سائنس کیا ہے؛ اور سائنس کیا نہیں ؟ (پہلا حصہ)
عرضِ مصنف: آج سے تقریباً بارہ سال پہلے یہ تحریر ’’کیا سائنس ایک مذہبی عقیدہ ہے؟ کیا مذہب ایک سائنسی نظریہ ہے؟‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ گلوبل سائنس کے ایک شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ گزشتہ برس یہ ضمیمہ خاص طور پر راقم کی تصنیف
’’اک نسخہ کیمیا، جلد اوّل: سائنسی فکر‘‘ میں ترامیم و اضافہ جات کے ساتھ شائع کی گئی۔ اُمید ہے قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ (علیم احمد)
سائنس کیا ہے؟ اور سائنس کیا نہیں؟
اس سے پہلے کہ میں اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون کو کتاب میں شامل کرنے اور بطور ضمیمہ اوّل، خصوصی جگہ دینے کا پس منظر بھی قارئین پر واضح کردیا جائے۔
یادش بخیر! یہ
1997 ء کی بات ہے۔ میں اُن دنوں ماہنامہ ’’سائنس ڈائجسٹ‘‘ کا مدیر تھا۔ ایک روز پاکستان کے دور دراز اور پس ماندہ علاقے سے کسی قاری کا خط آیا۔ اس نوجوان نے اپنے خط میں سائنس کی خوب تعریف و توصیف کرنے کے بعد، اپنے مشاہدے اور مطالعے کی روشنی میں یہ اخذ کیا تھا کہ سائنس ہی ’’سب کچھ‘‘ ہے، اور خط کے آخر میں لکھا تھا:
’’جناب! میں سائنس سے بے حد متاثر ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ سائنس کو بطور مذہب اختیار کروں۔ برائے مہربانی آپ مجھے ایسے افراد کے بارے میں بتائیے جن کا مذہب، سائنس ہو۔ میں ان سے مل کر سائنس کا مذہب قبول کرلوں گا۔‘‘
سائنس کا شوق رکھنے والے ایک ادنیٰ مسلمان کی حیثیت سے مجھے خطرے کا احساس ہوا۔ میں نے فوری طور پر اس نوجوان کو جوابی خط لکھا اور بتایا کہ سائنس کسی مذہب کا نام نہیں اور سائنس کو مذہب سمجھنا، مذہب اور سائنس، دونوں ہی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ یہ خط قدرے تفصیلی شکل اختیار کر گیا لیکن میں نے اپنے تئیں اس نوجوان کی غلط فہمی رفع کرتے ہوئے اسے سائنس، سائنسی طریقِ عمل اور سائنس کی حدود و قیود سے آگاہ کیا۔
یہ خط روانہ کرنے کے بعد میرے ذہن میں ایک ہیجان سا برپا ہوگیا۔ میں سائنس کی افادیت سے کبھی انکاری نہیں رہا، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سائنس کا ہر پہلو انسانیت کیلئے فائدہ مند ہے اور اس کا ہر روپ عامتہ الناس کیلئے مفید۔ اُس روز مجھے شدت سے احساس ہوا کہ محض سائنسی مضامین پڑھنا اور سائنسی معلومات سے آگاہ ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ آخر سائنس بذاتِ خود کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے۔
یہ امر حقیقت ہے کہ سائنس ’
’بہت کچھ‘‘ ہے، لیکن یہ فاش غلط فہمی ہے کہ سائنس
’’سب کچھ‘‘ ہے۔
شاید یہ واقعہ میرے ذہن سے محو ہوجاتا، لیکن بعدازاں وقتاً فوقتاً ایسے تجربات و مشاہدات ہوتے رہے جنہوں نے اس واقعے کی یادیں تازہ رکھیں۔ حالات و واقعات کی بناء پر رفتہ رفتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ صرف اہالیانِ مذہب کی اکثریت ہی نہیں، بلکہ سائنس پڑھنے والے طلباء اور سائنس پڑھانے والے اساتذہ بھی بطورِ مجموعی اس امر سے ناآشنا ہیں کہ سائنس کیا ہے۔ یہی عدم واقفیت یا تو انہیں سائنس سے بدگمان کردیتی ہے یا پھر وہ سائنس کے اتنے گرویدہ ہوجاتے ہیں کہ اسے مذہب کا متبادل سمجھنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں ہی عدم توازن کی غماز ہیں اور ان کا نتیجہ خیر پر مبنی ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
یہ تمہید اور پس منظر بیان کرنے کے بعد اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ زیرِ نظر تحریر دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے حصے میں راقم نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ
سائنس کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے۔ دوسرے حصے میں
سائنس کی وہ حدود و قیود واضح کی گئی ہیں جنہیں ہم عموماً نظر انداز کرجاتے ہیں اور طرح طرح کی حماقتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
سائنس کیا ہے؟
سائنس کی بنیادی تعریف
لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو انگریزی لفظ ’’سائنس‘‘ (Science)، لاطینی کے ’’سائنسیا‘‘ یا ’’سائنشیا‘‘ (Sciencia) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’جاننا‘‘ (To Know) ہے۔ ’’سائنس‘‘ کا اردو اور عربی ترجمہ ’’علم‘‘ کے عنوان سے کیا جاتا ہے جو اس کے لغوی ماخذ سے مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ ’’جاننا‘‘ اور ’’علم رکھنا‘‘ کم و بیش ایک ہی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ تاہم آج یہ ممکن نہیں کہ ہر علم کو ’’سائنس‘‘ قرار دیا جاسکے۔ اس کا اندازہ ’’سائنس‘‘ کی بنیادی تعریف سے لگایا جاسکتا ہے:
"To study physical Universe and its contents by means of reproducible observations, measurements, and experiments to establish, verify, or modify general laws to explain its nature and behavior; is called Science." (Penguin's Dictionary of Science, 6th Edition, 1986).
یعنی: ’’قابلِ اعادہ مشاہدات، پیمائشوں، اور تجربات کے ذریعے طبیعی کائنات اور اس کے اجزاء کا مطالعہ کرنا تاکہ اس کی نوعیت اور طرزِ عمل کی وضاحت کرنے والے عمومی قوانین دریافت کئے جاسکیں، ان کی تصدیق و توثیق کی جاسکے، یا انہیں بہتر بنایا جاسکے، سائنس کہلاتا ہے۔‘‘ بحوالہ: پینگوئن ڈکشنری آف سائنس۔ اشاعت ششم (1986ء)
مطلب یہ کہ اگر کوئی ’’علم‘‘ مذکورہ بالا تعریف پر پورا نہیں اُترتا تو وہ دورِ جدید کی اصطلاح میں ’’سائنس‘‘ شمار نہیں کیا جائے گا۔ اسی وجہ سے ارضیات، حیاتیات، کیمیا، طبیعیات، ریاضی، فلکیات اور کونیات وغیرہ کو ’’سائنسی مضامین‘‘ کہا جاتا ہے لیکن روحانیات، مذہب، تاریخ، مابعد الطبیعیات اور عمرانیات وغیرہ ’’غیر سائنسی مضامین‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ ان کی اہمیت، سائنسی مضامین سے کم ہے۔ اگرچہ یہ مضامین، سائنس کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے لیکن ’’علم‘‘ اور حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں (اس حوالے سے تفصیلی بحث ’’سائنس کیا نہیں؟‘‘ والے حصے میں آئے گی)۔
سائنس، زمانۂ قدیم میں
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ سائنس کی بنیادی تعریف ہمیشہ سے وہی نہیں رہی جو میں اوپر کی سطور میں بیان کر چکا ہوں، بلکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ خود بھی بدلتی اور بہتر ہوتی رہی ہے۔ اگر آج سے لگ بھگ ڈھائی ہزار سال پہلے کا زمانہ دیکھیں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یونانی دانشوروں نے اپنے مخصوص منطقی (Logical) انداز سے کائنات اور مظاہر کائنات کا مطالعہ کیا، جسے انہوں نے ’’فلاسفیا‘‘ (Philosophia) یعنی ’’علم سے محبت‘‘ کا نام دیا۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدیم یونانی عہد کا
’’فلسفی‘‘ اپنے زمانے کا
’’سائنس داں‘‘ تھا۔ وہ ’’فلاسفیا‘‘ کے منطقی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے کائنات اور مظاہرِ کائنات کے بارے میں نت نئی باتیں تلاش کرنے کا اہل تصور کیا جاتا تھا۔ ان فلسفیوں کے نزدیک علم حاصل کرنے کے تین اصول سب سے اہم تھے:
1۔ آپ کو فطرت کے پہلوؤں (مظاہرِ کائنات) کے بارے میں لازماً مشاہدات جمع کرنے چاہئیں؛
2۔ آپ کیلئے اشد ضروری ہے کہ یہ مشاہدات، ترتیب وار انداز میں منظم کریں؛ (یہ اس لئے اہم تھا کہ ضرورت پڑنے پر ان کا فوری استعمال آسان رہے۔)
3۔ ان منظم اور ترتیب وار مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے، آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ کوئی ایسا اصول/ قانون اخذ کریں جو ان مشاہدات کی عمومی وضاحت (General Explanation) فراہم کرنے کے قابل ہو۔
یہ تین اصول، یونانی فلسفیوں کے نزدیک بے حد اہم تھے۔ غالباً ان کا پہلا اور کامیاب ترین اطلاق جیومیٹری (Geometry) کے میدان میں کیا گیا تھا۔ ان تین اصولوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے انہوں نے بطورِ خاص دو تکنیکیں وضع کی تھیں: اوّل
تجرید (Abstraction)؛ اور دوم
عمومیت (Generalization)۔ ان دو تکنیکوں کو ہم ایک تاریخی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یونانیوں سے بہت پہلے مصریوں نے کسی طرح سے یہ دریافت کرلیا تھا کہ اگر ایک رسّی لے کر اسے 12 مساوی حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو ایک اچھوتی مثلث (Triangle) بنائی جاسکتی ہے۔ اس مثلث کا ایک ضلع (Side) تین حصوں پر، دوسرا چار، اور تیسرا ضلع پانچ حصوں پر مشتمل ہوگا۔ اس مثلث میں ایک زاویہ قائمہ (Right Angle) یعنی 90 درجے کا زاویہ بھی ہوگا جو اس مقام پر بنے گا جہاں تین (3) اور چار (4) حصوں جتنی لمبائی والے اضلاع آپس میں ملتے ہیں۔ اور یوں دنیا پہلی مرتبہ ’’قائمۃ الزاویہ مثلث‘‘ (Right Angled Triangle) سے روشناس ہوئی۔
وہ مصری کون تھا جس نے یہ مثلث ’’ایجاد‘‘ کی تھی؟ اس بارے میں تاریخ کے اوراق پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ خیر! قائمۃ الزاویہ مثلث دریافت کرنے کے بعد مصریوں نے اس میں مزید کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور مذکورہ ایک مثال سے آگے بھی نہیں بڑھے۔ (بعض حالیہ تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ قائمۃ الزاویہ مثلث مکمل طور پر دریافت کرنے سہرا دراصل مصریوں ہی کے سر بندھنا چاہئے لیکن یہ موقعہ اس تاریخی پہلو پر بحث کا نہیں۔)
جب قائمۃ الزاویہ مثلث کی یہ مثال یونانی فلسفیوں تک پہنچی تو انہوں نے اس کی شکل اور خصوصیات کے بارے میں پورے تجسس کے ساتھ چھان بین شروع کردی۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر کوئی مثلث، قائمۃ الزاویہ مثلث بنتی ہی کیوں ہے؟ آخر زاویہ قائمہ (90 ڈگری کا زاویہ) اس کے چھوٹے اضلاع کے درمیان ہی کیوں بنتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ جہاں اس مثلث کا سب سے بڑا اور سب سے چھوٹا ضلع آپس میں ملتے ہوں، وہاں زاویہ قائمہ بن جائے؟ ایسے ہی سوالات و جوابات اور تحقیق و تجزیئے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے کہ مصریوں کا قائمۃ الزاویہ مثلث دریافت کرلینا ایک اتفاق تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ رسّی اور اسے 12 مساوی حصو ں میں تقسیم کرنے والی مثال تک کبھی محدود نہ رہتے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ قائمۃ الزاویہ مثلث بنانے کیلئے رسّی کے بجائے دھاگا یا لکڑی وغیرہ بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں اور ایسا کرنے سے مثلث کی ساخت اور خصوصیات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مزید یہ کہ قائمۃ الزاویہ مثلث تو سیدھی لکیروں (خطوطِ مستقیم) کے ایک خاص انداز سے آپس میں ملنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ کوئی ایسی عملی مثال موجود نہیں جسے ’’سیدھی لکیر‘‘ قرار دیا جاسکے، کیونکہ ان کے زیرِ مطالعہ اشیاء میں کسی نہ کسی حد تک ٹیڑھ پن ضرور موجود ہوتا تھا۔ یہیں سے انہوں نے
’’مثالی خطوطِ مستقیم‘‘ (Ideal Straight Lines) کا تصور قائم کیا۔ یعنی ایسی لکیر جو ’’بالکل سیدھی ہو اور جس میں ذرّہ برابر بھی ٹیڑھ پن نہ ہو‘‘ وہ ’’مثالی خطِ مستقیم‘‘ کہلائے گی۔
چونکہ معمول کی زندگی یا روز مرہ کی مثالوں میں وہ اس طرح کی سیدھی لکیریں تلاش نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا انہوں نے یہ کہا کہ ’’مثالی خطِ مستقیم‘‘ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں صرف سوچا جاسکتا ہے، تصور کیا جاسکتا ہے لیکن اصل نظامِ قدرت میں اس کا مشاہدہ ممکن نہیں۔
بہرکیف! مثالی خطوطِ مستقیم کے تصور تک رسائی کے اس سفر کے دوران ہی یونانی فلسفیوں نے
’’تجرید‘‘ نامی طریقے کی بنیاد رکھی۔ اس طریقے کے تحت صرف اور صرف انہی خصوصیات/ اشیاء پر توجہ دی جاتی ہے جو کوئی مسئلہ حل کرنے کیلئے ضروری ہوتی ہیں (یا ضروری سمجھی جاتی ہیں)۔ ان سے ہٹ کر باقی کی تمام تفصیلات، خصوصیات اور اشیاء کو اضافی یا
’’غیر مبادی‘‘ (non-essential) قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ قائمۃ الزاویہ مثلث کی اس مثال میں سیدھی لکیروں کا ایک خاص انداز سے آپس میں ملنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے جبکہ رسّی، لکڑی یا دھاگے کی حیثیت اضافی (یا ’’غیر مبادی‘‘) ہے۔
انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے جیومیٹری کے قدیم یونانی ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ہر مسئلے کو علیحدہ علیحدہ حل کرنے کے بجائے مسائل کی
’’جماعت بندی‘‘ (Classification) کی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ ایک نوعیت کے سارے مسائل، ایک جماعت میں رکھ دیئے؛ دوسری نوعیت کے مسائل دوسری جماعت میں... وغیرہ۔ اسی طرح جب کسی مسئلے کا حل تلاش کیا جائے یا پیش کیا جائے تو اسے صرف ایک مسئلے تک محدود ہونا نہیں چاہئے، بلکہ اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ اس نوعیت کے سارے مسائل (یعنی مسائل کی جماعت) کا حل فراہم کرسکے۔
شاید آپ اسے ہضم کرنے میں دشواری محسوس کررہے ہیں۔ چلئے میں پھر مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ قائمۃ الزاویہ مثلث کے اضلاع صرف 3، 4 اور 5 والی نسبت ہی میں نہیں ہوتے بلکہ 5، 12 اور 13؛ یا 7، 24 اور 25 کے تناسبوں سے آپس میں ملنے والی سیدھی لکیریں (خطوطِ مستقیم) بھی قائمہ الزاویہ مثلث ہی بنائیں گی۔ مگر یہ توصرف چند اعداد ہیں جن کا کوئی واضح مطلب نہیں نکلتا۔ اب یونانی فلسفیوں نے سوچا کہ قائمۃ الزاویہ مثلث کے اضلاع میں کوئی ایسا تناسب، کوئی ایسا تعلق، کوئی ایسا رشتہ ضرور ہونا چاہئے جسے ایسی تمام مثلثوں میں قدرِ مشترک کا درجہ دیا جاسکے۔ علاوہ ازیں اس باہمی تعلق یا نسبت کو عمومی شکل میں بھی ہونا چاہئے تاکہ کسی بھی مثلث کیلئے اس کی جانچ پڑتال ممکن ہوسکے۔ (جاری ہے)