سارے مرنے والوں پر موت تو نہیں آتی
ہر کسی کے جینے کو زندگی نہیں کہتے
فاصلے بتاتے ہیں، رشتہ کتنا گہرا ہے
ساتھ کھانے پینے کو دوستی نہیں کہتے
عابی مکھنوی
سنا ہے جان لیتے ہو! سنو یہ جان دینی ہے
سنا ہے مار دیتے ہو! سنو میں مرنے آیا ہوں
سنا ہے روک دیتے ہو! سنا ہے ٹوک دیتے ہو
بتاؤ کیا نہیں کرنا! وہی میں کرنے آیا ہوں
عابی مکھنوی
لہجے کو ذرا دیکھ جواں ہے کہ نہیں ہے
بالوں کی سفیدی کو بڑھاپا نہیں کہتے
سوچوں کو بدلنے سے نکلتا ہے کوئی دن
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے
عابی مکھنوی
شاعری مظہرِ احوالِ دروں ہے، یوں ہے
ایک اک شعر بتا دیتا ہے یوں ہے، یوں ہے
اک تِری یاد ہی دیتی ہے مِرے دل کو قرار
اک تِرا نام ہی اب وجہِ سکوں ہے، یوں ہے
سلیمان خمار
پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں
دھوپ تو آئے گی، سایہ نہیں آنے والا
یہ بھی سچ ہے کہ اجل بن کے کھڑے ہیں امراض
یہ بھی طے ہے کہ مسیحا نہیں آنے والا
سلیمان خمار
ہمیں بھی آپ سے اک بات عرض کرنا ہے
پر اپنی جان کی پہلے "امان" مانگتے ہیں
قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ
مِرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں
منظور ہاشمی
قدورتوں کے درمیان، عداوتوں کے درمیان
تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیان
زمانہ میری داستان پہ رو رہا ہے آج کیوں
یہی تو کل سنی گی تھی قہقہوں کے درمیان
پیرزادہ قاسم
کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم
بے صَرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
معلوم ہے خمیازۂ حسرت ہمیں، یعنی
کھو بیٹھیں گے خود کو تمہیں پانے کے نہیں ہم
پیرزادہ قاسم
درد ہے کہ نغمہ ہے، فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے
آپ کتنے سادہ ہیں، چاہتے ہیں بس اتنا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہہ لیا جائے
پیرزادہ قاسم
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
علامہ محمد اقبال
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں
علامہ محمد اقبال
اگر ہم زندگی کا راستہ ہموار کر لیں گے
ہمارے بعد کافی لوگ دریا پار کر لیں گے
کسی کے دردِ دیرینہ سے اپنا واسطہ کیا ہے
اگر وہ مل گیا افسوس کا اظہار کر لیں گے