ایک اقتباس شئیر کررہا ہوں:
قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کردیا ہو اور پھر اس سے نسل انسانی کا آغاز ہوا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ 30) میں زمین میں ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اگر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہنا چاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اور لوگ پہلے سے زمین میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے اور یہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولقد خلقنٰکم ثم صورنٰکم ۔۔۔ (الاعراف 11) یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ بلکہ یہ فرماتا ہے کہ اے نسل انسانی! میں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ صورنٰکم میں نے تمہیں ترقی دی، تمہارے دماغی قوٰی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہوگئی تو میں نے ایک آدمی کھڑا کردیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہوچکے تھے کیونکہ خلقنٰکم اور صورنٰکم پہلے ہوا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہوا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خداتعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا۔ مگر خداتعالیٰ یہ نہیں فرماتا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میں سے آدم کے متعلق ملائکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہوچکے تھے۔
(سیر روحانی از مرزا بشیرالدین محمود احمد۔ صفحہ 30-31)
کیا یہ ان آیات کی "تفسیر بالرائے" نہیں، جو کہ "قرآنسٹ حضرات" کا خاصہ ہے جو کہ منکرینِ حدیث ہیں۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم
ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن نازل کیا تاکہ آپ کھول کر بیان فرما دیں جو نازل کیا گیا ان کی طرف
چنانچہ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا جناب آدم کے متعلق ان درجنوں سینکڑوں روایاتِ نبوی کو نظر انداز کر کے اس معاملے میں تفسیر بالرائے کرنا کیا درست رہے گا؟
دوسری بات:
کیا اللہ کی خلافت فقط انسانوں تک محدود تھی؟ یا پھر نہ تو اللہ کی خلافت فقط انسانوں تک محدود، اور نہ ہی اللہ کا خلیفہ فقط انسانوں تک محدود۔ بلکہ یہ خلافت چرند، پرند، نباتات، جنات و فرشتے اور کائنات کے ایک ایک ذرے پر تھی جسکا ذکر اللہ اس آیت میں کر رہا ہے۔
اور سورۃ الاعراف کی آیت یہ ہے جو اوپر پیش کی گئی۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿
١١﴾
ترجمہ: اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا
اس آیت میں مخاطب جناب آدم ہی ہیں، اور اسی سورۃ الاعراف کی آگے آیت نمبر 27 اس پر گواہ ہے کہ بقیہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔
يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ
أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ۔۔۔﴿
٢٧﴾
ترجمہ:
اے آدم کی اولاد! خبردار! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے
جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں
اگر مرزا صاحب کی تھیوری کو مانا جائے تو یہ پرابلمز پیدا ہو رہی ہیں:
1۔ جناب آدم سے پہلے کے انسانوں کے لیے کوئی ضابطہ حیات ہی نہیں تھا، اور نہ ہی ان پر کوئی نبی اتارا گیا۔
2۔ جناب آدم سے پہلے انسانوں کو شیطان بہکا نہیں سکتا تھا، اور نہ ہی آدم علیہ السلام کے آنے کے بعد ان پہلے سے موجود انسانوں کی نسلوں کو آج تک شیطان بہکا سکتا ہے۔ بلکہ واحد انسان جن پر شیطان کا بس چلتا ہے، وہ آدم کی اولاد سے ہیں۔ اس لئے اللہ فقط آدم کی اولاد کو شیطان کے فتنے سے متنبہ کر رہا ہے بجائے تمام انسانیت کے۔
بنی آدم سے اللہ نے کئی جگہ خطاب کیا۔ اگر تمام انسان آدم کی نسل سے نہیں تو فقط آدم کی نسل سے اللہ کا یہ خطاب (معاذ اللہ) مہمل ٹہر جائے گا۔
سورۃ یس:
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿
٦٠﴾
ترجمہ: اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،
سورۃ الاعراف:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَ۔ٰذَا غَافِلِينَ ﴿
١٧٢﴾
ترجمہ: اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا، کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔
سورۃ الاعراف:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿
٣١﴾
ترجمہ: اے آدم کی اولاد! اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں،
سورۃ الاعراف:
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿
٣٥﴾
ترجمہ: اے آدم کی اولاد! اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیزگاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم،