زمین ساکن ہے(ثبوت ‍قرآنی آیات سے)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رضا

معطل
سلام!
محفل پہ ایک دفعہ پہلے بھی یہ بات چلی تھی۔جس پر منتظم سمیت کئی اراکین نے اعتراض کیا کہ تم کیا پرانے نظریات اٹھا کر بتانے لگ جاتے ہو۔
میں نے اپنے معلومات کے مطابق وضاحت کی۔۔لیکن ۔۔۔۔اب شاید وہ پوسٹ بھی حذف کردی گئی ہے۔
ابھی ایک سائٹ پہ ایک کتاب کا ربط ملا۔جس میں‌ تھوڑا وضاحت سے بتایا گيا ہے۔برائے کرم! اس کو محض دقیانوسی خیالات کہہ کر نہ ٹھکرا دیجئے گا۔
آپ مطالعہ کریں ان شاء اللہ حقیقت خود آپ پر منکشف ہوجائے گی۔

کتاب کا ربط درج ذیل ہے۔
‍قرآن اور سائنس​


P1.gif

صفحہ 7 تا 11
P7.gif

P8.gif

P9.gif

P10.gif

P11.gif
 
لیں رضا صاحب آپ ہی کی دلیل آپ پر لوٹا رہا ہوں اور یقین جانیں کہیں اور سے پڑھ کر بھی نہیں آ رہا آپ ہی کے مضمون میں زمین ساکت ہے کے دلائل میں جو آیات پیش کی ہیں ان میں سے ہی ایک آیت پیش کر ر ہا ہوں

و الشمس والقمر کل فی فلک یسبحون ( سورتہ الانبیاء ، آیت ؛ ٢٣ )
اور سورج کو اور چاند کو اور یہ دونوں ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
 
رضا صاحب اس پر تھوڑا صبر کیجیے گا میں آپ کی پوری پوسٹ کا تفصیلی جواب دوں گا اور پھر بات کو آگے بڑھا لیں گے مگر خدارا ذرا حوصلے سے کام لیجیے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنے ناموں کے ساتھ تو لمبے چوڑے القاب و خطابات لکھنا اور دوسروں کو عقل کا اندھا قرار دینا کہاں کا انصاف ہے۔
میں آپ کی تحریر سے متفق ہوں تو واہ واہ اور اگر نہ ہوں تو عقل کا اندھا اور جھوٹا ۔ یہ تعلیم تو اسلام نے کبھی بھی نہیں دی۔
 
محترم رضا صاحب ! صرف ایک بات یاد رکھیں، قرآن کریم صرف چند سو صفحات پر مبنی ہے، اور اللہ رب العزت بار بار تفکر کی دعوت دیتا ہے، تو میرے محترم دوست یہ محض کتاب نہیں منبع رشد و ہدایت ہے، اس کو صرف ترجمے سے نہیں تفکر سے سمجھیں، تب جا کر یہ سمجھ آئے گا، مثال لوہے کی لے لیں، یعنی لوہے میں فائدہ کا تذکرہ ہے یہ نہیں بتایا کہ لوہے سے کار، اسپیئر پارٹس ، مشینری وغیرہ کیسے بنے گی، انسان نے صرف تفکر سے یہ سب کچھ بنایا ہے، سو تفکر کریں، زماں اور مکاں کے تھیوری کو سمجھیں، محض ترجمے کو منطق نہ بنا لیا کریں، علم کی کسی بھی مقام سے ابتدا ہے اس کی انتہا نہیں ہے، سو علم میں اضافے کے لئے سیکھنا ضروری ہے، ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے ہم بدنام ہو رہے ہیں۔ صرف وعظ کا شوق ہوتا ہے، اور واعظ بننے کے لئے قران کو کوٹ کرتے ہیں، لوگ ہمیں نہیں دیکھتے وہ اس کمزوری کو دیکھتے ہیں جو ہم ظاہر کرتے ہیں، پاقی آپ سمجھدار ہیں ؟
 

خرم

محفلین
بھائی قرآن پاک میں‌تو یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے۔ تو کیا قرآن میں‌نعوذ باللہ تضاد ہو گیا؟ ایسا تو ہو سکتا ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ زمین انسانوں اور تمام اس مخلوق کے لئے جو اس پر بستی ہے ٹھہرا دی گئی ہے۔ اب عمومی طور پر اس بات کو دیکھیں تو شاید ایک عام سی بات لگے لیکن اگر آپ ان تمام گردشوں کو دیکھیں جن سے زمین گزرتی ہے، کشش ثقل وہ تمام قوتیں جو اس پر کارفرما ہیں اور کس طرح یہ تمام قوتیں مالک الملک کے حکم کے تحت اس زمین کے ایک مستقل رفتار کے ساتھ اور ایک خاص مدار میں حرکت کرنے کا سبب ہیں۔ کس طرح یہ مختلف قوتیں مل کر ہمارے لئے اس زمین کو ساکن بناتی ہیں کہ ہم نہ تو نیچے گرتے ہیں اور نہ اس کے اندر گھس جاتے ہیں اور کس طرح اس تناسب میں ایک انتہائی معمولی سی تبدیلی اس کرہ ارض اور اس پر بسنے والی مخلوق کے لئے تباہی کا پیغام ہوسکتا ہے تب آپ کو ادراک ہوتا ہے اپنے رحیم و کریم مالک کی ذرہ نوازیوں کا۔ قرآن ایک تہہ در تہہ پھول ہے، جیسے جیسے اس کی پتیوں‌سے آگاہی ہوتی ہے نئے نئے معانی سامنے آتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے کی گئی روایت پر مجھے شک ہے کیونکہ یہ تعبیر قرآن کے خلاف ہے اور ان سے ایسی بات کا صدور ہونا ناممکنات کے قریب ہے۔ امام احمد رضا خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی کاوش علمی سے انکار نہیں لیکن علمی ارتقاء ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ تفہیم قرآن میں حرفِ آخر صرف صاحبِ قرآن صل اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی سب کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق دربارِ رسالت سے اس کی سمجھ عطا کی جاتی ہے۔ لہٰذا اولین کی تفاسیر کو اسی تناظر میں سمجھنا چاہئے۔ واللہ اعلم
 

ظفری

لائبریرین
میں‌ تو یہ سمجھتا ہوں اس طرزِ عمل سے ہم ایسی ذہنیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی طریقے سے دنیا کے کسی خانے میں فٹ کردیتے ہیں ۔ مانا یہ دنیا بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ ۔ قدرت کے بیش بہا خزانے یہاں‌ موجود ہیں ۔ اسکے بارے میں تحقیق و تجربے اپنا الگ تقاضا کرتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ ایک الگ بات ہے ۔ لیکن اس کے لیئے اللہ نے انسان کو بہت عقل دے رکھی ہے ۔ سب سے اعلی و ارفع ذہن دے رکھا ہے ۔ آپ اس وقت دیکھئے کہ اسی عقل کا سہارا لیکر انسان نے کتنے سائنس کےحیرت انگیز انکشافات کیئے ہیں ۔ لہذاٰ سائنس کو سائنسی علوم کے طور پر پڑھیئے ۔ ہمارے ہاں ‌تو اس سے بھی آگے ہوتا ہے کہ کوئی سائنسی انکشاف ہوجاتا ہے یا کوئی نئی چیز وجود پذیر ہوجاتی ہے ۔ تو کہا جاتا ہے یہ قرآن میں لکھا ہوا تھا ۔ قرآن اس موضوع کے لیئے آیا ہی نہیں ہے ۔ قرآن کا موضوع اصل یہ ہے کہ وہ آپ کو بتائے کہ ایک دن آپ کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ اور وہاں آپ کو اپنے مالک کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ آپ کا تعلق اپنے مالک کیساتھ بندگی کا ہونا چاہیئے ۔ اور انسانوں‌کیساتھ اخلاقِ عالیہ کا ہونا چاہئے ۔ یہ دو باتیں ہیں جن کو مذہب اپنا موضوع بناتا ہے ۔ باقی چیزوں‌کے لیئے آپ دوسری جگہ جایئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی چیز کو واضع کیا تھا کہ پغمبروں‌کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ آپ کو یہ بتانےکے لیئے آئے ہیں کہ کھجور کے درخت میں آپ گاوا لگائیں گے تو پھل زیادہ آئے گا کہ کم آئے گا ۔
ایک یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ روزہ ہو ، حج ہو ، عمرہ ہو ، نماز ہو ، یہ سب عبادات ہیں ۔ عبادات میں ہم اللہ کے ساتھ اپنا تعلق پیدا کرتے ہیں ۔ اور مذہب کا اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا صحیح تعلق قائم ہوجائے ۔ اور بندوں کیساتھ ہم اخلاقی طور سے صحیح طریقے سے جڑ جائیں ، یہ جو مادی اور طبی فوائد ہیں ، یہ مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے ۔ اس مقصد کے لیئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت عقلِ سلیم دے رکھی ہے ۔ اس کے تحت وہ حفظانِ صحت کے طریقے اختیار کرے ۔ سائنس اور کائنات میں موجود معموں کو حل کرے ۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وضو اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ اس فلاں‌فلاں بیماریاں دور ہوجاتیں ہیں ۔ اگر تھوڑی دیر کے لیئے مان بھی لیا جائے کہ اس سے کوئی فائدہ ہوتا بھی ہے تو یہ اس عبادت کی اہمیت کو بلکل باطل کر دینے والی چیز ہے ۔ اس میں سارا زور اس پر ہونا چاہیئے کہ ہم اللہ کے حضور میں پیش ہو رہے ہیں ۔ تو ہمیں طہارت اور پاکیزگی کیساتھ اللہ کے حضور میں جانا چاہئے ۔ وضو ہم اس لیئے نہیں کرتے ، بلڈ پریشر کا علاج کرنا ہوتا ہے ۔اس کے اندر اس طرح کے عقائد اور خیالات کی وجہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں دنیاداری چھپی ہوئی ہے ۔ آپ کو جو کچھ اس دنیا میں کرنا ہے آپ اس کے اصول بنایئے ، قاعدے بنایئے ، یعنی یہ نماز کی توہین ہے کہ اسے ورزش قرار دیدیا جائے ۔ نماز روزہ ، حج اور دیگر عبادات یہ سب چیز یں اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کا اظہار ہے ۔ اور اللہ کیساتھ یہ تعلق مہذب کی روح ہے ۔یہی مذہب کی اصل حقیقت ہے ۔ اسی کو قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ انسان کو ربانی انسان بننا چاہیئے ۔ دو ہی چیزیں ہیں جو مذہب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کیساتھ آپ بندگی کیساتھ جڑ جائیں ۔ اور جو روشنی وہاں سے پائیں وہ روشنی دوسروں بندوں‌ تک پہنچائیں ۔ اور آپ اعلیٰ اخلاقی مرتبے پر فائز ہوں ۔ یہ مذہب کا موضوع ہے ۔ یہ اس کا موضوع نہیں ہے کہ آپ کے فلاں مرض کو دور کرنا چاہتا ہے ۔ ورزش کرنے کے طریقے بتانا چاہتا ہے ۔ یا آپ کو زمین اور سورج کے گرد گھمانا چاہتا ہے۔ دنیاوی جو بھی امور ہیں ان میں سائنسی تحقیقات کریں ۔ نئے نئے انکشافات کریں ۔ جن معاملات کو دین سے متعلق رکھنا چاہیئے ۔ ان کو دین سے متعلق رہنا چاہیئے ۔ ناکہ آپ اصل موضوع کو بھول کر قرآن میں چاند ، زمیں اور سورج کے درمیان کسی حرکت کا کوئی کلیہ دریافت کرنے لگ جائیں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم رضا صاحب، آپ کے اس تھریڈ اور موضوع کے متعلق بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں:

انا للہ و انا الیہ راجعون ہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ وارث صاحب نے بہت اچھی تابوت میں‌آخری کیل ٹھونکی - لیکن میں صرف ایک سادہ سی بات کرنا چاہتا ہوں - ایمان لانے کی بہترین صورت ہوتی ہے جب آپ نے آنکھوں سے کسی چیز کا مشاہدہ کر لیا ہو - تو بھائی رضا صاحب آپ کو اگر زمین کے گھومنے پر کوئی اعتراض‌یا شک ہے - تو پہلی بات یہ کہ آپ لاکھ اعتراض کریں زمین تو گھومتی رہے گی آپ کے اعتراضات سے اسے کوئی فرق نہیں‌ پڑنے والا - اور دوسری بات یہ کہ اگر آپ کو ذرا بھی زمین کے گھومنے پر شک ہے تو بھائی آج کل تو خلا میں عام آدمی کو جانے کی بھی سہولت ہو گئی ہے - آپ خلا میں جا کر دیکھیں کہ زمین گھوم رہی ہے یا نہیں؟ کیا پتہ جو اتنے لوگ خلا میں جاکر خود مشاہدہ کر آئے ہیں سب جھوٹ کہہ رہے ہوں- ;)
 

دوست

محفلین
ہاہاہاہاہاہاہا
کیا کہنے بھئی کیا کہنے۔۔۔۔۔
یار ہماری سمجھ میں یہ کیوں نہیں آتا کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ ہم ہر سائنسی مسئلے کو قرآن کے ساتھ کیوں گھسیٹ‌ لاتے ہیں۔ ارے قرآن تو صرف غور کی دعوت دیتا ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس نے زمین کیسے بچھا دی ہے۔ ۔۔۔ سورج اور چاند کو دیکھو دونوں ایک ہی فلک میں تیر رہے ہیں۔ یہ جملے غور و فکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ارے قرآن تو انگلی پکڑ کر بس دو قدم چلاتا ہے پھر ہاتھ چھوڑ دیتا ہے جا غور و فکر کر۔ اپنے اردگرد دیکھ۔ ٹھڈے کھا، گر، گر کر اٹھ اور چلنا سیکھ۔۔۔۔ یہی قرآن ہے جس کی بدولت کوئی آسمان کی رفعتوں کو پہنچ گیا اور کوئی زمین کی پستیوں کو پہنچ گیا۔۔۔۔بات صرف اسے سمجھنے کی ہے جس کے لیے اللہ کی توفیق بہت ضروری ہے۔ ورنہ ۔۔۔ہم یہی کہہ سکتے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون
 

الف نظامی

لائبریرین
لیں رضا صاحب آپ ہی کی دلیل آپ پر لوٹا رہا ہوں اور یقین جانیں کہیں اور سے پڑھ کر بھی نہیں آ رہا آپ ہی کے مضمون میں زمین ساکت ہے کے دلائل میں جو آیات پیش کی ہیں ان میں سے ہی ایک آیت پیش کر ر ہا ہوں

و الشمس والقمر کل فی فلک یسبحون ( سورتہ الانبیاء ، آیت ؛ ٢٣ )
اور سورج کو اور چاند کو اور یہ دونوں ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔

محب اس میں زمین کا تذکرہ نہیں ہے۔
مباحثین احباب سے گذارش ہے کہ وہ سائنسی حوالے سے زمین کی حرکت کی بات کریں تو زیادہ اچھا ہوگا۔:)
 

الف نظامی

لائبریرین
ہاہاہاہاہاہاہا
کیا کہنے بھئی کیا کہنے۔۔۔۔۔
یار ہماری سمجھ میں یہ کیوں نہیں آتا کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ ہم ہر سائنسی مسئلے کو قرآن کے ساتھ کیوں گھسیٹ‌ لاتے ہیں۔ ارے قرآن تو صرف غور کی دعوت دیتا ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس نے زمین کیسے بچھا دی ہے۔ ۔۔۔ سورج اور چاند کو دیکھو دونوں ایک ہی فلک میں تیر رہے ہیں۔ یہ جملے غور و فکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ارے قرآن تو انگلی پکڑ کر بس دو قدم چلاتا ہے پھر ہاتھ چھوڑ دیتا ہے جا غور و فکر کر۔ اپنے اردگرد دیکھ۔ ٹھڈے کھا، گر، گر کر اٹھ اور چلنا سیکھ۔۔۔۔ یہی قرآن ہے جس کی بدولت کوئی آسمان کی رفعتوں کو پہنچ گیا اور کوئی زمین کی پستیوں کو پہنچ گیا۔۔۔۔بات صرف اسے سمجھنے کی ہے جس کے لیے اللہ کی توفیق بہت ضروری ہے۔ ورنہ ۔۔۔ہم یہی کہہ سکتے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون
جناب آپ کچھ کہیے تو بات بنے۔ مجھے معلوم ہے کہ زمین کے حرکت کے سائنسی دلائل آپ کو یاد نہیں ہوں گے لہذا اسی تبصرہ پر اکتفا کیا ہے۔:)
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ وارث صاحب نے بہت اچھی تابوت میں‌آخری کیل ٹھونکی - لیکن میں صرف ایک سادہ سی بات کرنا چاہتا ہوں - ایمان لانے کی بہترین صورت ہوتی ہے جب آپ نے آنکھوں سے کسی چیز کا مشاہدہ کر لیا ہو - تو بھائی رضا صاحب آپ کو اگر زمین کے گھومنے پر کوئی اعتراض‌یا شک ہے - تو پہلی بات یہ کہ آپ لاکھ اعتراض کریں زمین تو گھومتی رہے گی آپ کے اعتراضات سے اسے کوئی فرق نہیں‌ پڑنے والا - اور دوسری بات یہ کہ اگر آپ کو ذرا بھی زمین کے گھومنے پر شک ہے تو بھائی آج کل تو خلا میں عام آدمی کو جانے کی بھی سہولت ہو گئی ہے - آپ خلا میں جا کر دیکھیں کہ زمین گھوم رہی ہے یا نہیں؟ کیا پتہ جو اتنے لوگ خلا میں جاکر خود مشاہدہ کر آئے ہیں سب جھوٹ کہہ رہے ہوں- ;)
آپ نے خود بھی اس موضوع پر تحقیق کی ہے اور سائنسی دلائل کا مطالعہ کیا ہے یا ویسے ہی تقلیدی ایمان لے آئے ہیں کہ زمین گھوم رہی ہے ۔:)
 
دوستو! ساتھیو! اگر کوئی بندہ سائنسی موضوع پر بات کررہا ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس کا رد سائنس سے کیا جائے یا یہ بہتر ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر راہِ فرار اختیار کی جائے؟
خود سائنس نے حرکتِ زمین کا نظریہ بہت بعد میں قبول کیا ہے ورنہ غالبا گیلیلو سے پہلے سکونِ زمین کا نظریہ ہی مانا جاتا رہا۔ سائنس بے حد وسیع ہے۔ مفروضہ آتے ہیں، ان پر تحقیق ہوتی ہے اور وہ اصول و نظریات کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اگلے نظریات آکر ان کا رد کردیتے ہیں۔ تو تحقیق کا دروازہ کھلا رکھیں۔ صرف اس بات پر برہم نہ ہوں کہ سامنے والے نے مذہب کی آڑ لی ہے اور دقیانوسی خیالات پیش کیے ہیں۔ سائنس کی حقیقت سے اس کا رد کیجئے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ نے خود بھی اس موضوع پر تحقیق کی ہے اور سائنسی دلائل کا مطالعہ کیا ہے یا ویسے ہی تقلیدی ایمان لے آئے ہیں کہ زمین گھوم رہی ہے ۔:)

بھائی سب سے پہلا سائینسدان جس نے یہ نظریہ پیش کیا گلیلیو تھا - اور وہ 1564 میں‌پیدا ہوا تھا لیکن ہم آج بھی 1564 سے پہلے کے عہد میں‌جی رہے ہیں - چرچ نے اسی طرح اسکی مخالفت کی تھی جیسے ہمارے روائیتی ملا کر رہے ہیں -
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
ققیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی
(اقبال)

خدا ہی ہمارے حالات پررحم کرے -
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ مسئلہ تھوڑا سا گھمبیر ہے، دراصل جب ارسطو اور بطلیموس Ptolemy نے geocentric یعنی زمین کے کائنات کا محور ہونے کا نظریہ دیا تو اسے عیسائیت نے من و عن قبول کر لیا کیونکہ اس سے 'انسان' کی اس کائنات میں اہمیت بڑھتی ہے اور یہ نطریہ عیسائی فلاسفہ کو اپنے 'کام' کا لگا اور ایمان کا حصہ بن گیا۔ لیکن سولہویں صدی اور مابعد میں جب کوپرنیکس، کیپلر اور گلیلیو وغیرہ نے heliocentric نظریے کو فروغ دیا اور ثابت کیا تو کلیسا نے اس کی بہت مخالفت کی، کلیسا کے اس استعبداد اور ظلم کی کہانیاں تو عام ہیں ان کو دہرانے کا فائدہ نہیں۔ لیکن اصل وجہ اسکے پیچھے یہ تھی اس سے 'انسان' کا مقام اس کائنات میں گر جاتا ہے، کہاں وہ کائنات کا محبوب و منظورِ نظر کہ اسکے مسکن کو بھی خداوند نے کائنات کا محور و مرکز بنا دیا اور کہاں یہ کم مائیگی کہ اربوں کھربوں نوری سالوں پر پھیلی کائنات میں زمین کی حیثیت ایک ذرے سے بھی کم۔

میں نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنے ایک فزکس کے پروفیسر صاحب کے پاس اسی موضوع پر ایک کتاب دیکھی تھی جو کسی گوجرانوالہ کے 'سائنسدان' نے 60ء کی دہائی میں لکھی تھی اور اپنے طور پر ثابت کر دیا تھا زمین ہی ساکن ہے، خیر سے وہ شاعر بھی تھے اور اس کتاب میں بہت پر درد اور پر سوز نظم بھی تھی جسکا لبِ لباب یہ تھا کہ ان ملحد سائنسدانوں نے ہماری 'ماں' کو خلا کی رقاصہ بنا دیا ہے۔ :)

اگر کوئی مانتا ہے کہ زمیں کائنات کا مرکز ہے اور ساری کائنات اس کے گرد گھومتی ہے تو مانتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق اس وقت پڑتا ہے جب وہ اپنے اس نظریے کو اسلام اور قرآن سے بزعم خود ثابت کر کے پوری دنیا میں مسلمانوں کی بھد اڑاتے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top