دعا زیک کے لیے دعائیں

جاسمن

لائبریرین
اللہ پاک زیک اور ظفری کو صحتِ کاملہ، عاجلہ اور مستمرہ عطا فرمائے۔ ڈھیروں خوشیوں اور آسانیوں والی لمبی عمر دے۔ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!
ثم آمین!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اس اڑان کا فائدہ ہی کیا جو اپنے سہولت کے دائرے میں ہی محدود ہو ۔ مزا تو تب ہے جب اڑان استطاعت سے باہر ہو ۔ اور پھر گرنے میں بھی مزا آتا ہے ۔
اچھا۔۔۔۔
لیکن جو بھی ہے، جلدی سے ٹھیک ہو کر محفل پہ دوبارہ لوٹئیے باقاعدگی سے۔
 

زیک

مسافر
میری بیماری کا قصہ یہ ہے کہ مئی کے آخر میں بیٹی کی انٹرنشپ کے لئے ہم اس کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کر کے اس کی منزل تک گئے۔ کچھ سیر سپاٹا کرتے یہ لمبا سفر خوب گزرا۔ وہاں سے واپسی پر شاید میں نے کہیں ائرپورٹ وغیرہ پر کووڈ کے جراثیم پکڑ لئے۔ گھر پہنچنے کے دو دن بعد خوب بخار چڑھا اور ساتھ کھانسی۔ ویک اینڈ کے بعد ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو اس نے پیکسلووڈ دوائی دی۔ یہاں مجھ سے فاش غلطی ہوئی اور چونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ طبیعت اب بہتری کی طرف مائل ہے لہذا میں نے دوائی نہیں لی۔ چند دن بخار بہتر رہنے کے بعد پھر بڑھنا شروع ہوا۔ یوں بخار کا اتار چڑھاؤ شروع ہو گیا۔معاملات تین ہفتے تک پہنچے تو پھر ڈاکٹر سے ملا۔ انہوں نے چیک کیا کہ کووڈ کے ساتھ کہیں اور کوئی بیماری نہ ہو گئی ہو یعنی سپرانفیکشن۔ لیکن ایسا معاملہ نہ تھا۔ مزید بخار چڑھتا رہا۔ پانچ ہفتے گزرے تو 42 ڈگری سینٹیگریڈ یعنی 104 ڈگری فارنہائٹ تک بخار بڑھ گیا۔ کھانسی بھی اب کافی خراب ہو چکی تھی۔ سیدحا ہسپتال کے ایمرجنسی روم پہنچا۔ انہوں نے کافی ٹیسٹ کئے۔ پھیپھڑوں پر اثر کے لئے کئی اینٹی بائیوٹکس آئی وی کے ذریعہ دیں اور ہسپتال میں داخل کر لیا۔تین دن یونہی دوائیاں ملتی رہیں۔ بخار کافی کم ہوا لیکن اترا نہیں اور کھانسی بھی برقرار تھی۔ ڈاکٹروں نے اب کووڈ کے لئے اینٹی وائرل دوائی اور سٹیرائڈز بھی آئی وی کے ذریعہ شامل کر دیئے۔ یوں آخر بخار اترا اور کھانسی بہتر ہونا شروع ہوئی۔ یہ اینٹٰی وائرل دوائی صرف آئی وی سے دی جا سکتی ہے۔لہذا اس کا کورس ہسپتال میں پورا کیا اور پھر ڈسچارج۔ 39 دن مسلمل بخار کے بعد اب طبیعت کافی سنبھل چکی تھی۔ گھر آ کر پیکسلووڈ اینٹٰ وائرل اور سٹیرائڈز کا کورس مکمل کیا۔ اور یوں کووڈ سے جان چھوٹی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کووڈ کے مریض برے حال میں سانس کی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں لیکن مجھے اس کا خاص مسئلہ نہیں ہوا
 

ظفری

لائبریرین
میری بیماری کا قصہ یہ ہے کہ مئی کے آخر میں بیٹی کی انٹرنشپ کے لئے ہم اس کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کر کے اس کی منزل تک گئے۔ کچھ سیر سپاٹا کرتے یہ لمبا سفر خوب گزرا۔ وہاں سے واپسی پر شاید میں نے کہیں ائرپورٹ وغیرہ پر کووڈ کے جراثیم پکڑ لئے۔ گھر پہنچنے کے دو دن بعد خوب بخار چڑھا اور ساتھ کھانسی۔ ویک اینڈ کے بعد ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو اس نے پیکسلووڈ دوائی دی۔ یہاں مجھ سے فاش غلطی ہوئی اور چونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ طبیعت اب بہتری کی طرف مائل ہے لہذا میں نے دوائی نہیں لی۔ چند دن بخار بہتر رہنے کے بعد پھر بڑھنا شروع ہوا۔ یوں بخار کا اتار چڑھاؤ شروع ہو گیا۔معاملات تین ہفتے تک پہنچے تو پھر ڈاکٹر سے ملا۔ انہوں نے چیک کیا کہ کووڈ کے ساتھ کہیں اور کوئی بیماری نہ ہو گئی ہو یعنی سپرانفیکشن۔ لیکن ایسا معاملہ نہ تھا۔ مزید بخار چڑھتا رہا۔ پانچ ہفتے گزرے تو 42 ڈگری سینٹیگریڈ یعنی 104 ڈگری فارنہائٹ تک بخار بڑھ گیا۔ کھانسی بھی اب کافی خراب ہو چکی تھی۔ سیدحا ہسپتال کے ایمرجنسی روم پہنچا۔ انہوں نے کافی ٹیسٹ کئے۔ پھیپھڑوں پر اثر کے لئے کئی اینٹی بائیوٹکس آئی وی کے ذریعہ دیں اور ہسپتال میں داخل کر لیا۔تین دن یونہی دوائیاں ملتی رہیں۔ بخار کافی کم ہوا لیکن اترا نہیں اور کھانسی بھی برقرار تھی۔ ڈاکٹروں نے اب کووڈ کے لئے اینٹی وائرل دوائی اور سٹیرائڈز بھی آئی وی کے ذریعہ شامل کر دیئے۔ یوں آخر بخار اترا اور کھانسی بہتر ہونا شروع ہوئی۔ یہ اینٹٰی وائرل دوائی صرف آئی وی سے دی جا سکتی ہے۔لہذا اس کا کورس ہسپتال میں پورا کیا اور پھر ڈسچارج۔ 39 دن مسلمل بخار کے بعد اب طبیعت کافی سنبھل چکی تھی۔ گھر آ کر پیکسلووڈ اینٹٰ وائرل اور سٹیرائڈز کا کورس مکمل کیا۔ اور یوں کووڈ سے جان چھوٹی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کووڈ کے مریض برے حال میں سانس کی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں لیکن مجھے اس کا خاص مسئلہ نہیں ہوا
اللہ نے آپ کو صحت دی ۔ الحمداللہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی !بلکل چل رہی ہے ۔ مگر چٹانوں کی رگڑ سے کمر پر جو زخم آئے ہیں ۔ وہ بہت تنگ کر رہے ہیں ۔
کیا ہی اچھا ہوتا جو چٹانوں پر بسیرا کر لیا ہوتا۔ کم سے کم رگڑ کا مسئلہ تو نہ ہوتا۔
جان کر بہت دُکھ ہو رہا ہے قسم سے۔
 
Top