا کے کے خط پا سکوں )​
جو= اگر
جائے پاؤں= جا کر پاؤں
پیا کی کھتیاں= پیا کے خط
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
روحانی بابانے شعر کی جو قرأت کی ہے ،آئیے اسےایک اور طرح سے سمجھنے کی کوشش بھی کر دیکھیں۔
بقول روحانی بابا لفظ "من کے" یہاں بمعنیٰ دل یا نفس کے نہ ہو کر تسبیح کے دانوں کے معنیٰ والا"منکے" ہے۔جو منکہ کی جمع ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے حلقوں کو یہاں ہندوستانی زبانوں میں منکہ کہا جاتا ہے۔یہ بات تو موصوف نے بالکل صحیح فرمائی۔ حالانکہ موصوف کی اس قرأت کو تسلیم کرنے کے لیے کسی قدیم نسخے میں اسے تلاش کرنا پڑے گا۔
چونکہ کسی بھی شعر کے معانی و شرح کا انحصار اس کی قرأت پر ہوتا ہے۔ لہذا اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اس کی ایک قرأ ت یہ بھی ممکن ہے جس میں سپیت کو بجائے:س +پے+ت=سپیت کے س +پی+ت=سپیت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور یہ زیادہ قرین قیاس یوں بھی ہے کہ سفید کا قدیم تلفظ و املا جہاں کہیں بھی پایا جاتا ہے سپید ہی پایا جاتا ہے نہ کہ سپیت۔ حالانکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سپیت دراصل سنسکرت لفظ شویت(श्वेत) کی تہنید (ہندی شکل) ہے۔
س +پی+ت=سپیت میں سَ بمعنیٰ ساتھ اور پیت بمعنیٰ پریت (عشق و محبت ) بایں صورت اس مصرعے کے معنیٰ ہوں گے :محبت کے ساتھ قیمتی آبدار موتیوں کو نچھاور کر دوں اگر جاکر کے پیاکے خط پا سکوں ۔
 
جناب@ فارقلیط رحمانی صاحب
آپ نے جو دوسرے شعر کے الفاظ کے جو تراجم کیئے ہیں اس لحاط سے شعر کا ترجمہ کچھ اسطرح بنتا ہے
سفید دل کو دھو کر یا صاف کرکے ،محبوب کے پاؤں میں ، اس کے کھت یعنی خط پاسکوں
جناب عالی اگر آپ کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر بھی پہلے شعر سے یہ لگا نہیں کھاتا ہے
 
جناب فارقلیط رحمانی صاحب امیر خسرو بنیادی طور پر وحدت الوجودی نظریہ کے شاعر تھے اس لیئے میں اپنی تشریح پر مطمئن ہوں دوسرا جہاں تک آپ نے شعر کی تشریح کی ہے تو وہ آپ کےلیئے درست ہوگی بہرحال آئیے ذرا اس پر روشنی ڈالتے ہیں اور ہاں پیارے بھائی ٹیگ تو کردیا کرو مجھے کسی اور بندے نے بتایا ہے تو مجھے پتہ چلا ہے ۔
دیکھیں شعر کو سمجھنا ہر بندے کی اپنی ذوقی کیفیت ہوتی ہے ۔مثلا
فراق گھورگھپوری کی ایک مشہور غزل ہے جس کو پنکج اداس گایا ہے ۔
اے غم زندگی کچھ تو دے مشورہ
ایک طرف اُس کا گھر اک طرف میں میکدہ
اب ایک عام سے بندے سے بات ہوئی تو اس کا سمجھنے کا ذوق کچھ یوں پایا وہ اس شعر کو اپنے حالات پر یوں منطبق پا رہا تھا یعنی میکدہ کو میں گدھا سمجھ رہا تھا۔
اسی طرح ایک شعر ہے
یہ شکایت ہے ہمیں اُس ساقی گلفام سے
دورِ ساغر میں ہمیں محروم رکھا جام سے
تذکرہ غوثیہ میں حضرت غوث علی شاہ قلندر پانی پتی فرماتے ہیں کہ وہ کلیر شریف پہنچے تو عرس کی تقریبات زور وشور سے جاری تھیں قوال قوالی پڑھ رہے تھے جب ارباب شوق کی مستی و اصحاب ِ ذوق کی بالادستی سے ہنگامہ بزم گرم ہوا تو میں بھی اس گرما گرمی میں مجلس کے اندر پہنچا دیکھا کہ تین اشخاص رنگین لباس ،بادہ ِ شوق سے سرمست ہیں قوال کے منہ پر یہ شعر جاری تھا
یہ شکایت ہے ہمیں اُس ساقی گلفام سے
دورِ ساغر میں ہمیں محروم رکھا جام سے
ان تین میں سے ایک کو ہم نے پکڑا اور میدان سے باہر لے گئے اور پوچھا کہ آپ نے اس شعر سے کیا کیفیت اخذ کی اور تحقیق معانی سے آپ کے قلب پر کیا اثر مترتب ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو گوہر اشک پروتے ہیں سو اللہ کو روتے ہیں تو میں نے کہا کہ حضرت کیا آپ کے قلب مردہ کی طرح حی القیوم لا تاخذہ سنہ ولا نوم بھی دام اجل میں گرفتار ہوگیا جس کے ماتم میں آپ نوحہ گری کرتے ہو اگر ایسا نہ ہوا تو یہ مقام تہنیت ہے نہ جائے تعزیت ۔۔کیونکہ اس نے تمہارے بزرگوں کو مارا اور اب تمہاری فکر میں ہے۔
یہ بات سُن کر حضرت چپ چاپ ایک گوشہ میں جابیٹھے ،معلوم نہیں کبیدہ خاطری سے گردن جھکالی یا پھر خدا سے جی لگا بیٹھے۔۔۔پھر ہم نے دوسرے نالہ کش سے یہی سوال کیا تو وہ بولے جناب کیسی غزل ،کہاں کا شعر نہ ہم سمجھتے ہیں نہ اس کو سنتے ہیں ۔۔۔یہاں تو الاپ اور لَے بھلی معلوم ہوئی اس لیئے ڈھولک کی تھاپ پر سَر دھنتے ہیں ۔۔۔ میں نے کہا بہت خوب
پھر تیسرے صاحبِ ذوق سے یہی سوال کیا تو وہ فرمانے لگے کہ حضرت شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب حضورﷺ معراج کو مدارج و مقامات طے کرتے ہوئے پردہِ وحدت تک پہنچے تو آواز آئی اسلام علیک ایھا النبی ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔۔۔پس اس ساغر کو حضرت رسالت پناہ ﷺ نے دو بخش فرمایا ایک حصہ خود نوش کیا اور ایک حصہ بندگان صالح کو یعنی فرمایا کہ السلام علینا وعلیٰ عباداللہ الصالحین ۔۔۔۔ حسرت یہ ہے کہ بندگان صالح کو تو ان کی صالحیت کافی تھی وہاں ہم جیسے تشنہ بیان بادیہ معصیت کو یاد کیوں نہیں فرمایا ۔
میں نے عرض کیا کہ حضرت خیر الوریٰ نے تو گناہگاروں کو صالحین سے بھی پہلے دورِ ساغر میں کمال شفقت سے شریک فرمایا ہے چنانچہ علینا میں ضمیر جمع اس پر شاہد ہے ۔۔صالحین کو بعد عطف جدا یاد کیا اور عاصیوں کو اپنے ساتھ رکھا بھلا اس سے زیادہ اور کیا عنایت ہوسکتی ہے یہ سن کر ان کا جوش و خروش دھیما پڑگیا اور خاموش ہو کر ایک طرف کو بیٹھ گئے۔
بعینہٖ عاجز نے جو سمجھا اس کو اپنے رنگ میں بیان کردیا اور یہیوحدت الوجودی خیال ہے آپ نے جو اوپر تشریح کی ہے اس کا حوالہ بھی میں دے دیتا ہوں شائد یہ غزل اس واقعہ کے بعد ہوئی ہو۔
حضرت محبوب الٰہی شاہ نظام الدین کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا اور کچھ مانگا تو آپ نے اس کو اپنی جوتیاںدے دیں وہسائل حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے پاس سے گزرا۔ آپ نے اسے کہا کہمجھے تجھ سے اپنے مرشدکی خوشبو آتی ہے۔ پھر آپ نے اس سے وہ جوتیاں پانچلاکھ روپے کی خرید لیں اور انہیں سر پر رکھ کر عجیب جذب و کیفیت سے چلے۔یہ رقم بادشاہ نے آپ کو ہدیہ دی تھی۔
حضور فارقلیط رحمانی صاحب وحدت الوجود ایک الگ دنیا ہے اس کو سمجھنا ازحد دقیق اور پرخطر ہے
 

فاتح

لائبریرین
تبھی کہا جاتا ہے کہ شعر کی تشریح کرنا اسے چھوٹا کرنے کے مترادف ہے۔۔۔
شعر کا لفظی ترجمہ ہی کیا جانا چاہیے اور تشریح قاری پر چھوڑ دینی چاہیے
 
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ابھی ابھی اس شعر پر سے نظر گزری ہے
پہلے تو شعر کا دوسرا مصرعہ میں لفظ من کے غلط مندرج ہے یہ منکے ہے
اس شعر کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس مقطع میں امیر خسرو نے حد تمام کردی ہے
میں ناچیز کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے دراصل یہ شعر سمجھنے میں آرہا ہے لیکن آپ لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیئے ہندی معاشرت کی بھی ضرورت ہے جو آپ لوگوں کو نہیں پتہ بہرحال اب ہندی چینلز نے یہ کسر پوری کردی ہے۔
وصال کے دن خسرو پر یہ رازآشکارا ہوا کہ وہ فریب خوردہ ہے ۔ یہ تو پہلے مصرعہ کا ترجمہ ہوا ۔
سپیت کا مطلب ہے سفید۔۔۔ ۔منکے مطلب جو فقیروں کے کے گلے میں ہار کی شکل میں لٹکے ہوتے ہیں ۔۔۔ ۔ورائے راکھوں ۔۔۔ ۔یعنی راکھ کی شکل میں ۔۔۔ ۔جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں۔۔۔ یعنی جس مقام یا محبوب تک ہم جوتیاں گھساتے ہوئے پہنچے ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ:
محبوب جو کہ کثرت میں وحدت کے جلوے دکھا رہا ہے اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے اس نے اپنے جسم پر سفید منکوں کی راکھ کا بھبھوت مل رکھا ہے۔ منکہ کا مطلب گردن بھی ہوتا ہے یعنی اپنی سفید گردن پر راکھ کا بھبوت مل رکھا ہے۔ جب خسرو جوتیاں گھساتا ہوا مطلوب تک پہنچا تو یہ راز آشکارا ہوا کہ یہ تو فریب ہے جس محبوب حقیقی کی تلاش (یعنی اللہ تبارک تعالیٰ ) میں خسرو ادھر تک پہنچا یہ تو اس کا جلوہ ہے۔ اس موقع پر کیا خوبصورت کلام یاد آیا جس کا حق نصرت فتح علی خان نے ادا کردیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بے حد رمزاں دَس دا میرا ڈھولن ماہی​

بہت عمدہ روحانی بھائی،

سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
دراصل فاتح بھائی نے ایک مراسلے میں بالکل ٹھیک کہا ہے کہ تشریح قاری پہ چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ ہاں ترجمہ ایک احسن قدم ہے۔
اس مصرعہ کو میں کچھ اس طرح سے سمجھنا چاہوں گا۔
سپیت منکے مالا، تسبیح یا منکوں والی جو بھی چیز ہے اس کےمنکے یعنی دانے ورائے راکھوں یعنی سِمرے رکھوں، پروئے رکھوں یا جپتا رہوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں اگر پیا یا محبوب کی جاہ، جگہ تک پہنچ پاؤں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
تبھی کہا جاتا ہے کہ شعر کی تشریح کرنا اسے چھوٹا کرنے کے مترادف ہے۔۔۔
شعر کا لفظی ترجمہ ہی کیا جانا چاہیے اور تشریح قاری پر چھوڑ دینی چاہیے

فاتح بھائی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی جان اس ناچیز نے تو شعر کی مختلف ممکنہ قرأتوں کے مطابق ان کا ترجمہ ہی کرنے کی کوشش کی ہے ہم نے کہیں بھی تشریح نہیں کی ہے اور نہ ہمیں تشریح کادعویٰ ہے۔ ہم تو زبان و ادب کے ادنا سے طالب علم ٹھہرے، فلسفہ وحدت الوجود اور فلسفۂ کثرت الوجود اور فلسفۂ وحدت الشہود جیسے فلسفے ہم نے خوب پڑھے۔
ایک زمانہ میں ان فلسفوں کو سمجھنے کے لیے ہم فلسفہ کی اصطلاحات رٹنے لگے تھے۔ البتہ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ان فلسفوں میں سے کسی کو بھی اس حد تک نہیں سمجھ پائے جیسا ان کو سمجھنے کا حق ہے۔ہم نے اردو محفلین کے لیے قدیم ہندوی یا ہندوستانی زبان کی تحدید کو آسان بنانے کی ادنا سی کوشش کی ہے۔ اب یہ تو قارئین پر منحصر ہے کہ وہ کیا تشریح کرتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں۔
روحانی بابا فرماتے ہیں:
حضور فارقلیط رحمانی صاحب وحدت الوجود ایک الگ دنیا ہے اس کو سمجھنا ازحد دقیق اور پرخطر ہے​
بابا !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس دقیق موضوع کی پر خطر وادیوں کی آگہی عنایت فرمانے کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔
آپ نے بجا فرمایا ہم سے طفلان مکتب کا ان پر خطر وادیوں میں گزر کہاں۔
اور ہاں وہاں ہم طفلان مکتب کا کام بھی کیا ہے۔
 
روحانی بابانے شعر کی جو قرأت کی ہے ،آئیے اسےایک اور طرح سے سمجھنے کی کوشش بھی کر دیکھیں۔
بقول روحانی بابا لفظ "من کے" یہاں بمعنیٰ دل یا نفس کے نہ ہو کر تسبیح کے دانوں کے معنیٰ والا"منکے" ہے۔جو منکہ کی جمع ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے حلقوں کو یہاں ہندوستانی زبانوں میں منکہ کہا جاتا ہے۔یہ بات تو موصوف نے بالکل صحیح فرمائی۔ حالانکہ موصوف کی اس قرأت کو تسلیم کرنے کے لیے کسی قدیم نسخے میں اسے تلاش کرنا پڑے گا۔
چونکہ کسی بھی شعر کے معانی و شرح کا انحصار اس کی قرأت پر ہوتا ہے۔ لہذا اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اس کی ایک قرأ ت یہ بھی ممکن ہے جس میں سپیت کو بجائے:س +پے+ت=سپیت کے س +پی+ت=سپیت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور یہ زیادہ قرین قیاس یوں بھی ہے کہ سفید کا قدیم تلفظ و املا جہاں کہیں بھی پایا جاتا ہے سپید ہی پایا جاتا ہے نہ کہ سپیت۔ حالانکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سپیت دراصل سنسکرت لفظ شویت(श्वेत) کی تہنید (ہندی شکل) ہے۔
س +پی+ت=سپیت میں سَ بمعنیٰ ساتھ اور پیت بمعنیٰ پریت (عشق و محبت ) بایں صورت اس مصرعے کے معنیٰ ہوں گے :محبت کے ساتھ قیمتی آبدار موتیوں کو نچھاور کر دوں اگر جاکر کے پیاکے خط پا سکوں ۔
میں ترتیب سے مراسلے پڑھتا آیا اس لیے آپ کا مراسلہ آخر میں پڑھا، اس شعر کے آپ والے ترجمے سے کلی متفق ہوں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
آپ نے بجا فرمایا ہم سے طفلان مکتب کا ان پر خطر وادیوں میں گزر کہاں۔
اور ہاں وہاں ہم طفلان مکتب کا کام بھی کیا ہے۔

آپ کی کسر نفسی بجا اور تسلیم،لیکن صاحب، اس خیال سےتو کوئی طالب علم بھی آگے بڑھنے سے رہا۔ یعنی کیا طلب علم کے لئے کوئی قدم بھی نہ اٹھایا جائے؟۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جناب@ فارقلیط رحمانی صاحب
آپ نے جو دوسرے شعر کے الفاظ کے جو تراجم کیئے ہیں اس لحاط سے شعر کا ترجمہ کچھ اسطرح بنتا ہے
سفید دل کو دھو کر یا صاف کرکے ،محبوب کے پاؤں میں ، اس کے کھت یعنی خط پاسکوں
جناب عالی اگر آپ کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر بھی پہلے شعر سے یہ لگا نہیں کھاتا ہے

جناب عالی
ہم تو اپنی معروضات پیش کرنے سے قبل ہی آنجناب سے معذرت کر چکے ہیں۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
تنم افسرده و روحم فدای خاک پای تو
به هر سو می روم جوینده صدق و صفای تو
برو ای عامل نادان زه حجرش بی خبر با دا
که هر سو می روی بدنامی عشق و وفایی تو
جهان جز ساحل عشقم دگر یاری نمی جوید
سزا عشق گر مرگ است سزاوار ی خطای توست
عامل شیرازی ۳ ۲۶/۸/۲۰۱
گریه عامل خونین جگر
561919_556828521043743_1804760567_n.jpg
 

یوسف سلطان

محفلین
واه واه فاتح بھاٸى بہت اچھا ترجمہ كيا اپ نے
اس غزل كے كچھ اشعار صابرى برادران نے اپنى مشہورِ زمانہ قوالى "تاجدارِ حرم" ميں بھى گائے ہيں (جو ميرى پسنديده قواليوں ميں سے ہے)

جب سنتا تھا ياسنتا ہوں تو مطلب سمجھ نہيں اتا تھا پر اپ كے كيےگئے ترجمے كى بدولت اب كچھ سمجھ ائے گى۔ بہت شكريه۔
الله كرے زورِ قلم اور زياده۔
 

فرقان احمد

محفلین
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

ترجمہ کس نے کیا ہے، یہ تو معلوم نہیں تاہم آج تک اس شعر کو ہم یوں ہی پڑھتے سمجھتے آئے ہیں ۔۔۔ :)

خسرو! تُو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ کہ جس کی یاد نے تجھے ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے!
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے اور یہ کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا۔
 
واہ واہ قبلہ اس عمدہ شراکت پر آپ صد ہا بار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کیا ہی خوب صورت کلام اور اس کا ترجمہ شریک محفل کیا۔ پھر اسی بدولت صاحبان علم و دانش کے تبصرہ جات۔ واہ واہ۔ مختلف مکاتب فکر کی آراء پڑھ کر کیا کیا عقدے کھلتے ہیں۔ قبلہ ایک بار پھر مبارکباد۔
محمد وارث قبلہ کو بہت صدائیں دی گئیں لیکن۔۔۔۔
 
دو ماہ قبل امیر خسرو کی یہ غزل چھایا گنگولی کی آواز میں محفل میں ارسال کی تو ہمارے محترم جناب محسن حجازی صاحب کا جواب ملا:

جواباً ہم نے ان الفاظ میں کوشش کرنے کا وعدہ کر لیا:


لیجیے صاحب! وہی وعدہ "حتی الوسع" ایفا کرتے ہوئے ترجمے کے ساتھ حضرت امیر خسرو کی یہ مشہورِ زمانہ غزل پیش خدمت ہے۔​
غزل
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
(حضرت امیر خسرو)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر خسرو نے اس غزل کے تمام اشعار کے مصرعِ ہائے اولیٰ فارسی میں جب کہ مصرعِ ہائے ثانی اس دور کی مروجہ اردو یا ہندی میں لکھے تھے۔ میں نے حسبِ استطاعت ترجمے کی کوشش تو کی ہے مگر یقیناً اغلاط موجود ہوں گی جن کی اصلاح کی درخواست ہے۔

زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جان نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
ترجمہ:
اس غریب کے حال سے تغافل نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر
اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے


شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
ترجمہ:
جدائی کی راتیں زلف کی مانند دراز اور وصال کے دن عمر کی مانند مختصر
اے دوست! محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری راتیں کیوں کر کاٹوں


یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
ترجمہ:
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل (باتیں) سنائے

چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
ترجمہ:
میں اس عشق میں جلتی ہوئی شمع کی اور ذرۂ حیراں کی طرح ہمشیہ فریاد کر رہا ہوں
نہ آنکھوں میں نیند، نہ تن کو چین کہ نہ تو وہ خود آتے ہیں اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجتے ہیں

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
اس شعر کا ترجمہ نہیں کر پایا۔ فارسی و ہندی کے ماہرین کی توجہ درکار ہے۔

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ترجمہ: اپنے دلبر کے وصل کے لئے غریب خسرو داد و تحسین کو اہمیت نہیں دیتا۔ پیا کے پاوں کی راکھ اس سے کہیں بہتر ہے۔
 
اردو زبان کے آغاز کی جستجو میں جب سفر ہوگا تو ہم بالاآخر اس کلام تک پہنچ جائیں گے۔ کسی بھی زبان کی ابتداء جاننے کے لئے اس زبان کے قدیم ترین نسخے رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ وہ تجربہ ہے جس کا نتیجہ اردو ہے۔
 
Top