از مہوش علی:
اس اقتباس میں آپ نے اول تا آخر جو کچھ بیان کیا ہے، وہ فقط اور فقط "قیاس" ہے جسکا کم از کم کوئی ذکر قرآن یا حدیث میں موجود نہیں۔ 1400سالوں تک مسلمان (بشمول صحابہ) اس قرآن کو پڑھتے رہے اور انہوں نے بھی قرآن کی اس آیت سے یہ کہانی اخذ نہیں کی، حتی کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پہلے مفسر ثابت ہوئے جنہوں نے 1400 سال کے بعد جا کر پہلی مرتبہ اس قرآنی آیت سے یہ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی آدم کے ساتھ دوسرے لوگ بھی پیدا کیے گئے، اور پھر اس مطلب پر یہ پوری کہانی استوار کی گئی کہ ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہ تھا اور وہ آدم کے زمین پر آنے سے قبل زمین پر خلیفہ نہیں تھے، اور ان میں عقلی شعور نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔
آپ کے نزدیک یہ کہانی ہی سہی لیکن یہ کوئی دلیل نہیں کہ 1400 سال میں کسی نے ایسی تشریح نہیں کی۔ کیا قرآن کے معارف اب ختم ہوگئے ہیں؟ اور وہی خزانہ تھا جو گذشتہ مفسرین نے نکال لیا اب قیامت تک کوئی نئی بات قرآن سے نہیں نکالی جاسکتی؟ آپ کے نزدیک ضروری ٹھہرا کہ قرآن سے اب جو بھی تفسیر نکالی جائے وہ 1400 سال میں ضرور کسی اور نے بھی نکالی ہو، تو پھر ضرورت ہی کیا ہے نئی تفاسیر کی جب نئی بات ہی نہیں ملنی۔ آپ کا یہ عقیدہ ہو تو ہو، میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے۔ اور اس کے معارف قیامت تک ختم نہ ہوں گے۔ بلکہ یہ اس کا معجزہ ہے اور اسکے زندہ کتاب ہونے کا ثبوت کہ ہر زمانے کا انسان جب اسے پڑھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس میں اس کے زمانے کے لئے بھی بہت کچھ ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے سمندر میں نیک نیتی اور اخلاص سے غوطہ لگائے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور نئے موتیوں سے نوازے گا۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا یہ بیان کردہ تفسیر و ترجمہ قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے یا نہیں؟ بالکل ہے لیکن آپ کی نظر سے دیکھیں تو نہیں کہ جیس بھی احادیث ہوں ان پر آیات کو پرکھنا ہے اور اسی بنیاد پر جمع کو واحد کرکے آدم کو پہلا انسان ثابت کرنا ہے۔
دیکھیں قرآن نے کہا تھا کہ پہاڑ تمہیں ساکت لگتے ہیں لیکن درحقیقت بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اب 1400 سال میں اگر کسی کو اس سے زمین کی گردش کا نکتہ نہ دکھائی دیا تو کیا اب حرام ہوگیا کہ اس سے زمین کی گردش اخذ کی جائے!! قرآن میں ہے کہ شیطان نے کہا کہ میں لوگوں کو بہکاؤں گا کہ تیری تخلیق میں تبدیلی کریں۔ اب 1400 سال میں کسی کا دھیان اس طرف نہ گیا تو اب شجرہ ممنوعہ ٹھہرا کہ اس سے جینیٹک انجنیرنگ میں ہونے والی پیش رفت کی خبر سمجھی جائے!! بلکہ شائد آپ مجھ پر ایک قدم آگے بڑھ کر شدت پسند قرانسٹ کا لیبل لگادیں کہ یہ تو قرآن سے جدید سائنس کی شاخیں بھی نکالنے کا جرم کر رہا ہے۔ اگر چودہ سو سال میں کسی کا دھیان ارتقا کی طرف نہیں تھا لیکن اب واضح آیات اس کے حق میں نظر آرہی ہیں تو صرف اس لئے جمع کو واحد کردیا جائے کہ احادیث جمع کرنے میں یقین ہے کہ کوئی غلطی نہیں ہوئی اور من و عن ہم تک پہنچی اس لئے اس کے مطابق قرآن کے الفاظ کو بدلا جائے گا!!
جس کہانی کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ کیوں ارتقائی دور مکمل ہونے سے پہلے انسان کو ضابطہ اخلاق سے آزاد قرار دیا ہے۔ تو یہ کہانی اس وقت تک ہے جب تک آپ آدم کو پہلا انسان تسلیم کرتی رہیں گی۔ اس وقت تک آپ کو اس کہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن جہاں آپ نے اس روایتی عقیدے کو چھوڑ کر قرآن کے مطابق انسان کی پیدائش میں ارتقا تسلیم کرلیا آپ کے سامنے یہ سوال آکھڑا ہوگا کہ انسانی جسم میں ارتقا کی تکمیل تسلیم کرتے ہی تکمیل سے پہلے کے انسان کا کیا جائے؟ لیکن آپ کیونکہ اسے تسلیم نہیں کرتیں اس لئے آپ کو اس کہانی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہی نہیں کہ آپ اپنے عقیدہ میں آزاد ہیں۔
آپ بنیادی سوالوں کا جواب نہیں دے رہے ہیں، بلکہ انہیں نظر انداز کر کے گفتگو کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ بنیاد سوال آپ سے یہ تھا:
1۔ اللہ نے جب انسان کی تخلیق کی اور فرمایا کہ میں اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنانے جا رہا ہوں، تو کیا یہ خلافت فقط انسانوں تک محدود تھی، یا پھر دیگر تمام مخلوقات پر؟
صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک تو آپ نے قرآن سے یہ ثابت تو کیا نہیں ہے کہ آدم علیہ السلام سے قبل زمین پر انسان تھے، مگر انکی پوری ایک داستان پہلے بنا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ عقل و شعور سے خالی جانوروں کی طرح تھے جن پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا۔
آپکی واحد دلیل "خلیفہ" والی تھی، اور اسکے متعلق بنیادی سوال ابھی تک قائم ہے کہ یہ خلافت تو دیگر تمام مخلوقات پر ہو سکتی ہے، تو پھر زبردستی آپ فقط دوسرے انسانوں پر ہی خلافت کے لیے اصرار کیوں کر رہے ہیں؟
2۔ نیز، آپ ایک اور عجیب دعوی کرتے ہیں کہ آپ کے مطابق جب اللہ نے انسان کو زمین پر اتارا (اور آدم جنت میں ہی تھے) تو کیا اس وقت یہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ نہ تھا؟ اگر اگر خلیفہ تھا تو آپ کو کس نے کہہ دیا کہ اس خلیفہ میں عقل و شعور نہیں تھا اس لیے اس پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا؟
ایسی کہانیاں بنانے کے لیے بھی کوئی قاعدہ قانون ہونا چاہیے، قرآن کی کوئی واضح آیت ہونی چاہیے، کسی حدیث سے اسکا پتا چلنا چاہیے۔ وگرنہ قیاس کی بنیاد پر تو ہر مذہب کے ماننے والے ہزاروں کہانیاں بناتے چلے آئے ہیں۔
پہاڑوں کے بادلوں کی طرح حرکت کا مسئلہ
از رانا صاحب:
دیکھیں قرآن نے کہا تھا کہ پہاڑ تمہیں ساکت لگتے ہیں لیکن درحقیقت بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اب 1400 سال میں اگر کسی کو اس سے زمین کی گردش کا نکتہ نہ دکھائی دیا تو کیا اب حرام ہوگیا کہ اس سے زمین کی گردش اخذ کی جائے!!
رانا صاحب، یہ آپ نے انتہائی حیرت انگیز بات کی ہے۔ اور آپ تنہا نہیں ہیں، بلکہ آج ذاکر نائیک جیسے بے تحاشہ لوگ ہیں جو کہ یہ عجیب و غریب دعوی کر کے اسلام کو سائنس کا اعجاز قرار دے رہے ہیں اور اس دعوے کو بڑے فخر سے غیر مسلموں کے سامنے پیش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
یا حیرت!!!!
قرآن نے تو صاف کہا ہے کہ یہ پہاڑ جامد و ساکت ہیں۔
سورۃ الحجر:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿
١٩﴾
ترجمہ: اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ (میخوں کی طرح) گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں نپی تلی اگائیں۔
مگر اسکے باوجود یہ "آج" کے مجاہد سائنس کو اسلام کا تابع ظاہر کرنے کے لیے دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اور اپنے اس مقصد کے لیے یہ لوگ قرآن کی آیت 27:88 استعمال کرتے ہیں۔ (معذرت کے ساتھ) مگر پتا نہیں انکی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہوئی ہے کیونکہ یہ آیت 27:88 اور اس سے قبل کی آیت 27:87 خود یہ گواہی دے رہی ہیں کہ پہاڑ تو جامد و ساکت ہیں، مگر جب قیامت آئے گی اور صور پھونکا جائے گا تو صرف اس قیامت والے دن یہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے۔
سورۃ النمل:
وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّ۔هُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴿
٨٧﴾وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّ۔هِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ ﴿
٨٨﴾
ترجمہ:
اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔
آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔
اس طرز عمل پر انتہائی انتہائی تعجب ہے کہ یہ قرآنی آیت تو بذات خود پہاڑ کو خوب جما ہو جامد و ساکت بیان کر رہی ہیں، اور فقط قیامت کے روز انکا بادلوں کی طرح اڑنا بیان کر رہی ہیں، مگر احمدی حضرات، اور ذاکر نائیک کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے اسلامی مجاہد، جو اسلام کے دفاع کے نام پر اسے سائنس کا کرشمہ قرار دے رے ہیں، وہ بند آنکھوں سے اس آیت کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے الٹا اس سے زمین کی گردش ثابت کر رہے ہیں۔ فالعجب۔
مہوش علی نے کہا:
↑
یہ ہی وہ طریقہ کار ہے جس پر میں معترض ہوں کیونکہ اسکو استعمال کرتے ہوئے قرآنی آیات کو اپنی مرضی سے توڑا مڑوڑا جاتا ہے اور اپنی مرضی کی معنی اخذ کر لیے جاتے ہیں۔
جب تک آدم کو جنت سے نکلوانا تھا اس وقت تک قرآن میں وہ آدم ہی رہے۔ مگر پھر ضرورت پڑی تو آدم نام سے تبدیل ہو کر صفانی نام ہو گیا، حالانکہ قرآن نے کہیں اسکا کوئی اشارہ نہیں د
یا۔ مٹیالہ رنگ بھی خوب ہے کہ یورپین تو پھر اپنے گورے رنگ کی وجہ سے بچ گئے کہ انہیں شیطان کے فتنے کا ڈر نہیں۔
یورپین لوگوں کے حوالے سے آپ کو یاد نہیں رہا کہ میں نے لفظ آدم کے دو مادوں کا ذکر کیا تھا۔ ایک کا مطلب ہے سطح زمین پر رہنے والے۔ اور دوسرے کا مطلب ہے گندمی رنگ والے۔ کیا یورپین واقعی ان دونوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہوپارہے؟
میں نے احادیث کی بات کی تو وہ آپ کے نزدیک مستند نہیں۔ میں نے یہ بات کی کہ قرآن نے خود بنی آدم کے متعلق بات صاف کر دی ہے کہ یہ ان آدم و حوا کی اولاد ہیں جنہیں جنت سے نکالا گیا، تو اسکو بھی آپ صاف نگل گئے۔ تو پھر خود بتلائیے کہ میں آپ سے مزید بحث کیا کروں؟
ماڈرن سائنس کے سوالات کے جوابات دینے میں آجکل اسلام کے جہادیوں اور احمدی حضرات کی کمیونٹی میں خاصا یارانہ نظر آتا ہے۔ شاید یہ اچھی بات ہو۔ دونوں ہی آج ایک ہی طرح قرآنی آیات کےمفہوم و مطالب نکال کر دعوے کر رہے ہوتے ہیں کہ قرآن نے سائنسی گتھیاں صدیوں پہلے سلجھا دی تھیں۔
مگر افسوس کہ انکے یہ کھینچ تان کر نکالے گئے مفہوم پچھلے 1400 سال میں آنے والے قرآنی مفسرین کے بالکل خلاف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ انہیں بھی علم ہے کہ یہ سیاق و سباق سے آیت کو جدا کر کے قرآن کے غلط تراجم کر رہے ہیں، اور پھر غلط تراجم کی بنیاد پر اپنی پسند کے من مانے معنی نکال رہے ہیں۔
یہ بددیانتی ہرگز درست طرز عمل نہیں۔اسی وجہ سے قرآن کے ساتھ نازل ہونے والی احادیث انکے آج کے اس کیے جانے والے "نئے ترجمہ" اور نکالے جانے والے نئے "مفہوم و تفسیر" سے دور دور تک نہیں ملتیں۔ چنانچہ قرآن سے ٹکرانے کے نام پر یہ احادیث کو مکمل طور پر ٹھکرا چکے ہیں اور آج باقی حدیث کا نام لینا فقط دکھاوا ہے اور یہ صرف وہی حدیث لیتے ہیں جسے اپنے نکالے گئے مفہوم کے لیے استعمال کر سکیں۔
پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنا: قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں بددیانتی
احمدی حضرات کی ویب سائیٹ پر قرآن کا ترجمہ و تفسیر موجود ہے (لنک)۔ وہاں سے سورۃ نمل کی آیت 89 کا ترجمہ و تفسیر پیشِ خدمت ہے۔
ترجمہ
:اور تو پہاڑوں کو اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ اپنی جگہ ٹہرے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں (تفسیری حاشیہ) کی طرح چل رہے ہیں۔
اور تفسیر حاشیہ میں اسکی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اس (پہاڑوں کے بادلوں کی طرح چلنے) میں زمین کے چلنے کا ذکر ہے برخلاف پرانے جغرافیہ نویسوں کے جو سورج کو چلتا بتاتے ہیں اور زمین کو ساکن"۔
بددیانتی وہی ہے کہ انہوں نے اس آیت کا من پسندیدہ ترجمہ کرنے کے لیے اسے سیاق و سباق سے نکال لیا ہے۔ جبکہ اس آیت کا سیاق و سباق قیامت کے روز کے متعلق ہے، کہ روزِ قیامت یہ پہاڑ جو جامد و ساکت ہیں، وہ بادلوں کی طرح چلتے ہوں گے۔
ذیل میں اس آیت کے ترجمے کو بمع سیاق و سیاق پیش کیا جا رہا ہے تاکہ سب چیزیں واضح ہو سکیں۔
ترجمہ سورۃ النمل، آیت 87 تا 90 (نوٹ: آیت 87 سے قبل بھی قیامت کا ذکر ہے):
۔۔۔اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جامد ہیں (قرآن نے لفظ "جَامِدَةً " استعمال کیا ہے)، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئیگا اسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے۔ اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟
آپ سیاق و سباق کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں کہ پہاڑوں کے یہ بادلوں کی طرح اڑنے کا ذکر فقط صور پھونکے جانے کے بعد روزِ قیامت کا ہے۔ مگر ان لوگوں نے جان بوجھ کر اس آیت کو سیاق و سباق سے علیحدہ کیا، اور پھر من چاہے عقیدے کے مطابق اسکا ترجمہ کر ڈالا، اور لوگوں کو اصل حقیقت سے بہکایا۔
مجھے ہر چیز قابل قبول ہوتی ہے، ہر ایک کی رائے کا میں احترام کر سکتی ہوں، مگر جان بوجھ کر کی گئی بددیانتی "ناانصافی" کے زمرے میں آتی ہے، اور مجھ سے یہ ناانصافی ہرگز برداشت نہیں ہو سکتی۔ اللہ کی صفات میں سے میری پسندیدہ صفت اللہ کا "عادل" ہونا ہے۔ اور اللہ کا یہ پیغام کہ عدل کرو چاہے یہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ جاتا ہو۔