اپنی گردن جھُکا کر بات کرو تم نکالے گئے ہو 'جنت' سے جون ایلیا
زیرک محفلین ستمبر 19، 2019 #863 اس شہر میں اک تُو ہی مسیحا تو نہیں ہے بیمار چلے جائیں گے اِس بارکہیں اور اسلم عارفی
زیرک محفلین ستمبر 19، 2019 #864 کیوں تباہ کرتے ہو لہلہاتے کھیتوں کو بستیاں بسانے کے اور بھی طریقے ہیں اسلم عارفی
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #865 آباد ہوئے جب سے یہاں تنگ نظر لوگ اس شہر نے ماحول کُشادہ نہیں پہنا اقبال ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #866 مانگی نہیں کسی سے بھی ہمدردیوں کی بھیک ساجد کبھی خلافِ انا کچھ بھی نہیں کیا اقبال ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #867 سزا تو ملنا تھی مجھ کو برہنہ لفظوں کی زباں کے ساتھ لبوں کو رفو بھی ہونا تھا اقبال ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #868 کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجد میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں اعتبار ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #869 یہ قُمقمے، یہ عمارات، یہ فضا کیا ہے؟ جو تُم نہیں ہو تو اِس شہر میں دھرا کیا ہے اعتبار ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #870 مرے گونگے حرف کا پتھر ترے کام آئے گا اور بھی تیغ زباں کی دھار بڑھتی جائے گی اعتبار ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #871 ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو اعتبار ساجد
زیرک محفلین ستمبر 20، 2019 #872 بہت روئیں گے سناٹے یہ گھر جب چھوڑ جاؤ گے بہت باتیں کریں گے یہ در و دیوار آپس میں اعتبار ساجد
زیرک محفلین ستمبر 22، 2019 #873 کسی کسی پہ ہی کھلتے ہیں پیچ و خم میرے میں اتنا سہل نہیں، میری مشکلات سمجھ
زیرک محفلین ستمبر 22، 2019 #874 مجھ کو ہجرت کی کوئی راہ سُجھا، ہمت دے مجھ سے یہ شہر گوارا نہیں ہوتا مولا
زیرک محفلین ستمبر 23، 2019 #875 ہم کو ہمارے صبر کا خوب صلہ دیا گیا یعنی دوا نہ دی گئی، درد بڑھا دیا گیا اقبال اشہر
زیرک محفلین ستمبر 23، 2019 #876 ہمارے دَور کا فرعون ڈوبتا ہی نہیں کہاں چلے گئے پانی پہ چلنے والے لوگ اقبال اشہر
زیرک محفلین ستمبر 23، 2019 #877 آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی اقبال اشہر
زیرک محفلین ستمبر 23، 2019 #878 یہ کس نے دشت کو دلہن بنا دیا صاحب؟ تلاش کیجئے پیروں میں کس کے چھالا ہے اقبال اشہر
زیرک محفلین ستمبر 23، 2019 #879 ان کی مراد ہے یہی ختم نہ ہو یہ تیرگی جس نے ذرا بڑھائی لَو، اس کو بجھا دیا گیا اقبال اشہر
زیرک محفلین ستمبر 23، 2019 #880 دل کی مٹی سے زیادہ نہیں کچھ بھی زرخیز جب کُریدو کوئی "سوغات" نکل آتی ہے اقبال اشہر