فارسی شاعری زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں ۔ امیر خسرو

Asif iqbal

محفلین
حضور آداب عرض ہے! بہت نوازش! یہ اساتذہ کی بھی اپنی من مانی ہے دو زبانیں ایک ہی مصرعے میں یک جا کردیں یہی غلطی ہم سے سرزد ہوتی تو ناقدین ہماری ناک میں دم کر دیتے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ انگریزی اور اردو کو باہم مدغم کر کے کوئی غزل تخلیق فرما کر ناقدین کی طعن و تشنیع کا سامان کریں۔


  1. اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے چار زبانوں عربی فارسی اُردو ہندی میں یہ نعت لکھی جس کی مثال نہیں ملتی

    لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
    جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

    آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
    سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

    اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
    منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

    دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
    بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

    یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
    توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

    اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
    کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

    لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
    تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

    آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
    آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

    انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
    برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

    میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
    برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

    یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
    مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

    اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
    میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

    وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
    جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

    افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
    مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

    اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
    پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

    دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
    میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

    اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
    مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

    میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
    میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

    بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
    ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

    رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
    دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی
 
ز حالِ مسکيں مکن تغافل دُرائے نيناں بنائے بتياں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتياں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھي! پيا کو جو ميں نہ ديکھوں تو کيسے کاٹوں اندھيري رتياں

يکايک از دل دو چشم جادو بصد فريبم ببردِ تسکيں
کسے پڑي ہے جو جا سناوے پيارے پي کو ہماري بتياں

چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حيراں، ہميشہ گرياں، بہ عشق آں ما
نہ نيند نيناں، نہ انگ چيناں، نہ آپ آويں، نہ بھيجيں پتياں

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غريب خسرو
سپيت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاۆ ں پيا کي کھتياں

امير خسرو دہلوي
 

شبیر حیدر

محفلین
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

ترجمہ :
محبوب جو کہ کثرت میں وحدت کے جلوے دکھا رھا ھے اس نے کمال ھوشیاری سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ھے اس نے اپنے جسم پر سفید منکوں کی راکھ کا بھبھوت مل رکھا ھے منکہ کا مطلب گردن بھی ہوتا ہے یعنی اپنی سفید گردن پر راکھ کا بھبوت مل رکھا ھے جب خسرو جوتیاں گھساتا ھوا مطلوب تک پہنچا تو یہ راز آشکارا ھوا کہ یہ تو فریب ھے جس محبوب حقیقی کی تلاش (یعنی اللہ تبارک تعالیٰ ) میں خسرو ادھر تک پہنچا یہ تو اس کا جلوہ ھے

حضرت امیر خسرو
 

Asghar Gurmani

محفلین
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
اس شعر کا ترجمہ نہیں کر پایا۔ فارسی و ہندی کے ماہرین کی توجہ درکار ہے۔
بہ حق روز وصال دلبر
دلبر کے وصال کے دن کا حق ہے
کہ داد مارا غریب خسرو
کہ جب وہ مجھ غریب خسرو کو عطا کرے
سپیت منکے ورائے راکھوں
کہ آنسوؤں کے سفید چمکدار موتی علیحدہ سنبھال رکھوں
جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
اگر مجھے پیا کے در تک رسائی ہو جائے
 
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
بندے کی گستاخی معاف فرما ترجمے میں بصد فریبم کے ترجمے کا اضافہ فرما دیں ترجمہ یوں ھوگا
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں سو فریبوں سےمیرے دل کا سکون لے اُڑیں
واللہ اعلم
 
حجازی صاحب چار چار زبانوں کی بھی آزادی ہے۔ ۔ایک مشہور نعت کے ہر شعر میں چار چار زبانیں استعمال کی گئی ہیں۔ اردو، فارسی، ہندی اور عربی۔ ۔ ۔ ۔:)


جی جناب
امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی نعت ہے

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی
 
یہ غزل امیر خسرو کی نہیں بلکہ ان کے نام سے غلط طور پہ منسوب ہے بحوالہ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ رشید حسن خاں
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
یہ غزل امیر خسرو کی نہیں بلکہ ان کے نام سے غلط طور پہ منسوب ہے بحوالہ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ رشید حسن خاں
مضمون کا عکس ہی شامل کر دیتے تا کہ مزید کچھ جان سکتے کہ کیسے غلط منسوب ہوئی اور اس کی سند کیا ہے اور اصل میں کس کی ہے، وغیرہ وغیرہ
 
مضمون کا عکس ہی شامل کر دیتے تا کہ مزید کچھ جان سکتے کہ کیسے غلط منسوب ہوئی اور اس کی سند کیا ہے اور اصل میں کس کی ہے، وغیرہ وغیرہ
لیجیے
Capture.jpg


1.jpg
 
آخری تدوین:
آخری شعر
خسرو تو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا۔
 
آخری شعر
خسرو تو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا۔
 

Khaanam

محفلین

بہ حق روز وصل دلبر کی داد مارا غریب خسرو
سپیت من کے ورائے رکھوں جو جائے پاؤں پیا کے کھتیاں
(خسرو تو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے۔۔۔
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو
اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا
 
السلام علیکم۔

ماشاءاللہ اس بزم میں شامل لوگ علم کا سمندر ہیں تو میں نے سوچا میں بھی اس سمندر میں ڈوب جانے کی غرض سے غوطہ لگاوں۔
میرے اندر تجسس کی ایک آگ لگادی ہے حضرت امیر خسرو کے کلاموں نے۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس غزل میں شامل الفاظ کا لفظی ترجمہ کس طرح کرسکتا ہوں ۔

نیز ایک اور کلام جس سے میں جھوم اٹھا ہوں چھاپ تلک چھینی رے اس کلام کا لفظی ترجمہ کوئی صاحب فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔

نیز کیونکہ اس فورم پر میری آمد کو ابھی چند ساعت ہی ہوئے ہیں تو میری خواہش ہے کوئی صاحب میری اصلاح فرمائیں کہ اس فورم کو استعمال کیسے کروں ، نیا موضوع تشکیل دینا ہو تو کیسے دوں۔
 
السلام علیکم۔

ماشاءاللہ اس بزم میں شامل لوگ علم کا سمندر ہیں تو میں نے سوچا میں بھی اس سمندر میں ڈوب جانے کی غرض سے غوطہ لگاوں۔
میرے اندر تجسس کی ایک آگ لگادی ہے حضرت امیر خسرو کے کلاموں نے۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس غزل میں شامل الفاظ کا لفظی ترجمہ کس طرح کرسکتا ہوں ۔

نیز ایک اور کلام جس سے میں جھوم اٹھا ہوں چھاپ تلک چھینی رے اس کلام کا لفظی ترجمہ کوئی صاحب فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔

نیز کیونکہ اس فورم پر میری آمد کو ابھی چند ساعت ہی ہوئے ہیں تو میری خواہش ہے کوئی صاحب میری اصلاح فرمائیں کہ اس فورم کو استعمال کیسے کروں ، نیا موضوع تشکیل دینا ہو تو کیسے دوں۔
اردو محفل فورم میں خوش آمدید جناب۔ مندرجہ ذیل لنک سے کچھ مدد مل سکتی ہے۔

محفل فورم ٹیوٹوریل

نیز کسی بھی زمرے میں نئی لڑی شروع کرنے لیے اس نام کے لنک یعنی "نئی لڑی ارسال کریں" پر کلک کیجیے اور نیا دھاگہ تشکیل دیجیے۔
 
السلام علیکم جناب محمد خلیل صاحب بہت ممنون ہوں آپ نے میرے سوال کا جواب دیا۔
جناب اس میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو مجھے لگتے ہیں کہ قدیم اردو زبان کے ہیں یا یوں کہئے کہ اس وقت کی مروجہ ہندوستانی بولی کہ ہیں۔

ابھی ایک خاص کیفیت طاری ہے سرد رات میں تیز آواز میں نصرت کی آواز میں یہ کلام سن رہا ہوں تو بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو سمجھ میں تو آرہے ہیں مگر انکو بیان نہیں کر سکتا ۔
 
Top