زیرک کے پسندیدہ قطعات

زیرک

محفلین
کچھ اڑانیں اڑانیں لگتی ہیں
درحقیقت وہ ڈھیل ہوتی ہے
مسئلہ تنہا کبھی نہیں ہوتا
ساتھ کوئی سبیل ہوتی ہے
عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
سارے مرنے والوں پر موت تو نہیں آتی
ہر کسی کے جینے کو زندگی نہیں کہتے
فاصلے بتاتے ہیں، رشتہ کتنا گہرا ہے
ساتھ کھانے پینے کو دوستی نہیں کہتے
عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
سنا ہے جان لیتے ہو! سنو یہ جان دینی ہے
سنا ہے مار دیتے ہو! سنو میں مرنے آیا ہوں
سنا ہے روک دیتے ہو! سنا ہے ٹوک دیتے ہو
بتاؤ کیا نہیں کرنا! وہی میں کرنے آیا ہوں
عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
لہجے کو ذرا دیکھ جواں ہے کہ نہیں ہے
بالوں کی سفیدی کو بڑھاپا نہیں کہتے
سوچوں کو بدلنے سے نکلتا ہے کوئی دن
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے
عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
جس کے ماتھے پہ دیکھو قیمت ہے
بنیا گیری سی بنیا گیری ہے
جڑ سے کھودا ہےہم نے سائے کو
بے ضمیری سی بے ضمیری ہے

عابی مکھنوی​
 

زیرک

محفلین
شاعری مظہرِ احوالِ دروں ہے، یوں ہے
ایک اک شعر بتا دیتا ہے یوں ہے، یوں ہے
اک تِری یاد ہی دیتی ہے مِرے دل کو قرار
اک تِرا نام ہی اب وجہِ سکوں ہے، یوں ہے
سلیمان خمار​
 

زیرک

محفلین
پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں
دھوپ تو آئے گی، سایہ نہیں آنے والا
یہ بھی سچ ہے کہ اجل بن کے کھڑے ہیں امراض
یہ بھی طے ہے کہ مسیحا نہیں آنے والا
سلیمان خمار​
 

زیرک

محفلین
چھو مت لینا میں سپنا ہوں
میں بس دیکھا جا سکتا ہوں
مجھ سے باتیں کر کے دیکھو
میں باتوں میں آسکتا ہوں
ندیم قیس​
 

زیرک

محفلین
ہمیں بھی آپ سے اک بات عرض کرنا ہے
پر اپنی جان کی پہلے "امان" مانگتے ہیں
قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ
مِرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں
منظور ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
قدورتوں کے درمیان، عداوتوں کے درمیان
تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیان
زمانہ میری داستان پہ رو رہا ہے آج کیوں
یہی تو کل سنی گی تھی قہقہوں کے درمیان
پیرزادہ قاسم​
 

زیرک

محفلین
کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم
بے صَرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
معلوم ہے خمیازۂ حسرت ہمیں، یعنی
کھو بیٹھیں گے خود کو تمہیں پانے کے نہیں ہم
پیرزادہ قاسم​
 

زیرک

محفلین
درد ہے کہ نغمہ ہے، فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے
آپ کتنے سادہ ہیں، چاہتے ہیں بس اتنا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہہ لیا جائے
پیرزادہ قاسم​
 

عدنان عمر

محفلین
جمالِ عشق مستی نے نوازی
جلالِ عشق و مستی بے نیازی
کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر
زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی

علامہ محمد اقبال
 

زیرک

محفلین
فطرت کو خِرد کے روبرو کر
تسخیر مقامِ رنگ و بو کر
تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
علامہ محمد اقبال​
 

زیرک

محفلین
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
علامہ محمد اقبال​
 

زیرک

محفلین
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں
علامہ محمد اقبال
 

زیرک

محفلین
ڈوبے ہو پسینے میں، پریشان ہے نظر بھی
آتے ہو کہاں سے کہ دھڑکتا ہے جگر بھی
اس بزم میں آتے ہی یہ واعظ نے صدا دی
اے ساقئ توبہ شکن! اک جام ادھر بھی

حفیظ جونپوری​
 

زیرک

محفلین
عشق لگتا بخار سا کیوں ہے
پھر اسی میں قرار سا کیوں ہے
جب میسر نہیں حقیقت میں
سر پہ میرے سوار سا کیوں ہے

سالک جونپوری​
 

زیرک

محفلین
اگر ہم زندگی کا راستہ ہموار کر لیں گے
ہمارے بعد کافی لوگ دریا پار کر لیں گے
کسی کے دردِ دیرینہ سے اپنا واسطہ کیا ہے
اگر وہ مل گیا افسوس کا اظہار کر لیں گے

رام ریاض​
 

زیرک

محفلین
شیخ صاحب! مقابلہ کیسا؟
ہمسری کیا شراب نوشوں سے
ایک عصمت فروش بہتر ہے
آپ جیسے 'خدا فروشوں' سے
عبدالحمید عدم​
 
Top