میڈم!
اوپر دی گئی تصویر دیکھ کر ایک عظیم انسان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
بی ایس سی میں میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ پاؤں پولیو زدہ تھے اور چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ دور دراز دیہی علاقے سے تعلق تھا۔ والدین غریب تھے۔ معذوری کو اس نے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ پڑھنے کا شوق تھا۔
اپنے کلاس فیلوز میں ایسے رہتا تھا جیسے نارمل انسان رہتا ہے۔اس کے ایک چچا اسے مالی امداد فراہم کرتے تھے۔ اس وقت کے بہت اچھے کالج کے ہاسٹل میں ہمارے ساتھ رہتا تھا۔چونکہ چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اس لیے ہاتھوں اور پاؤں کے بل پر ہاسٹل سے کالج جاتا تھا اور اسی طرح واپس آتا تھا۔ پھر بی ایس سی کے بعد ہم ایک بہت اچھی یونیورسٹی کے ہائی میرٹ والے شعبہ میں چلے گئے وہ بھی ساتھ ہی تھا۔ وہاں بھی وہ ہمارے ساتھ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوا۔ یونیورسٹی پہاڑی علاقے میں تھی ۔ مختلف شعبہ جات اونچے نیچے بنے ہوئے تھے۔ وہاں کسی نے اسے ہاتھوں سے چلنے والی ٹرائی سائیکل لے دی جس پر وہ ہاسٹل سے شعبہ کی عمارت تک جاتا اور پھر ہاتھوں اور پاؤں سے چلتا ہوا کلاس تک جاتا۔
ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ ایک بہت اچھے عہدے پر فائز ہوا اور ترقی کرتا ہوا آج اپنےمحکمے کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔
اب یہ قسمت کا کھیل ہے یا انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے کہ اس جیسے ہزاروں لوگ بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر بہت ہی بدحالی کا شکار ہیں۔ لیکن میرے دوست کی کہانی یہ ہے۔
سبحان اللہ ! ایسے لوگ واقعی مثال ہوتے ہیں۔
اب یہ قسمت کا کھیل ہے یا انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے کہ اس جیسے ہزاروں لوگ بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر بہت ہی بدحالی کا شکار ہیں۔ لیکن میرے دوست کی کہانی یہ ہے۔
میں ان معاملات پر اکثر غور کرتا ہوں۔ کچھ لوگ اپنی معذوری کو نمایاں کرنے کا ہر ممکن اہتمام کرتے ہیں اور اُسے دکھا دکھا کر بھیک مانگتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی کا ہاتھ درست نہیں ہے تو باقی اعضاء تو درست ہیں۔ کیوں نہ یہ لوگ کوئی کام کاج کریں اور عزت کی روٹی کمائیں۔ خراب عضو کو دکھا دکھا کر بھیک مانگنا تو ہمہ وقت شکایت کی کیفیت میں رہنا ہے۔
لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ سب سے اہم چیز ذہن اور ذہن سازی ہے۔ اگر ذہن مضبوط ہو تو انسان کو بہت سی چیزیں سمجھ بھی آتی ہیں اور عمل کی قوت بھی مل جاتی ہے۔ لیکن اگر ذہن کمزور ہو تو انسان باقی تمام اعضاء کی موجودگی کے باوجود بہت سے آسان کام بھی سر انجام نہیں دے پاتا۔
کچھ لوگ جسمانی طور پر بالکل درست ہوتے ہیں۔ اعضاء متناسب ہوتے ہیں۔ لیکن ذہن کمزور ہوتا ہے۔ شخصیت سازی ہوئی نہیں ہوتی۔ علم و تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ تو وہ سب کچھ ہونے کے باوجود پڑھنے میں یا کمانے میں کمزور ہوتے ہیں۔
باقی معاشرے سے کسی کو کیا ملا یہ بھی بہت اہم ہے۔ اور قسمت وغیرہ بھی اپنی جگہ ہے۔ سو بے شمار پہلو ہوتے ہیں ان سب معاملات میں۔