سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

رانا

محفلین
نوٹ: اس مراسلے میں میرے مخاطب صرف سعودی مفتیان ہیں۔
حضرت آدم کے 60 ہاتھ یا 30 گز کی روایت جو سعودی مفتیان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے صرف اس لئے کہ وہ صحیح بخاری میں ہے اور اسے ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا تو اس حوالے سے وضاحت تو میں اپنے اس مراسلے میں الگ سے کرچکا ہوں کہ اگر ہم قرآن کو حدیث پر قاضی نہیں بنائیں گے تو پھر یہی ہوگا کہ محدثین جو کہ انسان ہی ہوتے ہیں اور ان سے نادانستگی میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن ان کی غلطی کو اگر ہم قرآن پر نہ پرکھیں گے تو وہ ہمیں اللہ اور رسول کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنے پر مجبور کردے گی جو ان برگزیذہ ہستیوں کی شان کے خلاف ہے۔ اگر اس دور کے انسان کو اتنا ہی لمبا مانا جائے تو پھر یہ مفتیان ذرا غور ہی کرلیتے کہ آج چھ فٹ کے انسان کی چار چھ انچ لمبی نلکی ہوتی ہے۔ تو تیس گز یعنی 90 فٹ کے انسان کی چالیس سے پچاس انچ بنتی ہے یعنی قریب پانچ فٹ یا دو گز کے قریب۔ تو وہ بیچارہ تو پھر ٹانگ سے باندھ کر ہی چلتا پھرتا ہوگا۔ ستر پوشی تو پھر نام ہی کی ہوئی۔ بیچارے کو اکڑوں بیٹھ درخت سے پھل اتارنے پڑتے ہوں گے۔ ہ الگ بات کہ ایک درخت کا پھل اسکے پورے دن کی خوراک پر ہی خرچ ہوجاتا۔ ۔ اور درخت کی چھاؤں سے ویسے ہی محروم کہ اپنے قد سے اونچے درخت ہر جگہ تو درخت ملنے سے رہے یعنی دن کو لازمی سائے سے محرومی ٹھہری۔ پھر رہنے کے لئے اگر گھانس پھونس کا جھونپڑا بھی بنائے تو اتنا اونچا کہ جو 90 فٹ کے آدمیوں کے لئے کافی ہو گھانس پھونس کی مدد سے یہ کوئی آسان کام تونہیں۔ اگر پتھروں کا مکان بنانا چاہے تو دس فٹ اونچی دیوار بھی پتھروں کو ہموار کرکے ایسے گارے کے بغیر ممکن نہیں جو انہیں اپنی جگہ پر جما سکے۔ پھر سو ڈیڑھ سو فٹ کا مکان ان پتھروں سے تیار کرنا کیا آسان رہا ہوگا اور گارا بھی ایسا کہ اتنا دیو ہیکل آدمی اس کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے تو ڈھے ہی نہ جائے۔ یہ سب سوال وہ ہیں جو سائنس کی پیداوار نہیں۔ بلکہ ایک انسان خود ہی غور کرے تو سائنس سے قطع نظر یہ تسلیم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ درجہ بدرجہ ہر چیز کو ترقی دیتا ہے ہر چیز میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ نفس واحدہ سے پیدائش شروع کرکے پھر لاکھوں کروڑوں سال میں جاکر انسان کی تکمیل تو اس اصول پر پوری اترتی ہے کہ زندگی کا آغاز ہو ایک خلیہ پیدا ہوتا ہے کروڑوں سال میں پھر اس سے درجہ بدرجہ ترقی پاکر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان اپنی موجودہ حالت کو پہنچے۔ لیکن یہ سوچنا کہ یکدم 90 فٹ کا انسان پیدا کرکے پھر آہستہ آہستہ اسے چھوٹا کرتے چلے جانا یہ کس اصول پر ٹھہرے گی۔ ارتقاء تو تسلیم نہیں کرنا مفتیان نے لیکن یہ کیا ایک قسم کا ریورس ارتقا نہیں مانا جارہا؟ اگر یکدم ہی پیدائش ٹھہری اور مکمل تو پہلے ہی کیوں نہ نارمل انسان کی لمبائی پر پیدا کردیا۔ کیوں نہ اس ریورس ارتقا کی بجائے وہی ارتقا مان لیا جائے جو قرآن کی شان کے بھی مطابق ہے اور درجہ بدرجہ ترقی دینے کے قرآنی اصول پر بھی پورا اترتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
درست۔ لیکن بہت سے بنیادی سائنسی تھیوریز کو لا تعداد عملی تجربات اور مشاہدات سے گزارنے کے بعد سائنسی قوانین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اب یہ قوانین اٹل ہیں اور ان میں رہتی دنیا تک تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں، ہاں مزید تجربات کے انمیں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن انکو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر دیکھیں حرحرکیات کے سائنسی قوانین جنکو آج تک عملی طور پر لاتعداد عملی تجربات کے بعد بھی غلط ثابت نہیں کیا جا سکا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Laws_of_thermodynamics
http://en.wikipedia.org/wiki/Perpetual_motion
جی آپ ٹهیک کہہ رہے ہیں۔ امم پر یہاں تو شاید صرف سائنٹفک فائنڈنگز کی بات ہو رہی ہے۔ :) خیر۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
انسان کے ارتقا کی ہی بات ہو رہی ہے اور اس پر جو ارتقائی مواد سائنس کے نام پر پڑھایا جاتا رہا ہے اور پڑھایا جا رہا ہے اس میں سے کتنا سائنسی ہے اور کتنا خواہشات پر مبنی ہے۔

انسانی ارتقا پر فاسل فراڈ کی چند مثالیں پیش کر رہا ہوں کہ سائنس کے نام پر کیسے اپنے نظریات تھوپنے کے لیے فراڈ سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

Piltdown Man بشکریہ ڈاکٹر Kenneth Oakley جنہوں نے ثابت کیا کہ کھوپڑی انسانی تھی اور جبڑا ، دانت ایک Orangutan کا۔

Nebraska Man ایک دانت کے زور پر پوری انسانی نسل Hesperopithecus تیار کر لی گئی ، بہت سی فرضی تصاویر بھی تیار کی گئی اس نسل کے حوالے سے۔

Neanderthal پر خودساختہ اور گھڑی ہوئی معلومات پر پروفیسر Protsch کو یونیورسٹی سے برخاست ہونا پڑا۔

سائنس پر اعتراض کرنے والے حضرات ابھی تک "ماضی" میں رہ رہے ہیں۔ اگر کسی نے سائنس کے نام پر فراڈ دینے کی کوشش کی "تھی"، تو دوسروں نے سائنس کے ذریعے ہی انکے فراڈ کو بے نقاب کیا۔ اور آج ماڈرن تحقیق کے بعد اور ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد (جو کہ کئی آزاد لیباٹریز کر چکی ہیں) تقریباً تمام موجودہ مواد کی ان مختلف سورسز سے تصدیق ہو چکی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں نے یہ عرض کیا تھا کہ اگر کسی حدیث کا مضمون قرآن سے متصادم ہوگا تو ہم قرآن کی کسوٹی پر حدیث کو پرکھیں گے۔ لیکن آپ کا کہنا ہے کہ صحابہ کی طرز پر احادیث کی روشنی میں قرآن کے معنی کئے جائیں گے۔ مجھے اس سے بالکل بھی اختلاف نہیں اور آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے زیادہ کون قرآن کو سمجھتا ہوگا جنہوں نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کی تفسیر سُنی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں صحابہ کی طرح یہ سہولت کیونکہ آج حاصل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست احادیث سن سکیں تو کیا ذریعہ ہے یہ جاننے کا کہ جس حدیث کی بنا پر ہم قرآن کی کسی آیت کی تفسیر کرنے لگے ہیں وہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ صحابہ نے جو سُنا وہ من وعن ہم تک پہنچا ہے؟ کیا اس میں احتمال کی بالکل بھی گنجائش نہیں؟ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ایک معیار ضرور ایسا ہو کہ کہیں ہم غلطی سے بھی کسی ضعیف حدیث کو صحیح نہ سمجھ لیں۔ دیکھیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ دوسری صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوتے ہیں اور تیسری صدی کے شروع میں احادیث جمع کرتے ہیں۔ جس محنت اور لگن سے انہوں نے یہ کام کیا اتنا کسی نے نہ کیا ہوگا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کتاب کو آج قرآن کے بعد آپ بھی اور ہم بھی سب سے بڑا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی وہ چھ لاکھ احادیث کا ذخیرہ اکٹھا کرکے ان میں سے صرف چند ہزار پر تسلی پاتے ہیں۔ باقی لاکھوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اتنی چھان بین کے بعد بھی اگر صحیح بخاری میں کچھ ضعیف احادیث درج ہوجاتی ہیں تو سوچیں قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ہماری ذمہ داری کس قدر بڑھ جاتی ہے۔ اب قرآن پر ان احادیث کو نہ پرکھا جائے گا تو اس احتمال سے کیسے بچا جائے گا جبکہ راویوں کے حالات کی تو پہلے ہی اچھی خاصی چھان بین کی جاچکی ہے۔ اگر کہیں کہ دوسری احادیث کی کتابوں کی مدد سے تو وہ تو خود صحیح بخاری سے کم درجے پر فائز ہیں ان میں کس قدر احتمال ہوگا اور کس بنیاد وہ اپنے سے افضل کتاب کی حدیث کا فیصلہ کریں گی۔ یا اگر آپ کہیں کہ مزید اسماء الرجال کی کتابوں سے چھان بین کی جائے گی تو اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی تو راویوں کے حالات محدثین نے ہی لکھے ہیں، اگر امام بخاری جیسے عظیم محدث غلطی کرسکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں کرسکتے؟
ایک مثال دیتا ہوں۔ صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جو کوئی اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔ یہ قتل مرتد کے حامیوں کی پسندیدہ حدیث ہے کیونکہ بخاری میں ہے۔ اب مجھے نہیں علم کہ آپ کا قتل مرتد کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ اگر تو اس کے خلاف ہے تو اس حدیث کو ضعیف تسلیم کئے بغیر نہیں رکھا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو کسی بنیاد پر ہی اسے رد کریں گی۔ جو بھی بنیاد ہو چاہے اسماء الرجال کی کتابیں یا کوئی اور حدیث۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب امام بخاری غلط حدیث کو صحیح سمجھ سکتے ہیں تو جہاں سے اس غلطی کی اصلاح کی جائے گی اس کی درستگی کے سو فیصد ہونے پر کیا ضمانت ہے؟ لیکن اگر آپ اس حدیث کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق عقیدہ رکھتی ہیں تو پھر بات ہی ختم ہوجاتی ہے کہ آپ بہرحال اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں۔ میں تو ایسی احادیث کو جو قرآن کی آیات کے مضمون سے ٹکرائیں گی لازمی قرآن کے معیار پر جانچنا ضروری سمجھوں گا۔ کہ احتمال کا دروازہ تو کھل گیا کہ اگر یہ ایک ہوسکتی ہے تو کیا ضمانت کہ اور نہیں ہوں گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کلام ہو اور قرآن کی تشریخ کرنی ہو احتیاط لازم ہے بلکہ دوہری ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ارفع ذات کی شان کے مطابق ترجمہ و تفسیر ہو بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔ ظاہر ہے اگر ہم ایک ضعیف حدیث کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہی نہیں، صحیح سمجھ کر اس کے مطابق تشریح کریں گے تو ہم نادانستگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست کی طرف اسے منسوب کررہے ہوں گے۔

آپکی اس پوری تحریر کا لب لباب تو یہ نکلا کہ آپ واقعی "قرآنسٹ" ہیں اور "منکر حدیث" ہیں۔ جب آپ کے پاس کوئی "پیمانہ" ہی نہیں کہ صحیح حدیث کو ضعیف حدیث سے الگ کر سکیں، تو پھر بخاری کے متعلق اصح الکتب ہونے کے خالی خولی دعوے کا مقصد کیا رہ گیا؟ اور بخاری کی حدیث بھی وہ جو کہ دیگر کتب میں دیگر سند سے بھی موجود ہے، مگر آپ کو اسکا انکار ہے۔

اس حدیث کو ٹھکرانے کی بجائے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ حکم کن حالات میں آیا تھا۔

جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جرم پر بھی سزاے موت دی ہے۔ ہمارا اشارہ اس سزا کی طرف ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان مشرک قوموں کو دی ہے جن میں اس نے اپنے پیغمبر بھیجے اور انھوں نے حق پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود ان کو نہیں مانا۔ بالعموم یہ سزا کسی آسمانی آفت کی صورت میں نازل ہوتی رہی ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا ساتھ حاصل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرک منکرین کو یہ سزا ان صحابہ کے ہاتھوں سے دی جائے گی۔ چنانچہ آخری حج میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ مشرکین عرب حرام مہینوں کے گزرتے ہی قتال کر کے مار دیے جائیں گے۔ ان کے لیے اپنی جان بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ کفر سے توبہ کرکے دین اسلام کو اختیار کر لیں۔ ظاہر ہے ، ان کے بعض افراد یہ طریقہ اختیار کر سکتے تھے کہ وہ ایمان قبول کرنے کا اعلان کر دیں اور بعد میں کفر کی طرف لوٹ جائیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کر دیا کہ یہ اگر اپنا دین بدلیں تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو قرآن کے اس حکم سے متعلق نہیں سمجھا اور وہ اسے ایک مستقل بالذات سزا مانتے ہیں، اس لیے وہ اب بھی ارتداد کی سزاموت ہی سمجھتے ہیں۔جبکہ یہ سزا صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب مشرکین عرب کے لیے تھی۔

اُس وقت کے انہی حالات کا تذکرہ قرآن نے سورۃ آل عمران کی آیت 72 میں کیا ہے۔

وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴿٧٢
ترجمہ: اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو، شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں

یہ اُس وقت کے حالات کے مطابق اس سازش سے نپٹنے کا طریقہ تھا جس کے ذریعے وہ کفار معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کی سازش کر رہے تھے۔

بنیادی طور پر ان پر انکے اس طرز عمل (سازش) کی وجہ سے محاربہ والی آیت کا اطلاق ہوتا تھا جسکی قرآنی سزا موت تھی۔
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ____ المائدہ 33,34 ______

علی ابن ابی طالب کی منکر حدیث حضرات کے فتنے پر نصیحت

مگر جس طرح آپ (احمدی) حضرات قرآن کی آیات کو استعمال کر رہے ہیں، یہ بعینہ وہی طریقہ ہے جو کہ قرآنسٹ حضرات کا ہے۔ اور اسکے نتیجے میں "کئی کئی شریعتیں" وجود میں آتی ہیں، جسکی مثال میں اوپر دے چکی ہوں کہ جہاں قرآنسٹ حضرات کا ایک طبقہ سرے سے "نماز" کا ہی منکر ہے۔

عبداللہ بن عباس کو جب خوارج سے مناظرہ کے لئے بھیجتے ہیں تو حضرت علی ان سے فرماتے ہیں: "قرآن کی مدد سے ان سے کبھی مناظرہ نہ کرنا کیونکہ قرآن کئی وجوہات کا حامل ہے۔ اگر تم قرآن سے دلیل لاؤ گے تو وہ بھی قرآن ہی سے دلیل پیش کریں گے، لہٰذا تم ان سے سنت کی مدد سے مناظرہ کرو کیونکہ سنت سے وہ کبھی فرار نہیں کر سکتے۔
حوالہ: نہج البلاغہ خط نمبر ۷۷

میں نے ابن عباس سے خوارج کے بارے میں جنہوں نے تحکیم اور حضرت علی بن ابی طالب کی خلافت سے انکار کر دیا تھا کہتے ہوئے سنا: "پس بارہ ہزار خارجی علیحدہ ہو گئے تو علی نے مجھے بلایا اور فرمایا کہان کی طرف جاؤں، مناظرہ کروں اور، انہیں کتاب اور سنت کی طرف بلاؤں اور قرآن کی مدد سے ان کے ساتھ مناظرہ نہ کروں کیونکہ وہ کئی چہروں والا ہےلہٰذا سنت کے ذریعہ مناظرہ کروں۔
حوالہ: درمنثور جلد ۱ ص ۴۰

کیا آپ کو خارجی حضرات اور انکا قرآنی آیت پر مبنی نعرہ "لا حکم الااللہ۔۔۔" یاد ہے؟

یہ خارجی حضرات تاریخ اسلامی کے پہلے قرآنسٹ تھے۔
علی ابن ابی طالب نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ انکی تصحیح کریں کہ یہ قرآنی آیت "لا حکم الا اللہ۔۔" کے ساتھ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق کھلواڑ کر رہے ہیں اور اس آیت کو بنیاد بنا کر فتنہ عظیم پھیلانا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ علی ابن ابی طالب کو اس میں کامیابی نہ ہوئی کیونکہ بغیر سنت نبوی کے قرآن بہت سے چہروں والا ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق اسکو کھینچ تان کر استعمال کر کے فتنہ عظیم پھیلا سکتا ہے۔ اور واحد چیز سنت ہےجو آ خر میں ناقابل تردید حجت قائم کرے گی۔
قرآنسٹ حضرات نے سنت نبوی کو یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا کہ اس میں اختلاف ہے۔ مگر انکی ستم ظریفی دیکھئیے کہ انہیں اس چیز کا احساس نہ ہو سکا کہ جس اختلاف کے نام پر انہوں نے حدیث نبوی کو ردی کی ٹوکری کی نظر کیا، وہ اختلاف بذات خود ان میں حدیث کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر کچھ عربی قرآنسٹ ایسے ہیں جو آج سرے سے ہی نماز پڑھنے کے منکر ہیں اور انکے نزدیک صلوۃ کا مطلب فقط دعا مانگنا ہے۔ اور (میرے مطالعہ اور رائے کے مطابق، اور نہایت ادب سے اختلاف رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے) احمدی حضرات جناب عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآنی آیات سے اسی طرح اپنے مطلب کے معنی مرزا صاحب کے لیے نکال رہے ہوتے ہیں جیسا کہ خارجی حضرات "لاحکم الا اللہ۔۔۔" کی قرآنی آیت سے نکال رہے تھے۔ اس موضوع پر تفصیل سے کسی اور وقت اور فی الحال ان قرآنسٹ حضرات کو وہ اختلافات دکھانے ہیں جب ہزاروں لوگ و گمراہ فرقے قرآنی آیات کی اپنی اپنی مرضی کی نئی نت تاویلیں کر رہے ہوتےہیں اور کوئی انہیں اس سے روک نہیں سکتا۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
میں نے قرآن کی آیت سے ثابت کیا تھا کہ جمع کا صیغہ ہے لہذا نسل انسانی ہی مخاطب ہے نہ کہ ایک آدم۔ آپ نے ایک عالم دین کی رائے کی بنیاد پر اس سامنے نظر آنے والے جمع کے صیغے کو واحد صرف اس لئے مراد لے لی کہ اپنا عقیدہ پہلے بنا چکی ہیں کہ آدم ہی پہلا انسان تھا جو ارتقا کی بنیادیں منہدم کرتا ہوا آنا فانا زمین پر اپنی مکمل صورت میں ظہور پذیر ہوگیا۔ بنیاد احادیث تھیں یا بائبل کی روایات، ان کے متعلق اپنا موقف اوپر میں نے دے دیا ہے۔ میرے متعلق تو آپ نے کہہ دیا کہ اپنی مرضی کا ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ خود اللہ کے استعمال کئے ہوئے الفاظ پر ایک شخص کی رائے کو فوقیت دے کر وہ ترجمہ کرڈالا جو اس لفظ کا آپ کو بھی تسلیم ہے کہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی واحد کے لئے بھی جمع کا صیغہ استعمال کرلیتا ہے لیکن اس کے لئے بھی کوئی قاعدہ تو ہونا چاہئے ناکہ اپنی مرضی سے فتویٰ چلادیا جائے کہ یہاں اللہ میاں جمع کی بات کی ہے لیکن ہم واحد مراد لیں گے۔اسطرح تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال آپ احادیث پر قرآنی آیات کو پرکھتی ہیں اس لئے آپ کے لئے جائز ہے۔

۔۔۔ کیا یہ فقط "ایک" عالم کی رائے ہے؟ یہ "ایک عالم" کی رائے نہیں، بلکہ "پورے عالم" کی رائے ہے کہ قرآن یہ اسلوب اختیار کرتا ہے، جسکا اقرار نیچے آپ نے خود اپنی تحریر میں کیا ہے (نیلے رنگ کا اپنا جملہ دیکھیے)۔

اور بالکل "قاعدہ" ہونا چاہیے، اور بالکل میں نے "قاعدے" کے مطابق بات کی ہے۔ اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ تمام تر احادیث اسی بات کی طرف نشاندہی کر رہی ہیں، مگر آپ اسکے منکر ہیں۔ بلکہ مزید برآں قرآن نے خود "بنی آدم" اور انکے ماں باپ کا بہشت سے نکلنے کا ذکر کر کے اس کو واضح کر دیا، مگر آپ اس قرآنی آیت کو نظر انداز کر گئے اور اسکا جواب نہ دیا۔

اور آپ ہم پر تو قاعدے کی شرط لگا رہے ہیں، مگر خود قرآنی مطالب نکالنے کے لیے اپنے وقت پر آپ شتر بے مہار بن جاتے ہیں، کہ جب چاہا تو آدم کو جنت سے نکالتے ہوئے ذاتی نام بنا دیا، اور جب چاہا تو آدم کے ذاتی نام کو تبدیل کر کے صفاتی نام پر آ گئے۔

سبحان اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از مہوش علی:
اس اقتباس میں آپ نے اول تا آخر جو کچھ بیان کیا ہے، وہ فقط اور فقط "قیاس" ہے جسکا کم از کم کوئی ذکر قرآن یا حدیث میں موجود نہیں۔ 1400سالوں تک مسلمان (بشمول صحابہ) اس قرآن کو پڑھتے رہے اور انہوں نے بھی قرآن کی اس آیت سے یہ کہانی اخذ نہیں کی، حتی کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پہلے مفسر ثابت ہوئے جنہوں نے 1400 سال کے بعد جا کر پہلی مرتبہ اس قرآنی آیت سے یہ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی آدم کے ساتھ دوسرے لوگ بھی پیدا کیے گئے، اور پھر اس مطلب پر یہ پوری کہانی استوار کی گئی کہ ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہ تھا اور وہ آدم کے زمین پر آنے سے قبل زمین پر خلیفہ نہیں تھے، اور ان میں عقلی شعور نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔

آپ کے نزدیک یہ کہانی ہی سہی لیکن یہ کوئی دلیل نہیں کہ 1400 سال میں کسی نے ایسی تشریح نہیں کی۔ کیا قرآن کے معارف اب ختم ہوگئے ہیں؟ اور وہی خزانہ تھا جو گذشتہ مفسرین نے نکال لیا اب قیامت تک کوئی نئی بات قرآن سے نہیں نکالی جاسکتی؟ آپ کے نزدیک ضروری ٹھہرا کہ قرآن سے اب جو بھی تفسیر نکالی جائے وہ 1400 سال میں ضرور کسی اور نے بھی نکالی ہو، تو پھر ضرورت ہی کیا ہے نئی تفاسیر کی جب نئی بات ہی نہیں ملنی۔ آپ کا یہ عقیدہ ہو تو ہو، میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے۔ اور اس کے معارف قیامت تک ختم نہ ہوں گے۔ بلکہ یہ اس کا معجزہ ہے اور اسکے زندہ کتاب ہونے کا ثبوت کہ ہر زمانے کا انسان جب اسے پڑھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس میں اس کے زمانے کے لئے بھی بہت کچھ ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے سمندر میں نیک نیتی اور اخلاص سے غوطہ لگائے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور نئے موتیوں سے نوازے گا۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا یہ بیان کردہ تفسیر و ترجمہ قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے یا نہیں؟ بالکل ہے لیکن آپ کی نظر سے دیکھیں تو نہیں کہ جیس بھی احادیث ہوں ان پر آیات کو پرکھنا ہے اور اسی بنیاد پر جمع کو واحد کرکے آدم کو پہلا انسان ثابت کرنا ہے۔ دیکھیں قرآن نے کہا تھا کہ پہاڑ تمہیں ساکت لگتے ہیں لیکن درحقیقت بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اب 1400 سال میں اگر کسی کو اس سے زمین کی گردش کا نکتہ نہ دکھائی دیا تو کیا اب حرام ہوگیا کہ اس سے زمین کی گردش اخذ کی جائے!! قرآن میں ہے کہ شیطان نے کہا کہ میں لوگوں کو بہکاؤں گا کہ تیری تخلیق میں تبدیلی کریں۔ اب 1400 سال میں کسی کا دھیان اس طرف نہ گیا تو اب شجرہ ممنوعہ ٹھہرا کہ اس سے جینیٹک انجنیرنگ میں ہونے والی پیش رفت کی خبر سمجھی جائے!! بلکہ شائد آپ مجھ پر ایک قدم آگے بڑھ کر شدت پسند قرانسٹ کا لیبل لگادیں کہ یہ تو قرآن سے جدید سائنس کی شاخیں بھی نکالنے کا جرم کر رہا ہے۔ اگر چودہ سو سال میں کسی کا دھیان ارتقا کی طرف نہیں تھا لیکن اب واضح آیات اس کے حق میں نظر آرہی ہیں تو صرف اس لئے جمع کو واحد کردیا جائے کہ احادیث جمع کرنے میں یقین ہے کہ کوئی غلطی نہیں ہوئی اور من و عن ہم تک پہنچی اس لئے اس کے مطابق قرآن کے الفاظ کو بدلا جائے گا!!
جس کہانی کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ کیوں ارتقائی دور مکمل ہونے سے پہلے انسان کو ضابطہ اخلاق سے آزاد قرار دیا ہے۔ تو یہ کہانی اس وقت تک ہے جب تک آپ آدم کو پہلا انسان تسلیم کرتی رہیں گی۔ اس وقت تک آپ کو اس کہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن جہاں آپ نے اس روایتی عقیدے کو چھوڑ کر قرآن کے مطابق انسان کی پیدائش میں ارتقا تسلیم کرلیا آپ کے سامنے یہ سوال آکھڑا ہوگا کہ انسانی جسم میں ارتقا کی تکمیل تسلیم کرتے ہی تکمیل سے پہلے کے انسان کا کیا جائے؟ لیکن آپ کیونکہ اسے تسلیم نہیں کرتیں اس لئے آپ کو اس کہانی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہی نہیں کہ آپ اپنے عقیدہ میں آزاد ہیں۔

آپ بنیادی سوالوں کا جواب نہیں دے رہے ہیں، بلکہ انہیں نظر انداز کر کے گفتگو کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ بنیاد سوال آپ سے یہ تھا:

1۔ اللہ نے جب انسان کی تخلیق کی اور فرمایا کہ میں اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنانے جا رہا ہوں، تو کیا یہ خلافت فقط انسانوں تک محدود تھی، یا پھر دیگر تمام مخلوقات پر؟
صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک تو آپ نے قرآن سے یہ ثابت تو کیا نہیں ہے کہ آدم علیہ السلام سے قبل زمین پر انسان تھے، مگر انکی پوری ایک داستان پہلے بنا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ عقل و شعور سے خالی جانوروں کی طرح تھے جن پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا۔
آپکی واحد دلیل "خلیفہ" والی تھی، اور اسکے متعلق بنیادی سوال ابھی تک قائم ہے کہ یہ خلافت تو دیگر تمام مخلوقات پر ہو سکتی ہے، تو پھر زبردستی آپ فقط دوسرے انسانوں پر ہی خلافت کے لیے اصرار کیوں کر رہے ہیں؟
2۔ نیز، آپ ایک اور عجیب دعوی کرتے ہیں کہ آپ کے مطابق جب اللہ نے انسان کو زمین پر اتارا (اور آدم جنت میں ہی تھے) تو کیا اس وقت یہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ نہ تھا؟ اگر اگر خلیفہ تھا تو آپ کو کس نے کہہ دیا کہ اس خلیفہ میں عقل و شعور نہیں تھا اس لیے اس پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا؟
ایسی کہانیاں بنانے کے لیے بھی کوئی قاعدہ قانون ہونا چاہیے، قرآن کی کوئی واضح آیت ہونی چاہیے، کسی حدیث سے اسکا پتا چلنا چاہیے۔ وگرنہ قیاس کی بنیاد پر تو ہر مذہب کے ماننے والے ہزاروں کہانیاں بناتے چلے آئے ہیں۔


پہاڑوں کے بادلوں کی طرح حرکت کا مسئلہ

از رانا صاحب:
دیکھیں قرآن نے کہا تھا کہ پہاڑ تمہیں ساکت لگتے ہیں لیکن درحقیقت بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اب 1400 سال میں اگر کسی کو اس سے زمین کی گردش کا نکتہ نہ دکھائی دیا تو کیا اب حرام ہوگیا کہ اس سے زمین کی گردش اخذ کی جائے!!

رانا صاحب، یہ آپ نے انتہائی حیرت انگیز بات کی ہے۔ اور آپ تنہا نہیں ہیں، بلکہ آج ذاکر نائیک جیسے بے تحاشہ لوگ ہیں جو کہ یہ عجیب و غریب دعوی کر کے اسلام کو سائنس کا اعجاز قرار دے رہے ہیں اور اس دعوے کو بڑے فخر سے غیر مسلموں کے سامنے پیش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

یا حیرت!!!!

قرآن نے تو صاف کہا ہے کہ یہ پہاڑ جامد و ساکت ہیں۔

سورۃ الحجر:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿١٩
ترجمہ: اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ (میخوں کی طرح) گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں نپی تلی اگائیں۔

مگر اسکے باوجود یہ "آج" کے مجاہد سائنس کو اسلام کا تابع ظاہر کرنے کے لیے دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اور اپنے اس مقصد کے لیے یہ لوگ قرآن کی آیت 27:88 استعمال کرتے ہیں۔ (معذرت کے ساتھ) مگر پتا نہیں انکی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہوئی ہے کیونکہ یہ آیت 27:88 اور اس سے قبل کی آیت 27:87 خود یہ گواہی دے رہی ہیں کہ پہاڑ تو جامد و ساکت ہیں، مگر جب قیامت آئے گی اور صور پھونکا جائے گا تو صرف اس قیامت والے دن یہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے۔

سورۃ النمل:
وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّ۔هُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴿٨٧﴾وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّ۔هِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ ﴿٨٨
ترجمہ:
اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔

اس طرز عمل پر انتہائی انتہائی تعجب ہے کہ یہ قرآنی آیت تو بذات خود پہاڑ کو خوب جما ہو جامد و ساکت بیان کر رہی ہیں، اور فقط قیامت کے روز انکا بادلوں کی طرح اڑنا بیان کر رہی ہیں، مگر احمدی حضرات، اور ذاکر نائیک کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے اسلامی مجاہد، جو اسلام کے دفاع کے نام پر اسے سائنس کا کرشمہ قرار دے رے ہیں، وہ بند آنکھوں سے اس آیت کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے الٹا اس سے زمین کی گردش ثابت کر رہے ہیں۔ فالعجب۔


مہوش علی نے کہا:
یہ ہی وہ طریقہ کار ہے جس پر میں معترض ہوں کیونکہ اسکو استعمال کرتے ہوئے قرآنی آیات کو اپنی مرضی سے توڑا مڑوڑا جاتا ہے اور اپنی مرضی کی معنی اخذ کر لیے جاتے ہیں۔
جب تک آدم کو جنت سے نکلوانا تھا اس وقت تک قرآن میں وہ آدم ہی رہے۔ مگر پھر ضرورت پڑی تو آدم نام سے تبدیل ہو کر صفانی نام ہو گیا، حالانکہ قرآن نے کہیں اسکا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ مٹیالہ رنگ بھی خوب ہے کہ یورپین تو پھر اپنے گورے رنگ کی وجہ سے بچ گئے کہ انہیں شیطان کے فتنے کا ڈر نہیں۔
یورپین لوگوں کے حوالے سے آپ کو یاد نہیں رہا کہ میں نے لفظ آدم کے دو مادوں کا ذکر کیا تھا۔ ایک کا مطلب ہے سطح زمین پر رہنے والے۔ اور دوسرے کا مطلب ہے گندمی رنگ والے۔ کیا یورپین واقعی ان دونوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہوپارہے؟

میں نے احادیث کی بات کی تو وہ آپ کے نزدیک مستند نہیں۔ میں نے یہ بات کی کہ قرآن نے خود بنی آدم کے متعلق بات صاف کر دی ہے کہ یہ ان آدم و حوا کی اولاد ہیں جنہیں جنت سے نکالا گیا، تو اسکو بھی آپ صاف نگل گئے۔ تو پھر خود بتلائیے کہ میں آپ سے مزید بحث کیا کروں؟






ماڈرن سائنس کے سوالات کے جوابات دینے میں آجکل اسلام کے جہادیوں اور احمدی حضرات کی کمیونٹی میں خاصا یارانہ نظر آتا ہے۔ شاید یہ اچھی بات ہو۔ دونوں ہی آج ایک ہی طرح قرآنی آیات کےمفہوم و مطالب نکال کر دعوے کر رہے ہوتے ہیں کہ قرآن نے سائنسی گتھیاں صدیوں پہلے سلجھا دی تھیں۔
مگر افسوس کہ انکے یہ کھینچ تان کر نکالے گئے مفہوم پچھلے 1400 سال میں آنے والے قرآنی مفسرین کے بالکل خلاف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ انہیں بھی علم ہے کہ یہ سیاق و سباق سے آیت کو جدا کر کے قرآن کے غلط تراجم کر رہے ہیں، اور پھر غلط تراجم کی بنیاد پر اپنی پسند کے من مانے معنی نکال رہے ہیں۔

یہ بددیانتی ہرگز درست طرز عمل نہیں۔اسی وجہ سے قرآن کے ساتھ نازل ہونے والی احادیث انکے آج کے اس کیے جانے والے "نئے ترجمہ" اور نکالے جانے والے نئے "مفہوم و تفسیر" سے دور دور تک نہیں ملتیں۔ چنانچہ قرآن سے ٹکرانے کے نام پر یہ احادیث کو مکمل طور پر ٹھکرا چکے ہیں اور آج باقی حدیث کا نام لینا فقط دکھاوا ہے اور یہ صرف وہی حدیث لیتے ہیں جسے اپنے نکالے گئے مفہوم کے لیے استعمال کر سکیں۔

پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنا: قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں بددیانتی

احمدی حضرات کی ویب سائیٹ پر قرآن کا ترجمہ و تفسیر موجود ہے (لنک)۔ وہاں سے سورۃ نمل کی آیت 89 کا ترجمہ و تفسیر پیشِ خدمت ہے۔

ترجمہ:اور تو پہاڑوں کو اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ اپنی جگہ ٹہرے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں (تفسیری حاشیہ) کی طرح چل رہے ہیں۔
اور تفسیر حاشیہ میں اسکی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے: "اس (پہاڑوں کے بادلوں کی طرح چلنے) میں زمین کے چلنے کا ذکر ہے برخلاف پرانے جغرافیہ نویسوں کے جو سورج کو چلتا بتاتے ہیں اور زمین کو ساکن"۔

بددیانتی وہی ہے کہ انہوں نے اس آیت کا من پسندیدہ ترجمہ کرنے کے لیے اسے سیاق و سباق سے نکال لیا ہے۔ جبکہ اس آیت کا سیاق و سباق قیامت کے روز کے متعلق ہے، کہ روزِ قیامت یہ پہاڑ جو جامد و ساکت ہیں، وہ بادلوں کی طرح چلتے ہوں گے۔
ذیل میں اس آیت کے ترجمے کو بمع سیاق و سیاق پیش کیا جا رہا ہے تاکہ سب چیزیں واضح ہو سکیں۔

ترجمہ سورۃ النمل، آیت 87 تا 90 (نوٹ: آیت 87 سے قبل بھی قیامت کا ذکر ہے):
۔۔۔اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جامد ہیں (قرآن نے لفظ "جَامِدَةً " استعمال کیا ہے)، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئیگا اسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے۔ اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟

آپ سیاق و سباق کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں کہ پہاڑوں کے یہ بادلوں کی طرح اڑنے کا ذکر فقط صور پھونکے جانے کے بعد روزِ قیامت کا ہے۔ مگر ان لوگوں نے جان بوجھ کر اس آیت کو سیاق و سباق سے علیحدہ کیا، اور پھر من چاہے عقیدے کے مطابق اسکا ترجمہ کر ڈالا، اور لوگوں کو اصل حقیقت سے بہکایا۔

مجھے ہر چیز قابل قبول ہوتی ہے، ہر ایک کی رائے کا میں احترام کر سکتی ہوں، مگر جان بوجھ کر کی گئی بددیانتی "ناانصافی" کے زمرے میں آتی ہے، اور مجھ سے یہ ناانصافی ہرگز برداشت نہیں ہو سکتی۔ اللہ کی صفات میں سے میری پسندیدہ صفت اللہ کا "عادل" ہونا ہے۔ اور اللہ کا یہ پیغام کہ عدل کرو چاہے یہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ جاتا ہو۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
ایک وضاحت کردوں جو آپ کے اس مراسلے سے سامنے آئی کہ آپ میرے متعلق یہ سمجھ رہی ہیں کہ جیسے نوح فوت ہوگئے پھر نو سو پچاس سال تک تعلیمات رہیں پھر طوفان آیا نوح کی غیر موجودگی میں۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ نوح کے ذکر کے ساتھ ہی ان کی تعلیمات کا زمانہ بھی ذکر کردیا۔ پھر طوفان کے واقعات کا بیان ہے۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ یہ واقعہ نوح کی موجودگی میں ان کی چند دہائیوں پر مشتمل محدود زندگی میں ہی پیش آیا۔ آپ کو اس لئے یہ ماننے میں تامل ہے کہ تعلیمات کا زمانہ بھی ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے جو کہ اپ کے نزدیک جسمانی حیات ہے۔ میرے نزدیک ایسا نہیں۔ اس وقت کوئی مثال تو سامنے نہیں لیکن سورہ القمر کی پہلی آیت کچھ حد تک اس کی وضاحت کرسکے کہ فرمایا قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ اب دیکھیں دوسرا واقعہ جو چاند پھٹنے کا تھا وہ تو ہوچکا ہے لیکن پہلا یعنی قیامت والا اس دوسرے کے بعد ہوگا۔ اسی طرح تعلیمات کا زمانہ نوح کے ذکر کے ساتھ ہی بیان کردیا ہے اور پھر طوفان کا بیان ہے جو ان کی زندگی میں ہی آیا تھا۔ اور اسکے بعد ان کی تعلیمات نو سو پچاس سال رہیں۔ اس کے ثبوت میں نے کہا تھا کہ مشاہدہ اور سنت اللہ اس کے برخلاف ہے۔ اور سورہ یسین کی آیت پیش کی تھی لیکن آپ کا کہنا کہ جبلی طاقتوں کی کمی سے مراد صرف بڑھاپے کی کمزوری ہے تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ صرف یہی آپ اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کی عمریں ہزار سال سے زائد تسلیم کریں بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ بقول آپ کے نوح علیہ السلام پر بڑھاپا نو سو پچاس سال کے بعد کہیں جا کر آیا۔ لیکن کبھی یہ بھی سوچا کہ آج سو سال کی حد رکھنے والا انسان دس سال بچپنے میں گزارتا ہے تو کیا اس وقت بھی یہی نسبت تھی کہ ایک بچہ پیدا ہوا اور اگلے سو ڈیڑھ سو سال تک ابھی اسکا بچپنا ہی ختم نہ ہوتا ہو! اگر کہیں کہ نہیں باقی سب پرورش نارمل انداز میں ہوتی تھی بس جوانی میں جاکر جسم کے خلیات پر ٹائم فریز ہوجاتا تھا تو یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ نارمل پرروش بچپنا ختم ہونے کے بعد لمبے زمانے پر محیط ہوجائے اور پھر یکدم بڑھاپا آلے۔یا بڑھاپا بھی جوانی کی نسبت سے ہی لمبا تھا؟ ایسا ہے تو بچپن کو بھی اسی نسبت سے لمبا ماننا پڑے گا جو کم ازکم اسکی ماں تو گوارا نہ کرے گی جس نے سنبھالنا ہے۔

آپ نے سورۃ القمر کی پہلی آیت کا حوالہ دیا جو کہ یہ ہے:

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ
ترجمہ: قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

چاند کا پھٹ جانا "ماضی" کا صیغہ ہے، جبکہ "قیامت کی گھڑی قریب آ گئی" کا مطلب یہ ہے کہ "مستقبل قریب" میں یہ واقعہ پیش آئے گا۔

آپ اس مثال کو کسی صورت جناب نوح والی روایت پر لاگو نہیں کر سکتے، کیونکہ وہاں صاف صاف یہ بیان کیا گیا ہے کہ نوح علیہ السلام 950 سال انکے درمیان رہے، اور پھر طوفان آیا۔

ترجمہ" اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا "پس" وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، "پس" ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ "پس" ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیا"

اس آیت میں قرآن بالکل واضح طور پر حالات کا پیش آنا بیان کر رہا ہے کہ پہلے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا، پھر وہ ان میں 950 سال رہے، پھر ان کو طوفان نے آ پکڑا۔ ۔۔۔ یہ سب ماضی کے صیغے ہیں اور کسی بھی زبان کو لے لیں، قواعد کے مطابق اگر تمام تر ماضی کے صییغے ہیں تو وہ واقعات پیش آنے والے ربط کو برقرار رکھتے ہوئے بیان کیے جائیں گے۔
آپ جو دعوی کر رہے ہیں، وہ قرآن کی اسلوب کے بالکل خلاف ہے۔ اور شق القمر اور قیامت والی مثال اس پر صادق نہیں آتی۔
اور سورۃ یس کے حوالے سے ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں، اور آپ کے پاس سوائے اپنے قیاس پیش کرنے کے اور کوئی ثبوت نہیں ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ طوفان نوح کو عالمی مانتی ہیں۔ ٹھیک ہے آپ کا عقیدہ ہے۔ قرآن میں سے کوئی ایسا ذکر دکھا سکیں تو مشکور ہوں گا۔ جہاں تک تعلق ہے ہر قسم کے جانوروں کا جوڑا رکھنے کا تو اس سے عالمی طوفان ثابت نہیں ہوتا۔ پاکستان میں 2010 کے طوفان کی مثال لے لیں۔ بلکہ صرف سندھ کو تصور کرتے ہیں جہاں کئی لاکھ مویشی سیلاب میں ڈوب کر مرگئے۔ اُس دور میں تصور کریں کہ کراچی میں سیلاب آتا ہے اور کشتی بدین میں جاکر رکتی ہے تو کراچی سے بدین تک کے جانور تو مر گئے۔ اب کشتی میں بھی نہ بچائے ہوئے ہوں گے تو ذرائع آمدورفت تو ایسے نہیں کہ ٹرک میں بیٹھ کر پنجاب سے لے آئیں گے۔ اگر کہیں کہ دوسرے علاقوں سے لا سکتے تھے کشتی میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی تو دوسرے علاقوں تک جانے کے لئے بھی باربرداری کے جانور چاہییں۔ اس لئے جانور کشتی میں رکھنا ایک ضروری امر تھا چاہے طوفان علاقائی ہی کیوں نہ ہو۔اس طوفان کو اگر پاکستان یا ہندوستان جتنے علاقے پر بھی پھیلا لیں تو بھی جانوروں کا رکھنا ضروری ٹھہرے گا، عالمی طوفان تک جانے کی ضرورت ہی نہیں۔

پھر آیت کے اگلے حصے پر غور کریں کہ ’’ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں‘‘۔ آپ کا عقیدہ مان لیا جائے کہ طوفان عالمی تھا اور پوری دنیا کو لپیٹ میں لے بیٹھا تھا۔ کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا اس وقت زمین کے دوسرے ممالک میں انسان تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم کسی بستی پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک ایک نبی یا ڈرانے والا نہ بھیج دیں۔ نوح کی بستی کا سمجھ میں آگیا کہ نوح خود موجود تھے۔ لیکن دوسرے ملکوں کے لوگ کیوں طوفان میں ڈبوئے گئے؟ اگر کہیں کہ نوح نے پوری دنیا کی سیاحت کرکے سب کو پیغام پہنچادیا تھا تو یہ جائز بھی ہے کیونکہ ہزار سال کی عمر کا کچھ تو فائدہ ہونا چاہئے۔لیکن مسئلہ یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے ہر بستی میں نبی بھیجے۔ پس ماننا پڑے گا کہ اس وقت کم ازکم نوح کے علاوہ کوئی نبی موجود نہ تھا روئے زمین پر۔ ایک لاکھ چویبس ہزار میں سے وہ واحد وقت تھا جب زمین پر صرف ایک ہی نبی تھا۔ لیکن کیا یہ ایک نبی پر ظلم نہیں کہ ذرائع آمدورفت بھی اتنے مشکل کہ گدھوں اور گھوڑوں پر سفر اور اسے پوری دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داری دے دی گئی؟ یہ مانے بغیر آپ طوفان لا نہیں سکتیں کہ بغیر کسی نبی کے وارننگ دئے کسی بستی کو عذاب دینا ناانصافی بھی اور خود قرآن ذکر کرچکا ہے کہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس سے بھی آگے چلیں۔ آیت کے مطابق جو ایمان لائے انہیں کشتی میں بٹھا دیا جائے۔ اب طوفان پوری دنیا پر آیا ہوا ماننا ہے تو پوری دنیا کو پہلے نوح کی وارننگ دینا ضروری تھی۔ پھر جو ایمان لائے اب ان سب کو ایک جگہ جمع کرنا۔ صرف نوح کی بستی کے لوگ ہی تو نہ ہوں گے نا پوری دنیا کو ڈبویا جارہا ہے، پوری دنیا سے ایمان لانے والوں کو جمع کرنا کوئی آسان کام ہے؟ اس صورت حال کا مزید جتنا تجزیہ کریں اتنی ہی قباحتیں سامنے آتی ہیں اور ساری کی ساری قرآنی آیات سے ٹکراتی ہوئی کہ ہر قوم میں نبی بھیجنا، عذاب سے پہلے نبی کا بھیجنا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عقل سے دور تفسیر جب بھی کی جائے گی وہ آپ کو عقل سے دور بیابانوں میں بھٹکنے پر مجبور کردے گی۔ اللہ تعالیٰ کی شان بہت ارفع ہے اس کی طرف کوئی بات منسوب کریں تو اس پر پورا غور کرنا ضروری ہے کہ ہم کس حکیم ہستی کی طرف اپنے نظریات منسوب کرنے لگے ہیں۔

کیا آپ قرآن میں "علاقائی" طوفان کا کوئی ذکر دکھا سکتے ہیں؟ کیا آپ قران میں دکھا سکتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کے دور میں دنیا پھیل چکی تھی اور مختلف قوموں تھیں، جن میں مختلف انبیاء موجود تھے؟
اصول یہ ہے کہ اگر قرآن نے کسی "تخصیص" کا ذکر نہیں کیا ہے تو واقعہ کو عام رکھا ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں جو زبردستی اپنی طرف سے واقعہ کو کسی چیز سے "مخصوص" کر دیں؟
اگر قرآن ذکر کر رہے "تمام جانوروں کے جوڑے" جمع کرنے کا تو پھر یہ حکم "عام" ہے، تو پھر آپ یا ہم اسے اپنی طرف سے کسی علاقے تک پھر مخصوص کرنے والے کون ہیں؟
حدیث کو آپ مانتے ہی نہیں، ساری عمارت فقط قیاس پر قائم ہے، تو پھر بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی کہاں؟
 
آخری تدوین:
اگر صرف سوچ بچار کرنے سے اور عقلی گھوڑے دوڑانے سےمعرفتِ الٰہیہ حاصل ہوسکتی تو پھر اللہ کو انبیاء و مرسلین کو مبعوث کرنے اور ان پر اپنا کلام نازل فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟
یار لوگ جن نکات کی بنیاد پر قرآن کی من مانی تشریح کر رہے ہیں، انہی نکات کی بنیاد پر انکی اپنی تشریح و تفسیر کا شیش محل منہدم ہوجائے تو پھر ان نکات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟
 

عظیم

محفلین
دُنیاوی علوم چاہے جتنے بھی مرتب کرلئے جائیں روحانی علوم تک نہیں پہنچ سکتے
کھلی آنکھوں پر مت جائیں صاحب کھلی آنکھیں تو فقط دُنیا دکھاتی ہیں کبھی اپنی اُن آنکھوں سے بھی دیکھئے جنہیں ازل سے بند رکھنے پر مجبور کر دیا گیا ہمیں۔

اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔

ہم نے تو بس اتنا دیکھا کہ جو جاننے والا ہے وہ نا معلوم بنا بیٹھا ہے اور جسے جاننا ہے اُسے کوئی جانتا ہی نہیں ۔۔
ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ کوئی حدیث بیان کرے تو سر کو جھکا لیتے ہیں جب تک خُود اس حدیث مبارکہ کے بارے میں معلومات حاصل نہ کرلیں کہ آیا یہ حدیث مسلم شریف کی ہے یا بخاری شریف کی ہمیں تو اپنی آواز کو حدیثِ مبارکہ کا حوالہ دینے والے یا اُسے نقل کرنے والے کی آواز سے بھی نیچا رکھنے کا حکم دِیا گیا ہے ۔
اِسی لئے تو خاموش ہیں !

علمِ حقیقی جسے ہماری اصطلاح میں علمِ دین کہا جاتا ہے وہ ہمارے اس جدید دور کے علم سے کہیں پرے کی شے ہے
شرط لگا لیجئے !
قیامت تک نہیں پہنچ پائیں گے ہم ! ( اُس علم کی حد تک )

آداب
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
میرے مطابق ارتقا کے حوالے سے سائنس ابھی تک "تھیوری" کی سٹیج پر ہے اور حتمی طور پر تجربات کی روشنی میں اس تھیوری کو ثابت نہیں کر پائی ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ: سائنس کی ارتقاء کی تھیوری کے مطابق انسان بندر کی نسل سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ دونوں "کزن" ہیں۔​
آپ تھیوری کو عام معنوں میں لے رہی ہیں جبکہ سائنٹفک تھیوری کا مطلب کچھ اور ہے

ارتقاء کا نہ صرف ثبوت ہے بلکہ اس کے بغیر ماڈرن بیالوجی ناممکن ہے
 

arifkarim

معطل
اگر صرف سوچ بچار کرنے سے اور عقلی گھوڑے دوڑانے سےمعرفتِ الٰہیہ حاصل ہوسکتی تو پھر اللہ کو انبیاء و مرسلین کو مبعوث کرنے اور ان پر اپنا کلام نازل فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟
معرفت الٰہیہ بغیر سوچے سمجھی اندھی تقلید سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر یہ کام اتنا آسان ہوتا تو آج ہمارے مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں طالب علموں میں سے ہر سال صلحاء، اولیاء اور فقہا نکل رہے ہوتے :)
 

زیک

مسافر
انسان کے ارتقا کی ہی بات ہو رہی ہے اور اس پر جو ارتقائی مواد سائنس کے نام پر پڑھایا جاتا رہا ہے اور پڑھایا جا رہا ہے اس میں سے کتنا سائنسی ہے اور کتنا خواہشات پر مبنی ہے۔

یہ خیال رہے کہ یہ تصحیح سائنسدانوں ہی نے کی ہے۔ آپ کی مثالوں میں سےصرف پلٹڈاؤن مین ایک بڑا سکینڈل تھا اور کافی عرصہ رہا۔

Piltdown Man بشکریہ ڈاکٹر Kenneth Oakley جنہوں نے ثابت کیا کہ کھوپڑی انسانی تھی اور جبڑا ، دانت ایک Orangutan کا۔
http://www.talkorigins.org/faqs/piltdown.html

Nebraska Man ایک دانت کے زور پر پوری انسانی نسل Hesperopithecus تیار کر لی گئی ، بہت سی فرضی تصاویر بھی تیار کی گئی اس نسل کے حوالے سے۔
http://www.talkorigins.org/faqs/homs/wolfmellett.html
http://www.talkorigins.org/faqs/homs/a_nebraska.html

Neanderthal پر خودساختہ اور گھڑی ہوئی معلومات پر پروفیسر Protsch کو یونیورسٹی سے برخاست ہونا پڑا۔
http://pandasthumb.org/archives/2005/02/not-a-german-pi.html
 
نوٹ: اس مراسلے میں میرے مخاطب صرف سعودی مفتیان ہیں۔
حضرت آدم کے 60 ہاتھ یا 30 گز کی روایت جو سعودی مفتیان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے صرف اس لئے کہ وہ صحیح بخاری میں ہے اور اسے ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا تو اس حوالے سے وضاحت تو میں اپنے اس مراسلے میں الگ سے کرچکا ہوں کہ اگر ہم قرآن کو حدیث پر قاضی نہیں بنائیں گے تو پھر یہی ہوگا کہ محدثین جو کہ انسان ہی ہوتے ہیں اور ان سے نادانستگی میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن ان کی غلطی کو اگر ہم قرآن پر نہ پرکھیں گے تو وہ ہمیں اللہ اور رسول کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنے پر مجبور کردے گی جو ان برگزیذہ ہستیوں کی شان کے خلاف ہے۔ اگر اس دور کے انسان کو اتنا ہی لمبا مانا جائے تو پھر یہ مفتیان ذرا غور ہی کرلیتے کہ آج چھ فٹ کے انسان کی چار چھ انچ لمبی نلکی ہوتی ہے۔ تو تیس گز یعنی 90 فٹ کے انسان کی چالیس سے پچاس انچ بنتی ہے یعنی قریب پانچ فٹ یا دو گز کے قریب۔ تو وہ بیچارہ تو پھر ٹانگ سے باندھ کر ہی چلتا پھرتا ہوگا۔ ستر پوشی تو پھر نام ہی کی ہوئی۔ بیچارے کو اکڑوں بیٹھ درخت سے پھل اتارنے پڑتے ہوں گے۔ ہ الگ بات کہ ایک درخت کا پھل اسکے پورے دن کی خوراک پر ہی خرچ ہوجاتا۔ ۔ اور درخت کی چھاؤں سے ویسے ہی محروم کہ اپنے قد سے اونچے درخت ہر جگہ تو درخت ملنے سے رہے یعنی دن کو لازمی سائے سے محرومی ٹھہری۔ پھر رہنے کے لئے اگر گھانس پھونس کا جھونپڑا بھی بنائے تو اتنا اونچا کہ جو 90 فٹ کے آدمیوں کے لئے کافی ہو گھانس پھونس کی مدد سے یہ کوئی آسان کام تونہیں۔ اگر پتھروں کا مکان بنانا چاہے تو دس فٹ اونچی دیوار بھی پتھروں کو ہموار کرکے ایسے گارے کے بغیر ممکن نہیں جو انہیں اپنی جگہ پر جما سکے۔ پھر سو ڈیڑھ سو فٹ کا مکان ان پتھروں سے تیار کرنا کیا آسان رہا ہوگا اور گارا بھی ایسا کہ اتنا دیو ہیکل آدمی اس کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے تو ڈھے ہی نہ جائے۔ یہ سب سوال وہ ہیں جو سائنس کی پیداوار نہیں۔ بلکہ ایک انسان خود ہی غور کرے تو سائنس سے قطع نظر یہ تسلیم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ درجہ بدرجہ ہر چیز کو ترقی دیتا ہے ہر چیز میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ نفس واحدہ سے پیدائش شروع کرکے پھر لاکھوں کروڑوں سال میں جاکر انسان کی تکمیل تو اس اصول پر پوری اترتی ہے کہ زندگی کا آغاز ہو ایک خلیہ پیدا ہوتا ہے کروڑوں سال میں پھر اس سے درجہ بدرجہ ترقی پاکر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان اپنی موجودہ حالت کو پہنچے۔ لیکن یہ سوچنا کہ یکدم 90 فٹ کا انسان پیدا کرکے پھر آہستہ آہستہ اسے چھوٹا کرتے چلے جانا یہ کس اصول پر ٹھہرے گی۔ ارتقاء تو تسلیم نہیں کرنا مفتیان نے لیکن یہ کیا ایک قسم کا ریورس ارتقا نہیں مانا جارہا؟ اگر یکدم ہی پیدائش ٹھہری اور مکمل تو پہلے ہی کیوں نہ نارمل انسان کی لمبائی پر پیدا کردیا۔ کیوں نہ اس ریورس ارتقا کی بجائے وہی ارتقا مان لیا جائے جو قرآن کی شان کے بھی مطابق ہے اور درجہ بدرجہ ترقی دینے کے قرآنی اصول پر بھی پورا اترتا ہے۔

حضرت آدم ؑ کے قد کا ذکر کیا جا رہا ہے 90فٹ ، امّاں حوا کے قد کے بارے میں یا ان کی عمر کے بارے میں کوئی روایت ہے؟ میرا قد 6فٹ3انچ ہے اور میرا وزن 110 کلوگرام سے زیادہ ہے اس حساب سے حضرت آدمؑ کا وزن کتنا ہوگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
بحث بہت لمبی ہوتی جارہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب تکرار شروع ہوکر پانی میں مدھانی چلانے والی بات تک آپہنچی ہے۔ اس لئے میں اب اپنی حد تک اس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کروں گا کہ موقف تو کافی حد تک دونوں کا سامنے آچکا ہے تو کہیں تکرار سے دھاگہ کچھڑی نہ بن جائے۔

آپکی اس پوری تحریر کا لب لباب تو یہ نکلا کہ آپ واقعی "قرآنسٹ" ہیں اور "منکر حدیث" ہیں۔ جب آپ کے پاس کوئی "پیمانہ" ہی نہیں کہ صحیح حدیث کو ضعیف حدیث سے الگ کر سکیں، تو پھر بخاری کے متعلق اصح الکتب ہونے کے خالی خولی دعوے کا مقصد کیا رہ گیا؟
احادیث کے بارے میں اپنا موقف اوپر کئی مراسلوں میں پیش کرچکا ہوں لیکن اسکے باوجود میرے بارے میں آپ کی رائے تبدیل نہ ہوسکی تو اب مزید تکرار کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

اور بخاری کی حدیث بھی وہ جو کہ دیگر کتب میں دیگر سند سے بھی موجود ہے، مگر آپ کو اسکا انکار ہے۔
اس حدیث کو ٹھکرانے کی بجائے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ حکم کن حالات میں آیا تھا۔
مجھے حیرت ہوئی کہ آپ اس قتل مرتد کی حدیث کو صحیح سمجھتی ہیں اس رعایت کے ساتھ کہ یہ حکم خاص حالات کے لئے تھا۔ بہرحال اس حدیث کا مضمون پورا درج کردیتا ہوں۔
’’ عکرمہ سے مروی ہے کہ بعض زندیق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں زندہ جلا دیا۔ حضرت ابن عباس تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو میں انہیں ہرگز نہ جلاتا رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ اس مناہی کے مطابق کہ اللہ کے عذاب سے (کسی کو) عذاب نہ دو بلکہ میں انہیں قتل کردیتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق کہ جو اپنا دین بدل دے اُسے قتل کردو۔‘‘
(جامع صحیح بخاری کتاب استتابۃ المرتدین و المعاندین باب حکم المرتد و المرتدۃ)

اب آپ اسے صحیح تسلیم کرتی ہیں تو یہ طے ہوا کہ
1- حضرت علی نے بعض زندیقوں کو زندہ جلا دیا تھا۔
2- انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی علم نہ تھا کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو عذاب نہ دو۔

حضرت علی جیسے جلیل القدر صحابی کے متعلق یہ دونوں باتیں میرا دل تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ یہ حدیث حضرت علی کو بدنام کرنے کے لئے گھڑی گئی ہے جیسے ابھی ظاہر ہوجائے گا۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ صحاح ستہ کی دیگر کتب میں بھی ملتی ہے یعنی بخاری، ترمذی، ابو داؤد، النسائی اور بن ماجہ میں بھی۔ اس لئے مستند ٹھہری کہ صحاح ستہ کے پانچ مجموعوں میں درج ہے۔ لیکن اس میں کچھ مسائل ہیں:
1- صحاح ستہ کی ہرکتاب میں اس حدیث کا سلسلہ ایک ماخذ پر جاکر ختم ہوتا ہے اور اسے اُس سے ماخوذ قرار دیا ہے اور وہ ہے ’’عکرمہ‘‘۔
2- اس میں کلام نہیں کہ ایک ہی ماخذ پر ختم ہونے والی حدیث بھی صحیح اور مستند ہوسکتی ہے۔ لیکن بہرحال اس درجہ قابل اعتماد تو قرار نہیں دیا جاسکتا جو ایک سے زیادہ قابل اعتبار سلسلوں سے مروی ہوں۔
3- اب جب کہ ثابت ہوگیا کہ اس حدیث کو ایک شخص عکرمہ نے آگے پھیلایا ہے اور سب نے اسی سے سُنی ہے تو عکرمہ کا چال چلن دیکھنا زیادہ ضروری ٹھہرا ۔ عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ کا ایک غلام تھا اور شاگرد بھی۔ اور شاگرد بھی ایسا جس پڑھائی سے دل اُچاٹ تھا۔ اپنی اس حیثیت کی اس نے خود تصدیق کی ہے کہ حصول علم کے بارہ میں اس کی عدم دلچسپی اور بلا اجازت مسلسل غیر حاضری پر حضرت ابن عباس بہت برافروختہ ہوجایا کرتے تھے۔ مزید برآں عکرمہ حضرت علی کا مخالف تھا اور خوارج کی طرف میلان رکھتا تھا۔ جب عباسیوں کا دور شروع ہوا تو عکرمہ کو حضرت علی سے مخاصمت اور خوارج کے ساتھ اس کی راہ و رسم کے باعث ایک بالغ نظر عالم کی حیثیت سے بہت شہرت ہوئی۔
4- ذہبی کا بیان ہے کہ چونکہ عکرمہ خوارج میں سے تھا اس لئے اُس کی بیان کردہ احادیث مشکوک اور ناقابل اعتبار ہیں۔ ارتداد کی سزا کے بارہ میں سند کا درجہ رکھنے والے امام علی بن المدائنی کی بھی عکرمہ کے بارہ میں یہی رائے ہے۔ یحیٰ بن بکر کہا کرتے تھے کہ مصر، الجزائر، اور مراکش کے خوارج عکرمہ کے موید اور پکے ساتھی تھے۔ ایک بہت بڑے عالم دین یحیٰ بن سعید الانصاری نے عکرمہ کی ناقابل اعتبار حیثیت کی بنا پر اس کی شدید مذمت کی ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ وہ ایک کذاب تھا۔ عبداللہ بن حارث نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ علی بن عبداللہ بن عباس سے ملنے گئے تو دیکھا عکرمہ کو ایک کھمبے سے جکڑ کر باندھ رکھا ہے۔ انہوں نے دلی صدمہ کا اظہار کیا کہ عکرمہ اپنی شہرت اور عزت کی وجہ سے ایسے ظالمانہ سلوک کا مستحق تو نہیں ہے تو علی بن عبداللہ بن عباس نے کہا کہ عکرمہ اس قدر گستاخ واقع ہوا ہے کہ اسے میرے مرحوم والد ابن عباس کی طرف سراسر جھوڑی اور من گھڑت باتیں منسوب کرنے میں بھی کوئی عار نہیں۔ عکرمہ کے چال چلن پر علی بن عبداللہ بن عباس سے بڑھ کر کس کی گواہی معتبر ہوسکتی ہے۔
5- حیرت نہ ہونی چاہئے کہ احادیث جمع کرنے میں اولین کا شرف رکھنے والے فقہ کے نامور بزرگ امام مالک جنہیں پوری اسلامی دنیا میں عزت و احترام اور تعظیم و تکریم کا بہت بلند مقام حاصل ہے فرمایا کرتے تھے کہ عکرمہ کی بیان کردہ احادیث سراسرغیر معتبر ہیں۔
6- درج زیل علماء نے علی الاعلان کہا ہے کہ عکرمہ میں مبالغہ آرائی کا میلان کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ امام یحیٰ بن سعید الانصاری، علی بن عبداللہ بن عباس، عطا بن ابی ربیعہ۔

سویہ ہے وہ شخص جس کی اکیلی گواہی اور سند کے ساتھ مذہب تبدیل کرنے والوں کی زندگی اور موت کا معاملہ اٹکا ہوا ہے اور تاقیامت اٹکا رہے گا۔ کیونکہ اس کی روایت صحیح بخاری میں درج ہو کر صحیح کے درجے پر فائز ہوگئی۔ یہی موقف میں بار بار پیش کررہا تھا کہ صحیح بخاری کا مقام اپنی جگہ لیکن اگر کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہو تو چاہے صحیح بخاری میں ہی کیوں کہ ہو اسے قرآن پر پرکھا جائے گا نہ کہ اس کے مطابق قرآن کی تشریح کی جائے گی۔آپ نے اسی لئے اسے صحیح تسلیم کرلیا کہ آپ کے نزدیک صحیح بخاری میں کوئی ضعیف حدیث ہو ہی نہیں سکتی۔ جبکہ میرے نزدیک قرآن پر پرکھنا تو بہت بعد میں آتا اندرونی شواہد ہی اسے مشکوک بنا رہے ہیں کہ حضرت علی کا زندیقوں کو زندہ جلادینا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان آگ کے عذاب سے لاعلم ہونا۔ اور پھر حدیث کے عمومی الفاظ جو سب سے فصیح العرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کئے جارہیں کہ جو کوئی اپنا دین بدل دے۔ اس فقرے میں تو مسلمان اور اسلام کے ساتھ ہر شخص اور مذہب آگیا۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
حضرت آدم ؑ کے قد کا ذکر کیا جا رہا ہے 90فٹ ، امّاں حوا کے قد کے بارے میں یا ان کی عمر کے بارے میں کوئی روایت ہے؟ میرا قد 6فٹ3انچ ہے اور میرا وزن 110 کلوگرام سے زیادہ ہے اس حساب سے حضرت آدمؑ کا وزن کتنا ہوگا، ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
90 فٹ؟ ہاہاہا! اسکا کوئی حوالہ؟
 

رانا

محفلین
۔۔۔ کیا یہ فقط "ایک" عالم کی رائے ہے؟ یہ "ایک عالم" کی رائے نہیں، بلکہ "پورے عالم" کی رائے ہے کہ قرآن یہ اسلوب اختیار کرتا ہے، جسکا اقرار نیچے آپ نے خود اپنی تحریر میں کیا ہے (نیلے رنگ کا اپنا جملہ دیکھیے)۔
اور بالکل "قاعدہ" ہونا چاہیے، اور بالکل میں نے "قاعدے" کے مطابق بات کی ہے۔ اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ تمام تر احادیث اسی بات کی طرف نشاندہی کر رہی ہیں، مگر آپ اسکے منکر ہیں۔ بلکہ مزید برآں قرآن نے خود "بنی آدم" اور انکے ماں باپ کا بہشت سے نکلنے کا ذکر کر کے اس کو واضح کر دیا، مگر آپ اس قرآنی آیت کو نظر انداز کر گئے اور اسکا جواب نہ دیا۔
اور آپ ہم پر تو قاعدے کی شرط لگا رہے ہیں، مگر خود قرآنی مطالب نکالنے کے لیے اپنے وقت پر آپ شتر بے مہار بن جاتے ہیں، کہ جب چاہا تو آدم کو جنت سے نکالتے ہوئے ذاتی نام بنا دیا، اور جب چاہا تو آدم کے ذاتی نام کو تبدیل کر کے صفاتی نام پر آ گئے۔
چلئے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ کوئی قاعدہ ہونا چاہئے ورنہ تو اندھیر نگری مچ جائے گی کہ جس کا دل چاہے گا اللہ کے اتارے گئے الفاظ میں سے جمع کے صیغے کو واحد اور واحد کو جمع کرتا چلا جائے گا۔ آپ کے نزدیک قاعدہ وہ احادیث ہیں جن میں حضرت آدم کا بطور پہلا انسان پیدا ہونا بیان ہے۔ کچھ کچھ اتفاق رائے تو پیدا ہو رہا ہے ہم دونوں کے درمیان یہ بھی غنیمت ہے۔

آپ بنیادی سوالوں کا جواب نہیں دے رہے ہیں، بلکہ انہیں نظر انداز کر کے گفتگو کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ بنیاد سوال آپ سے یہ تھا:
1۔ اللہ نے جب انسان کی تخلیق کی اور فرمایا کہ میں اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنانے جا رہا ہوں، تو کیا یہ خلافت فقط انسانوں تک محدود تھی، یا پھر دیگر تمام مخلوقات پر؟
خلیفہ جس کا جانشین ہوتا ہے اسکے ضابطہ اخلاق اور شریعت کو جاری کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ شریعت انسان کے لئے ہی ہے اس لئے وہ اسے انسانوں پر ہی نافذ کرے گا۔ انسان زمین پر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت ان میں نازل کرنی تھی۔ تو کسی کو تو اپنی نبوت کے لئے منتخب کرنا ہی تھا کہ جس کو شریعت وحی کرتا۔ تو اس نے آدم کو ان میں سے منتخب کیا اور اس پر اپنی شریعت نازل کی۔

صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک تو آپ نے قرآن سے یہ ثابت تو کیا نہیں ہے کہ آدم علیہ السلام سے قبل زمین پر انسان تھے، مگر انکی پوری ایک داستان پہلے بنا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ عقل و شعور سے خالی جانوروں کی طرح تھے جن پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا۔
آپکی واحد دلیل "خلیفہ" والی تھی، اور اسکے متعلق بنیادی سوال ابھی تک قائم ہے کہ یہ خلافت تو دیگر تمام مخلوقات پر ہو سکتی ہے، تو پھر زبردستی آپ فقط دوسرے انسانوں پر ہی خلافت کے لیے اصرار کیوں کر رہے ہیں؟
حیرت کی بات ہے کہ آپ کے نزدیک واحد دلیل میں نے خلیفہ والی پیش کی تھی۔ اور جس الاعراف والی آیت کی میں زیادہ وضاحت کی ہے اسے آپ دلیل ہی نہیں سمجھتیں۔ اس الاعراف والی آیت پر ابھی بحث سمیٹتے ہوئے مختصر بات کروں گا۔

نیز، آپ ایک اور عجیب دعوی کرتے ہیں کہ آپ کے مطابق جب اللہ نے انسان کو زمین پر اتارا (اور آدم جنت میں ہی تھے) تو کیا اس وقت یہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ نہ تھا؟ اگر اگر خلیفہ تھا تو آپ کو کس نے کہہ دیا کہ اس خلیفہ میں عقل و شعور نہیں تھا اس لیے اس پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا؟
ایسی کہانیاں بنانے کے لیے بھی کوئی قاعدہ قانون ہونا چاہیے، قرآن کی کوئی واضح آیت ہونی چاہیے، کسی حدیث سے اسکا پتا چلنا چاہیے۔ وگرنہ قیاس کی بنیاد پر تو ہر مذہب کے ماننے والے ہزاروں کہانیاں بناتے چلے آئے ہیں۔
اسکا مطلب آپ کو ابھی تک میرا اس حوالے سے پورا موقف ہی نہیں پتہ لگا اور آپ سمجھ رہی ہیں کہ آپ کی طرح میں بھی آدم کو کسی آسمانی جنت میں تصور کررہا ہوں جہاں سے وہ زمین پر لایا گیا۔ شائد گفتگو ابھی تک ٹکڑوں میں ہورہی تھی اس لئے اپ کو ایسا تاثر ملا۔ اس لئے اگلے مراسلے میں چند لائنوں میں بحیثیت مجموعی اس تصویر کو پیش کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ اب بحث کو سمیٹنا چاہ رہا ہوں کہ لاحاصل لگ رہی ہے۔

میں نے یہ بات کی کہ قرآن نے خود بنی آدم کے متعلق بات صاف کر دی ہے کہ یہ ان آدم و حوا کی اولاد ہیں جنہیں جنت سے نکالا گیا، تو اسکو بھی آپ صاف نگل گئے۔ تو پھر خود بتلائیے کہ میں آپ سے مزید بحث کیا کروں؟
دیکھیں آپ کا عقیدہ ہے کہ حضرت آدم پہلے انسان تھے اور سب بنی آدم انہی کی اولاد ہیں۔ اس لئے آپ یہ سمجھتی ہیں کہ بنی آدم کے لفظ میں اسی آدم کا تذکرہ ہے۔ لیکن میرا یہ عقیدہ ہے کہ وہ پہلے انسان نہیں تھے۔ اور آج زمین پر مختلف انسانوں کی نسلیں آباد ہیں۔ اسکی کی بنیاد الاعراف والی آیت ہے جسکا کچھ ذکر اگلے مراسلے میں کروں گا۔ ابن عربی کے جس کشف کا میں نے ذکر کیا تھا ہرچند کہ آپ کے عقیدے کے خلاف ہے لیکن اس سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ میرے علاوہ کم از کم ایک بندہ تو اور ہے گذشتہ صدیوں میں جو یہ بات کررہا ہے کہ آدم سے پہلے چالیس آدم گزرچکے تھے اور ہر ایک کو اللہ نے آدم ہی کہا۔ اب اگر میرے عقیدے کو دیکھیں تو آپ ہی بتائیں کہ بنی آدم کو کس طرح خطاب کیا جاتا؟ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نے سب کو آدم ہی کہا تو اولاد کو بنی آدم کہہ دیا۔ اس سے نام کی حکمت بھی پتہ لگ گئی کہ آدم کہا کیوں جارہا ہے۔ میری بات آپ کو اسی وقت سمجھ آئے گی جب آپ کا یہ عقیدہ ہو کہ ایک سے زائد آدم تھے تو خود ہی یہ سوال آپ کو حل کرنا پڑے گا کہ بنی آدم سے کیا مراد لی جائے۔ لیکن آپ کیونکہ ایک آدم کا وجود تسلیم کرتی ہیں تو آپ کے سامنے یہ سوال نہیں اس لئے اس کا کیا جواب آپ کو سمجھایا جائے۔ جتنے بھی انسان تھے ان میں سے ایک کو اللہ نے بہرحال پہلا نبی بنایا اور نبی بنانے اور شریعت کا بار اٹھانے کے بعد وہ جنت سے نکالے جانے کا واقعہ ہوا۔ تو اس جنت سے نکالے جانے والے کا ذکر آدم کہہ کرکیا گیا۔ ایک سے زائد آدمیوں کی اولاد کو ایک ہی خطاب سے مخاطب کرنا ہوتا تو کس سے کیا جاتا؟ اگر تو میں آپ کا عقیدہ تسلیم کرلوں تو آپ کی بات درست ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے عقیدے سے رجوع کریں گی تو آپ کو مجھ سے اور ابن عربی سے متفق ہونا پڑے گا ورنہ اس بنی آدم والی آیت میں خود ہی پریشان ہوں گی۔ آپ کی واحد دلیل اس کو رد کرنے کی یہ ہے کہ صفاتی نام اللہ میاں استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ نہیں کرسکتا اس کی کوئی دلیل نہیں۔ آپ کے نزدیک میری بات قیاس ہے لیکن اس میں کوئی ابہام نہیں۔ مختصر یہ کہ آپ اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے مجھ سے یہ توقع کرتی ہیں کہ آدم اور حوا کو جنت سے نکالے جانے کا ذکر ہے تو بنی آدم میں بھی انہی کا ہونا چاہئے۔

اس آیت میں قرآن بالکل واضح طور پر حالات کا پیش آنا بیان کر رہا ہے کہ پہلے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا، پھر وہ ان میں 950 سال رہے، پھر ان کو طوفان نے آ پکڑا۔ ۔۔۔ یہ سب ماضی کے صیغے ہیں اور کسی بھی زبان کو لے لیں، قواعد کے مطابق اگر تمام تر ماضی کے صییغے ہیں تو وہ واقعات پیش آنے والے ربط کو برقرار رکھتے ہوئے بیان کیے جائیں گے۔
آپ جو دعوی کر رہے ہیں، وہ قرآن کی اسلوب کے بالکل خلاف ہے۔ اور شق القمر اور قیامت والی مثال اس پر صادق نہیں آتی۔
اور سورۃ یس کے حوالے سے ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں، اور آپ کے پاس سوائے اپنے قیاس پیش کرنے کے اور کوئی ثبوت نہیں ہے
چلیں آپ کا دل اگر نو سوپچاس سال تک حضرت نوح کو زندہ رکھنے اور تبلیغ کرانے پر ہی تسلی پاتا ہے تو آپ اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں جو چاہیں رکھیں۔

کیا آپ قرآن میں "علاقائی" طوفان کا کوئی ذکر دکھا سکتے ہیں؟ کیا آپ قران میں دکھا سکتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کے دور میں دنیا پھیل چکی تھی اور مختلف قوموں تھیں، جن میں مختلف انبیاء موجود تھے؟
اصول یہ ہے کہ اگر قرآن نے کسی "تخصیص" کا ذکر نہیں کیا ہے تو واقعہ کو عام رکھا ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں جو زبردستی اپنی طرف سے واقعہ کو کسی چیز سے "مخصوص" کر دیں؟
اگر قرآن ذکر کر رہے "تمام جانوروں کے جوڑے" جمع کرنے کا تو پھر یہ حکم "عام" ہے، تو پھر آپ یا ہم اسے اپنی طرف سے کسی علاقے تک پھر مخصوص کرنے والے کون ہیں؟
حدیث کو آپ مانتے ہی نہیں، ساری عمارت فقط قیاس پر قائم ہے، تو پھر بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی کہاں؟
قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے عقل بھی استعمال کرنی ضروری ہے اور عقل ہی منع کررہی ہے اسے عالمی تسلیم کرنے پر کہ جب کوئی تخصیص قرآن نے نہیں کی تو کیوں عقل سے دور ہی سوچا جائے اور ایک علاقے پر آباد لوگوں پر عذاب لانا ہو لیکن پوری زمین پر طوفان لائے بغیر اس چھوٹے سے علاقے کو سبق نہ سکھایا جاسکتا ہو اور ایسے لاینحل سوالات پیدا ہونے دئیے جائیں جن کے جواب صرف قیاس پر مبنی ہوں کہ کیا ثبوت ہے کہ نوح کی بستی کے علاوہ بھی کہیں انسان آباد تھے یعنی آدم کے بعد ہزار برس میں یہ ایک بستی یا شہر انسانوں سے بھرا تھا باقی زمین کی زمین خالی تھی۔ آپ کے نزدیک قرآن نے تخصیص نہیں کی تو ٹھیک ہے آپ بھی نہ کریں۔ بہرحال آپ اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں۔

میں نے احادیث کی بات کی تو وہ آپ کے نزدیک مستند نہیں
اسی لئے اب میں بحث کو طول دینے سے گریز کر رہا ہوں کہ بنیادی اصولوں پر ہی اختلاف سامنے آگیا ہے تو ایک نتیجے پر کیسے پہنچ سکیں گے۔ آپ نوے فٹ کے انسان کی یکدم پیدائش والی احادیث کو ضعیف ماننے پر تیار نہیں جبکہ میں ایسی احادیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ان کی شان کے خلاف سمجھتا ہوں۔ لہذا بحث لا حاصل ہی رہے گی۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

رانا

محفلین
اب جیسے میں نے گذشتہ مراسلے میں کہا تھا کہ اپنا عقیدہ آدم کے حوالے سے مختصر طور پر سامنے رکھوں گا کیونکہ آپ یہ سمجھ رہی ہیں جیسے میں آپ کی طرح ان کے آسمانی جنت سے اتارے جانے کا قائل ہوں۔ میرے عقیدے کے مطابق

اللہ تعالیٰ نے زندگی کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہوئے جو لاکھوں کروڑوں سال پر محیط ہے پیدا کیا۔ اس تمام تخلیق کا مقصود بہرحال انسان تھا۔ اسی لئے اللہ نے قرآن میں زندگی کی تخلیق کو عموما انسان کے حوالے سے ہی بیان کیا ہے۔ لیکن ارتقا کے دوران دیگر جاندار بھی پیدا ہوئے۔ انسان نے آہستہ آہستہ ارتقا کی منازل طے کیں۔ اور لاکھوں سالوں میں جب اسکا دماغ ارتقا کی اس منزل پر پہنچا جہاں وہ ایک نظام اور تمدن کے تحت زندگی گزارنے کے اصول سمجھ سکتا تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے شریعت نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو ابتدائی شریعت تھی۔ ان انسانوں میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو منتخب کیا اور اسے آدم کا نام دیا۔ اور اسے اپنا نبی بناکر اسے وہ احکامات سکھائے جو اس نے دوسرے انسانوں تک پہنچائے۔ جس جنت کا قرآن میں ذکر ہے زمین کا ہی ایک خطہ تھا جس سے نکالے جانے سے مراد اس علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے کی طرف جانے کا حکم دے دیا گیا۔

اب میں الاعراف کی اس آیت کا کچھ ذکر کروں گا جسے آپ نے سرے سے ہی نظر انداز کرکے کہہ دیا کہ ابھی تک آدم سے پہلے انسانوں کا قرآن سے کوئی ثبوت نہیں دیا۔ پھر متفق نکات پر بات کریں گے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿١١
ترجمہ: اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا

اب پہلے متفق علیہ نکات پر بات ہوجائے جن پر آپ اور میں گذشتہ مراسلوں میں متفق ہوئے ہیں۔
1- خلقنا کُم اور صورنٰکُم۔ یہاں آپ کو بھی تسلیم ہے کُم جمع کا صیغہ ہے۔جو تین یا زائد کے گروہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
2- آپ کے نزدیک کُم سے مراد واحد بھی لی جاسکتی ہے لیکن کوئی قاعدہ ہونا ضروری ہے۔
3- آپ کے نزدیک قاعدہ وہ احادیث ہیں جن میں آدم کو پہلا انسان ہونا بیان کیا گیا ہے۔

اختلاف یہاں پر ہے کہ میرے نزدیک پہلی دونوں جگہ نسل انسانی سے خطاب ہے کیونکہ جمع کا صیغہ ہے لیکن آپ کے نزدیک ان احادیث کی بنیاد پر واحد کا صیغہ لینا چاہئے۔
اب دونوں کیسز کو اپلائی کرکے دیکھتے ہیں کہ وہ احادیث صحیح بھی ہوسکتی ہیں اور ضعیف بھی۔
اب پہلے ذرا دیر کو میری طرح یہ تصور کرلیں کہ وہ آدم کو پہلا انسان بیان کرنے والی احادیث ضعیف ہیں۔تو اب آیت کیا بیان کررہی ہے کہ
اے انسانوں یا نسل انسانی! خلقنٰکُم۔ میں نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر صورنٰکُم۔ تمہیں صورتوں میں ڈھالا یا ٹھیک ٹھاک کیا۔ (ارتقائی ادوار کا ذکر ہے)۔ پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔
اب بتائیں آدم سے پہلے نسل انسانی یا انسانوں کا وجود ثابت ہوا یا نہیں؟ نہ صرف ثابت بلکہ صورنٰکُم ارتقائی منازل کی طرف بھی اشارہ مل رہا ہے۔ تب جاکر آدم کو سجدہ کا واقعہ آتا ہے۔ یہ بینہ وہی بات ہے جو میرا عقیدہ ہے۔ اور پھر یہ دیکھیں کسی لفظ سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی کہ زبردستی آدم سے پہلے انسانوں کے پیدا کروانے کا الزام لگایا جاسکے۔ بہت واضح طور پر قرآن اسی طرف اشارہ کررہا ہے۔

اب آتے ہیں دوسرے کیس کی طرف۔ کہ ذرا دیر کو میں یہ فرض کرلیتا ہوں کہ آدم کو پہلا انسان بیان کرنے والی احادیث صحیح ہیں اور بغیر شک و شبہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کلام ہے۔ اس صورت میں میرا بھی وہی عقیدہ ہوگا جو آپ کا ہے کہ یہاں آدم سے ہی خطاب ہے۔

فرق کہاں آیا۔ نوے فٹ کے انسان کو پہلا انسان منوانے والی احایث پر جو یکدم ارتقا کے خلاف پیدا ہوا۔میرے نزدیک وہ ضعیف ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں۔ آپ کے نزدیک وہ صحیح ہیں۔ لہذا آپ خداتعالی کے استعمال کئے ہوئے جمع کے صیغے کو واحد کرنے پر مجبور ہیں۔ ورنہ میرا عقیدہ دیکھیں تو کسی لفظ سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی پڑ رہی اور نہ صرف تخلیق بلکہ ارتقا اور آدم سے پہلے انسانوں کا وجود بھی اس آیت سے ثابت ہورہا ہے۔ اب بھی اگر آپ کہیں کہ ابھی تک آدم سے پہلے انسانوں کے وجود کا ثبوت قرآن سے نہیں دے سکا تو میں کیا کہوں؟ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ میں ان احادیث کو صحیح نہ مان کر غلط کررہا ہوں۔

اب اصل بحث میں یہاں ختم کررہا ہوں کہ جب ہم دونون کی بنیاد ہی میں اختلاف ہے جس سے عقیدہ بنا رہے ہیں تو بحث لاحاصل ہے۔ نہ آپ نے نوے فٹ کے یکدم پیدا ہونے والے آدم والی احادیث کو ضعیف تسلیم کرنا ہے اور نہ میں انہیں صحیح سمجھنے پر راضی ہوں۔
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
اب اصل بحث سے ہٹ کر کچھ اس بارے میں ذکر کردوں کہ کیوں ارتقا کو نظر انداز کرتے ہوئے یکدم پیدائش کا نظریہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔

قرآن شریف میں اللہ کی ایک صفت ’’رب‘‘ بھی بیان ہوئی ہے جو کسی چیز کو اس کی ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ حالت تک پہنچائے۔ مثلا گھوڑے کے کمزور اور ناتواں بچہ کی دیکھ بھال کرکے اسے خوبصورت اور مضبوط گھوڑا بنادیا جائے تو اس کے لئے عرب رب الفلو کا محاورہ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے گھوڑے کی نہایت عمدگی سے دیکھ بھال اور پرورش کی۔ اسی طرح الرب کا ایک معنیٰ ’پیش بینی کرنے والا‘ ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو خالق ہے اپنی تخلیق کے درجہ بدرجہ ارتقا کی مناسبت سے ان کی ضروریات بھی پوری فرماتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم مرحلہ وار تخلیق کا ذکر فرماتا ہے اور کسی چیز کے یکدم عالم وجود میں آنے کے تصور کرنے کو کلتۃ رد کرتا ہے۔ اس خیال کی تردید اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسا خیال اللہ تعالیٰ کی عظمت کے منافی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم اس بارہ میں انسان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ۰۰۱۳ وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا۰۰۱۴
تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ سے کسی وقار کی توقّع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اُس نے تمہیں مختلف طریقوں پر پیدا کیا۔ (نوح 13-14)

لیکن اللہ سے وقار کی توقع واقعی نہیں رکھی جاتی اور نوے فٹ کے انسان کو زمین پر یکدم پیدا کروادیا جاتا ہے۔

سورۃ النشقاق کی یہ آیت بنی نوع انسان پر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ ان کا سفر مسلسل جاری ہے:
لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍؕ۰۰۱۹
یقیناً تم ضرور درجہ بدرجہ ترقی کروگے۔(النشقاق 19)

پھر یہی نہیں بلکہ وہ لمبے ارتقائی سفر کی کچھ جھلکیاں بھی دکھاتا ہے۔ لیکن ان کے یہاں بیان کی ضرورت نہیں کہ صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ خدا کی ارفع و اعلیٰ شان والی ذات کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنے سے تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی انسان کو اوپر کی آیت میں تنبیہ کردی ہے کہ یہ اس کی اعلیٰ اور ارفع شان کے خلاف ہیں۔

تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ١ٞ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۙ۰۰۱ ا۟لَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُۙ۰۰۲ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا١ؕ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ١ؕ فَارْجِعِ الْبَصَرَ١ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۰۰۳
بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضہء قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے۔ اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔وہی جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تُو رحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ (الملک 1-3)
 

مہوش علی

لائبریرین
نوٹ: اس مراسلے میں میرے مخاطب صرف سعودی مفتیان ہیں۔
حضرت آدم کے 60 ہاتھ یا 30 گز کی روایت جو سعودی مفتیان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے صرف اس لئے کہ وہ صحیح بخاری میں ہے اور اسے ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا تو اس حوالے سے وضاحت تو میں اپنے اس مراسلے میں الگ سے کرچکا ہوں کہ اگر ہم قرآن کو حدیث پر قاضی نہیں بنائیں گے تو پھر یہی ہوگا کہ محدثین جو کہ انسان ہی ہوتے ہیں اور ان سے نادانستگی میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن ان کی غلطی کو اگر ہم قرآن پر نہ پرکھیں گے تو وہ ہمیں اللہ اور رسول کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنے پر مجبور کردے گی جو ان برگزیذہ ہستیوں کی شان کے خلاف ہے۔ اگر اس دور کے انسان کو اتنا ہی لمبا مانا جائے تو پھر یہ مفتیان ذرا غور ہی کرلیتے کہ آج چھ فٹ کے انسان کی چار چھ انچ لمبی نلکی ہوتی ہے۔ تو تیس گز یعنی 90 فٹ کے انسان کی چالیس سے پچاس انچ بنتی ہے یعنی قریب پانچ فٹ یا دو گز کے قریب۔ تو وہ بیچارہ تو پھر ٹانگ سے باندھ کر ہی چلتا پھرتا ہوگا۔ ستر پوشی تو پھر نام ہی کی ہوئی۔ بیچارے کو اکڑوں بیٹھ درخت سے پھل اتارنے پڑتے ہوں گے۔ ہ الگ بات کہ ایک درخت کا پھل اسکے پورے دن کی خوراک پر ہی خرچ ہوجاتا۔ ۔ اور درخت کی چھاؤں سے ویسے ہی محروم کہ اپنے قد سے اونچے درخت ہر جگہ تو درخت ملنے سے رہے یعنی دن کو لازمی سائے سے محرومی ٹھہری۔ پھر رہنے کے لئے اگر گھانس پھونس کا جھونپڑا بھی بنائے تو اتنا اونچا کہ جو 90 فٹ کے آدمیوں کے لئے کافی ہو گھانس پھونس کی مدد سے یہ کوئی آسان کام تونہیں۔ اگر پتھروں کا مکان بنانا چاہے تو دس فٹ اونچی دیوار بھی پتھروں کو ہموار کرکے ایسے گارے کے بغیر ممکن نہیں جو انہیں اپنی جگہ پر جما سکے۔ پھر سو ڈیڑھ سو فٹ کا مکان ان پتھروں سے تیار کرنا کیا آسان رہا ہوگا اور گارا بھی ایسا کہ اتنا دیو ہیکل آدمی اس کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے تو ڈھے ہی نہ جائے۔ یہ سب سوال وہ ہیں جو سائنس کی پیداوار نہیں۔ بلکہ ایک انسان خود ہی غور کرے تو سائنس سے قطع نظر یہ تسلیم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ درجہ بدرجہ ہر چیز کو ترقی دیتا ہے ہر چیز میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ نفس واحدہ سے پیدائش شروع کرکے پھر لاکھوں کروڑوں سال میں جاکر انسان کی تکمیل تو اس اصول پر پوری اترتی ہے کہ زندگی کا آغاز ہو ایک خلیہ پیدا ہوتا ہے کروڑوں سال میں پھر اس سے درجہ بدرجہ ترقی پاکر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان اپنی موجودہ حالت کو پہنچے۔ لیکن یہ سوچنا کہ یکدم 90 فٹ کا انسان پیدا کرکے پھر آہستہ آہستہ اسے چھوٹا کرتے چلے جانا یہ کس اصول پر ٹھہرے گی۔ ارتقاء تو تسلیم نہیں کرنا مفتیان نے لیکن یہ کیا ایک قسم کا ریورس ارتقا نہیں مانا جارہا؟ اگر یکدم ہی پیدائش ٹھہری اور مکمل تو پہلے ہی کیوں نہ نارمل انسان کی لمبائی پر پیدا کردیا۔ کیوں نہ اس ریورس ارتقا کی بجائے وہی ارتقا مان لیا جائے جو قرآن کی شان کے بھی مطابق ہے اور درجہ بدرجہ ترقی دینے کے قرآنی اصول پر بھی پورا اترتا ہے۔

زیادہ تفصیل میں جائے بغیر (کم از کم فی الحال) میری رائے یہ ہے کہ یہ طعن اسلام یا حدیث پر ہونے کی بجائے اعتراض کا رخ اس کو بیان کرنے والی شخصیت "جناب ابوہریرہ" کی طرف ہونا چاہیے۔
جناب ابو ہریرہ پر یہ تنقید پہلے سے موجود ہے کہ وہ کعب بنا الاحبار سے روایت کرتے ہیں، جو کہ اسرائیلیات بیان کرتے ہیں۔
اس موضوع کی تفصیل کے لیے علیحدہ تھریڈ ہونا چاہیے۔
 
Top