ساتویں جماعت کے طالبعلم کی ٹیچر کے عشق میں خود کشی

اسلام آباد : ترنول میں ساتویں جماعت کے طالب علم اسامہ نے ٹیچر سے عشق میں ناکامی پر کلاس روم میں ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق ساتویں جماعت کا طالب علم 14 سالہ اسامہ کلاس ٹیچر کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا اور ٹیچر کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے کے باعث دل برداشتہ ہو کر خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی اور موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا
طالب علم نے خودکشی کے وقت ایک خط بھی چھوڑا جس میں اسکول انتظامیہ سے درخواست کی گئی تھی کہ خودکشی کے لیے استعمال ہونے والا پستول کہیں دور پھینک دیں تا کہ میرے اہل خانہ پر کوئی پولیس کیس نہ بنے اور میرے کیے کی سزا وہ نہ پائیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ مقتول طالب علم نے اپنی ٹیچر سے عشق میں ناکامی کے بعد خود ہی اپنے والد کے 30 بور پستول سے اپنے پیٹ میں گولی مار کر خود کشی کی ہے۔
پولیس کے مطابق اسامہ نے اپنی پسندیدگی کا اظہار اپنی ٹیچر سے بھی کیا تھا لیکن ٹیچر کے انکار اور سمجھانے بجھانے پر دلبرداشتہ ہوکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔
اسلحے کے حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ اسامہ کے والد یہاں موجود نہیں ہیں، واپسی پر ان سے بھی اسلحہ کے بارے میں تفتیش کی جائے گی۔
دوسری جانب پولیس کو طالب علم کا اسکول پرنسپل کے نام لکھا گیا خط بھی ملا جس میں اسامہ نے تحریر کیا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ ایسا کرناچاہیے یا نہیں تا ہم اس عمل کے لیے معافی چاہتاہوں۔
حوالہ
طالب علم نے ٹیچر سے عشق میں ناکامی پر خود کشی کر لی

کراچی کے سکول میں دو طالبعلموں کی عشق میں خود کشی،
کراچی یونیورسٹی کے طالبعلم کی امتحان سے روکنے پر خود کشی،
سندھ یونیورسٹی کی نائلہ رند کا انیس خاصخیلی کے ہاتھوں قتل،
اور اب
ساتویں کلاس کے طالب علم کی ٹیچر کے عشق میں خود کشی . . .
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم اور میڈیا میں دکھائی جانے والی فحاشی پہ نظر ثانی کریں ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کچے ذہن جلدی متاثر ہو جاتے ہیں سو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے والدین کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہوتے ہیں تو والدین کو ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
 
کچے ذہن جلدی متاثر ہو جاتے ہیں سو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے والدین کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہوتے ہیں تو والدین کو ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
بالکل متفق سر ۔۔ لیکن آپ کے خیال میں اس کے پیچھے میڈیا کا کوئی کردار نہیں ؟؟ عریانی اور فحاشی نے بچوں پہ ذہن پہ جو اثر ڈالا ہے وہ بھی کافی حد تک کردار ادا کرتا ہے بچوں کے ذہن کو جلدی بالغ کرنے میں ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بالکل متفق سر ۔۔ لیکن آپ کے خیال میں اس کے پیچھے میڈیا کا کوئی کردار نہیں ؟؟ عریانی اور فحاشی نے بچوں پہ ذہن پہ جو اثر ڈالا ہے وہ بھی کافی حد تک کردار ادا کرتا ہے بچوں کے ذہن کو جلدی بالغ کرنے میں ۔۔
درست ہے لیکن اس چیز کو مکمل کنڑول کرنا والدین کے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر میں بچوں پر پابندیاں لگا سکتے ہیں لیکن بچے دن کا کافی حصہ گھر سے باہر بھی گزارتے ہیں تب کیا کریں گے۔ عام سا فوجی اصول ہے، دشمن سے محفوظ رہنا ہے تو اس کو طاقت ور نہ ہونے دو لیکن اگر یہ نہ ہوسکے اور دشمن طاقت پکڑتا ہی جائے تو پھر خود کو مزید مضبوط کر لو۔ ہمارے میڈیا پر روز بروز افزوں ہوتی عریانی اور فحاشی مزید بڑھتی ہی رہے گی سو لا محالہ ہمیں اپنے بچوں کے ذہنوں کو اس جھاڑ جھنکار سے صاف کرنا ہوگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان میں ایسے موضوعات پر بچوں سے گفتگو کرنے کا رواج نہیں ہے۔
نہ جانے کیوں، حالانکہ بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو والدین کو ان کی جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کرنی چاہیے ڈھنگ کے ساتھ۔
 

عباس اعوان

محفلین
پاکستان میں بچوں کو بھی تربیت نہیں دی جاتی کہ کوئی دوسرا آپ کو ہاتھ لگائے تو بھاگ جائیں اور گھر والوں کو بتائیں، چاہے کوئی قریبی رشتہ دار ہی ایسا کیوں نہ کرے۔
 
نہ جانے کیوں، حالانکہ بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو والدین کو ان کی جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کرنی چاہیے ڈھنگ کے ساتھ۔
جی سر بالکل ۔۔ باپ اپنے بیٹے کو اور ماں بیٹی کو بڑے اچھےطریقے سے سمجھا سکتے ہیں کہ بلوغت کے مسائل کیا ہیں ۔۔ لیکن اس کے لیے والدین اور بچوں کا آپس میں دوستانہ رویہ ہونا بھی لازمی ہے ۔ اور میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ بچوں کے دلوں میں والدین کا ادب ہو تو عزت کی وجہ سے نا کہ ڈر کی وجہ سے ۔ اور وہ دوستانہ رویے اور پیار ہی سےممکن ہے نہ کہ مار پیٹ اور ڈرانے دھمکانے سے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان میں بچوں کو بھی تربیت نہیں دی جاتی کہ کوئی دوسرا آپ کو ہاتھ لگائے تو بھاگ جائیں اور گھر والوں کو بتائیں، چاہے کوئی قریبی رشتہ دار ہی ایسا کیوں نہ کرے۔
میرے خیال میں اب کچھ کچھ رویے بدل رہے ہیں۔ میرے بچوں کو اسکول میں اس بارے میں خاص طور پر بتایا گیا، "بیڈ ٹچ" کیا چیز ہے اور کون کون آپ کو ہاتھ لگا سکتا ہے یا چوم سکتا ہے، ایسی صورتحال میں کیا کرنا ہے، والدین اور گھر کے لوگوں کے فون نمبرز وغیرہ یاد کروانا وغیرہ وغیرہ۔
 

عباس اعوان

محفلین
میرے خیال میں اب کچھ کچھ رویے بدل رہے ہیں۔ میرے بچوں کو اسکول میں اس بارے میں خاص طور پر بتایا گیا، "بیڈ ٹچ" کیا چیز ہے اور کون کون آپ کو ہاتھ لگا سکتا ہے یا چوم سکتا ہے، ایسی صورتحال میں کیا کرنا ہے، والدین اور گھر کے لوگوں کے فون نمبرز وغیرہ یاد کروانا وغیرہ وغیرہ۔
بہت زبردست کاوش ہے۔ والدین کو بھی اس چیز کا دھیان رکھنا چاہیے کہ جب سکول اور گھر دونوں طرف سے ایک بات بتائی جائے گی تو لازماً اس کا اثر اور اہمیت زیادہ ہوگی۔
لیکن میرا نہیں خیال کہ سرکاری سکولوں میں ایسا ہوتا ہے۔
 

حافظ عاصم

محفلین
یہ تو چند کیسز ہیں جو علم میں آتے رہتے ہیں۔۔ذرا اردگرد نظر دوڑائیں تو اپنی ہی استانیوں سے عشق عام بات ہو چکی۔
اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کا بھی اپنے ٹیوٹر اور مرد استادوں سے پیار ہو جانا عجیب نہیں رہا
 
یہ تو چند کیسز ہیں جو علم میں آتے رہتے ہیں۔۔ذرا اردگرد نظر دوڑائیں تو اپنی ہی استانیوں سے عشق عام بات ہو چکی۔
اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کا بھی اپنے ٹیوٹر اور مرد استادوں سے پیار ہو جانا عجیب نہیں رہا
میرے خیال میں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ینگ ٹیوٹرز اور ینگ اساتذہ ہیں ۔۔ بات بڑی معیوب سی ہے لیکن حقیقت ہے کہ اساتذہ کو دیکھ کے اپنے والدین کی یاد آنی چاہیے نہ کہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈکی ۔ :)
جیسے جیسے طالب علم اور اساتذہ کے درمیان میں عمر کا فرق کم ہوتا گیا ہے ویسے ویسے یہ واقعات بڑھنا شروع ہو گئے ہیں ۔۔اور اوپر سے فلموں اور ڈراموں کی باقاعدہ اساتذہ سے عشق لڑانے کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں ۔۔
 

زیک

مسافر
بالکل متفق سر ۔۔ لیکن آپ کے خیال میں اس کے پیچھے میڈیا کا کوئی کردار نہیں ؟؟ عریانی اور فحاشی نے بچوں پہ ذہن پہ جو اثر ڈالا ہے وہ بھی کافی حد تک کردار ادا کرتا ہے بچوں کے ذہن کو جلدی بالغ کرنے میں ۔۔
عریانی اور فحاشی کا اس مسئلے میں کردار سمجھ نہیں آیا لیکن پاکستانی میڈیا دیکھے بہت عرصہ ہوا۔

ٹین ایج میں کرش وغیرہ کوئی نئی بات نہیں۔ شاید ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

بہرحال بچوں کو سیکس ایڈ کی مکمل تعلیم سکول اور والدین دونوں کی ذمہ داری ہے
 

فرقان احمد

محفلین
اس عمر میں جذباتیت کا شدید غلبہ ہوتا ہے اور نتائج کی پرواہ بھی عام طور پر نہیں ہوا کرتی ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے اثرات تو پڑتے ہی ہیں تاہم میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ایسے واقعات عام طور پر شہری سے زیادہ دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں جہاں کوئی معاملہ بن جائے تو پھر ساری توجہ اسی خاص معاملے کی طرف ہی مرکوز رہتی ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ اس عمر میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ کھیلنے کودنے دیا جائے۔ ان کو تفریح کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔ بچے کا ذہن کسی اور طرف لگ جاتا تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے تھے۔ خیر، اب تو جو ہونا تھا، ہو گیا۔ یوں بھی اس عمر میں عشق کا روگ لگ جائے تو پھر ایسے ہی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اللہ تعالیٰ اس بدنصیب بچے کے بد نصیب والدین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے، کیا قیامت گزر گئی ہوگی، اللہ اللہ۔
 
تاہم میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ایسے واقعات عام طور پر شہری سے زیادہ دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں
غیر متفق ۔۔ سر دیہی علاقوں میں طالب علموں کو ایسے مواقع کہاں میسر ہوتے ہیں ؟؟ وہاں اگر پرائیویٹ سکولز بھی ہیں جنہیں ہم انگلش میڈیم کہتے ہیں تو وہاں کی ٹیچرزبھی اسی گاوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور بچوں نے اس پہ کرش مار کے گھر والوں سے کُٹ کھانی ہے ؟ گھر والوں نے پہلی بات ہی یہی کرنی ہے کہ " کنجرا ۔باجی نوں کیہہ کہہ کے آیا ایں ؟؟ " :ROFLMAO:
اوہدی ماں اولامہ لے کے آئی سی :D:D
 

فرقان احمد

محفلین
غیر متفق ۔۔ سر دیہی علاقوں میں طالب علموں کو ایسے مواقع کہاں میسر ہوتے ہیں ؟؟ وہاں اگر پرائیویٹ سکولز بھی ہیں جنہیں ہم انگلش میڈیم کہتے ہیں تو وہاں کی ٹیچرزبھی اسی گاوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور بچوں نے اس پہ کرش مار کے گھر والوں سے کُٹ کھانی ہے ؟ گھر والوں نے پہلی بات ہی یہی کرنی ہے کہ " کنجرا ۔باجی نوں کیہہ کہہ کے آیا ایں ؟؟ " :ROFLMAO:
اوہدی ماں اولامہ لے کے آئی سی :D:D

وقت بدل گیا پیارے بھیا! تاہم، آپ کی بات بھی دل کو 'لگا' کھاتی ہے :) :) :)
 
Top