سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

مہوش علی

لائبریرین
جنابِ نوح علیہ السلام کا 950 سال تک اپنی قوم میں رہ کر تبلیغ کرنا

وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا...﴿١٤﴾...سورة العنکبوت
''ہم نے نوح ؑ کو اسکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس سال کم ایک ہزارسال انکے درمیان رہا۔''

950 سال تبلیغ کے بعد جب طوفان آیا تو اس وقت جناب نوح بذات خود زندہ تھے اور انکا بیٹا اور بیوی بھی۔ چنانچہ یہ پوری کمیونٹی کے متعلق ہے کہ انکی عمریں اتنی طویل تھیں۔
 

arifkarim

معطل
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ، فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
" اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیا"
950 سال کے بعد طوفان آیا اور حضرت نوح اس کے بعد بھی زندہ رہے

جنابِ نوح علیہ السلام کا 950 سال تک اپنی قوم میں رہ کر تبلیغ کرنا

وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا...﴿١٤﴾...سورة العنکبوت
''ہم نے نوح ؑ کو اسکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس سال کم ایک ہزارسال انکے درمیان رہا۔''

950 سال تبلیغ کے بعد جب طوفان آیا تو اس وقت جناب نوح بذات خود زندہ تھے اور انکا بیٹا اور بیوی بھی۔ چنانچہ یہ پوری کمیونٹی کے متعلق ہے کہ انکی عمریں اتنی طویل تھیں۔

حضرت نوح علیہلسلم کی یہ دنیاوی عمر تو سیدھا یہودی و عیسائی بائبل سے مستعار لی گئی ہے:
general-noahs_age_files-patriachs.jpg

http://worldwideflood.org/general/noahs_age.htm

جدید سائنسی تحقیق اور آثار قدیمہ سے یہ دریافت بھی سامنے آئی ہے کہ حضرت نوح علیہلسلم کا یہ کشتی نوح والاواقعہ یہودی بائبل میں قدیم سمیری یعنی تہذیب بابل کی ایک نظم "رزمیہ گلگامش" سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اسمیں اور ابراہیمی ادیان (یہودیت، عیسائیت، اسلام) والے طوفان نوح میں اتنی زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے:
http://ur.wikipedia.org/wiki/رزمیہ_گلگامش
http://en.wikipedia.org/wiki/Noah#Origins

نیز ابراہیمی ادیان کے علاوہ دیگر قدیم مذاہب، تہذیبوں، علاقوں میں بھی طوفان نوح اور کشتی نوح سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_flood_myths
 
مدیر کی آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
سائنس کی مجبوری یہ ہے کہ اس وقت اگر کرہ ارض پر موجود تمام برف پانی بن جائے، تمام آبی بخارات بھی بارش کی شکل میں برس جائیں، تب بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ اونچے اونچے پہاڑ تو کجا، زمین کا زیادہ تر حصہ بھی زیر آب آ سکے
اگر آپ چاہیں تو میں ایک عیسائی دوست کی طرف سے اٹھائے گئے طوفان نوح کے بارے سوالات پیش کر سکتا ہوں، اگر فتویٰ مجھ پر نہ لگے تو :)

بات جب قرآن کی ہو تو ہم دنیاوی اسباب کو کیوں دیکھیں ؟ سائنس یا غیر مسلم مانے یا نہ مانیں۔اس سےہمارے ایمان میں کوئی کمی بیشی نہیں آئے گی۔ ہم سائنس کی ان باتوں پر یقین کریں گے جو قرآن کے مطابق ہوں گی اگر وہ غیر مطابقت اختیار کریں گی تو ہم بھی انہیں چھوڑ دیں گے۔(ہر چیز فانی ہے ،رہے نام اللہ کا):)
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
سائنس کی مجبوری یہ ہے کہ اس وقت اگر کرہ ارض پر موجود تمام برف پانی بن جائے، تمام آبی بخارات بھی بارش کی شکل میں برس جائیں، تب بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ اونچے اونچے پہاڑ تو کجا، زمین کا زیادہ تر حصہ بھی زیر آب آ سکے

جی ہاں۔ سائنس ہر حال میں قوانین الٰہیہ کی پابند ہے۔ لہٰذا سائنسدانوں کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیئے۔۔۔:)
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک اقتباس شئیر کررہا ہوں:
قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کردیا ہو اور پھر اس سے نسل انسانی کا آغاز ہوا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ 30) میں زمین میں ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اگر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہنا چاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اور لوگ پہلے سے زمین میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے اور یہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولقد خلقنٰکم ثم صورنٰکم ۔۔۔ (الاعراف 11) یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ بلکہ یہ فرماتا ہے کہ اے نسل انسانی! میں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ صورنٰکم میں نے تمہیں ترقی دی، تمہارے دماغی قوٰی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہوگئی تو میں نے ایک آدمی کھڑا کردیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہوچکے تھے کیونکہ خلقنٰکم اور صورنٰکم پہلے ہوا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہوا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خداتعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا۔ مگر خداتعالیٰ یہ نہیں فرماتا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میں سے آدم کے متعلق ملائکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہوچکے تھے۔
(سیر روحانی از مرزا بشیرالدین محمود احمد۔ صفحہ 30-31)

کیا یہ ان آیات کی "تفسیر بالرائے" نہیں، جو کہ "قرآنسٹ حضرات" کا خاصہ ہے جو کہ منکرینِ حدیث ہیں۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم
ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن نازل کیا تاکہ آپ کھول کر بیان فرما دیں جو نازل کیا گیا ان کی طرف

چنانچہ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا جناب آدم کے متعلق ان درجنوں سینکڑوں روایاتِ نبوی کو نظر انداز کر کے اس معاملے میں تفسیر بالرائے کرنا کیا درست رہے گا؟


دوسری بات:
کیا اللہ کی خلافت فقط انسانوں تک محدود تھی؟ یا پھر نہ تو اللہ کی خلافت فقط انسانوں تک محدود، اور نہ ہی اللہ کا خلیفہ فقط انسانوں تک محدود۔ بلکہ یہ خلافت چرند، پرند، نباتات، جنات و فرشتے اور کائنات کے ایک ایک ذرے پر تھی جسکا ذکر اللہ اس آیت میں کر رہا ہے۔

اور سورۃ الاعراف کی آیت یہ ہے جو اوپر پیش کی گئی۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿١١
ترجمہ: اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا

اس آیت میں مخاطب جناب آدم ہی ہیں، اور اسی سورۃ الاعراف کی آگے آیت نمبر 27 اس پر گواہ ہے کہ بقیہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔
يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ۔۔۔﴿٢٧
ترجمہ:
اے آدم کی اولاد! خبردار! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں

اگر مرزا صاحب کی تھیوری کو مانا جائے تو یہ پرابلمز پیدا ہو رہی ہیں:

1۔ جناب آدم سے پہلے کے انسانوں کے لیے کوئی ضابطہ حیات ہی نہیں تھا، اور نہ ہی ان پر کوئی نبی اتارا گیا۔

2۔ جناب آدم سے پہلے انسانوں کو شیطان بہکا نہیں سکتا تھا، اور نہ ہی آدم علیہ السلام کے آنے کے بعد ان پہلے سے موجود انسانوں کی نسلوں کو آج تک شیطان بہکا سکتا ہے۔ بلکہ واحد انسان جن پر شیطان کا بس چلتا ہے، وہ آدم کی اولاد سے ہیں۔ اس لئے اللہ فقط آدم کی اولاد کو شیطان کے فتنے سے متنبہ کر رہا ہے بجائے تمام انسانیت کے۔

بنی آدم سے اللہ نے کئی جگہ خطاب کیا۔ اگر تمام انسان آدم کی نسل سے نہیں تو فقط آدم کی نسل سے اللہ کا یہ خطاب (معاذ اللہ) مہمل ٹہر جائے گا۔

سورۃ یس:
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٦٠
ترجمہ: اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

سورۃ الاعراف:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَ۔ٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢
ترجمہ: اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا، کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔

سورۃ الاعراف:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١
ترجمہ: اے آدم کی اولاد! اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں،

سورۃ الاعراف:
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٥
ترجمہ: اے آدم کی اولاد! اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیزگاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم،
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
بات جب قرآن کی ہو تو ہم دنیاوی اسباب کو کیوں دیکھیں ؟ سائنس یا غیر مسلم مانے یا نہ مانیں۔اس سےہمارے ایمان میں کوئی کمی بیشی نہیں آئے گی۔ ہم سائنس کی ان باتوں پر یقین کریں گے جو قرآن کے مطابق ہوں گی اگر وہ غیر مطابقت اختیار کریں گی تو ہم بھی انہیں چھوڑ دیں گے۔(ہر چیز فانی ہے ،رہے نام اللہ کا):)

واقعی آپ جیسے حضرات کے ایمان پر رشک آتا ہے۔
لیکن اس ضمن میں ایک جگہ بحث پھنستی ہے۔ اور وہ ہے سعودیہ کے مفتی اعظم جناب بن باز صاحب کا فتوی کہ "قرآن کے مطابق زمین چپٹی ہے، اور جو کہتے ہیں کہ زمین گول ہے، تو یہ لوگ "مغرب" کی قرآن کے خلاف "سازش" کا شکار ہیں۔
ساقی بھائی،
میں بن باز صاحب کو آپ سے نہیں ملا رہی کہ یہ بے ادبی ہے۔ لیکن یہ کہے بغیر بھی چارہ نہیں کہ بن باز صاحب بھی ایمان کی اونچائی پر کھڑے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ سائنس کی صرف ان باتوں پر یقین کریں گے جو قرآن کے مطابق ہیں۔

بن باز صاحب نے قرآن کی بہت ساری آیات، اور مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ سے ثابت کیا کہ زمین فرش و قالین کی طرح چپٹی ہے۔

سورۃ الحجر:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿١٩
ترجمہ: ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی

سورۃ النبا:
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا ﴿٦
ترجمہ: کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا

بن باز صاحب نے ایسی بہت سی قرآنی آیات سے دلیل دی۔ نیز یہ دلیل دی کہ اسلام کی کئی سو سالہ تاریخ (بشمول صحابہ و سلف) میں سے کسی نے بھی ان آیات کی موجودگی میں زمین کو گول نہیں کہا۔
بن باز صاحب کے ان دلائل میں بہت وزن ہے۔ مگر اسکے باوجود جب وہ کہتے ہیں کہ زمین کو "گول" کہنا مغرب کی قرآن و اسلام کے خلاف "سازش" ہے، اور انکے ایمان کا سٹینڈرڈ بھی یہ ہے کہ سائنس اگر قرآن کے مطابق نہیں تو اسے رد کر دو ۔۔۔ مگر پھر بھی میرے لیے ناممکن ہو چکا ہے کہ بن باز صاحب کے ایمان کی پختگی کو مانتے ہوئے سائنس کو اس معاملے میں ٹھکراؤں۔

چنانچہ ایمان ایک طرف رہا، مگر یقیناً اس معاملے میں آپ کے لیے بھی بہت مشکل ثابت ہو گا کہ سائنس کا انکار کرتے ہوئے زمین کو چپٹا فرش ہی قرار دے پائیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
براہ کرم قرآن اور سائنس کو مکس نہ کیا جائے۔ ورنہ ہمیشہ کی طرح بدمزگی ہی پیدا ہوگی
تاہم اگر مکس کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہر طرح کے سوالات کے لئے تیار رہیئے :)
 

زیک

مسافر
میرے محترم بھائی
سائنس طوفان نوح کو نہیں مانتی ۔۔۔ ۔۔۔ میرے لیئے انتہائی معلوماتی ہے ۔
کیا سائنس اس کو جھٹلاتی ہے کہ ایسا کوئی طوفان نہیں آیا ۔
یا ایسا طوفان آنا سائنس کی نگاہ میں نا ممکنات میں ہے ۔۔
کچھ تفصیل سے آگاہ کریں تاکہ علم میں اضافہ ہو سکے ۔
اک التجا کسی انگلش سائٹ کا ربط نہ دے دیجئے گا ۔ گوگل چاچا کا ترجمہ بس کام چلاؤ ہی محسوس ہوتا ہے ۔
ابھی پچھلے دنوں ہی کہیں پڑھا تھا کہ نوح علیہ السلام کی کشتی آثار قدیمہ والوں نے دریافت کر لی ہے ۔
اگر طوفان نوح اتنا ہی بڑا تھا جتنا بائبل اور قرآن میں بتایا جاتا ہے تو اس کے آثار مٹی اور پتھر کی تہوں میں نظر آنے چاہیئیں مگر ایسا نہیں ہے۔

اگر نوح کی کشتی میں صرف جانوروں اور انسانوں کے صرف چند جوڑے ہی بچائے گئے تو آج کے انسان اور جانور سب ان کی اولاد ہیں۔ یہ باٹل نک ہمیں ان سب کے ڈی این اے میں واضح ہونا چاہیئے مگر ندارد

اور بھی بہت نکات ہیں مگر محفل پر آجکل کچھ لکھنا محال ہے اس کی سست رفتاری کی وجہ سے
 

ساقی۔

محفلین
واقعی آپ جیسے حضرات کے ایمان پر رشک آتا ہے۔
لیکن اس ضمن میں ایک جگہ بحث پھنستی ہے۔ اور وہ ہے سعودیہ کے مفتی اعظم جناب بن باز صاحب کا فتوی کہ "قرآن کے مطابق زمین چپٹی ہے، اور جو کہتے ہیں کہ زمین گول ہے، تو یہ لوگ "مغرب" کی قرآن کے خلاف "سازش" کا شکار ہیں۔
ساقی بھائی،
میں بن باز صاحب کو آپ سے نہیں ملا رہی کہ یہ بے ادبی ہے۔ لیکن یہ کہے بغیر بھی چارہ نہیں کہ بن باز صاحب بھی ایمان کی اونچائی پر کھڑے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ سائنس کی صرف ان باتوں پر یقین کریں گے جو قرآن کے مطابق ہیں۔

بن باز صاحب نے قرآن کی بہت ساری آیات، اور مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ سے ثابت کیا کہ زمین فرش و قالین کی طرح چپٹی ہے۔

سورۃ الحجر:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿١٩
ترجمہ: ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی

سورۃ النبا:
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا ﴿٦
ترجمہ: کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا

بن باز صاحب نے ایسی بہت سی قرآنی آیات سے دلیل دی۔ نیز یہ دلیل دی کہ اسلام کی کئی سو سالہ تاریخ (بشمول صحابہ و سلف) میں سے کسی نے بھی ان آیات کی موجودگی میں زمین کو گول نہیں کہا۔
بن باز صاحب کے ان دلائل میں بہت وزن ہے۔ مگر اسکے باوجود جب وہ کہتے ہیں کہ زمین کو "گول" کہنا مغرب کی قرآن و اسلام کے خلاف "سازش" ہے، اور انکے ایمان کا سٹینڈرڈ بھی یہ ہے کہ سائنس اگر قرآن کے مطابق نہیں تو اسے رد کر دو ۔۔۔ مگر پھر بھی میرے لیے ناممکن ہو چکا ہے کہ بن باز صاحب کے ایمان کی پختگی کو مانتے ہوئے سائنس کو اس معاملے میں ٹھکراؤں۔

چنانچہ ایمان ایک طرف رہا، مگر یقیناً اس معاملے میں آپ کے لیے بھی بہت مشکل ثابت ہو گا کہ سائنس کا انکار کرتے ہوئے زمین کو چپٹا فرش ہی قرار دے پائیں۔

بہت شکریہ!
میں بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
والسلام علیکم!
 
Science (from Latin scientia, meaning "knowledge​
سائِنْس {سا + اِنْس} (انگریزی)
Science، سائِنْس
اصلاً انگریزی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں انگریزی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1895ء کو "مجموعہ نظم بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر، مؤنث - واحد)
جمع: سائِنْسیں {سا + اِن + سیں (یائے مجہول)}
جمع استثنائی: سائِنْسِز {سا + اِن + سِز}
جمع غیر ندائی: سائِنْسوں {سا + اِن + سوں (واؤ مجہول)}
معانی
موجودہ نظام میں علم کے تین بڑے صیغوں میں سے ایک بڑا صیغہ جس کا موضوع حقائق اشیاء کی دریافت اور تعلیم و تربیت ہے تاکہ قوانین قدرت تک رہنمائی اور صداقتوں تک رسائی حاصل کی جا سکے، تجرباتی حکمت، علوم مادی کے مجموعے کا نام۔

مذہب کی اگر بات کی جائے تو ہم تو یقین کے ساتھ صرف اپنے مذہب اسلام کی بات کر سکتے ہیں۔
میری سمجھ یہ ہے کہ اسلام اور سائنس میں ٹکراؤ یا اختلاف ڈھونڈنے سے پہلے ہمیں یہ دھیان میں رکھنا چاہیئے سائنس (معلو م )علم ہے ۔ اور مذہب
مَذْہَب {مَذ + ہَب} (عربی)
ذ ہ ب، مَذْہَب
عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً 1564ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
جمع: مَذاہِب {مَذا + ہِب}
جمع غیر ندائی: مَذْہَبوں {مَذ + ہَبوں (و مجہول)}
معانی
1. (لفظاً) گزرنا، جانے کی جگہ؛ (مجازاً) راستہ، راہ (کسی شخص یا گروہ کا) مسلک، آئین، طریق۔
"اس دور میں لوگوں نے ابوالحسن الاشعری کا مذہب اپنا لیا۔"، [1]
2. عقیدہ، دین، دھرم۔
"آپ کسی بھی مذہب کے مسلک سے متعلق ہوں پاکستان کی ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"، [2]
3. کیش، مشرب، مت۔
؎ مشرب وفا شعاری
مذہب ہے حق گزاری، [3]
4. رائے، نظریہ۔
"ابن رشد کہتا ہے کہ یہ مذہب ارسطو کی رائے کے خلاف ہے۔"، [4]

مَذْہَبِ اِسْلام {مَذ + ہَبے + اِس + لام} (عربی)
اسم
معرفہ
[ترمیم] معانی
1. دین اسلام، مسلمانوں کا مذہب۔ مسلمانوں کا عقیدہ ، مسلمانوں کا دین

جوکہ ہمارے ایمان و عقیدہ کا معاملہ ہے، اور ہمارادین ہمیں قرآن اور حدیث سے ملتا ہے، اور اس میں سے بھی ہم اتنا ہی سمجھ پاتے ہیں جتنا کہ ہماری عقل اور شعور ہمیں اجازت دیتی ہے۔ ایک بات پر تو ہمارا ایمان ہے (ایمان کے بنیادی ارکان پر ایمان لانے کے بعد) کہ دینِ اسلام (اور یقیناً دوسرے مذاہب میں بھی کیوں کہ ان کے ماننے والے بھی انہی کو مانتے ہیں جو انبیاءِ کرام ہیں اور اُن پر بھی ہم ایمان لاتے ہیں) میں جھوٹ یا غلط ذرّہ یا نقطہ بھی نہیں ۔ جن چیزوں میں ہم سائنس اور اسلام کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں ان میں ایک بات تو لازم اور طے شدہ ہے جسقدر علم ہمیں قرآن نے دیا ہے وہی درست ہے یہ ہو سکتا ہے بحیثیت انسان ہم اسےسمجھ نہ سکے ہوں اب تک ورنہ اسی شہ کے بارے میں جو نتائج سائنسدانوں نے اب تک اخذ کئے ہوں وہ حتمی اور درست نہ ہوں، اختلاف صرف اس وجہ سے ہے دو لوگ جو ان نتائج پر بحث کررہے ہیں ان میں سے ایک یا دونوں کا ذاتی علم زیرِ بحث شہ کے بارے میں نامکمل ہو، بہت سے معاملات ایسے ہیں سائنسدان اب آکر ان نتائج پر پہنچے ہیں جس کا اعلان اسلام نے بذریعہ قرآن ۱۴۰۰ سال پہلے اعلان کردیا تھا، اور بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جن کے بارے میں مفسریں قرآن آج سائنس سے متفق ہیں جبکہ پہلے نہیں تھے۔ مثالیں دے کر بحث پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ اور اللہ ہی سب (سے زیادہ) علم رکھنے والا ہے
 

رانا

محفلین
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ، فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
" اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیا"
950 سال کے بعد طوفان آیا اور حضرت نوح اس کے بعد بھی زندہ رہے
یہ غلط فہمی اس لئے لگ رہی ہے کہ ایک ہی لفظ کا مطلب پہلے "تو" اور بعد میں دونوں جگہ "پھر" کیا گیا ہے۔ جو لفظ کے ترجمے کے لحاظ سے درست تو ہے لیکن اس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے جیسے وہ ان میں جسمانی طور پر نو سو پچاس سال رہتے رہے اور پھر طوفان آیا۔ جبکہ شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تینوں جگہ "پس" کا ترجمہ کیا ہے۔ مسئلہ اس وجہ سے ہی آتا ہے کہ پہلے ایک عقیدہ ذہن میں بنا لیا جاتا ہے تو پھر اسکے مطابق ہی ذہن سوچتا ہے۔ جبکہ یہاں اگر خالی الذہن ہو کر اس ترجمے کو دیکھا جائے تو کسی کا دھیان بھی نہیں جائے گا اتنی لمبی جسمانی حیات پر کہ مشاہدہ اور سنت اللہ اس کے برخلاف ہے۔ یہاں ان کے جسمانی رہنے کا نہیں بلکہ روحانی رہنے کا ذکر ہے اورصرف ان کی تعلیمات کا زمانہ بتایا گیا ہے۔ اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے تو پھر اور بہت سی لاینحل گتھیاں سامنے آتی ہیں کہ اتنی لمبی تبلیغ جو قریب ہزار برس پر محیط ہو اس قدر ڈھیل!! اور اس قوم میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اتنی لمبی تبلیغ کی گئی۔ پھر تو لوط اور عاد اور موسیٰ کی بستیاں روزقیامت اللہ کا گریبان پکڑ لیں گی کہ کیوں ہمیں اتنی لمبی تبلیغ نہ کی گئی کہ شائدچار پانچ سو سال کے بعد ہمیں سمجھ آہی جاتی اورہم ایمان لے آتے؟

پھر اگر یہ نو سو پچاس سال سے ان کی جسمانی حیات کا زمانہ ہی مراد لینا ہے تو سورہ یسین کی اس آیت سے کیسے مطابقت کریں گے:
"اور جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو جبلی طاقتوں کے لحاظ سے کم کرتے چلے جاتے ہیں۔ پس کیا وہ عقل نہیں کرتے؟" (سورہ یسین آیت 68 )
یہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے متعلق اپنی ایک سنت کا ذکر کردیا ہے جس کا مشاہدہ اپنے ہر طرف آپ کرسکتے ہیں۔ 120سال عمر پانے والی خاتون کو شائد آپ نے بھی ٹی وی پر دیکھا ہو۔ کیا وہ کسی کام کے قابل نظر آتی تھی؟ اس پر قیاس کرکے ذرا دو سو سال کی عمر کے آدمی کا تصور کریں اور پھر سوچیں ایک 950 سال کی عمر کے آدمی کے متعلق جو خدا تعالیٰ کی اس بیان کردہ سنت کے نیچے آکر کس قابل رہ گیا ہوگا کہ اس سے اتنے لمبے عرصے تک صرف تبلیغ ہی نہیں کرائی جارہی بلکہ آخری عمر میں کشتی بنانے کی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی؟ قرآنی آیات کی تفسیر کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی شان کو مد نظر رکھا جانا ضروری ہے کہ کیا یہ تفسیر اس کی اعلیٰ و ارفع ذات کی طرف منسوب بھی کی جاسکتی ہے؟ کوئی اگر آپ کی طرف یہ بات منسوب کرے کہ آپ کے خیال کے میں ظہیر عباس اپنی موجودہ عمر میں بھی اگر کرکٹ کھیلے تو شاہد آفریدی سے کم نہیں رہے گا تو لوگ آپ کی ذہنی حالت پر شبہ ہی کریں گے اور دوسری طرف آپ بھی پسند نہ کریں گے کہ آپ کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ایسی تفسیر منسوب کرتے ہیں جو اسکی حکیمانہ شان سے بعید نظر آئیں۔ وہ بھی اس صورت میں کہ جب صاف اور سیدھا مطلب آیات کا سامنے نظر آتا ہے جس میں کوئی کجی نہیں اور وہ دوسری آیات کے مطابق بھی ہے۔ لیکن اگر آپ کہہ دیں کہ سورہ یسین میں بیان کردہ سنت صرف بعد کے انسانوں کے لئے ہے اور نوح کے زمانے کے انسان اس سنت سے مستثنیٰ ہیں تو آپ بہرحال اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں۔
یہاں ضمنا یہ ذکر کردوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے ہی یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے تو اس سے میرے خیال میں یہ بھی مراد ہے کہ اس میں معنوی اور تفسیری غلطیاں بھی نہیں کی جاسکیں گی۔ یعنی اگر کسی آیت کا کوئی غلط ترجمہ یا تفسیر کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی بھی جائے گی تو دوسری آیات سامنے آکرروک دیں گی۔ اس طرح قرآن کی آیات ہی قرآن کے محافظ کا کردار بھی ادا کررہی ہیں۔ جیسے اوپر حضرت نوح کی جسمانی حیات کو نوسوپیچاس سال تک کھینچے کی کوشش کی گئی تو سورہ یٰسین کی آیت نے سامنے آکر روک دیا۔
 

رانا

محفلین
کیا یہ ان آیات کی "تفسیر بالرائے" نہیں، جو کہ "قرآنسٹ حضرات" کا خاصہ ہے جو کہ منکرینِ حدیث ہیں۔
منکرین حدیث سے تشبیہ دیا جانا میرے لئے رنج کی بات ہے۔ میرا اللہ کے فضل سے قرآن پر ایمان ہے اور احادیث کے متعلق یقین کہ وہ اس قرآن کے نازل کرنے والے کے برگزیدہ رسول کے ارشادات ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل سے اس لحاظ سے ممتاز ہوں کہ حدیث کے ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں گروہوں نے اس معاملے میں افراط اور تفریط سے کام لیا ہے۔ ایک نے حدیث کو قرآن پر مقدم کیا اور کہا کہ حدیث سے ہی ہم قرآن کا منشاء سمجھ سکتے ہیں۔ لہذا انہوں نے حدیث کو معیار اور کسوٹی بنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ دین کے سیکھنے کے لئے حدیث کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دونوں گروہ راہ اعتدال سے منحرف ہوگئے۔ جبکہ ہمارا مسلک ہے کہ قرآن مقدم ہے اور قرآن معیار ہے نہ کہ حدیث۔ قرآن خدا کے منہ کی باتیں ہیں اور حدیث اس کے پیارے رسول کے ارشادات۔ پس قرآن بھی پڑھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر بھی عمل کریں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ہربات خدا کی تائید یافتہ ہوتی ہے۔ ہم صحیح بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں۔ لیکن اگر کسی حدیث کا مضمون قرآن سے ٹکرائے گا تو ہم اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھیں گے نہ کہ اس آیت کو اس حدیث کی کسوٹی پر جانچیں۔ قرآن حدیث پر قاضی ہے۔ اگر اس حدیث کے کوئ ایسی معنی کئے جاسکتے ہوں گے جو قرآن کے مطابق ہوں تو ان کو اختیار کیا جائے گا لیکن اگر باوجود کوشش کہ اس حدیث کو قرآن کے مطابق نہ کیا جاسکے تو یہی سمجھا جائے گا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں۔
تفسیر بالرائے میں نہیں سمجھ سکا کہ کیوں کہا ہے۔ جن درجنوں احادیث کو نظر انداز کرنے کی آپ نے بات کی ہے اس کا آگے ذکر کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو اپنا خلیفہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی نیابت کو زمین میں قائم کرتے ہیں اس کے احکامات کے مطابق۔

اور سورۃ الاعراف کی آیت یہ ہے جو اوپر پیش کی گئی۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿١١
ترجمہ: اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا

اس آیت میں مخاطب جناب آدم ہی ہیں، اور اسی سورۃ الاعراف کی آگے آیت نمبر 27 اس پر گواہ ہے کہ بقیہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔
آپ نے کہا کہ اس آیت میں جناب آدم ہی مخاطب ہیں تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ اوپر عربی آیت میں جس لفظ "کُم" کو میں نے سرخ رنگ دیا ہے وہ ایک یا دو افراد کے لئے بولا ہی نہیں جاتا۔ کم از کم تین یا زیادہ کے گروہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لہذا یہ بات تو طے ہوئی کہ یہاں نسل انسانی مخاطب ہے، انسانوں کو تخلیق کرنے پھر ٹھیک ٹھاک کرنے کا ذکر ہے اور پھر آدم کا واقعہ ہوا ہے کہ ان میں سے آدم کے متعلق کہا گیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اب مجھے یہ تو علم نہیں کہ آپ جن درجنوں احادیث کی بات کررہی ہیں ان میں کیا مضمون ہے لیکن اگر وہ اس آیت سے متصادم ہے کہ پہلا انسان ہی آدم تھا تو آپ ہی بتائیں کہ اس آیت کے ہوتے ہوئے ایسی احادیث کو کیونکر قبول کیا جائے؟ کیا یہ امکان نہیں کہ حدیث سننے والے نے صحیح نہ سنا ہو یا سرے سے ہی غلط سنا ہو!! اگر کوئی حدیث اس آیت سے مطابقت رکھتی ہے تو وہی قبول کی جائے گی۔

اگر مرزا صاحب کی تھیوری کو مانا جائے تو یہ پرابلمز پیدا ہو رہی ہیں:
1۔ جناب آدم سے پہلے کے انسانوں کے لیے کوئی ضابطہ حیات ہی نہیں تھا، اور نہ ہی ان پر کوئی نبی اتارا گیا۔
2۔ جناب آدم سے پہلے انسانوں کو شیطان بہکا نہیں سکتا تھا، اور نہ ہی آدم علیہ السلام کے آنے کے بعد ان پہلے سے موجود انسانوں کی نسلوں کو آج تک شیطان بہکا سکتا ہے۔ بلکہ واحد انسان جن پر شیطان کا بس چلتا ہے، وہ آدم کی اولاد سے ہیں۔ اس لئے اللہ فقط آدم کی اولاد کو شیطان کے فتنے سے متنبہ کر رہا ہے بجائے تمام انسانیت کے۔
یہ بالکل درست ہے کہ حضرت آدم سے پہلے کے انسانوں کے لئے کوئی ضابطہ حیات نہیں تھا۔ کیونکہ وہ انسان تو ابھی ارتقائی منازل سے گزررہا تھا وہ ضابطہ اخلاق کے تصور سے ہی نابلد تھا۔ اور ابھی اس کا دماغ ارتقا کی اس منزل پر نہیں پہنچا تھا جہاں وہ ضابطہ اخلاق اور شریعت کو سمجھ سکتا۔ لیکن جیسے ہی انسان اپنے ارتقائی دور میں انسان اس مقام پر پہنچا جہاں اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہتا تھا تو پھر ان میں سے بہترین دماغ کو اپنا نمائندہ چُن کر اللہ تعالیٰ نے ضابطہ اخلاق جاری کردیا۔ کیا ایک چند دن کے بچے کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق ہوتا ہے؟ جب وہ پرورش پاکر اس مقام پر پہنچے گا جب وہ ضابطہ اخلاق کو سمجھ سکے تبھی نافذ ہوگا۔ تو وہ ابتدائی انسان جو ابھی ارتقائی دور سے گزر رہا ہے اسے آپ اس بچے ہی کی طرح تصور کریں اگر بچے کو رعایت دی جاسکتی ہے تو اسے کیوں نہیں کہ وہ رعایت کا زیادہ مستحق ہے کہ وہ تو بے چارہ ابھی ارتقائی منازل ہی طے کررہا ہے۔ آپ کے جن دو نکات کا میں نے اقتباس لیا ہے وہاں آدم کی جگہ چند دن کے بچہ کے الفاظ لکھ کر دوبارہ پڑھیں تو وہی اعتراض آج بھی موجود ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ جس نیندرتھل کا آپ نے ابتدائی مراسلے میں ذکر کیا وہ ضابطہ اخلاق اور شریعت کا بار اٹھانے کے اہل ہوچکا تھا؟ اگر وہ اس قابل ہوتا تو دنیا سےہی کیوں نابود ہوجاتا۔ جس طرح ہم پیدائش سے پہلے فوت ہونے والے بچے، چند دن کے بچے اور بالغ کے درمیان ایک غیر مرئی لکیر مانتے ہیں جہاں سے ضابطہ اخلاق شروع ہوگا تو یہ وہاں اس سے زیادہ ضروری ہے جہاں ارتقائی منازل کی تکمیل کے مراحل سے انسان گزر رہا ہے۔

بنی آدم سے اللہ نے کئی جگہ خطاب کیا۔ اگر تمام انسان آدم کی نسل سے نہیں تو فقط آدم کی نسل سے اللہ کا یہ خطاب (معاذ اللہ) مہمل ٹہر جائے گا۔
بنی آدم کے خطاب میں کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ نے سائنسی حقائق سے بات شروع کی تھی تو یہ بھی تسلیم ہوگا کہ سائنس ہی کے مطابق ابتدائی انسان غاروں میں رہا کرتا تھا۔ جب وہ ایک انسان کو اپنا رہنما یا نبی مان کر ضابطہ اخلاق کے تحت زندگی گزارنے کے قابل ہوگیا تو اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا۔ عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے۔ ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیں۔ اور دوسرا مادہ ادمہ ہے اور ادمہ کے معنی گندمی رنگ کے ہیں۔ پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں۔ اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہوا اور سطح زمین پر رہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے رنگ پر بھی اثر پڑتا ہے۔ پس آدم نام اس لئے رکھا گیا کہ کھلی زمین پر مکان بنا کر رہنے لگا۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے سمجھانے کے لئے سب کو بنی آدم کہہ کر خطاب کیا تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ پابند نہیں کہ ذاتی نام سے ہی خطاب کرتا، وہ بھی اس صورت میں کہ جب ایک سے زائد آدمیوں کی نسلوں کو خطاب کرنا ہو پھر خود سوچیں خطاب کے لئے صفاتی نام بہتر تھا یا ذاتی۔ یہاں بطور دلچسپی حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک کشف کا بھی ذکر کردیتا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حج کے دوران انہوں نے کشفی طور پر ایک شخص کو دیکھا جس پر گمان ہوا کہ وہ آدم علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ آدم ہیں؟ تو جواب ملا کہ تم کس آدم کے متعلق پوچھتے ہو؟ مجھ سے پہلے چالیس آدم گزر چکے ہیں۔ یہ مشہور کشف ہے اس لئے حوالہ ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔
 
آخری تدوین:
جنابِ نوح علیہ السلام کا 950 سال تک اپنی قوم میں رہ کر تبلیغ کرنا

وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا...﴿١٤﴾...سورة العنکبوت
''ہم نے نوح ؑ کو اسکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس سال کم ایک ہزارسال انکے درمیان رہا۔''

950 سال تبلیغ کے بعد جب طوفان آیا تو اس وقت جناب نوح بذات خود زندہ تھے اور انکا بیٹا اور بیوی بھی۔ چنانچہ یہ پوری کمیونٹی کے متعلق ہے کہ انکی عمریں اتنی طویل تھیں۔
طوفان کے آنے کے بعد حضرت نوحؑ کتنے برس مزید زندہ رہے ؟
 

arifkarim

معطل
طوفان کے آنے کے بعد حضرت نوحؑ کتنے برس مزید زندہ رہے ؟
قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر طوفان نوح کے بعد ختم ہو جاتا ہے، جبکہ یہودی و عیسائی بائبل کے مطابق آپ 350 سال تک مزید زندہ رہے:
http://www.answering-islam.org/Quran/Contra/noahs_age.html
http://worldwideflood.org/general/noahs_age.htm

لیکن جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ طوفان نوح اور کشتی نوح والا واقعہ تہذیب بابل کی ایک سمیری نظم رزمیہ گالگامیش سے استعار لیا گیا ہے یوں اس واقعہ کو حقیقی تاریخی واقعہ تصور کرنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر مہوش علی کے مطابق قرآن پاک سے زمین کا گول کی بجائے چپٹی "ثابت" کرنا صحیح نہیں ہے :)
http://en.wikipedia.org/wiki/Epic_of_Gilgamesh
 
مدیر کی آخری تدوین:

رانا

محفلین
لیکن جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ طوفان نوح اور کشتی نوح والا واقعہ تہذیب بابل کی ایک سمیری نظم رزمیہ گالگامیش سے استعار لیا گیا ہے یوں اس واقعہ کو حقیقی تاریخی واقعہ تصور کرنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر مہوش علی کے مطابق قرآن پاک سے زمین کا گول کی بجائے چپٹی "ثابت" کرنا صحیح نہیں ہے :)
http://en.wikipedia.org/wiki/Epic_of_Gilgamesh
حقیقی واقعہ تصور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بائبل کی روایات کے مطابق غیر معمولی بڑے طوفان کو زبردستی قرآن کے سر منڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی طوفان میں کسی بستی میں پائے جانے والے چھوٹے پہاڑ کا ڈوب جانا کوئی بعید از قیاس بات تو نہیں۔تمام دنیا کے پہاڑوں کو ڈبونا ہی کیوں ضروری ٹھہرا جبکہ قرآن میں ایسا کوئی ذکر نہیں۔ سمیری نظم کا جو آپ ذکر کررہے ہیں تو اس کی تفاصیل سے قطع نظر کہ رزمیہ نظموں میں جس قدر مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اس سے سب واقف ہیں، کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کے علاوہ بھی کئی انبیاء کی بستیوں کو طوفان کا عذاب دیا گیا ہو اور ان انبیاء کو کشتی کے ذریعے نجات دی گئی ہو! آخر ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیاء آئے، ذرا تصور تو کریں پوری دنیا میں ایک صدی کے حصے میں کتنے انبیاء بنتے ہیں! جبکہ قرآن کہتاہے کہ ہر بستی ہر قوم ہر ملک میں نبی بھیجے گئے اور ان ایک لاکھ چوبیس ہزار میں سے صرف 24 کے قریب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور مثال کیا ہے۔ اگر آپ یہ خیال کریں کہ ہر نبی کی قوم کو نئے طریقے سے عذاب دیا گیا ہوگا تو پھر ہزاروں طریقے ماننا پڑیں گے۔ اس لئے بعید نہیں کہ حضرت نوح کے علاوہ دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ انبیاء ایسے بھی ہوں گے جن کی قوموں پر طوفان آیا ہو اور وہ نوح کی طرح بچائے گئے ہوں اور یہ واقعات بعد میں سینہ بہ سینہ نظموں اور کہانیوں کی شکل میں ڈھل گئے ہوں۔ اب قرآن کوئی تاریخ کی کتاب تو ہے نہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے ایک ایک کا ذکر کرتا۔ اس نے بطور مثال ایک نمایاںواقعہ لیا اور اس کے نبی اور قوم کے حالات بیان کردئیے۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
منکرین حدیث سے تشبیہ دیا جانا میرے لئے رنج کی بات ہے۔ میرا اللہ کے فضل سے قرآن پر ایمان ہے اور احادیث کے متعلق یقین کہ وہ اس قرآن کے نازل کرنے والے کے برگزیدہ رسول کے ارشادات ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل سے اس لحاظ سے ممتاز ہوں کہ حدیث کے ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں گروہوں نے اس معاملے میں افراط اور تفریط سے کام لیا ہے۔ ایک نے حدیث کو قرآن پر مقدم کیا اور کہا کہ حدیث سے ہی ہم قرآن کا منشاء سمجھ سکتے ہیں۔ لہذا انہوں نے حدیث کو معیار اور کسوٹی بنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ دین کے سیکھنے کے لئے حدیث کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دونوں گروہ راہ اعتدال سے منحرف ہوگئے۔ جبکہ ہمارا مسلک ہے کہ قرآن مقدم ہے اور قرآن معیار ہے نہ کہ حدیث۔ قرآن خدا کے منہ کی باتیں ہیں اور حدیث اس کے پیارے رسول کے ارشادات۔ پس قرآن بھی پڑھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر بھی عمل کریں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ہربات خدا کی تائید یافتہ ہوتی ہے۔ ہم صحیح بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں۔ لیکن اگر کسی حدیث کا مضمون قرآن سے ٹکرائے گا تو ہم اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھیں گے نہ کہ اس آیت کو اس حدیث کی کسوٹی پر جانچیں۔ قرآن حدیث پر قاضی ہے۔ اگر اس حدیث کے کوئ ایسی معنی کئے جاسکتے ہوں گے جو قرآن کے مطابق ہوں تو ان کو اختیار کیا جائے گا لیکن اگر باوجود کوشش کہ اس حدیث کو قرآن کے مطابق نہ کیا جاسکے تو یہی سمجھا جائے گا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں۔

آپکی جو بھی رائے ہے، میں اسکا احترام کرتی ہوں، مگر اس سے اختلاف رکھنے کی صورت میں پوری آزادی کے ساتھ اپنے دلائل پیش کرنے کا حق رکھتی ہوں۔ چنانچہ میں یہاں فقط اپنی رائے بیان کر رہی ہوں، آپ اسے پرسنل نہ لیجئے گا، بلکہ میں فقط اپنے حق کا استعمال کر رہی ہوں۔

آپکا طریقہ کار قرآنسٹ حضرات سے بھی ایک ہاتھ آگے ہے اور آپ کو قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کو بھی اپنی مرضی کے مطابق manipulate کرنے کی آزادی فراہم کر رہا ہے۔
قرآنسٹ حضرات کی قرآنی آیات کی manipulation کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی قرانی آیات سے کھلواڑ کرتے ہوئے ان سے اپنی مرضی کے معنی نکال لیتا ہے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق توڑ مڑوڑ لیتا ہے۔ 2 قرآنسٹ حضرات ایک ہی آیت سے 2 مختلف اپنی اپنی مرضی کے مفہوم نکال کر پیش کر رہے ہوتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہوتا کہ بس وہ ہی ٹھیک ہے۔
آپ حضرات ان قرآنسٹ حضرات سے ایک قدم یوں آگے ہیں کہ قرآن کی آیت کا اپنی مرضی کا مفہوم نکال لینے کے بعد کوئی حدیث اگر آپکے مفہوم کے لیے استعمال ہو سکے تو وہ قابل قبول ہو جاتی ہے، ورنہ مردود ہو جاتی ہے۔ حدیث کے صحیح یا ضعیف یا بخاری کے اصح الکتب ہونے کا فقط خالی خولی دعویٰ ہی ہے، وگرنہ طریقہ کار آپ نے ایسا بنایا ہے جس میں آپ ہر چیز آپکی مرضی اور مفہوم کے لیے استعمال ہو سکے۔

تفسیر بالرائے میں نہیں سمجھ سکا کہ کیوں کہا ہے۔ جن درجنوں احادیث کو نظر انداز کرنے کی آپ نے بات کی ہے اس کا آگے ذکر کروں گا۔
بہت سادہ سی بات ہے۔ ایک ہے قرآن کو رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کی روشنی میں سمجھنا جو کہ صحابہ کا طریقہ کار تھا۔ دوسرا ہے اپنی مرضی کے مطابق قرآنی آیات کا مفہوم نکالنا اور پھر رسول (ص) کی روایت اگر آپکے مفہوم سے مل جائے تو بسم اللہ وہ قابل قبول، وگرنہ وہ روایتِ نبوی رد کر دی جاتی ہے۔ جبکہ آپکے اخذ کردہ مفہوم سے مطابقت رکھنے پر ضعیف سے ضعیف روایت بھی فوراً قابل قبول، ۔۔۔ بلکہ ضعیف روایت ایک طرف رہی، کشف نامی چیز بھی فوراً قابل قبول۔

اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو اپنا خلیفہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی نیابت کو زمین میں قائم کرتے ہیں اس کے احکامات کے مطابق۔
یہ ہمارا موضوع نہیں تھا۔ بلکہ موضوع یہ تھا کہ اللہ اس آیت میں زمین پر صرف انسانوں پر اپنا انسان خلیفہ مقرر کر رہا تھا، یا پھر دیگر مخلوقات پر انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کر رہا تھا۔

آپ نے کہا کہ اس آیت میں جناب آدم ہی مخاطب ہیں تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ اوپر عربی آیت میں جس لفظ "کُم" کو میں نے سرخ رنگ دیا ہے وہ ایک یا دو افراد کے لئے بولا ہی نہیں جاتا۔ کم از کم تین یا زیادہ کے گروہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لہذا یہ بات تو طے ہوئی کہ یہاں نسل انسانی مخاطب ہے، انسانوں کو تخلیق کرنے پھر ٹھیک ٹھاک کرنے کا ذکر ہے اور پھر آدم کا واقعہ ہوا ہے کہ ان میں سے آدم کے متعلق کہا گیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اب مجھے یہ تو علم نہیں کہ آپ جن درجنوں احادیث کی بات کررہی ہیں ان میں کیا مضمون ہے لیکن اگر وہ اس آیت سے متصادم ہے کہ پہلا انسان ہی آدم تھا تو آپ ہی بتائیں کہ اس آیت کے ہوتے ہوئے ایسی احادیث کو کیونکر قبول کیا جائے؟ کیا یہ امکان نہیں کہ حدیث سننے والے نے صحیح نہ سنا ہو یا سرے سے ہی غلط سنا ہو!! اگر کوئی حدیث اس آیت سے مطابقت رکھتی ہے تو وہی قبول کی جائے گی۔

قرآن "تحریر" کی صورت نازل نہیں ہوا، بلکہ "تقریر" کی صورت میں نازل ہوا، جسکا اسلوب یہ تھا کہ کبھی واحد کے صیغے کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ مولانا مودودی نے ترجمان القرآن میں اس چیز کے فرق کو بیان کیا ہے جو کہ یہاں پیش کر رہی ہوں:۔

تقریر میں متکلم اور مخاطب بار بار بدلتے ہیں ۔ مقرر اپنے زور کلام میں موقع و محل کے لحاظ سے کبھی ایک ہی گروہ کا ذکر بصیغۂ غائب کرتا اور کبھی اسے حاضر سمجھ کر براہِ راست خطاب کرتا ہے ۔ کبھی واحد کا صیغہ بولتا ہے اور کبھی جمع کے صیغے استعمال کرنے لگتا ہے۔ کبھی متکلم وہ خود ہو تا ہے، کبھی کسی گروہ کی طرف سے بولتا ہے، کبھی کسی بالا ئی طاقت کی نمائندگی کرنے لگتا ہے ، اور کبھی وہ بالائی طاقت خود اس کی زبان بولنے لگتی ہے تقریر میں یہ چیز ایک حسن پیدا کرتی ہے، مگر تحریر میں آکر یہی چیز بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ یہی وجوہ ہیں کہ جب کسی تقریر کو تحریر کی شکل میں لا یا جاتا ہے تو اس کو پڑھتے وقت آدمی لازماً ایک طرح کی بے ربطی محسوس کرتا ہے اور یہ احساس اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے جتنا اصل تقریر کے حالا ت اور ماحول سے آدمی دور ہو تا جاتا ہے ۔ خود قرآن عربی مں بھی ناواقف لوگ جس بے ربطی کی شکایت کرتے ہیں ، اس کی اصلیت یہی ہے ۔ وہاں تو اس کو دور کرنے کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ تفسیری حواشی کے ذریعہ سے ربطِ کلام کو واضح کیا جائے ، کیونکہ قرآن کی اصل عبارت میں کوئی کمی بیشی کرنا حرام ہے لیکن کسی دوسری زبان میں قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے اگر تقریر کی زبان کو احتیاط کے ساتھ تحریر کی زبان میں تبدیل کرلیا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ یہ بے ربطی دور ہو سکتی ہے ۔

یہ بالکل درست ہے کہ حضرت آدم سے پہلے کے انسانوں کے لئے کوئی ضابطہ حیات نہیں تھا۔ کیونکہ وہ انسان تو ابھی ارتقائی منازل سے گزررہا تھا وہ ضابطہ اخلاق کے تصور سے ہی نابلد تھا۔ اور ابھی اس کا دماغ ارتقا کی اس منزل پر نہیں پہنچا تھا جہاں وہ ضابطہ اخلاق اور شریعت کو سمجھ سکتا۔ لیکن جیسے ہی انسان اپنے ارتقائی دور میں انسان اس مقام پر پہنچا جہاں اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہتا تھا تو پھر ان میں سے بہترین دماغ کو اپنا نمائندہ چُن کر اللہ تعالیٰ نے ضابطہ اخلاق جاری کردیا۔ کیا ایک چند دن کے بچے کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق ہوتا ہے؟ جب وہ پرورش پاکر اس مقام پر پہنچے گا جب وہ ضابطہ اخلاق کو سمجھ سکے تبھی نافذ ہوگا۔ تو وہ ابتدائی انسان جو ابھی ارتقائی دور سے گزر رہا ہے اسے آپ اس بچے ہی کی طرح تصور کریں اگر بچے کو رعایت دی جاسکتی ہے تو اسے کیوں نہیں کہ وہ رعایت کا زیادہ مستحق ہے کہ وہ تو بے چارہ ابھی ارتقائی منازل ہی طے کررہا ہے۔ آپ کے جن دو نکات کا میں نے اقتباس لیا ہے وہاں آدم کی جگہ چند دن کے بچہ کے الفاظ لکھ کر دوبارہ پڑھیں تو وہی اعتراض آج بھی موجود ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ جس نیندرتھل کا آپ نے ابتدائی مراسلے میں ذکر کیا وہ ضابطہ اخلاق اور شریعت کا بار اٹھانے کے اہل ہوچکا تھا؟ اگر وہ اس قابل ہوتا تو دنیا سےہی کیوں نابود ہوجاتا۔ جس طرح ہم پیدائش سے پہلے فوت ہونے والے بچے، چند دن کے بچے اور بالغ کے درمیان ایک غیر مرئی لکیر مانتے ہیں جہاں سے ضابطہ اخلاق شروع ہوگا تو یہ وہاں اس سے زیادہ ضروری ہے جہاں ارتقائی منازل کی تکمیل کے مراحل سے انسان گزر رہا ہے۔

اس اقتباس میں آپ نے اول تا آخر جو کچھ بیان کیا ہے، وہ فقط اور فقط "قیاس" ہے جسکا کم از کم کوئی ذکر قرآن یا حدیث میں موجود نہیں۔ 1400سالوں تک مسلمان (بشمول صحابہ) اس قرآن کو پڑھتے رہے اور انہوں نے بھی قرآن کی اس آیت سے یہ کہانی اخذ نہیں کی، حتی کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پہلے مفسر ثابت ہوئے جنہوں نے 1400 سال کے بعد جا کر پہلی مرتبہ اس قرآنی آیت سے یہ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی آدم کے ساتھ دوسرے لوگ بھی پیدا کیے گئے، اور پھر اس مطلب پر یہ پوری کہانی استوار کی گئی کہ ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہ تھا اور وہ آدم کے زمین پر آنے سے قبل زمین پر خلیفہ نہیں تھے، اور ان میں عقلی شعور نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔

بنی آدم کے خطاب میں کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ نے سائنسی حقائق سے بات شروع کی تھی تو یہ بھی تسلیم ہوگا کہ سائنس ہی کے مطابق ابتدائی انسان غاروں میں رہا کرتا تھا۔ جب وہ ایک انسان کو اپنا رہنما یا نبی مان کر ضابطہ اخلاق کے تحت زندگی گزارنے کے قابل ہوگیا تو اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا۔ عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے۔ ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیں۔ اور دوسرا مادہ ادمہ ہے اور ادمہ کے معنی گندمی رنگ کے ہیں۔ پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں۔ اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہوا اور سطح زمین پر رہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے رنگ پر بھی اثر پڑتا ہے۔ پس آدم نام اس لئے رکھا گیا کہ کھلی زمین پر مکان بنا کر رہنے لگا۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے سمجھانے کے لئے سب کو بنی آدم کہہ کر خطاب کیا تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ پابند نہیں کہ ذاتی نام سے ہی خطاب کرتا، وہ بھی اس صورت میں کہ جب ایک سے زائد آدمیوں کی نسلوں کو خطاب کرنا ہو پھر خود سوچیں خطاب کے لئے صفاتی نام بہتر تھا یا ذاتی۔ یہاں بطور دلچسپی حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک کشف کا بھی ذکر کردیتا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حج کے دوران انہوں نے کشفی طور پر ایک شخص کو دیکھا جس پر گمان ہوا کہ وہ آدم علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ آدم ہیں؟ تو جواب ملا کہ تم کس آدم کے متعلق پوچھتے ہو؟ مجھ سے پہلے چالیس آدم گزر چکے ہیں۔ یہ مشہور کشف ہے اس لئے حوالہ ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ ہی وہ طریقہ کار ہے جس پر میں معترض ہوں کیونکہ اسکو استعمال کرتے ہوئے قرآنی آیات کو اپنی مرضی سے توڑا مڑوڑا جاتا ہے اور اپنی مرضی کی معنی اخذ کر لیے جاتے ہیں۔
جب تک آدم کو جنت سے نکلوانا تھا اس وقت تک قرآن میں وہ آدم ہی رہے۔ مگر پھر ضرورت پڑی تو آدم نام سے تبدیل ہو کر صفانی نام ہو گیا، حالانکہ قرآن نے کہیں اسکا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ مٹیالہ رنگ بھی خوب ہے کہ یورپین تو پھر اپنے گورے رنگ کی وجہ سے بچ گئے کہ انہیں شیطان کے فتنے کا ڈر نہیں۔

اور زبردستی صفاتی نام کو پکڑ لینا براہ راست قرآن کی مخالفت ہے کیونکہ قران نے صاف صاف سورۃ الاعراف میں بیان کر دیا کہ "یابنی آدم" وہ ہیں کہ جن کے ماں باپ (آدم و حوا)کو بہشت سے نکالا گیا:

يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ۔۔۔ ﴿٢٧
ترجمہ:
اے آدم کی اولاد! خبردار! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں۔

قرآنسٹ حضرات کا ایک طبقہ جو منکرِ نماز ہے، وہ بھی یہی کام کرتا ہے اور "صلوۃ" کے قرآنی حکم پر "صلوۃ" کے لفظی معنی لے کر آ جاتا ہے جو کہ "دعا کرنا" ہے۔ اسکے بعد جو بھی حدیث صلوۃ کے اصطلاحی معنی ثابت کرے، اسکو وہ اپنے اخذ کردہ قرآنی مفہوم کی مخالفت قرار دیتے ہوئے رد کر دیتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ غلط فہمی اس لئے لگ رہی ہے کہ ایک ہی لفظ کا مطلب پہلے "تو" اور بعد میں دونوں جگہ "پھر" کیا گیا ہے۔ جو لفظ کے ترجمے کے لحاظ سے درست تو ہے لیکن اس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے جیسے وہ ان میں جسمانی طور پر نو سو پچاس سال رہتے رہے اور پھر طوفان آیا۔ جبکہ شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تینوں جگہ "پس" کا ترجمہ کیا ہے۔ مسئلہ اس وجہ سے ہی آتا ہے کہ پہلے ایک عقیدہ ذہن میں بنا لیا جاتا ہے تو پھر اسکے مطابق ہی ذہن سوچتا ہے۔ جبکہ یہاں اگر خالی الذہن ہو کر اس ترجمے کو دیکھا جائے تو کسی کا دھیان بھی نہیں جائے گا اتنی لمبی جسمانی حیات پر کہ مشاہدہ اور سنت اللہ اس کے برخلاف ہے۔ یہاں ان کے جسمانی رہنے کا نہیں بلکہ روحانی رہنے کا ذکر ہے اورصرف ان کی تعلیمات کا زمانہ بتایا گیا ہے۔ اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے تو پھر اور بہت سی لاینحل گتھیاں سامنے آتی ہیں کہ اتنی لمبی تبلیغ جو قریب ہزار برس پر محیط ہو اس قدر ڈھیل!! اور اس قوم میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اتنی لمبی تبلیغ کی گئی۔ پھر تو لوط اور عاد اور موسیٰ کی بستیاں روزقیامت اللہ کا گریبان پکڑ لیں گی کہ کیوں ہمیں اتنی لمبی تبلیغ نہ کی گئی کہ شائدچار پانچ سو سال کے بعد ہمیں سمجھ آہی جاتی اورہم ایمان لے آتے؟


ترجمے میں "تو" یا "پھر" یا "پس" سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
آپ ان تینوں الفاظ میں سے کوئی لفظ استعمال کر لیں، بات تو وہی کی وہی ہی رہتی ہے۔ شاہ رفیع الدین کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے تینوں جگہ "پس" استعمال کیا ہے۔ چلیں انکا "پس" والا ترجمہ دیکھ لیتے ہیں۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ، فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
" اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا "پس" وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، "پس" ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ "پس" ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیا"

کیا تینوں جگہ "پس" کر دینے سے کوئی فرق پڑا؟

آپ کا دعوی ہے کہ نوح علیہ السلام انسانی فطری عمر (100 سال تقریباً) مکمل کر کے وفات پا چکے تھے۔ پھر 950 سال تک انکا ذکر باقی رہا، اور پھر طوفان آ گیا۔

جبکہ قرآن اور تمام تر روایات صاف صاف بتلا رہی ہیں کہ 950 سال تبلیغ کے بعد جب طوفان آیا تو نہ صرف یہ کہ نوح علیہ السلام قوم میں موجود تھے، بلکہ انکا بیٹا بھی طوفان کے وقت موجود تھا، اور وہ نافرمان اور گمراہ تھا، اس لیے وہ اس طوفان میں غرق ہوا۔

سورۃ ھود:
وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿٤٢﴾قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّ۔هِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ ﴿٤٣
ترجمہ:
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی نوحؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا نوحؑ نے پکار کر کہا "بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔ اُس نے پلٹ کر جواب دیا "میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا" نوحؑ نے کہا، آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے" اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا ۔

اسکے بعد نوح علیہ السلام نے بلکہ اللہ سے التجا بھی کی:
ترجمہ: نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا "اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ جواب میں ارشاد ہوا "اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے" (سورۃ ہود:آیت 45 اور 46)۔


پھر اگر یہ نو سو پچاس سال سے ان کی جسمانی حیات کا زمانہ ہی مراد لینا ہے تو سورہ یسین کی اس آیت سے کیسے مطابقت کریں گے:
"اور جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو جبلی طاقتوں کے لحاظ سے کم کرتے چلے جاتے ہیں۔ پس کیا وہ عقل نہیں کرتے؟" (سورہ یسین آیت 68 )

اس آیت میں جبلی طاقتیں کم دینے کا (ساخت الٹ دینے کا) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں آدمی کی حالت بچوں جیسی کر دیتا ہے ۔اسی طرح وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے اسے اٹھاتے بٹھاتے اور سہارا دے کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اس کو کھلاتے پلاتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے کپڑوں میں اور اپنے بستر پر رفع حاجت کرنے لگتا ہے ۔ اسی طرح وہ نا سمجھی کی باتیں کرتا ہے جس پر لوگ ہنستے ہیں۔ غرض جس کمزوری کی حالت سے اس نے دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اختتام زندگی پر وہ اسی حالت کو پہنچ جاتا ہے ۔

مگر اس آیت کو نوح علیہ السلام کی عمر پر چسپاں کرنا غیر ضروری ہے کیونکہ نوح علیہ السلام کا بڑھاپا طوفان ختم ہو جانے کے بعد شروع ہوا۔

میرے نزدیک اس بحث کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لہذا میں اپنی طرف سے اس آیت کے متعلق بحث ختم کر رہی ہوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
حقیقی واقعہ تصور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بائبل کی روایات کے مطابق غیر معمولی بڑے طوفان کو زبردستی قرآن کے سر منڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی طوفان میں کسی بستی میں پائے جانے والے چھوٹے پہاڑ کا ڈوب جانا کوئی بعید از قیاس بات تو نہیں۔تمام دنیا کے پہاڑوں کو ڈبونا ہی کیوں ضروری ٹھہرا جبکہ قرآن میں ایسا کوئی ذکر نہیں۔۔۔

دعوی کہ طوفانِ نوح عالمی نہیں تھا، بلکہ فقط علاقائی تھا

آج 1400 سال کے بعد پہلی مرتبہ یہ فقط احمدی کمیونٹی ہی نہیں ہے، بلکہ ذاکر نائیک جیسے حضرات (جو دیگر ادیان پر اعتراضات اٹھاتے ہیں) یہ دعوی لے کر آ گئے ہیں کہ قرآن کے مطابق طوفانِ نوح عالمی نہیں تھا، بلکہ فقط علاقائی تھا۔
آج 1400 سال کے بعد روایاتِ نبوی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ دعوی کرنے کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ سائنس کے مطابق آج سے 5 ہزار قبل (جناب نوح علیہ السلام کا زمانہ) کسی بھی ایسے عالمی طوفان کا کہیں کوئی نشان نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ سائنس سے منہ چھپانے کی خاطر روایاتِ نبوی کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ پچھلے 1400 سال کے مسلمانوں (بشمول صحابہ) کی قرآن فہمی کا انکار کرتے ہوئے یہ دعوی گھڑا گیا کہ طوفانِ نوح عالمی نہیں، بلکہ علاقائی تھا۔

مگر یہ مہمل عذر ہے اور زبردستی کی "تفسیر بالرائے" کا شاخسانہ ہے، کیونکہ اگر یہ فقط علاقائی طوفان تھا تو پھر اللہ ہر جانور کے جوڑے کو کشتی میں جمع کرنے کا حکم نہ دیتا۔

سورۃ ہود:
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٤٠
ترجمہ:
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا "ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں" اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
سائنس اپنی definition سے ہی مادی (materialistic) علم ہے جو کہ مادی چیزوں کو دیکھتی ہے اور ان کو generalize کرنے کی کوشش کرتی ہے اور”کیسے“ کا جواب فراہم کرتی ہے۔ اسلام ایک مذہب ہے جو کہ روحانی چیزوں، فرشتوں، معجزوں، حیات بعد الموت، وغیرہ پر بھی یقین کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ ان دونوں کی اپنی الگ domain ہے، سائنس ان روحانی چیزوں کو رد نہیں کر سکتی لیکن ان کو مانتی بھی نہیں، کیونکہ ابھی تک ان کے بارے میں کوئی reliable report نہیں ملی جو سائنس کے اصولوں پر پورا اترے۔ اس لئے سائنس ان کے بارے میں agnostic ہے۔تو اگر آپ سائنس سے مذہب کی توثیق چاہیں تو یہ تو سائنس کی بنیاد ہی کے خلاف ہے۔

اسلام کی تو بنیاد ہی وجود الٰہی کا اقرار ہے، جب کہ کافی سارے سائنسی ذہن کے لوگ خدا کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ان دونوں کا آپس میں reconcile کرنا ایک جدوجہد ہے اور یہ ہر ایک کی ذاتی جدوجہد ہے۔ ہم اگر یہ کہیں (چاہے ہم سائنس کو مانتے ہو یا مذہب کو یا دونوں کو) کہ ہمارے پاس ہر ایک سوال کا جواب موجود ہے تو یہ ممکن نہیں اور خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ سائنس اور مذہب دونوں ہی جوابات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن یہ ہر ایک فرد پر منحصر ہے کہ وہ کس انداز میں سوچتا ہے۔ کہ آپ کی tendencies مادیت کی طرف ہیں یا روحانیت کی طرف یا پھر ان دونوں کا امتزاج ہے۔ میں پرسنلی خود کو کسی خانے میں ڈالنا پسند نہیں کرتا۔ کوشش ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ سیکھتا رہوں۔

القصہ، آپ نے اچھے سوالات اٹھائے ہیں لیکن ان کا کوئی آسان جواب شائد آپ کو نہ مل پائے۔
 
Top