سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

میری نظر میں دو ایسی چیزوں کا تقابل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا دائرہ فکر ہی انتہائی مختلف ہے ۔ تاریخ پر سائنس کی بحث بھی حتمی قرار نہیں پاتی اور ہزاروں نہیں لاکھوں سال کا فرق کئی بار نکل چکا ہے ، اس کے علاوہ بہت سے اصول جو صدیوں اور دہائیوں تک مانے جاتے رہے ہیں وہ یکسر بدلے گئے ہیں۔ ف

فزکس کے بنیادی تصورات سے لے کر کائنات کی تشکیل کے نظریات ابھی تک تشکیل پا رہے ہیں اور جو کچھ ہم نے پڑھا تھا اب اس سے یکسر مختلف ہے۔
تاریخ ، ارتقا ، آرکائیولوجی اور دوسرے موضوعات پر تو آخری بات کہنا ویسے ہی ناممکن ہے۔

اسی طرح مذہبی تعلیمات میں بھی چند تشریحات کو الہامی پیش کیا جاتا رہا ہے اور صدیوں بعد کی تحقیق سے وہ معاملہ مفسرین کی اپنی رائے یا ضعیف روایات کا شاخسانہ نکلا ہے۔

صحیح احادیث کا بنیادی مقصد اعمال کی پیروی کے لیے ان کا دلیل پکڑنا ہے ، عقائد میں بھی صرف صحیح نہیں بلکہ متواتر احادیث عقیدہ کے درجہ پر پہنچتی ہے۔ مذہب
 

مہوش علی

لائبریرین
میری نظر میں دو ایسی چیزوں کا تقابل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا دائرہ فکر ہی انتہائی مختلف ہے ۔ تاریخ پر سائنس کی بحث بھی حتمی قرار نہیں پاتی اور ہزاروں نہیں لاکھوں سال کا فرق کئی بار نکل چکا ہے ، اس کے علاوہ بہت سے اصول جو صدیوں اور دہائیوں تک مانے جاتے رہے ہیں وہ یکسر بدلے گئے ہیں۔ ف

فزکس کے بنیادی تصورات سے لے کر کائنات کی تشکیل کے نظریات ابھی تک تشکیل پا رہے ہیں اور جو کچھ ہم نے پڑھا تھا اب اس سے یکسر مختلف ہے۔
تاریخ ، ارتقا ، آرکائیولوجی اور دوسرے موضوعات پر تو آخری بات کہنا ویسے ہی ناممکن ہے۔

اسی طرح مذہبی تعلیمات میں بھی چند تشریحات کو الہامی پیش کیا جاتا رہا ہے اور صدیوں بعد کی تحقیق سے وہ معاملہ مفسرین کی اپنی رائے یا ضعیف روایات کا شاخسانہ نکلا ہے۔

صحیح احادیث کا بنیادی مقصد اعمال کی پیروی کے لیے ان کا دلیل پکڑنا ہے ، عقائد میں بھی صرف صحیح نہیں بلکہ متواتر احادیث عقیدہ کے درجہ پر پہنچتی ہے۔ مذہب


سائنس کے ساتھ "انصاف"

یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنے رجحانات tendencies کی وجہ سے اپنے عقائد پر قائم رہیں، مگر یہ درست نہ ہو گا کہ ہم سائنس پر غلط اعتراضات لگا کر اس کے ساتھ ناانصافی کریں۔ ہر چیز کو اسکے درست مقام پر رکھنے کا نام انصاف ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ: انصاف کرو، چاہے یہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ جاتا ہو، اور یہ کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ناانصافی پر مجبور نہ کرے۔

سائنس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلے ایک "تھیوری" پیش کرتی ہے۔ پھر اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے وہ "تجربات" کرتی ہے۔ ان تجربات کے نتیجے میں وہ تھیوری یا تو ثابت ہو جاتی ہے، یا پھر رد ہو جاتی ہے، یا پھر اس میں تبدیلی ہو جاتی ہے، یا پھر یہ تجربات نامکمل ہوتے ہیں اور وہ حتمیٰ طور پر تھیوری کو نہ ثابت کر پا رہے ہوتے ہیں اور نہ رد۔

سائنس پر جو اعتراض اٹھتے ہیں، وہ فقط سائنسی "تھیوریز" پر اٹھتے ہیں، مگر انہیں غلط طور پر پوری سائنس پر پھیلا کر پوری سائنس کو ہی مشکوک بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ تجربات کی روشنی میں سائنس بہت سی چیزوں کو "حق الیقین" کی سطح پر لے آئی ہے۔ مثلاً ہمارے علماء حضرات پچھلے 1300 سال تک زمین چپٹی ہونے عقیدہ رکھتے آئے، مگر آج سائنس حق الیقین کی حد تک تجربات سے ثابت کر چکی ہے کہ زمین گول ہے۔ یہی مسئلہ اس 1300 سال پرانے مذہبی نظریے کا ہے کہ زمین سورج کے گرد نہیں گھوم رہی، بلکہ یہ سورج ہے جو کہ زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ مگر آج سائنس اسے حق الیقین کی سطح تک غلط ثابت کر چکی ہے۔

اگلا اعتراض سائنس پر یہ کیا جاتا ہے کہ وہ چیزیں کے پرانے ہونے کے حوالے سے صحیح تخمینہ نہیں لگا پاتی اور ہزاروں سال کا فرق نکل چکا ہے۔

یہ اعتراض بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا۔ یہ ہزاروں سال پرانے انسانی ڈھانچے 18 ویں صدی میں ہی دریافت ہونا شروع ہو گئے تھے اور اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں انکے متعلق سائنسدان تخمینے پیش کرنے لگے۔ یقیناً اس وقت تک سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی اور انکے تخمینوں میں بڑا فرق نکلنے لگا۔ اس چیز کو آج تک نشانہ بنا کر سائنس پر اعتراض اٹھائے جا رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کی سائنس اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے، اور وہ ترقی کے وہ منازل عبور کر چکی ہے کہ جہاں اس نے بات پھر سے "حق الیقین" کی حد تک پہنچا دی ہے۔ آج سائنس جو تخمینے لگا رہی ہے، اس میں مارجن آف ایرر کم ہو کر نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
آج سائنس دعوی کر رہی ہے کہ اسے وہ مارجن آف ایرر دکھایا جائے کہ جسکا اس پر الزام ہے، مگر سائنس مخالفین آج سائنس کے پیشکردہ ثبوتوں کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں اور سائنس پر انکا پرانا تاریخی اعتراض آج مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے۔

صحیح حدیث عقائد میں نہیں تو پھر "قانون" میں کیوں؟

آج اگر آپ عقائد میں "صحیح" حدیث کا انکار کر رہے ہیں، تو پھر آپ کو شریعت میں بھی صحیح حدیث کی شرط ختم کر کے "متواتر" کی شرط لگانی چاہیے، خاص طور پر اس وقت جب شریعت کے قوانین کی وجہ سے انسانی زندگی تک داؤ پر لگی ہو۔ صحیح حدیث کے نام پر آپ اسکے "الہامی حکم" ہونے کے دعویدار ہیں اور اسی نام پر آپ اسکا اطلاق معاشرے میں کر رہے ہیں اور اسے شریعتی قوانین کے نام پر چیلنج نہیں ہونے دے رہے۔
مگر یاد رہے کہ "متواتر" کی شرط لگا کر آپ شاید 3 فیصد شریعتی قانون کو بچا پائیں، اور باقی 97٪ شریعت سے آپ کو ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔

مذہبی ارتقاء میں کون سی چیزیں "متواتر" ہیں؟
ان چیزوں کا کیا کریں گے جو کہ براہ راست قرآن سے ہیں؟ نوح علیہ السلام کو 950 سال تک فقط تبلیغ کے لیے زندہ رہنا ۔۔۔ طوفانِ نوح ۔۔۔ سورج کا زمین کے گرد چکر کاٹنا ۔۔۔ زمین کا چپٹا فرش جیسا ہونا؟ یہ وہ چیزیں ہے جن پر 1400 سال تک اتفاق رہا، مگر آج سائنس نے اسے چیلنج کیا تو پھر آج 1400 سال کے بعد ان قرآنی آیات کے مطالب تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پھر جو صحیح روایات پیش کی گئیں، انکے متعلق آپ کا دعوی ہے کہ وہ "علماء" کی اپنی رائے کی غلطی نکلی۔
اسی طرح مذہبی تعلیمات میں بھی چند تشریحات کو الہامی پیش کیا جاتا رہا ہے اور صدیوں بعد کی تحقیق سے وہ معاملہ مفسرین کی اپنی رائے یا ضعیف روایات کا شاخسانہ نکلا ہے۔
کیا آپ بتلا سکتے ہیں کہ جناب آدم کے قد 60 ہاتھ ہونے والی جو روایت بخاری و مسلم میں ہے، وہ آج تک کسی مفسر کی رائے کی غلطی تسلیم کی گئی ہے؟ یا ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ ضعیف ہیں؟ اسی لیے تو سعودیہ آفیشل ویب سائیٹ انہیں پیش کر رہا ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی چیز پر "ایمان" بھی رکھتے رہیں، مگر جب اسے چیلنج کیا جائے تو آپ اس چیلنج کو یہ کہہ کر رد کر دیں کہ یہ متواتر نہیں، مگر آپکا ایمان اس پر پہلے کی طرح ہی قائم و دائم رہے۔
چنانچہ، اصولاً چیلنج ہونے کے بعد یا تو آپ اس کا جواب فراہم کیجئے، یا پھر اس پر ایمان لانے سے دستبردار ہوتے ہوئے انکے غلط ہونے کا اقرار کیجئے۔ وگرنہ یہاں حالت یہ ہوتی ہے کہ "رند کے رند رہے اور شراب بھی نہ چھوٹی"۔

مذہب اگر روحانیت کی بات کر رہا ہے تو یہ علیحدہ مسئلہ ہے۔ مگر جب مذہب کو "مکمل صابطہ حیات" قرار دیا جائے، اور مذہب پھر مادیت کی بات کرے، تو پھر اس میں یہ کمال ہونا چاہیے کہ مادیت کے میدان میں بھی کوئی اسے چیلنج تک نہ کر سکے۔ مگر فی الحال صورتحال یہ ہے کہ مذہب جو ارتقاء کی تھیوری پیش کر رہا ہے، ان میں سے کوئی ایک چیز بھی دور دور تک سائنس کے ذریعے ثابت نہیں ہو پا رہی ہے۔ مثلاً قرآن نے کہا کہ ہم سب "بنی آدم" ہیں۔ تو پھر یورپین اور شمال مغربی ایشیا کے رہنے والوں میں 1 تا 4 فیصد ڈی این اے اس 28 ہزار سال قبل ناپید ہونے والی نوع نیندرتھال کا کہاں سے آ گیا؟
(اختتام)

پی ایس:
آج سے کچھ سال قبل ایک بحث یہاں چھڑی تھی جس میں میرا مؤقف تھا کہ لال مسجد کی طالبات جھوٹ بول رہی ہیں کہ انکی 1500 ساتھی طالبات کو قتل کر مسجد کے صحن میں گاڑھ دیا گیا ہے۔ آپ نے میرے مؤقف کو جھٹلایا تھا، اور پھر آخر میں آپ کی اور میری ڈیل ہوئی تھی کہ آپ تحقیق کر کے ان 1500 طالبات کے ناموں کی لسٹ پیش کریں گے، وگرنہ تسلیم کر لیں گے کہ لال مسجد کے لوگ جھوٹے ہیں۔
اس دوران میں سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ آ چکی ہے کہ ایک بھی طالبہ قتل نہیں ہوئی اور نہ ہی ایک بھی طالبہ کا نام سپریم کورٹ میں پیش کیا سکا۔
http://e.jang.com.pk/04-21-2013/Karachi/pic.asp?picname=4049.gif
75949_611507678904346_896647001_n.jpg


کیا آپ اس موضوع کو دوبارہ شروع کر کے مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری ڈیل مکمل ہو سکے؟
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
سائنس میں سامنے آنے والی تھیوریز اور فائنڈنگز وغیرہ تو ہر آنے والے وقت میں ٹیسٹ ہوتی رہتی ہیں، اور اکثر غلط ثابت ہو جاتی ہیں، نئی بات سامنے آ جاتی ہے۔ اب ایسی باتوں کو جن کا یہ ہی نہیں پتا کہ یہ "فائنل" ہے یا نہیں قرآن سے یا کسی بھی مذہبی کتاب سے مقابلہ کرنا، عجیب بات ہے۔۔۔ ویل اللہ بہتر جانتا ہے۔۔۔
 

arifkarim

معطل
ارتقا پر تو اہل سائنس کی فکر کسی شدت پسند مذہبی فرقہ سے ہرگز کم نہیں ہے۔
فکر؟ حضرت، ہمارے پاس اسکے لاتعداد تجرباتی نوعیت کے ناقابل تردید دلائل موجودہیں کہ دنیا میں تمام جاندار پودے وغیرہ ارب ہا سال کے مسلسل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں:
1211_engagingstate.jpg
 
آخری تدوین:
فکر؟ حضرت، ہمارے پاس اسکے لاتعداد تجرباتی نوعیت کے ناقابل تردید دلائل موجودہیں کہ دنیا میں تمام جاندار پودے وغیرہ ارب ہا سال کے مسلسل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں:

جناب ارتقاء کے دو بنیادی پہلو ہیں۔

ایک ہی species میں ارتقا اور دوسرا ایک species سے دوسری میں بدل جانے والا ارتقا جس پر حقیقی معنوں میں اس نظریہ کی بنیاد ہے یعنی ایک سادہ سیل سے شروع ہو کر متعدد سیل اور پھر ضرورت کے تحت جاندار میں تبدیلیاں اور نیچرل سلیکشن پر اس جاندار کا زندہ رہنا اور مسلسل پھلتے پھولتے رہنا۔
 

arifkarim

معطل
سائنس میں سامنے آنے والی تھیوریز اور فائنڈنگز وغیرہ تو ہر آنے والے وقت میں ٹیسٹ ہوتی رہتی ہیں، اور اکثر غلط ثابت ہو جاتی ہیں، نئی بات سامنے آ جاتی ہے۔
درست۔ لیکن بہت سے بنیادی سائنسی تھیوریز کو لا تعداد عملی تجربات اور مشاہدات سے گزارنے کے بعد سائنسی قوانین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اب یہ قوانین اٹل ہیں اور ان میں رہتی دنیا تک تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں، ہاں مزید تجربات کے انمیں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن انکو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر دیکھیں حرحرکیات کے سائنسی قوانین جنکو آج تک عملی طور پر لاتعداد عملی تجربات کے بعد بھی غلط ثابت نہیں کیا جا سکا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Laws_of_thermodynamics
http://en.wikipedia.org/wiki/Perpetual_motion
 

arifkarim

معطل
جناب ارتقاء کے دو بنیادی پہلو ہیں۔

ایک ہی species میں ارتقا اور دوسرا ایک species سے دوسری میں بدل جانے والا ارتقا جس پر حقیقی معنوں میں اس نظریہ کی بنیاد ہے یعنی ایک سادہ سیل سے شروع ہو کر متعدد سیل اور پھر ضرورت کے تحت جاندار میں تبدیلیاں اور نیچرل سلیکشن پر اس جاندار کا زندہ رہنا اور مسلسل پھلتے پھولتے رہنا۔
یہ بالکل الگ سائنسی موضوع ہے۔ آپ نظریہ ارتقاء کو حیات الارض کی پیدائش کے مضمون سے ملا رہے ہیں جسمیں غیر متحرک مادوں سے متحرک زندگی کی پیدائش اور بعد میں اسکے قدرتی ارتقاء پر تحقیق کی جاتی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Abiogenesis
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے مطابق ارتقا کے حوالے سے سائنس ابھی تک "تھیوری" کی سٹیج پر ہے اور حتمی طور پر تجربات کی روشنی میں اس تھیوری کو ثابت نہیں کر پائی ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ: سائنس کی ارتقاء کی تھیوری کے مطابق انسان بندر کی نسل سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ دونوں "کزن" ہیں۔​
 

زیک

مسافر
جناب ارتقاء کے دو بنیادی پہلو ہیں۔

ایک ہی species میں ارتقا اور دوسرا ایک species سے دوسری میں بدل جانے والا ارتقا جس پر حقیقی معنوں میں اس نظریہ کی بنیاد ہے یعنی ایک سادہ سیل سے شروع ہو کر متعدد سیل اور پھر ضرورت کے تحت جاندار میں تبدیلیاں اور نیچرل سلیکشن پر اس جاندار کا زندہ رہنا اور مسلسل پھلتے پھولتے رہنا۔
http://www.talkorigins.org/indexcc/CB/CB902.html
 
انسان کے ارتقا کی ہی بات ہو رہی ہے اور اس پر جو ارتقائی مواد سائنس کے نام پر پڑھایا جاتا رہا ہے اور پڑھایا جا رہا ہے اس میں سے کتنا سائنسی ہے اور کتنا خواہشات پر مبنی ہے۔

انسانی ارتقا پر فاسل فراڈ کی چند مثالیں پیش کر رہا ہوں کہ سائنس کے نام پر کیسے اپنے نظریات تھوپنے کے لیے فراڈ سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

Piltdown Man بشکریہ ڈاکٹر Kenneth Oakley جنہوں نے ثابت کیا کہ کھوپڑی انسانی تھی اور جبڑا ، دانت ایک Orangutan کا۔

Nebraska Man ایک دانت کے زور پر پوری انسانی نسل Hesperopithecus تیار کر لی گئی ، بہت سی فرضی تصاویر بھی تیار کی گئی اس نسل کے حوالے سے۔

Neanderthal پر خودساختہ اور گھڑی ہوئی معلومات پر پروفیسر Protsch کو یونیورسٹی سے برخاست ہونا پڑا۔
 

عثمان

محفلین
جناب ارتقاء کے دو بنیادی پہلو ہیں۔

ایک ہی species میں ارتقا اور دوسرا ایک species سے دوسری میں بدل جانے والا ارتقا جس پر حقیقی معنوں میں اس نظریہ کی بنیاد ہے یعنی ایک سادہ سیل سے شروع ہو کر متعدد سیل اور پھر ضرورت کے تحت جاندار میں تبدیلیاں اور نیچرل سلیکشن پر اس جاندار کا زندہ رہنا اور مسلسل پھلتے پھولتے رہنا۔
"Species" تو Taxonomy کی وضع کردہ nomenclature ہے۔
ارتقاء بہاؤ کی طرح ہے۔ مسلسل جاری رہتا ہے۔ جاندار مسلسل ارتقاء سے گذرتے ایک طویل دورانیے کے بعد ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اس کے خواص سابقہ خواص سے کچھ مختلف ہوں تو اسے ایک نئی نوع کا نام دے دیا جاتا ہے۔
اگر اس تمام دورانیے کے جاندار کے تمام فوسلز دریافت کرکے سامنے رکھ دیے جائیں تو species میں تقسیم از خود کمزور ہو جائے کہ اس صورت میں آپ ایک نوع سے دوسری نوع میں تقسیم کو واضح نہیں کر پائیں گے۔
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
بہت سادہ سی بات ہے۔ ایک ہے قرآن کو رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کی روشنی میں سمجھنا جو کہ صحابہ کا طریقہ کار تھا۔ دوسرا ہے اپنی مرضی کے مطابق قرآنی آیات کا مفہوم نکالنا اور پھر رسول (ص) کی روایت اگر آپکے مفہوم سے مل جائے تو بسم اللہ وہ قابل قبول، وگرنہ وہ روایتِ نبوی رد کر دی جاتی ہے۔ جبکہ آپکے اخذ کردہ مفہوم سے مطابقت رکھنے پر ضعیف سے ضعیف روایت بھی فوراً قابل قبول، ۔۔۔ بلکہ ضعیف روایت ایک طرف رہی، کشف نامی چیز بھی فوراً قابل قبول۔
میں نے یہ عرض کیا تھا کہ اگر کسی حدیث کا مضمون قرآن سے متصادم ہوگا تو ہم قرآن کی کسوٹی پر حدیث کو پرکھیں گے۔ لیکن آپ کا کہنا ہے کہ صحابہ کی طرز پر احادیث کی روشنی میں قرآن کے معنی کئے جائیں گے۔ مجھے اس سے بالکل بھی اختلاف نہیں اور آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے زیادہ کون قرآن کو سمجھتا ہوگا جنہوں نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کی تفسیر سُنی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں صحابہ کی طرح یہ سہولت کیونکہ آج حاصل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست احادیث سن سکیں تو کیا ذریعہ ہے یہ جاننے کا کہ جس حدیث کی بنا پر ہم قرآن کی کسی آیت کی تفسیر کرنے لگے ہیں وہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ صحابہ نے جو سُنا وہ من وعن ہم تک پہنچا ہے؟ کیا اس میں احتمال کی بالکل بھی گنجائش نہیں؟ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ایک معیار ضرور ایسا ہو کہ کہیں ہم غلطی سے بھی کسی ضعیف حدیث کو صحیح نہ سمجھ لیں۔ دیکھیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ دوسری صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوتے ہیں اور تیسری صدی کے شروع میں احادیث جمع کرتے ہیں۔ جس محنت اور لگن سے انہوں نے یہ کام کیا اتنا کسی نے نہ کیا ہوگا جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کتاب کو آج قرآن کے بعد آپ بھی اور ہم بھی سب سے بڑا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی وہ چھ لاکھ احادیث کا ذخیرہ اکٹھا کرکے ان میں سے صرف چند ہزار پر تسلی پاتے ہیں۔ باقی لاکھوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اتنی چھان بین کے بعد بھی اگر صحیح بخاری میں کچھ ضعیف احادیث درج ہوجاتی ہیں تو سوچیں قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ہماری ذمہ داری کس قدر بڑھ جاتی ہے۔ اب قرآن پر ان احادیث کو نہ پرکھا جائے گا تو اس احتمال سے کیسے بچا جائے گا جبکہ راویوں کے حالات کی تو پہلے ہی اچھی خاصی چھان بین کی جاچکی ہے۔ اگر کہیں کہ دوسری احادیث کی کتابوں کی مدد سے تو وہ تو خود صحیح بخاری سے کم درجے پر فائز ہیں ان میں کس قدر احتمال ہوگا اور کس بنیاد وہ اپنے سے افضل کتاب کی حدیث کا فیصلہ کریں گی۔ یا اگر آپ کہیں کہ مزید اسماء الرجال کی کتابوں سے چھان بین کی جائے گی تو اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی تو راویوں کے حالات محدثین نے ہی لکھے ہیں، اگر امام بخاری جیسے عظیم محدث غلطی کرسکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں کرسکتے؟
ایک مثال دیتا ہوں۔ صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جو کوئی اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔ یہ قتل مرتد کے حامیوں کی پسندیدہ حدیث ہے کیونکہ بخاری میں ہے۔ اب مجھے نہیں علم کہ آپ کا قتل مرتد کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ اگر تو اس کے خلاف ہے تو اس حدیث کو ضعیف تسلیم کئے بغیر نہیں رکھا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو کسی بنیاد پر ہی اسے رد کریں گی۔ جو بھی بنیاد ہو چاہے اسماء الرجال کی کتابیں یا کوئی اور حدیث۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب امام بخاری غلط حدیث کو صحیح سمجھ سکتے ہیں تو جہاں سے اس غلطی کی اصلاح کی جائے گی اس کی درستگی کے سو فیصد ہونے پر کیا ضمانت ہے؟ لیکن اگر آپ اس حدیث کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق عقیدہ رکھتی ہیں تو پھر بات ہی ختم ہوجاتی ہے کہ آپ بہرحال اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں۔ میں تو ایسی احادیث کو جو قرآن کی آیات کے مضمون سے ٹکرائیں گی لازمی قرآن کے معیار پر جانچنا ضروری سمجھوں گا۔ کہ احتمال کا دروازہ تو کھل گیا کہ اگر یہ ایک ہوسکتی ہے تو کیا ضمانت کہ اور نہیں ہوں گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کلام ہو اور قرآن کی تشریخ کرنی ہو احتیاط لازم ہے بلکہ دوہری ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ارفع ذات کی شان کے مطابق ترجمہ و تفسیر ہو بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔ ظاہر ہے اگر ہم ایک ضعیف حدیث کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہی نہیں، صحیح سمجھ کر اس کے مطابق تشریح کریں گے تو ہم نادانستگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست کی طرف اسے منسوب کررہے ہوں گے۔
 

رانا

محفلین
قرآن "تحریر" کی صورت نازل نہیں ہوا، بلکہ "تقریر" کی صورت میں نازل ہوا، جسکا اسلوب یہ تھا کہ کبھی واحد کے صیغے کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ مولانا مودودی نے ترجمان القرآن میں اس چیز کے فرق کو بیان کیا ہے جو کہ یہاں پیش کر رہی ہوں:۔
تقریر میں متکلم اور مخاطب بار بار بدلتے ہیں ۔ مقرر اپنے زور کلام میں موقع و محل کے لحاظ سے کبھی ایک ہی گروہ کا ذکر بصیغۂ غائب کرتا اور کبھی اسے حاضر سمجھ کر براہِ راست خطاب کرتا ہے ۔ کبھی واحد کا صیغہ بولتا ہے اور کبھی جمع کے صیغے استعمال کرنے لگتا ہے۔ کبھی متکلم وہ خود ہو تا ہے، کبھی کسی گروہ کی طرف سے بولتا ہے، کبھی کسی بالا ئی طاقت کی نمائندگی کرنے لگتا ہے ، اور کبھی وہ بالائی طاقت خود اس کی زبان بولنے لگتی ہے تقریر میں یہ چیز ایک حسن پیدا کرتی ہے، مگر تحریر میں آکر یہی چیز بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ یہی وجوہ ہیں کہ جب کسی تقریر کو تحریر کی شکل میں لا یا جاتا ہے تو اس کو پڑھتے وقت آدمی لازماً ایک طرح کی بے ربطی محسوس کرتا ہے اور یہ احساس اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے جتنا اصل تقریر کے حالا ت اور ماحول سے آدمی دور ہو تا جاتا ہے ۔ خود قرآن عربی مں بھی ناواقف لوگ جس بے ربطی کی شکایت کرتے ہیں ، اس کی اصلیت یہی ہے ۔ وہاں تو اس کو دور کرنے کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ تفسیری حواشی کے ذریعہ سے ربطِ کلام کو واضح کیا جائے ، کیونکہ قرآن کی اصل عبارت میں کوئی کمی بیشی کرنا حرام ہے لیکن کسی دوسری زبان میں قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے اگر تقریر کی زبان کو احتیاط کے ساتھ تحریر کی زبان میں تبدیل کرلیا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ یہ بے ربطی دور ہو سکتی ہے ۔
میں نے قرآن کی آیت سے ثابت کیا تھا کہ جمع کا صیغہ ہے لہذا نسل انسانی ہی مخاطب ہے نہ کہ ایک آدم۔ آپ نے ایک عالم دین کی رائے کی بنیاد پر اس سامنے نظر آنے والے جمع کے صیغے کو واحد صرف اس لئے مراد لے لی کہ اپنا عقیدہ پہلے بنا چکی ہیں کہ آدم ہی پہلا انسان تھا جو ارتقا کی بنیادیں منہدم کرتا ہوا آنا فانا زمین پر اپنی مکمل صورت میں ظہور پذیر ہوگیا۔ بنیاد احادیث تھیں یا بائبل کی روایات، ان کے متعلق اپنا موقف اوپر میں نے دے دیا ہے۔ میرے متعلق تو آپ نے کہہ دیا کہ اپنی مرضی کا ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ خود اللہ کے استعمال کئے ہوئے الفاظ پر ایک شخص کی رائے کو فوقیت دے کر وہ ترجمہ کرڈالا جو اس لفظ کا آپ کو بھی تسلیم ہے کہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی واحد کے لئے بھی جمع کا صیغہ استعمال کرلیتا ہے لیکن اس کے لئے بھی کوئی قاعدہ تو ہونا چاہئے ناکہ اپنی مرضی سے فتویٰ چلادیا جائے کہ یہاں اللہ میاں جمع کی بات کی ہے لیکن ہم واحد مراد لیں گے۔اسطرح تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال آپ احادیث پر قرآنی آیات کو پرکھتی ہیں اس لئے آپ کے لئے جائز ہے۔
 

رانا

محفلین
اس اقتباس میں آپ نے اول تا آخر جو کچھ بیان کیا ہے، وہ فقط اور فقط "قیاس" ہے جسکا کم از کم کوئی ذکر قرآن یا حدیث میں موجود نہیں۔ 1400سالوں تک مسلمان (بشمول صحابہ) اس قرآن کو پڑھتے رہے اور انہوں نے بھی قرآن کی اس آیت سے یہ کہانی اخذ نہیں کی، حتی کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پہلے مفسر ثابت ہوئے جنہوں نے 1400 سال کے بعد جا کر پہلی مرتبہ اس قرآنی آیت سے یہ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی آدم کے ساتھ دوسرے لوگ بھی پیدا کیے گئے، اور پھر اس مطلب پر یہ پوری کہانی استوار کی گئی کہ ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہ تھا اور وہ آدم کے زمین پر آنے سے قبل زمین پر خلیفہ نہیں تھے، اور ان میں عقلی شعور نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔
آپ کے نزدیک یہ کہانی ہی سہی لیکن یہ کوئی دلیل نہیں کہ 1400 سال میں کسی نے ایسی تشریح نہیں کی۔ کیا قرآن کے معارف اب ختم ہوگئے ہیں؟ اور وہی خزانہ تھا جو گذشتہ مفسرین نے نکال لیا اب قیامت تک کوئی نئی بات قرآن سے نہیں نکالی جاسکتی؟ آپ کے نزدیک ضروری ٹھہرا کہ قرآن سے اب جو بھی تفسیر نکالی جائے وہ 1400 سال میں ضرور کسی اور نے بھی نکالی ہو، تو پھر ضرورت ہی کیا ہے نئی تفاسیر کی جب نئی بات ہی نہیں ملنی۔ آپ کا یہ عقیدہ ہو تو ہو، میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے۔ اور اس کے معارف قیامت تک ختم نہ ہوں گے۔ بلکہ یہ اس کا معجزہ ہے اور اسکے زندہ کتاب ہونے کا ثبوت کہ ہر زمانے کا انسان جب اسے پڑھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس میں اس کے زمانے کے لئے بھی بہت کچھ ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے سمندر میں نیک نیتی اور اخلاص سے غوطہ لگائے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور نئے موتیوں سے نوازے گا۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا یہ بیان کردہ تفسیر و ترجمہ قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے یا نہیں؟ بالکل ہے لیکن آپ کی نظر سے دیکھیں تو نہیں کہ جیس بھی احادیث ہوں ان پر آیات کو پرکھنا ہے اور اسی بنیاد پر جمع کو واحد کرکے آدم کو پہلا انسان ثابت کرنا ہے۔ دیکھیں قرآن نے کہا تھا کہ پہاڑ تمہیں ساکت لگتے ہیں لیکن درحقیقت بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اب 1400 سال میں اگر کسی کو اس سے زمین کی گردش کا نکتہ نہ دکھائی دیا تو کیا اب حرام ہوگیا کہ اس سے زمین کی گردش اخذ کی جائے!! قرآن میں ہے کہ شیطان نے کہا کہ میں لوگوں کو بہکاؤں گا کہ تیری تخلیق میں تبدیلی کریں۔ اب 1400 سال میں کسی کا دھیان اس طرف نہ گیا تو اب شجرہ ممنوعہ ٹھہرا کہ اس سے جینیٹک انجنیرنگ میں ہونے والی پیش رفت کی خبر سمجھی جائے!! بلکہ شائد آپ مجھ پر ایک قدم آگے بڑھ کر شدت پسند قرانسٹ کا لیبل لگادیں کہ یہ تو قرآن سے جدید سائنس کی شاخیں بھی نکالنے کا جرم کر رہا ہے۔ اگر چودہ سو سال میں کسی کا دھیان ارتقا کی طرف نہیں تھا لیکن اب واضح آیات اس کے حق میں نظر آرہی ہیں تو صرف اس لئے جمع کو واحد کردیا جائے کہ احادیث جمع کرنے میں یقین ہے کہ کوئی غلطی نہیں ہوئی اور من و عن ہم تک پہنچی اس لئے اس کے مطابق قرآن کے الفاظ کو بدلا جائے گا!!
جس کہانی کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ کیوں ارتقائی دور مکمل ہونے سے پہلے انسان کو ضابطہ اخلاق سے آزاد قرار دیا ہے۔ تو یہ کہانی اس وقت تک ہے جب تک آپ آدم کو پہلا انسان تسلیم کرتی رہیں گی۔ اس وقت تک آپ کو اس کہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن جہاں آپ نے اس روایتی عقیدے کو چھوڑ کر قرآن کے مطابق انسان کی پیدائش میں ارتقا تسلیم کرلیا آپ کے سامنے یہ سوال آکھڑا ہوگا کہ انسانی جسم میں ارتقا کی تکمیل تسلیم کرتے ہی تکمیل سے پہلے کے انسان کا کیا جائے؟ لیکن آپ کیونکہ اسے تسلیم نہیں کرتیں اس لئے آپ کو اس کہانی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہی نہیں کہ آپ اپنے عقیدہ میں آزاد ہیں۔

یہ ہی وہ طریقہ کار ہے جس پر میں معترض ہوں کیونکہ اسکو استعمال کرتے ہوئے قرآنی آیات کو اپنی مرضی سے توڑا مڑوڑا جاتا ہے اور اپنی مرضی کی معنی اخذ کر لیے جاتے ہیں۔
جب تک آدم کو جنت سے نکلوانا تھا اس وقت تک قرآن میں وہ آدم ہی رہے۔ مگر پھر ضرورت پڑی تو آدم نام سے تبدیل ہو کر صفانی نام ہو گیا، حالانکہ قرآن نے کہیں اسکا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ مٹیالہ رنگ بھی خوب ہے کہ یورپین تو پھر اپنے گورے رنگ کی وجہ سے بچ گئے کہ انہیں شیطان کے فتنے کا ڈر نہیں۔
یورپین لوگوں کے حوالے سے آپ کو یاد نہیں رہا کہ میں نے لفظ آدم کے دو مادوں کا ذکر کیا تھا۔ ایک کا مطلب ہے سطح زمین پر رہنے والے۔ اور دوسرے کا مطلب ہے گندمی رنگ والے۔ کیا یورپین واقعی ان دونوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہوپارہے؟
 

رانا

محفلین
ترجمے میں "تو" یا "پھر" یا "پس" سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
آپ ان تینوں الفاظ میں سے کوئی لفظ استعمال کر لیں، بات تو وہی کی وہی ہی رہتی ہے۔ شاہ رفیع الدین کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے تینوں جگہ "پس" استعمال کیا ہے۔ چلیں انکا "پس" والا ترجمہ دیکھ لیتے ہیں۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ، فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
" اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا "پس" وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، "پس" ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ "پس" ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور (ان کے ہمراہ) کشتی والوں کو نجات بخشی اور ہم نے اس (کشتی اور واقعہ) کو تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنا دیا"
کیا تینوں جگہ "پس" کر دینے سے کوئی فرق پڑا؟
ایک وضاحت کردوں جو آپ کے اس مراسلے سے سامنے آئی کہ آپ میرے متعلق یہ سمجھ رہی ہیں کہ جیسے نوح فوت ہوگئے پھر نو سو پچاس سال تک تعلیمات رہیں پھر طوفان آیا نوح کی غیر موجودگی میں۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ نوح کے ذکر کے ساتھ ہی ان کی تعلیمات کا زمانہ بھی ذکر کردیا۔ پھر طوفان کے واقعات کا بیان ہے۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ یہ واقعہ نوح کی موجودگی میں ان کی چند دہائیوں پر مشتمل محدود زندگی میں ہی پیش آیا۔ آپ کو اس لئے یہ ماننے میں تامل ہے کہ تعلیمات کا زمانہ بھی ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے جو کہ اپ کے نزدیک جسمانی حیات ہے۔ میرے نزدیک ایسا نہیں۔ اس وقت کوئی مثال تو سامنے نہیں لیکن سورہ القمر کی پہلی آیت کچھ حد تک اس کی وضاحت کرسکے کہ فرمایا قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ اب دیکھیں دوسرا واقعہ جو چاند پھٹنے کا تھا وہ تو ہوچکا ہے لیکن پہلا یعنی قیامت والا اس دوسرے کے بعد ہوگا۔ اسی طرح تعلیمات کا زمانہ نوح کے ذکر کے ساتھ ہی بیان کردیا ہے اور پھر طوفان کا بیان ہے جو ان کی زندگی میں ہی آیا تھا۔ اور اسکے بعد ان کی تعلیمات نو سو پچاس سال رہیں۔ اس کے ثبوت میں نے کہا تھا کہ مشاہدہ اور سنت اللہ اس کے برخلاف ہے۔ اور سورہ یسین کی آیت پیش کی تھی لیکن آپ کا کہنا کہ جبلی طاقتوں کی کمی سے مراد صرف بڑھاپے کی کمزوری ہے تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ صرف یہی آپ اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کی عمریں ہزار سال سے زائد تسلیم کریں بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ بقول آپ کے نوح علیہ السلام پر بڑھاپا نو سو پچاس سال کے بعد کہیں جا کر آیا۔ لیکن کبھی یہ بھی سوچا کہ آج سو سال کی حد رکھنے والا انسان دس سال بچپنے میں گزارتا ہے تو کیا اس وقت بھی یہی نسبت تھی کہ ایک بچہ پیدا ہوا اور اگلے سو ڈیڑھ سو سال تک ابھی اسکا بچپنا ہی ختم نہ ہوتا ہو! اگر کہیں کہ نہیں باقی سب پرورش نارمل انداز میں ہوتی تھی بس جوانی میں جاکر جسم کے خلیات پر ٹائم فریز ہوجاتا تھا تو یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ نارمل پرروش بچپنا ختم ہونے کے بعد لمبے زمانے پر محیط ہوجائے اور پھر یکدم بڑھاپا آلے۔یا بڑھاپا بھی جوانی کی نسبت سے ہی لمبا تھا؟ ایسا ہے تو بچپن کو بھی اسی نسبت سے لمبا ماننا پڑے گا جو کم ازکم اسکی ماں تو گوارا نہ کرے گی جس نے سنبھالنا ہے۔
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
دعوی کہ طوفانِ نوح عالمی نہیں تھا، بلکہ فقط علاقائی تھا
آج 1400 سال کے بعد پہلی مرتبہ یہ فقط احمدی کمیونٹی ہی نہیں ہے، بلکہ ذاکر نائیک جیسے حضرات (جو دیگر ادیان پر اعتراضات اٹھاتے ہیں) یہ دعوی لے کر آ گئے ہیں کہ قرآن کے مطابق طوفانِ نوح عالمی نہیں تھا، بلکہ فقط علاقائی تھا۔
آج 1400 سال کے بعد روایاتِ نبوی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ دعوی کرنے کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ سائنس کے مطابق آج سے 5 ہزار قبل (جناب نوح علیہ السلام کا زمانہ) کسی بھی ایسے عالمی طوفان کا کہیں کوئی نشان نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ سائنس سے منہ چھپانے کی خاطر روایاتِ نبوی کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ پچھلے 1400 سال کے مسلمانوں (بشمول صحابہ) کی قرآن فہمی کا انکار کرتے ہوئے یہ دعوی گھڑا گیا کہ طوفانِ نوح عالمی نہیں، بلکہ علاقائی تھا۔
مگر یہ مہمل عذر ہے اور زبردستی کی "تفسیر بالرائے" کا شاخسانہ ہے، کیونکہ اگر یہ فقط علاقائی طوفان تھا تو پھر اللہ ہر جانور کے جوڑے کو کشتی میں جمع کرنے کا حکم نہ دیتا۔
سورۃ ہود:
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٤٠
ترجمہ:
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا "ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں" اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔
آپ طوفان نوح کو عالمی مانتی ہیں۔ ٹھیک ہے آپ کا عقیدہ ہے۔ قرآن میں سے کوئی ایسا ذکر دکھا سکیں تو مشکور ہوں گا۔ جہاں تک تعلق ہے ہر قسم کے جانوروں کا جوڑا رکھنے کا تو اس سے عالمی طوفان ثابت نہیں ہوتا۔ پاکستان میں 2010 کے طوفان کی مثال لے لیں۔ بلکہ صرف سندھ کو تصور کرتے ہیں جہاں کئی لاکھ مویشی سیلاب میں ڈوب کر مرگئے۔ اُس دور میں تصور کریں کہ کراچی میں سیلاب آتا ہے اور کشتی بدین میں جاکر رکتی ہے تو کراچی سے بدین تک کے جانور تو مر گئے۔ اب کشتی میں بھی نہ بچائے ہوئے ہوں گے تو ذرائع آمدورفت تو ایسے نہیں کہ ٹرک میں بیٹھ کر پنجاب سے لے آئیں گے۔ اگر کہیں کہ دوسرے علاقوں سے لا سکتے تھے کشتی میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی تو دوسرے علاقوں تک جانے کے لئے بھی باربرداری کے جانور چاہییں۔ اس لئے جانور کشتی میں رکھنا ایک ضروری امر تھا چاہے طوفان علاقائی ہی کیوں نہ ہو۔اس طوفان کو اگر پاکستان یا ہندوستان جتنے علاقے پر بھی پھیلا لیں تو بھی جانوروں کا رکھنا ضروری ٹھہرے گا، عالمی طوفان تک جانے کی ضرورت ہی نہیں۔

پھر آیت کے اگلے حصے پر غور کریں کہ ’’ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں‘‘۔ آپ کا عقیدہ مان لیا جائے کہ طوفان عالمی تھا اور پوری دنیا کو لپیٹ میں لے بیٹھا تھا۔ کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا اس وقت زمین کے دوسرے ممالک میں انسان تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم کسی بستی پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک ایک نبی یا ڈرانے والا نہ بھیج دیں۔ نوح کی بستی کا سمجھ میں آگیا کہ نوح خود موجود تھے۔ لیکن دوسرے ملکوں کے لوگ کیوں طوفان میں ڈبوئے گئے؟ اگر کہیں کہ نوح نے پوری دنیا کی سیاحت کرکے سب کو پیغام پہنچادیا تھا تو یہ جائز بھی ہے کیونکہ ہزار سال کی عمر کا کچھ تو فائدہ ہونا چاہئے۔لیکن مسئلہ یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے ہر بستی میں نبی بھیجے۔ پس ماننا پڑے گا کہ اس وقت کم ازکم نوح کے علاوہ کوئی نبی موجود نہ تھا روئے زمین پر۔ ایک لاکھ چویبس ہزار میں سے وہ واحد وقت تھا جب زمین پر صرف ایک ہی نبی تھا۔ لیکن کیا یہ ایک نبی پر ظلم نہیں کہ ذرائع آمدورفت بھی اتنے مشکل کہ گدھوں اور گھوڑوں پر سفر اور اسے پوری دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داری دے دی گئی؟ یہ مانے بغیر آپ طوفان لا نہیں سکتیں کہ بغیر کسی نبی کے وارننگ دئے کسی بستی کو عذاب دینا ناانصافی بھی اور خود قرآن ذکر کرچکا ہے کہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس سے بھی آگے چلیں۔ آیت کے مطابق جو ایمان لائے انہیں کشتی میں بٹھا دیا جائے۔ اب طوفان پوری دنیا پر آیا ہوا ماننا ہے تو پوری دنیا کو پہلے نوح کی وارننگ دینا ضروری تھی۔ پھر جو ایمان لائے اب ان سب کو ایک جگہ جمع کرنا۔ صرف نوح کی بستی کے لوگ ہی تو نہ ہوں گے نا پوری دنیا کو ڈبویا جارہا ہے، پوری دنیا سے ایمان لانے والوں کو جمع کرنا کوئی آسان کام ہے؟ اس صورت حال کا مزید جتنا تجزیہ کریں اتنی ہی قباحتیں سامنے آتی ہیں اور ساری کی ساری قرآنی آیات سے ٹکراتی ہوئی کہ ہر قوم میں نبی بھیجنا، عذاب سے پہلے نبی کا بھیجنا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عقل سے دور تفسیر جب بھی کی جائے گی وہ آپ کو عقل سے دور بیابانوں میں بھٹکنے پر مجبور کردے گی۔ اللہ تعالیٰ کی شان بہت ارفع ہے اس کی طرف کوئی بات منسوب کریں تو اس پر پورا غور کرنا ضروری ہے کہ ہم کس حکیم ہستی کی طرف اپنے نظریات منسوب کرنے لگے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top