زیرک کے پسندیدہ قطعات

زیرک

محفلین
کھلا تو پول ہمارا کھلا سوالوں سے
خود آزمائے گئے ان کو آزمانے میں
غزال خوب سمجھتے ہیں یہ نوا راحیلؔ
غزل کی تان ہے الفت کے ہر ترانے میں

راحیل فاروق​
 

زیرک

محفلین
ہم تو عاشق ہیں ہمارا تو چلو کام سہی
سجدے اس شہر کا دستور نہ ہو جائیں کہیں
آپ کے عشق میں ہم ہو تو گئے آپ ہی آپ
آپ کے نام سے مشہور نہ ہو جائیں کہیں

راحیل فاروق​
 

زیرک

محفلین
ہر دکھ مجھے قبول، مگر یہ ستم نہ ہو
یا رب! بچھڑتے وقت بھی وہ آنکھ نم نہ ہو
یہ کیا کہ ساری رات کٹے جاگتے ہوئے
اور پھر بس ایک شعر ہو اس میں بھی دم نہ ہو

احسن سلیمان​
 

زیرک

محفلین
کوئی شکوہ نہیں کرتے تھے خدا سے پیاسے
ہائے کربل میں محمدﷺ کے نواسے پیاسے
شام والو! یہ نبی پاکﷺ کی اولاد سے ہیں
شام کو آئے ہیں جو کرب و بلا سے پیاسے

احسن سلیمان​
 

زیرک

محفلین
دیکھو اس کا ہجر نبھانا پڑتا ہے
وہ جیسا چاہے ہو جانا پڑتا ہے
اس دنیا کو چھوڑ کے جس میں تم بھی ہو
جاتا کون ہے؟ لیکن جانا پڑتا ہے

ندیم بھابھہ​
 

زیرک

محفلین
یہ دل اگر کبھی اذنِ کلام مانگتا ہے
تو وہ سمجھتے ہیں شاید مقام مانگتا ہے
ہمارا مسئلہ یہ ہے مذاق کس سے کریں؟
پرانا دوست تو اب احترام مانگتا ہے

ندیم بھابھہ​
 

زیرک

محفلین
ضعیفی اس لئے مجھ کو سہانی لگتی ہے
اسے کمانے میں پوری جوانی لگتی ہے
تو میرے جسم کو چھو کر بتا میں کیسا ہوں
مجھے تو خاک یہ صدیوں پرانی لگتی ہے

خالد سجاد​
 

زیرک

محفلین
نہیں ایسا کہ کچھ ماحول بدلا
نئے حاکم نے بس کشکول بدلا
تماشہ اور تماشائی وہی ہیں
پرانے سُر پہ لیکن ڈھول بدلا
اسلم رضا خواجہ​
 

زیرک

محفلین
ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں
ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے
اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں
اسلم کولسری​
 

زیرک

محفلین
یہ دل ہے کہ اٹکتا جا رہا ہے
مسافر ہے بھٹکتا جا رہا ہے
گلوں پہ اوس گرتی جا رہی ہے
وہ زلفوں کو جھٹکتا جا رہا ہے

اسلم عارفی​
 

زیرک

محفلین
ٹھہرا ناقابلِ معافی میں
رائے رکھتا تھا اختلافی میں
یار دریا میں مجھ کو پھینک گئے
بوجھ کشتی پہ تھا اضافی میں

اسلم عارفی​
 

زیرک

محفلین
جانے کب کچھ ایسا ویسا کر دے گا
اک دن شاید عشق تماشا کر دے گا
سچ بولوں وہ ٹھنڈے ٹھار دسمبر میں
برف کو چھو کر آگ بگولا کر دے گا

اسلم رضا خواجہ​
 

زیرک

محفلین
لمحہ لمحہ شمار ہوتا ہے
درد دیوار گیر رکھا ہے
ہم نے تقسیم غم کیے لیکن
اپنا حصہ کثیر رکھا ہے

اسلم رضا خواجہ​
 

زیرک

محفلین
اپنے پہریدار کے ڈر سے بھی ہم جاگ رہے ہیں
یہ بیداری صرف حریفوں کا احسان نہیں ہے
جادوگر کی جان ہے جس میں اس طوطے کو ماریں
ورنہ اپنے زندہ رہنے کا امکان نہیں ہے

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
ڈر کر بھی حریفوں سے گزارا نہیں ہوتا
لشکر بھی مگر اتنا بڑا رکھ نہیں سکتے
اے تیز ہوا! لاکھ ضمانت دے مگر ہم
اب تیری ہتھیلی پہ دِیا رکھ نہیں سکتے

راشد مراد​
 

زیرک

محفلین
جانکنی میں مریضِ ہستی ہے
مانگتا ہے دوا زمانے سے
چارہ سازو! سنہری موقع ہے
زہر دے دو اسی بہانے سے

اعتبار ساجد​
 

زیرک

محفلین
بخش دیتا ہے وہ خطاؤں کو
ہاتھ اٹھتے ہیں جب دعاؤں کو
سوچ ماتھے پہ وہ اگر لکھ دے
کون پوچھے گا پارساؤں کو؟

اتباف ابرک​
 

زیرک

محفلین
زنگ آلود کیوں ہیں شمشیریں
کب تلک ہوں گی صرف تدبیریں
دل دہلتا ہے دیکھ دیکھ مِرا
اپنی جنت سے آئی تصویریں

اتباف ابرک​
 

زیرک

محفلین
اس سے پہلے کہ چھوڑ جاؤں تجھے
زیست! آ، پھر سے آزماؤں تجھے
تیری عادت ہے زخم دینے کی
میری خواہش ہے مسکراؤں تجھے

اتباف ابرک​
 

زیرک

محفلین
دل دھڑکتا ہے نام پر تیرے
پر وہ پہلے سا ولولہ نہ رہا
جی رہا ہوں میں زندگی اب وہ
جس کو جینے میں کچھ مزہ نہ رہا

اتباف ابرک​
 
Top